وہ مریض جو میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گا

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2018

اصلاح و دعوت
وہ مریض جو میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گا
بہت سے ڈاکٹر
انتخا ب و ترجمہ ‘ محمد سلیم

                                                                                                                     زیر نظر چند واقعات ایک عرب بلاگر نے مختلف ڈاکٹروں کی یاداشتوں کو جمع کر کے بعنوان ''وہ مریض جو میں کبھی نہیں بھلا پاؤنگا'' شائع کیئے ہیں۔ ترجمہ کے بعد آپ کی نظر کر رہا ہوں۔(محمد سلیم)

                                                                                                                                                           میں نے ایک بار، ایک ہی دن، ایک ہی ہسپتال میں، ایک ہی خاوند کی ایسی دو بیویوں کی دو مختلف کمروں میں ڈیلیوری کی جنہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ دونوں ایک ہی مرد کی منکوحہ ہیں۔ 
***
ایمرجنسی وارڈ میں، جان لیوا حادثے میں بچ جانے والے ایک نوجون کی خوشی دیدنی تھی جو ملنے کے لیے ہر آنے والے دوست اور رشتے دار کو بتا رہا تھا کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے جسے نئی زندگی مل گئی ہے۔ نوجوان کے اندرونی زخموں سے بہتے خون کی زیادتی سے یہ نوجوان چند ہی لمحوں بعد جان کی بازی ہار گیا۔ 
***
سعودیہ میں کمائی کے لیے آیا ہوا ایک انڈین جو ایک خونی حادثے میں کٹا پھٹاہسپتال میں، پڑا تھا، بچوں کی طرح بلک بلک کر اس لیئے رو رہا تھا کہ وہ یہاں پردیس میں اکیلا پڑا تھا اور حادثے کے وقت اس کے اپنے اس کے ساتھ نہیں تھے۔ 
***
آپریشن کے ذریعے بچے کی ڈیلیوری کے بعد ڈاکٹر نے اسے صحت مند قرار دیکر گھر جانے کی پرچی لکھ دی۔ خاتون بچے کو لیئے، اس بات سے بے خبر انتظار کر رہی تھی کہ اس کے خاوند کا گھر سے آتے ہوئے راستے میں حادثہ ہوا ہے اور وہ ملک عدم کو سدھار چکا ہے۔ 
***
ایک معمر عورت جو میرے زیر علاج تھی، ہر بار مجھ سے نسخہ لکھوا چکنے کے بعد میری جیب میں کبھی ٹافیاں اور کبھی دو ریال ڈال کر چلی جاتی تھی۔ 
***
ایک ماں اپنے نومولود بچے کے پاس، جسے انتہائی نگہداشت میں رکھ دیا گیا تھا،کو، مامتا اور شفقت سے لبریز بار بار کہہ رہی تھی؛ میری جان، میں نے تیرا بیس سال انتظار کیا ہے۔ 
***
ایک عمر رسیدہ مریضہ کو جیسے ہی میں نے کہا کہ: ماں جی اب آپ اپنے دل کے والو تبدیل کر لیجیے۔ خاتون نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے مجھے دیکھتے ہوئے کہا: پُتر، ایمان سے مجھے یہ کرنا نہیں آتا، تو ہی کر دے ناں۔ 
***
ایک بزرگ عورت، ہسپتال کے کمرے میں، اپنے ملاقاتی رشتہ داروں کو جب اپنے خاوند کی وجاہت اور عظمت کے قصے سنا رہی تھی، اس وقت اُن کے کمرے کے باہر پرچہ لکھا ہوا تھا کہ ''ازراہ کرم ہماری امی کو مت بتائیے کہ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے''۔ 
***
اسیّ سال کی بوڑھی عورت، جیسے ہی اُس کے کچھ ٹیسٹ شروع کیئے گئے، اس کا ڈر دیدنی تھا۔ کہنے لگی: مجھے اپنی ساری زندگی میں ہمیشہ بس دو ہی چیزوں سے ڈر لگا ہے؛ ایک دانتوں کے ڈاکٹر سے، دوسرا اپنے خاوند کے غصے سے۔ 
***
میں نے جب ڈرتے ڈرتے اُسے اطلاع دی کہ آپ کو کینسر ہو چکا ہے تو اس کی سنجیدگی اور پرسکون دھیما پن دیدنی تھا۔ کہنے لگے: تو جسے کینسر نہیں ہے اُس نے نہیں مرنا کیا؟ کوئی علاج ویلاج ہے آپ کے پاس یا پھر میں جاؤں اپنے گھر؟
***
ایک عجیب الخلقت بچے کو جسے اُس کے سارے گھر والے ہسپتال میں ہی چھوڑ کر چلے گئے تھے، ہم نے آخری کوشش کے طور پر بچے کے والد کو فون کیا تو اُس نے کہا؛ کسی یتیم خانے میں جمع کرا دو اسے۔ 
***
ایک بوڑھی عورت کو جب بتایا گیا کہ اُسے خبیث مرض کینسر ہو گیا ہے تو اُس کا غصہ دیدنی تھا۔ کہنے لگی: اللہ پاک بہت رحیم ہیں اور مرض بندے کے لیے امتحان ہوتی ہے۔ وہ کس طرح اپنے بندوں کے لیے خبیث مرض بنا سکتے ہیں۔ مرض مرض ہوتا ہے اور اسے بس مرض ہی کہو۔ 
***
جاں بلب بوڑھی عورت کے کمرے سے نکلتے ہوئے نوجون بُڑبُڑا رہا تھا کہ اس بُڈھی نے تو باندھ کے رکھ دیا ہے مجھے۔ اور بوڑھی عورت اندر نرسوں سے کہہ رہی کہ میرے بیٹے کو ابھی نہ جانے دو۔ 
***
ایک عورت،جس کا عجیب الخلقت بچہ پیدا ہوتے ہوئے ہی فوت ہو گیا تھا، کو گلے سے لگائے ہوئے رو رو کر کہہ رہی تھی؛ میری جان، تو میرے باقی کے بچوں سے زیادہ پیارا تھا۔ جا، اللہ کے حوالے میرے جگر گوشے۔ 
***
اس کا باپ میرے پاس آیا تھا ایک بار، روتے ہوئے بتایا تھا کہ بیٹے نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا ہے۔ اب اس کا بیٹا میرے پاس علاج کے لیے آتا ہے۔ آٹھ سال ہوگئے ہیں، تین شادیاں کر چکا ہے، ابھی تک اولاد سے محروم ہے۔ 
***
میں نے اُسے بتایا کہ تیرے بیٹے شاید آل اولاد والے عمل میں کمزور رہیں۔ شادی سے پہلے ان کے مناسب چیک اپ ضرور کرا لینا۔ کہنے لگا: میں نے اپنے خاندان میں ایک شخص سے زیادتی کی تھی۔ لگتا ہےُ اس کی دعا پوری ہو گئی ہے۔ 
***
اپنے باپ کے علاج کے لیے ہسپتال میں باپ کے ساتھ ہی رہ رہا تھا۔ باپ کے کمرے سے نکل کر ساتھ والے کمرے میں سوئے ہوئے مریض کی تیمار داری کے لیے اندر چلا گیا۔ مریض نے روتے ہوئے کہا؛ پُتر، کئی مہینوں کے بعدڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی بندہ اگر میرے کمرے میں آیا ہے تو وہ تم ہو۔
*** 
عمر رسیدہ خاتون کو دل کے دورے میں جانبر کرنے کے لیے سینے پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ ہوش میں آنے پر اس نے سب سے پہلے اپنے کپڑے درست کیئے تھے۔

***