ملبے تلے لکھی گئی موت کہانی

مصنف : بشیر مرزا

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : دسمبر 2005

            قیامت خیز زلزلے کے بارہ تیرہ دن بعد ایک غیر ملکی ریسکیو پارٹی کی مدد سے ایک بدنصیب سکول کے گرے ہوئے ملبے کو ہٹانے کی کارروائی شروع کی گئی ۔ شدید سردی ’ بد مزاج ہواؤں اور مسلسل بارش کی سرکشی نے ہر فرد کو لاچار کر رکھا تھا ۔ جیسے تیسے دھنسے ہوئے پہلے کمرے کے ملبے کو جوں ہی ہٹایا گیا تووہاں موجود ہر شخص سن ہو کر رہ گیا کیونکہ فرش پرنہ صرف انیس بیس معصوم سی پوتر کلیاں مرجھائی پڑی تھیں بلکہ ایک پھول بھی شاخ ِزندگی سے ٹوٹ کر خاک میں مل چکا تھا ۔

            دو دو تین تین بچیاں ایک دوسرے سے چمٹی ’ پتا نہیں کربناک موت کا کتنے دنوں تک سامنا کرتی رہی ہوں گی ۔ ان سے ذرا پرے آٹھ نو برس کی دو بچیاں ساتھ ساتھ لپٹی پڑی تھیں جن میں سے ایک کے ہاتھ میں سختی سے پکڑی پنسل تھی اوروہ ہوم ورک کی اردو نوٹ بک پر سررکھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے موت کے اندھے کنویں میں اتر چکی تھی اور نہ جانے کس دن اتری تھی۔

            جیسے ہی ایک جاپانی رضاکار نے ان کو الگ الگ کیا تو ایک خستہ حال آدمی ’ جو دیوانوں کی طرح ہر بچی کو الٹ پلٹ رہا تھا ’ کی چیخ نکل گئی ۔ ان میں سے پنسل پکڑی بچی اسی حرماں نصیب شخص کی معصوم سی گڑیا ‘‘ تاج’’ تھی ۔

             وہ بہت ہی زخمی لہجے میں کہہ رہا تھا : ‘‘ یہی ڈیڑھ دوسال پہلے ایک شام میں اپنے کمرے میں بیٹھا ایک کہانی کی نوک پلک درست کر رہا تھا کہ تاج میرے کمرے میں آگئی ۔ کچھ دیر تو وہ مجھے لکھتی دیکھتی رہی ’ پھر میرے کندھے سے لگ کر بولی پاپا ’ آپ روز ادھر بیٹھے کیا لکھتے رہتے ہیں ؟ ’’ ‘‘ تاج میری گڑیا ’ کئی بار بتا چکا ہوں کہ میں کہانیاں لکھتا ہوں ’ اس وقت مجھے ڈسٹرب نہ کرو ’’ ۔

            ‘‘ پاپا ’ مجھے بھی کہانی لکھنا سکھا دو ۔ بتاؤ نا ’ کہانی کیسے لکھی جاتی ہے ۔یہ کہانی کیا ہوتی ہے ؟ ’’ جب وہ کوئی بات کہتی تو پھر اس کو مسلسل دہراتی رہتی ’ یہ بات میں جانتا تھا ’ چنانچہ میں نے تنگ آکر کہا : ‘‘ اچھا چلو ’ ادھر آؤ ’ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کہانی کیا ہوتی ہے اور اسکو کیسے لکھا جاتا ہے ’’ ۔ غور سے سنو ’ جب بھی کوئی واقعہ تم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھو تو جس طرح وہ واقعہ تمہارے ذہن میں اتر رہا ہو ’ یا آرہا ہو ’ اس کو عین اسی طرح اپنے لفظوں میں لکھتی جاؤ ’ بس کہانی تیار ہو جائے گی ’’ ۔

            دو تین دن بعد تاج جب سکول سے واپس آئی تو اس کی نوٹ بک میں ایک نئی نویلی کہانی لکھی ہوئی تھی کہ کس طرح اس کی دواستانیاں آپس میں الجھ گئی تھیں اور ان دونوں نے جو الفاظ اور محاورے ایک دوسری کے لیے بولے تھے ’ تاج نے ان سب کو انہی کے الفاظ میں اپنی نوٹ بک میں لکھ لیا تھا ۔ بڑی چٹ پٹی کہانی بن گئی تھی ۔ تاج نے واقعی میری بات کو غور سے سنا تھا ۔ میں نے اسے بہت شاباش دی تھی ۔ بس پھر کیا تھا ’ تاج کی کاپی میں روز ایک نئی کہانی جنم لے رہی تھی’’

            میں یوسف میر کی اجازت سے تاج کی نوٹ بکس اپنے ساتھ گھر لے آیا تھا ۔ اردو کاپی کے پہلے تین چار صفحے تو اس کے ہوم ورک سے متعلق تھے ۔ پھر چھٹے صفحے پر تاج نے پہلے 8 ،اکتوبر اور سن لکھا ہوا تھا اور ایک سطر چھوڑ کر پورے صفحہ پر اس دن کو یوں لکھا ہوا تھا ۔

