قطرینا کے ذریعہ امریکا میں تیسری دنیا کا انکشاف

مصنف : جم لوبے (JIM LOBE)

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : دسمبر 2005

            نیو اوورلیئینز میں ہزاروں لوگ بغیر غذا،پانی اور سایہ کے زندگی گزار رہے ہیں۔ بلاشبہ لاکھوں شہری اس سست ردعمل پر حیرت زدہ ہیں جو امریکا نے اس تاریخی تباہی پر دکھایا ہے۔ ڈیلی نیوز کے اسٹاف رپورٹر نے لکھا کہ میں نے اس طرح کے مناظر پہلے بھی دیکھے ہیں لیکن ہمیشہ ٹیلی ویژن پر دیکھے اور ہمیشہ دور دراز علاقوں کے دیکھے ہیں اور وہ بھی تیسری دنیا میں دیکھے ہیں نہ کہ یہاں۔ یہ اس ہفتے کا عجیب و غریب تبصرہ ہے خاص طور سے ملک کے نیوز آؤٹ لیٹ کے ناظم کی جانب سے جیسا کہ انہوں نے اس عظیم تباہی اور انسانی المیے کا سروے کیا جو قطرینہ طوفان کے نتیجے میں امریکی خلیجی ساحل سے متصل قصبوں اور شہروں میں آیا اور جس نے لوزیان سے لے کر موبائل اور البانہ تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

            اس طوفان نے اس سوچ کو غلط ثابت کر دیاکہ تیسری دنیا کسی دوری پر واقع ہے۔ قطرینا نے دنیا کے سامنے اور امریکی ناظرین کے سامنے جو ٹی وی پر امریکی شہریوں کی بنیادی ضروریات سے محرومی کا تماشا دیکھ رہے ہیں یہ راز منکشف کیا کہ امریکا دنیا کا واحد سپر پاور اور پورے عالم کا چوہدری ہونے کے باوجود بہت سارے معاملے میں تیسری دنیا سے مختلف نہیں ہے بلکہ روز بروز اس کی کیفیت تیسری دنیا سے مماثلت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ترقی پذیر دنیا میں قدرتی آفات کی مانند قطرینا طوفان کا شکار ہونے والے لوگ بہت ہی غریب لوگ ہیں مثلاً نیو اوورلیئنز کی تقریباً ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ جبکہ طوفان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں لوزیانا اور مسسپی(Mississippi) میں مفلس بچوں کی تعداد ۵۰ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ دریں اثناءCensus Bureau نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پورے ملک میں غربت کی سطح چار سالوں سے بڑھتے بڑھتے گذشتہ سال ۷ء۱۲ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح امریکا کے غریبوں کا تعلق بھی لسانی و نسلی اقلیتوں کے ساتھ نسبتاً زیادہ ہے جو تاریخ میں ظلم اور تفریق کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ (CAP) Centre of American Progress کے مطابق نیو اوورلیئنز کی دوتہائی آبادی سیاہ فام ہے لیکن ان کے پڑوس میںLower Ninth Ward ہے جو مبینہ طور سے تقریباًمکمل ہی پانی کے اندر ہے جس کی وجہ سے وہاں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا امکان ہے۔ یہاں۹۸ فیصد سیاہ فام رہتے ہیں۔

