بے حس

مصنف : قاضی احمد صہیب

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : دسمبر 2004

            ٹیکسی یکلخت جھٹکے کھانے لگی اور انجن سے آنے والی پوپ میوزک کی آواز کسی بڑی گڑبڑ کا عندیہ دینے لگی۔ ڈرائیور نبی بخش نے گاڑی کو فوراً ایک طرف کرکے روک لیا۔

            ‘‘صاحب جی، میں ابھی ٹھیک کر دیتا ہوں۔’’ نبی بخش نے پھرتی سے نیچے اترتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ سامنے چند گز کے فاصلے پر ملک کے سب سے بڑے شاپنگ سنٹر کا نیون سائن جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔ زمین کے خدا بڑی فاخرانہ اڑان اڑتے ہوئے اس حیرت کدہ میں داخل ہو رہے تھے اور کوڑیوں کی چیزیں بڑی خوشی اور مسرت کے ساتھ سینکڑوں اور سینکڑوں کی چیزیں ہزاروں میں خرید رہے تھے۔شاپنگ سنٹر کے اندر سیلز گرل کو مسکراتے ہونٹوں اور چھلکتی نگاہوں کے ساتھ چار چار،پانچ پانچ ہندسوں کا بل ادا کرنے والوں کے پاس باہر کھڑے دو فقیر بچوں کے لیے سوائے جھڑکیوں اور نفرت آمیزنگاہوں کے کچھ نہ تھا، یا کچھ تھا بھی تو دو روپے کا پرانا سکہ۔

            ‘‘چلو بیگم اترو، یہ کھٹارا تو ٹھیک ہونے سے رہا۔’’ سیٹھ سخی جو آج اپنی کار کی خرابی کی وجہ سے ٹیکسی میں مجبوراً بیٹھ گیا تھا، نے نیچے اترتے ہوئے اپنی بیگم سے کہا۔

            ‘‘صاحب جی، بس ایک منٹ۔ ابھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔’’ ڈرائیور نے گھبرا کر اپنے ماتھے پر آنے والے پسینے کو صاف کرتے ہوئے کہا۔

            ‘‘بس بس ، ہمارے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں کہ تمھاری مردہ گاڑی کی سانسیں درست ہونے کا انتظار کرتے رہیں۔’’ سیٹھ نے بیگم کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتے ہوئے کہا۔

            ‘‘صاحب جی ، وہ …… وہ …… کرا…… یہ’’ پشیمان ڈرائیور نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا۔ اسے یقین تھا کہ سیٹھ سخی غلطی سے کرایہ دینا بھول گیا ہے۔

            ‘‘کیسا کرایہ، کیا تم نے ہمیں مطلوبہ جگہ پر ڈراپ کیا ہے۔’’ سیٹھ نے مڑتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔

            ‘‘صاحب جی، وہ سامنے دس قدم پر شاپنگ سنٹر ہے۔ آپ بے شک، دس بیس روپے کم دے دیں۔’’ ڈرائیور نے حتی الوسع نرم اور عاجزانہ لہجے میں کہا۔

            ‘‘ہم نے تمھیں شاپنگ سنٹر تک لے جانے کو کہا تھا، تم نے وہاں تک نہیں پہنچایا، اس لیے تم کسی کرائے کے حق دار نہیں ہو۔’’سیٹھ نے کرخت لہجے میں کہا اور آگے کو چلد یا۔

            ‘‘صاحب جی ، میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کچھ خیال کریں۔’’ ڈرائیور نے اس بار گھگھیاتے ہوئے کہا۔ لیکن سیٹھ اپنی بیگم کے ہمراہ اس کی سنی کو ان سنی کرتاہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ ایک منٹ کے اندر وہ شاپنگ سنٹر کے دروازہ پر پہنچ چکا تھا۔

            ‘‘صاحب جی’’ ڈرائیور کی آواز سن کر سیٹھ نے نفرت سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

            ‘‘میرے ہڑپ کیے ہوئے سوروپے سے جب آپ اپنے بیٹے کا بنگلہ بنائیں گے تو مجھے اطلاع کر دینا، میں وہاں آپ کی مفت ڈرائیوری کیا کروں گا۔’’ ڈرائیور نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا۔ آہ، کتنا درد تھا اس کے لہجے میں، کتنی کاٹ تھی اس کے الفاظ میں۔ کوئی گوشت پوست والا انسان ہوتا تو یقینا تڑپ اٹھتا، لیکن بھاری پتھر بھلا ایک چوٹ سے کہاں ٹوٹتے ہیں۔سیٹھ نے اسے خونی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نفرت سے بھر پور ایک ہنکارا بھرااور شاپنگ سنٹر میں داخل ہو گیا۔

            شاپنگ سنٹر کے اندر جا کر سیٹھ نے بیگم کو شاپنگ میں لگایا اور خود سیلز گرل سے خوش گپیوں میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب سیلز گرل نے بیگم کی شاپنگ کے جرمانے میں بیس ہزار کا بل سیٹھ کو پکڑایا تو سیٹھ سخی کے ماتھے پر ایک بل تک نہ آیا۔ کچھ ہی دیر بعد سیٹھ سخی اپنی بیگم کے ہمراہ مسکراتا ہوا باہر آیا اور سڑک پہ کھڑے ہو کر کسی اور نبی بخش کی تلاش میں نگاہیں دوڑانے لگا۔