             پاپا ’ ابھی ہماری ٹیچر نے تین چار لڑکیوں کا ہوم ورک ہی دیکھا تھا کہ اچانک کسی دہشت گرد نے ہمارے سکول پر کوئی بم پھینک دیا جس سے ہمارا کمرہ بری طرح کانپنے لگا ۔ ہم ایک دوسری پر گرپڑی تھیں ۔ میں ابھی سنبھلنے بھی نہ پائی تھیں کہ ایک دھماکے کے ساتھ چھت کے 2 گارڈر اس طرح گرے کہ چھت کا لینٹر ان پر آکر اس طرح ٹک گیا کہ چھت کے ملبے سے ہمارا کمرہ تکون بن گیا۔ جب ذرا گرد چھٹی تو دیکھا کہ آصفہ ’ جنت اور نور ایک گارڈر کے نیچے دبی تڑپ رہی تھیں ۔ ٹیچر اور ہم سب نے بہت زور لگایا لیکن وہ کم بخت ذرا بھی نہ ہلا ۔ پھر کچھ لمحوں بعد وہ تینوں بے حس و حرکت ہو گئیں ۔ جب وہ چپ ہوئیں تو خوف سے ہم سب رونے اور چیخنے لگیں ۔ ہماری ٹیچر مریم ہم سب کو حوصلہ اور دلاسا دیتے ہوئے بلند آواز سے کلمہ پڑھنے لگی کہ اسی لمحے چھت کا ایک بڑا سا ٹکڑا ان پر آگرا ۔ ہماری ٹیچر وہیں ڈھیر ہو گئی۔ غبار ’ اندھیرے ’ خوف اور ڈر سے ہم سب لڑکیاں بے ہوش ہو گئیں ۔ پھر اندھیر ا چھا گیا ! ۔ ’’

            یہاں تک تو تاج نے بہت ترتیب سے لکھا ہوا تھا ۔ اس کے بعد نہ تو کوئی تاریخ درج تھی اور نہ ہی جملوں میں ربط تھا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے دنوں میں جب تاج ذرا ہوش میں آتی ہوگی یا روشنی کی وہ کرن جس کا تاج نے خود ذکر کیا ہے ’ میں وہ جب ذرا دیکھنے یالکھنے کے قابل ہوتی ہو گی تو جو صفحہ بھی اس کے سامنے آجاتا ہو گا ’ اس پر ایک آدھ جملہ لکھ لیتی ہو گی ۔ تاج نے بعد کے صفحات پر اسی طرح لکھا ہوا تھا ۔ ایک بات میں نے اور نوٹ کی کہ تاج پہلے پاپا ضرور لکھتی تھی ’ پھر کوئی اور بات !

            پاپا ’ پتا نہیں میں کس طرح جاگی ’ بھوک ’ درد یا شاید روشنی کی وہ ایک پتلی سی لکیر جو میری آنکھوں میں چبھ رہی تھی ۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی ’ میرے اردگرد سب بے سدھ پڑے ہوئے تھے ۔ میں خوف اور ڈر سے بری طرح کانپنے لگے ۔ میں نے صبا اور ناہید کو آوازیں دیں ’ یاسمین کو پکارا ’ نہ کوئی ہلا اور نہ ہی کسی نے کوئی جواب دیا ’ وہ سب بہت ٹھنڈی ہو رہی تھیں ۔

            پاپا ’ میں بہت رونے اور چیخنے لگی کہ نہ جانے کدھر سے نازیہ رینگتی ہوئی آکر مجھ سے لپٹ گئی ۔ میں بہت ڈر گئی ۔ ‘‘کون؟’’ ‘‘میں نازیہ!’’ ‘‘پاپا ’ بھوک بہت لگ رہی ہے ۔ پانی بھی نہیں ہے ۔ ہم دونوں ایک دوسری سے چمٹ کر پھر رونے لگیں ’’

            اس کے تاج نے بہت مختصر مختصر لکھا تھا ۔

            پاپا ’ نازیہ بالکل خاموش ہے ۔ بالکل نہیں روتی ۔

            پاپا’ نازیہ بالکل کچھ نہیں بولتی ۔ بے سدھ پڑی ہے ۔

            پاپا ’ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔

            ماما ’ روٹی چاہیے ۔ پانی دو ۔

            پاپا ’ ماما’ سردی بہت ہے ۔

            ماما’ میری یہ ٹانگ اکڑتی جا رہی ہے ۔

            پاپا ’ پاپا ’ ماما ’ ماما ۔

            ماما’ میرا کمبل کون لے گیا ۔

            پاپا ’میرا پیٹ ۔

            ماما ’ ماما ’تم کو پتا نہیں مجھے کمبل چاہیے۔

            روٹی دو ’ پانی دو ماما ۔

            ماما ’ پاپا ’ بہت ڈر لگ رہا ہے ’پاپا ۔

            ماما ’ تم کہاں ہو ۔ کہاں ہو !!!

            پھر ایک لمبی سی لکیر اردو کاپی پر کھنچتی چلی گئی تھی ۔

            تاج کی آخری کہانی تو آپ نے پڑھ لی تاج کی نوٹ بک سے معلوم ہوتا ہے کہ تاج ’ نازیہ اور دو ایک اور بچیاں چار پانچ دن تک ضرور زندہ رہی ہونگی ۔ ان کو ضرور بچایا جاسکتا تھا ’ اگر مارگلہ ٹاور کی بلندی سے ذرا پرے بھی دیکھا جاسکتا ! اور وقت پر دیکھا جاتا پر کون دیکھتا ؟

(بشکریہ : ہفت روزہ ایشیا ’ لاہور ۔ 23-17 نومبر 2005 )