میں نے اسلام کیسے قبول کیا ؍ محمد رئیس

مصنف : رمیش کمار

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : جنوری 2021

سوال :برائے کرم آپ اپنا خاندانی تعارف (پریچے) کرائیں ؟
 جواب :میں مشہور شہر فتح پور سیکری کے ایک راجپوت خاندان میں ۳؍جنوری ۱۹۶۲ میں پیدا ہوا میرا نام میرے پتاجی نے رمیش کمار رکھا تھا،بارھویں کلاس میں دو مرتبہ فیل ہو جانے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنی پڑی ،میرے چچا کا کارمرمت کا کارخانہ تھا،پتاجی نے ان کے پاس کار کا کام سیکھنے کے لئے چھوڑ دیا اور میں کار مکینک بن گیا ۔۱۹۸۷ء میری شادی ہوئی اور دہلی جے پور ہائی وے پر میں نے ایک ورکشاپ کھول لیا۔ میرے والد نائب تحصیلدار سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں ،میرے ایک بڑے بھائی قانون گو ہیں اور چھوٹے بھائی پولیس میں آگرہ میں محکمہ آئی جی میں انسپکٹر ہیں۔ میری بیوی بھی ایک اچھے پریوار کی ہے وہ گریجویٹ ہے میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
 سوال :اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟
 جواب :اصل میں مولانا احمد صاحب مجھے ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ کرنے والا اس دنیا میں اپنی حکمت سے جو کرتا ہے وہی کرتا ہے اور یہ پورا سنسار (دنیا) بلکہ سرشٹی (کائنات)کٹھ پتلی کی طرح اس کی انگلی کے اشارے پر ناچتی ہے بس وہ جس پر دیا (رحم) کر دے اس کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے ،نہ جانے میرے مالک کو مجھ پر کیسے ترس آیا اور میرے لئے ہدایت کا انتظام کر دیا یا ہو سکتا ہے کہ حضرت مولانا جی کو میری تلاش تھی وہ دعا کرتے تھے اللہ نے ان کی سن لی اور مجھے ہدایت بھی دے دی اور گردن پکڑ کر مولانا صاحب کے پاس بھیج دیا۔
 سوال : وہ تفصیل ہی تو ہمیں آپ سے سننی ہے؟
 جواب : جی سنا رہا ہوں ،میرے چھوٹے بھائی آئی جی آفس میں انسپکٹر ہیں وہ آگرہ میں تھے۔ دو سال پہلے آگرہ میں ایک سیمی کانو جوان پکڑا گیا تھا اس کے گھر سے جو سامان برآمد ہوا ،اس میں ایک بریف کیس تھا جس میں ایک کتاب ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ’’بھی تھی جو بیاور ضلع اجمیر راجستھان سے چھپی ہوئی تھی۔ میرے بھائی سریش کمار نے اس کتاب کو پڑھا ،یہ کتاب ایسے پریم بھاؤ (محبت کے جذبہ) سے لکھی گئی ہے کہ سریش کے دل میں چبھ گئی ،مگر چونکہ افسروں کے سامنے برآمد سامان کی سوچی (فہرست) بنائی گئی تھی ،اس لئے وہ کتاب محافظ خانہ میں جمع کرانی پڑی ۔میرے بھائی نے کتاب کا نام اور چھاپنے والے کا پتہ لکھ لیا۔ آج ہی حضرت صاحب نے بتایا کہ اس کتاب کی وجہ سے ڈی آئی جی سہارنپور نے حضرت صاحب کی انکوائری کرائی تھی ،اور یہ کتابیں حضرت صاحب نے مظفر نگر سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ میں بھی بھیجی تھیں ۔اللہ کا شکر ہے کہ ایک انسپکٹر مظفر نگر میں بھی مسلمان ہوا تھا ۔میرے بھائی سریش نے اس پتہ پر جہاں سے وہ کتاب چھپی تھی خط بھی لکھے کہ مجھے ہر قیمت پر وہ کتاب وی پی بھیج دیں مگر خطوں کا جواب نہیں آیا ۔میں جب بھی فتح پور سیکری جاتا اور بھائی سے ملاقات ہوتی تو وہ مجھ سے تقاضا کرتے کہ آپ تو راجستھان میں ورکشاپ چلاتے ہیں ،آپ وہ کتاب کسی طرح منگا لیں میں ان سے کہتاکہ ایسی کیا کتاب ہے کہ جب ملتا ہوں ‘‘آپ کی امانت’’کی رٹ لگاتے ہیں۔ سریش کہتاکہ بھیا جب آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ لکھنے والے نے کتنی مقدار میں پیار کا شہداس میں گھولا ہے۔ مین ہائیوے پر ورکشاپ ہونے کی وجہ سے راجستھان کے لوگ گاڑیاں لیکر نکلتے رہتے ہیں گاڑی خراب ہو جائے تو ہمارے پاس آتے رہتے ہیں۔ ہمارے پتاجی نے ہمیں بچپن سے راہ گیروں ضرورت مندوں کی سیوا کو سب سے بڑا دھرم بتایا ہے۔ میں نے ورکشاپ بنایا تو میرے پتاجی نے مجھے بلا کر نصیحت کی کہ مین روڈ پر ورکشاپ کھول رہے ہو تو یہ یاد رکھنا کہ وہاں جو آئے گا زیادہ تر راہ گیر ہوں گے ۔ ان کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھانا رات کو کوئی آکر اٹھائے تو اٹھنے میں سستی نہ کرنا اور رات کو جس کی گاڑی ٹھیک کرو مزدوری مت لینا۔ اسے پوجا سمجھ کر کرنا اس کی مزدوری اوپر والادے گا۔ابھی دسمبر میں ایک گاڑی بیاور کی آئی وہاں کے لالہ لوگ تھے ان کی گاڑی خراب ہو گئی گاڑی ٹھیک کی تو معلوم ہوا وہ بیاور کے رہنے والے ہیں ۔میں چار روز پہلے فتح پور سیکری گیا تھا پتاجی کی طبیعت خراب تھی سریش بھی آیا ہوا تھا اس نے تقاضا کیا تھا،میں نے لالہ جی سے کہا کہ میں آپ سے مزدوری نہیں لوں گا بس آپ ایک کام کردیں مجھے ایک کتاب ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ’’لادیں انھوں نے کہا آپ مزدوری تو لے لیں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ کو ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ’’لاکر دیں گے ،میں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا میں نے کہا بس میری مزدوری یہی ہے،اگر میں مزدوری لے لوں گا تو آپ پر دباؤ نہیں رہے گا۔ورنہ آپ یہ تو سوچیں گے کہ اس کی مزدوری ہمارے ذمہ ہے وہ ضد کرتے رہے کہ میں مزدوری لے لوں آخر میں نے کہا کہ اگر آپ کی امانت لا کر دیں گے تو میں مزدوری بھی لے لوں گا،انھوں نے بتایا کہ اس کے لیکھک لکھنے والے ہمارے یہاں بیاور میں آتے تھے، یہ کتاب ہمیں بھی وہاں پروگرام میں بانٹی گئی تھی ،‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ’’ٹاپک پر ہی پروگرام ہوا تھا۔بہت لوگ بلکہ شہر کے سب ذمہ دار خاص طور پر ہندو سنستھاؤں ،تنظیموں کے ذمہ دار ،آریہ سماج ،آرایس ایس وشو ہندو پریشد کے سب ذمہ د ار اس پروگرام میں تھے۔ اصل میں بیاور ہندوؤں خصوصاً آریہ سماج کی وجہ سے بہت تاریخی شہر سمجھا جاتا ہے۔ سب لوگ اس پروگرام میں آ گئے تو ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ اگر یہی اسلام ہے تو یہ اسلام تو مسلمانوں کو بھی معلوم نہیں ہے۔پھر ہندوؤں کو اگر غلط فہمی ہے تو ان کی کیا خطا ہے اور لوگ کہہ رہے تھے کہ شہر میں اس پریم وانی (محبت کی آواز )کا کیسا سماں بندھ گیا ہے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر خوشامد کر کے کہا کہ آپ بھول مت جائیے وہ چلے گئے ان کے اس پریچے سے میرے دل میں بھی اس کتاب کے پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اگلے اتوار کو دہلی جاتے ہوئے وہ میرے پاس آئے اور بولے کہ ایک اخبار کے نمائندے جو اس پروگرام کو کر رہے تھے انھوں نے اپنے ساتھیوں لالہ بھائی اور شرماجی کے ساتھ مل کر اس پروگرام کی روپ ریکھا بنائی تھی ان سے میں نے کتاب کے لئے کہا ،انھوں نے بتایا کہ وہ کتاب ہمارے پاس ختم ہو گئی ہے ،اجمیر سے وہ منگا کر دیں گے ،اور دہلی میں اوکھلا کے علاقہ میں ایک دفتر ہے وہاں سے وہ کتاب مل سکتی ہے۔ہم دہلی جا رہے ہیں وہاں سے واپسی پر آپ کو کتاب لا کر دیں گے وہ بے چارے دہلی گئے تو اردو بازار میں گئے وہاں کسی نے ان کو مدھر سندیش سنگم کا پتہ بتایا انھوں نے اپنے نوکر کو بھیجا نوکر دس کتابیں اوکھلا سے جاکر لے آیا واپسی میں منگل کے روز انھوں نے مجھے کتاب دی میرا منگل کا برت تھا ، میں نے سمجھا کہ آج برت کا دن ہے ،اچھا ہے کہ اچھی کتاب مل گئی ہے گاڑی پر دو بڑے مستری کو لگا کرمیں نے ہاتھ دھوئے اور کتاب پڑھی اور بس کتاب ختم ہونے تک میں ہندو دھرم جو اصل میں اب کچھ دھرم نہیں ہے ،(دین قیم اسلام کی بگڑی ہوئی شکل ہے) چھوڑ چکا تھا۔میں نے اشنان(غسل) کیا برت توڑ دیا اور کتاب کھول کے کلمہ شہادت سچے دل سے پڑھا اور رات کو ایک مولانا صاحب جو بہروڑ میں رہتے ہیں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا مجھے پاک رہنے کا طریقہ اور نماز سکھائیں۔ وہ میوات کے رہنے والے ہیں انھوں نے مجھے اس کتاب کے لکھنے والے مولانا کلیم صدیقی صاحب سے ملنے اور جماعت میں جانے کا مشورہ دیا۔ایک کتاب رکھ کر میں نے باقی کتابیں اپنے کارخانہ کے ایک ملازم لڑکے کے ہاتھ سریش کے پاس آگرہ بھیج دیں اور موقع لگا کر چالس دن جماعت میں لگانے کا پروگرام بنایا ۔میں دہلی گیا اوکھلا میں مولانا صاحب کا دفتر معلوم کیا مولانا صاحب تو سفر میں تھے،وہاں پر جنید نام کے ایک حافظ تھے انھوں نے میرا ایفی ڈیوٹ بنوایا اور مرکز جاکر جماعت میں جڑنے کا مشورہ دیا۔ مرکز کی بھیڑ میں مجھے کچھ رستہ نہیں لگا میں ذرا مایوس ہو کر نکل رہا تھا تو مرکز کے بڑے مولانا سعد صاحب کا ڈرائیور مجھے مل گیا اس نے مجھے دارارقم جانے کا مشورہ دیا۔میں نے بتایا کہ میں وہاں سے ہی آیا ہوں میرے کاغذات بن گئے ہیں انھوں نے مجھے بھوپال کی جماعت میں جوڑ دیا جماعت کا وقت تو لکھنؤ میں لگا جماعت کے لوگ پڑھے لکھے بہت اچھے سوبھاؤ کے تھے۔ جماعت سے جنوری میں واپس آیا اوکھلا جاکر ملاقات کی کوشش کی مگر مولانا صاحب پھر سفر میں تھے ۔ایک رات کے بعد بہروڑآگیا معلوم ہوا کہ پتاجی بہت بیمار ہیں ۔میں فتح پور پہنچا تو دیکھا کہ سب رو رہے تھے،معلوم ہوا کہ ابھی ایک گھنٹے پہلے میرے پتاجی (والد صاحب )کا دیہانت (انتقال )ہو گیا ہے(بہت دیر تک روتے رہے)
 سوال :رئیس بھائی آپ کا نام رئیس کس نے رکھا؟
 جواب:ذرا چپ ہوتے ہوئے ،وکیل سرفرازصاحب جنہوں نے میرے کاغذات بنوائے تھے انھوں نے میرے لئے رمیش سے ملتا جلتا نام رئیس رکھا(پھر رونے لگتے ہیں )
سوال :آپ کے والد ایسے نیک آدمی تھے کیسی اچھی تعلیم انھوں نے آپ کو دی ، انسانیت سے محبت کرنے والے تھے،ابی تو کہتے ہیں ایسے لوگوں کو مالک اپنے فرشتے بھیج کر کلمہ پڑھوادیتے ہیں ؟
 جواب :نہیں احمد بھائی وہ اپنی فطرت میں مسلمان تھے ۔کسی نے ان کو اسلام بتایا نہیں میرے پیارے بھائی مولانا احمد آپ ذرا سوچ کر دیکھئے میرے سامنے مجھے پالنے والے مجھ سے عاشقوں کی طرح پیار کرنے والے میرے بخار سے تڑپ جانے والے باپ کو کاش میرے اللہ میرے بجائے ایمان دے دیتے۔مولانا احمدمیرے بخار سے تڑپ جانے والے باپ کو میرے سامنے دشمنوں نے نہیں ان کا آدر کرنے والوں نے اور سب سے پہلے بڑے بھائی اور قانون گوپڑھے لکھے بیٹے نے آشیش چودھری نے لکڑیوں میں گھی چھڑک کر آگ لگا دی۔میرے چھوٹے بھائی جو اب ‘آپ کی امانت ’پڑھ کر مسلمان ہوگئے ہیں محمد عمر انھوں نے اپنا نام رکھا ہے ہم دونوں بھیک مانگتے رہے کہ ہندو روایت کے ساتھ ہی ان کی سمادھی بنا دی جائے ان کو جلایا نہ جائے مولانا صاحب آگ کا انگارہ ہاتھ میں رکھ کر دیکھئے تو کیا ہوتا ہے میرے پیارے پتاجی صرف اور صرف مسلمانوں کے باخبر نہ کرنے کی وجہ سے چتا میں جل گئے اور اگر(روتے ہوئے ) وہاں جہنم کی آگ .....نہیں احمد بھائی مجھ سے یہ مت کہلوایئے ورنہ ان تمام ظالم مسلمانوں کو اللہ رحیم اور عادل خدا ہر گز معاف نہیں کریں گے جن کے نہ بتانے کی وجہ سے میرے ایسے پیارے باپ نرک میں چلے گئے وہ ایمان والے نہیں بلکہ سب سے بڑے بے ایمان ہیں ۔
 سوال :نہیں رئیس بھائی ایسا مت کہئے؟
 جواب :مولانا صاحب آپ میری جگہ ہوتے تو ذرا محسوس کرتے میرے پتاجی کے دوست بہت سے مسلمان تھے،ایک مولانا صاحب ان کے ساتھ کتنا وقت گزارتے تھے اس بد بخت بیٹے کی بد نصیبی کہ اس کو اللہ نے بنا چاہے ہدایت دی مگر اس کا محسن باپ اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھانے والا باپ اپنی گود میں لے کر اس کو اسکول میں داخل کرانے والا اس کا باپ روز رات کوہمارے جیون بنانے کی فکر میں ایک ایک لفظ یاد کرانے والا،ہماری ہر خواہش پوری کرنے والااور سب سے زیادہ ہماری بھلائی اور انسانیت کا سبق دینے والا ماؤں کی طرح مامتا رکھنے والا پیارا باپ میرے سامنے جلا یا جا تا رہا اور جلتے جلتے میرے سامنے اس کا سر پھوڑا گیا۔ جلتے جلتے لاٹھیاں مار کر جیسے کوئی دشمن اپنے دشمن کے ساتھ سلوک کرتا ہے اور ہم مولانا صاحب ہم دونوں میرا بھائی رمیش (محمد عمر)سب کچھ دیکھتے رہے۔ مولانا صاحب آپ شاید ہمارے درد کو سمجھ نہیں سکتے آپ سوچ کر دیکھئے یہ کوئی ناول کی بات نہیں ،کوئی ڈرامہ نہیں بلکہ سوچئے بالکل سچ ہو رہا تھا اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوؤں کو تو معلوم نہیں وہ تو ناسمجھ ہیں ، مسلمانو ں کا بھی بس نام کے لئے یہ عقیدہ ہے کہ بغیر ایمان کے چتا ہے اور اس کا راستہ نرک (دوزخ ) ہیں۔ ورنہ مولانا صاحب ذرا سوچئے آ پ کے سامنے کوئی آگ کی بھٹی میں کودنے لگے تندور میں چھلانگ لگائے اور آپ دیکھتے رہیں آپ اپنی دکان اپنے کاروبار میں لگے رہیں ،لوگ نہر اور کنویں میں کسی کو دتے دیکھ کر سب کچھ چھوڑ کر اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور کتنے ڈوبتے کو بچانے کے لئے خود ڈوب کر جان دے دیتے ہیں ۔آگ میں ہمارے سامنے پتھر نہیں ایک لکڑی نہیں ،ہمارے ساتھ رہنے والا ،ہم پراحسان کرنے والا ،ہمارے ساتھ معاملہ کرنے والا چتامیں جلایا جائے اور پھر ہر ایمان والے کا یہ ایمان ہو کہ پھر ہمیشہ کی دوزخ کی آگ ہے اور پھر بھی وہ اپنے کاروبار اپنے گھر بار میں لگارہے اور ذرا کوشش بھی نہ کرے یہ کس طرح ممکن ہے۔ وہ مسلمان مسلمان کیا انسان بھی نہیں بلکہ درندے ہی ہو سکتے ہیں ،جو اپنے ساتھ رہنے والوں کو آگ کے راستہ پر دوڑنا گوارہ کریں ۔
 سوال :اصل میں آپ کے لئے یہ جذباتی معاملہ ہے ،واقعی آپ کو ایسا ہی سوچنا چاہئے؟
 جواب :مولانا احمد صاحب صرف مجھے نہیں آپ کو بھی ایسا ہی سوچنا اور کم از کم ہر مسلمان کو جس کا جنت دوزخ کے برحق ہونے پر یقین ہے ایسا ہی سوچنا چاہئے،کیا ایسا نہیں سوچنا چاہئے ۔
 سوال :بلا شبہ ضرور ایسا سوچنا ہی چاہئے اور ابی یہی کہتے ہیں واقعی آپ سچ کہتے ہیں ہم لوگوں کے ایمان کی کمی ہے کہ ہم اس الم ناک حادثہ کو سرسری لے لیتے ہیں اور اس میں گھلتے نہیں ہیں ۔آپ نے بتایا کہ سریش بھائی بھی محمد عمر ہو گئے ہیں وہ کیسے ہوا؟
 جواب :ان کے یہاں کتاب پہنچی تو انھوں نے بار بار پڑھی اور پھر قرآن مجید پڑھنا شروع کیا ۔آگرہ میں ایک جماعت کے امیر صاحب ہیں ڈاکٹری کرتے ہیں ان کے پاس جا کر وہ مسلمان ہوگئے ہیں ان کا نام انھوں نے محمد عمر رکھا۔وہ فتح پور سیکری گھر گئے ، والدصاحب بہت بیمار تھے وہ بالکل بے ہوشی میں ایک وقت تک رہے ،بھائی محمد عمر گھر والوں کو کہہ کر گئے تھے اگر پتاجی کو ہوش آجائے تو آپ کی امانت ان کو ضرور پڑھوائی جائے ۔ایک روز ان کو ہوش آیا انھوں نے لیٹے لیٹے کتاب پڑھنا شروع کی کچھ پڑھی تھی بولے کیسی سچی اور اچھی پستک (کتاب )لکھی ہے اور پھر دورہ ہوا اور بے ہوش ہو گئے ،اس کے بعد انتقال تک ہوش نہیں آیا ۔
 سوال :تو پھر فکر کی بات نہیں شروع کے چند صفحے بھی پڑھ لئے تو توحید تو مان ہی لی ،انشاء اللہ اتنا بھی کافی ہوگا ۔
 جواب :دل کو بہلانے کو یہ کہا جا سکتا ہے مگر سچی بات تو یہی ہے کہ اسلام و ایمان سمجھ کر اقرار و قبول کئے بغیر نہیں ہوتا ہے ہائے میرا غم ......جس کا علاج ممکن نہیں کتنی سچی بات کہتے تھے اللہ کے رسول ﷺ کے سچے دوست حضرت ابو بکر صدیق ؓ کاش میں پرندہ ہوتا کاش میں گھاس کا تنکا ہوتا ،کاش میری ماں نے مجھے جنا بھی نہ ہوتا ۔ یہ غم میرے باپ کے چتا میں جلائے جانے کا غم اور اس کے بعد دوزخ میں جلائے جانے کا غم جو موت کے بعد بھی ختم نہیں ہوگا بلکہ شاید وہاں اور بھی زیادہ ستائے گا۔ہمیشہ ہمیشہ جلائے جانے کا یقین دوزخ پر یقین کسی کو کیا احساس ہو سکتا ہے رئیس کے تڑپتے کلیجہ کا ،اس کے چہیتے باپ کے ہمیشہ ایمان سے محروم رہ کر جہنم رسید ہونے کا(بہت دیر تک روتے ہوئے، پانی پلایا گیا )
 سوال :(ذرارخ بدلتے ہوئے)جے پور ہائی وے پر ایک مستری کا ابی بہت ذکر کرتے تھے کہ رات کو گاڑی خراب ہو گئی تھی انھوں نے بہت تعاون کیا تھا ،راتوں کو لے کر پھرے تھے ابی اس تعلق سے راجستھانی لوگوں کی شرافت اور انسانیت نوازی کا بہت ذکر کرتے ہیں ؟ 
 جواب :احمد بھائی وہ مستری خوش قسمت یا بد قسمت میں ہی ہوں۔آج ہی مولانا نے بتایا کہ آخر جنوری میں فتح پور شیخاوٹی گئے تھے بہروڑ سے گزرے تو مجھے یاد آیا کہ ایک بارہم سردی کی رات میں یہاں سے گزررہے تھے ہماری ایمبیسڈر گاڑی کی پین بیلٹ خراب ہو گئی تھی ،ایک مستری صاحب کو گھر سے اٹھایا وہ کئی جگہ لے کر گئے مگر بیلٹ اس نمبر کی نہ ملی تو انھوں نے ورک شاپ میں کھڑی گاڑی کی اتار کر دی تھی اور پیسے لینے سے منع کر دیا کہ میں چند پیسوں کے لئے راتوں کو دھکے کھانے والا نہیں ہوں ۔میں اس لئے پھر رہا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور انسانیت کے رشتہ کی وجہ سے میں نے آپ کی سیوا کی مولانا کہہ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ ہمارے ایک ساتھی داعئ عبدالرشید صاحب تھے جو ہریدوار کے رہنے والے ہیں ہم نے پروگرام بنایا تھا کہ عبدالرشید کو وہاں چھوڑیں گے جتنے بھی کارخانے والے گاڑی کے ہیں سب کو دعوت دیں گے تا کہ اس احسان کرنے والے تک بات پہنچ جائے۔ میں نے کہا اس سردی کی رات میں جب آپ جوس والے کے ساتھ آئے تھے ہمارے گھر میں اسپئر پارٹس والے کے گھر اس کو لے کر جو اسٹور پر گیا تھا حضرت صاحب وہ آپ کا چور میں ہی تھا ۔میرے مالک نے آپ سے کیسے ملوایا مولانا صاحب کہتے تھے کہ اس رات کو دہلی آکر تہجد میں میں نے بہت دعا مانگی کہ میرے اللہ مجھ پر اس محسن کا احسان ہے کسی طرح اس سے ملوادیجئے اور اس کو ہدایت بھی دیجئے ۔میں نے مولانا صاحب سے کہا آپ کی اس دعا کی وجہ سے ہی میں آپ کے پریم (محبت) کا بندی (قیدی) دس روز سے گھر پریوار اور ورک شاپ چھوڑ کر دہلی میں پڑاہوں اور دہلی میں میری پہچان والا بھی کوئی نہیں ہے بس ارادہ یہ کیا تھا کہ ایک سال بھی رکنا پڑے گا تو یہاں کسی ورک شاپ میں نوکری کرلوں گا اور مولانا صاحب سے مل کر جاؤں گا حضرت صاحب محبت سے سجدہ میں گر گئے اور فوراً دو رکعت نماز پڑھی بہت دیر تک دعا مانگتے رہے ۔
 سوال :ماشاء اللہ تو وہ مستری صاحب جن کا ابی ذکر کرتے تھے ،آپ ہی ہیں ،واقعی کیا اللہ کی شان ہے اللہ نے کس طرح ملوایا عبدالرشید بھائی کو گھر بھیجنا بھی نہیں پڑا اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟
 جواب :پہلے تو عمر بھائی جو میرے چھوٹے بھائی آئی جی آفس میں ہیں میں ان کو حضرت سے ملواتا ہوں۔ حضرت نے اس جوس والے کو دعوت دینے کی ذمہ داری مجھے دی ہے جو حضرت کو لے کر میرے پاس آیا تھا اور گھر والوں پر کام کرنا ہے ۔میری بیوی اور بچے تو الحمد للہ مسلمان ہوگئے ہیں محمد عمر کی بیوی ذرا سخت ہیں آج کل ان کے گھر میں اسلام پر جھگڑا چل رہا ہے۔ حضرت صاحب سے دعا کے لئے کہا ہے انشاء اللہ اب زندگی حضرت صاحب کی مرضی سے دعوت کے لئے گزارنی ہے اور کوشش کرنی ہے کہ میرے والد کی طرح لوگ خود اپنے گھروالوں کو جلانے کے سلسلہ میں ہوش میں آئیں ۔
 سوال :ارمغان کے لئے کوئی پیغام دیں گے ؟
 جواب :بس میرے لئے دعا کریں اللہ مجھے خاندانی مسلمانوں کی طرح دوزخ کے سلسلہ میں بے حس نہ بنائے اور میں اپنے والد کے زخم کو گلے لگائے رکھ کر انسانیت کو آگ میں جلنے سے بچانے کی فکر کروں اور مسلمان بھی اس واقعہ کو ناول یا ڈرامہ نہ سمجھ کر اسے ایمان و یقین کے ساتھ سچ جان کر دوزخ میں جانے والوں کی فکر کریں ۔
 سوال :ماشاء اللہ بہت ہی اہم بات آپ نے کہی بہت بہت شکریہ ۔

 

بشکریہ : (مستفاد از ماہ نامہ ‘‘ارمغان ’’مارچ ۲۰۱۰؁ء