            ترقی پذیر دنیا کے بہت سارے ممالک کی طرح امیرو غریب کا فرق امریکا میں بہت زیادہ ہے اور ترقی یافتہ ممالک سے اگر موازنہ کیا جائے تو امریکا میں یہ فرق سب سے زیادہ ہے اور یہ فاصلہ یہاں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ریپبلکن کی اکثریت والی کانگریس آئندہ ہفتے اسٹیٹ ٹیکس (Estate Tax) کے خاتمے کا بل منظور کرنے والی ہے جس کے بعد سے ملک کے دو فیصد امیر ترین لوگ اپنی کل دولت اپنے وارثین کو منتقل کر سکیں گے کوئی حصہ حکومت کو دئیے بغیر۔ ٹیکس کی تنسیخ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھے گا اور اس فنڈ میں کمی آئے گی جس سے حکومت لوگوں کو تنخواہیں دیتی ہے۔ اس کمی کا اندازہ تقریباًدس سالوں میں ایک Trillion ڈالر کا ہے۔ دوسرے بہت سارے ترقی پذیر ممالک کی طرح معاشرے کے غریب ترین لوگ اپنی حکومت کے لیے اجنبی ہوتے ہیں اور حکومت ان کے لیے اجنبی ہوتی ہے۔ اس صورتحال کی وضاحت Michael Brown کے تبصروں سے ہوتی ہے۔ براؤنFdederal Emergency Management Agency (FEMA) کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طوفان کے متاثرین نے اپنے آلام و مصائب کی ذمہ داری زیادہ تر خود ہی اٹھائی۔براؤن کے اندازے کے مطابق نیو اوورلیئنز میں ہزاروں غریبوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ براؤن جارج ڈبلیو بش کے پرانے دوست ہیں اور یہArabian Horse Assciation کے داخلی مشیر بھی تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگوں پر یہ بات ڈالی جا رہی ہے کہ انہوں نے پیشگی انتباہ پر کان نہ دھرتے ہوئے علاقے کو خالی نہیں کیا۔ Mississippi کے نمائندےBennie Thompson کاکہنا ہے کہ وہ ایک اہم نکتہ جو لوگ فراموش کر رہے ہیں وہ ہے کہ بیشتر سیاہ فاموں کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ نہیں لہٰذا جب آپ ایسے شخص سے کہتے ہیں کہ خالی کرو جس کے پاس اپنی کوئی کار نہیں ہے تو اس کاکیا مطلب؟ سچ بات یہ ہے کہ بہت سارے لوگ جانے کے قابل ہی نہیں تھے۔ نیو اوورلیئنز (New Orleans ) کی ۵ لاکھ کی آبادی میں ایک تہائی لوگوں کے پاس کوئی ذاتی کار نہیں تھی۔ یا مقامی لوگ جو گھر میں رہے ان کے پاس نہ کوئی کریڈٹ کارڈ تھا نہ نقد رقم تھی اور نہ ہی FEMA نے اور نہ ہی تحفظاتی ایجنسیوں نے کوئی واضح منصوبہ دیا تھا۔ فلوریڈا کے نمائندے Stephanie Tubbs Jones کے الفاظ میں کہ ان کے پاس جگہ بدلنے کے لیے کوئی جگہ تھی ہی نہیں ۔ یقینا یہ قومی آفت قطرینا کا کارنامہ ہے کہ اس نے وہ مشترک عوامل ڈھونڈنکالے جو قطرینا کے متاثرین اور تیسری دنیا بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں ایسی ہی مصیت کے ماروں میں یگانگت ویکسانیت ظاہر کرتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک سیاہ فام کالم نگارEugene Robinson نے بجا طور سے نشاندہی کی ہے کہ دراصلNew Orleans کی شہرتMardi Gras Festivities اور"Laessez Les bons temps ruler" (اچھے وقتوں کو گردش کرنے دو) کی وجہ سے تھی جس نے اس علاقے میں پائی جانے والی ایک دوسری حقیقت غم و غصے کی کیفیت کو دھندلا کر رکھ دیا تھا۔ مین اسٹریم میڈیا بحران کی ابتدائی کوریج میں اس طرح کے مسائل کو اجاگر کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ اس کے بجائے وہ لوٹ مار کو زیادہ نمایاں کر رہے تھے جو طوفان کے بعد پیش آیا۔ کم ازکم اس وقت تک انہوں نے ان مسائل پر توجہ نہیں دی، جب تک کہ CNN کے اینکرJack Cafferty نے اپنے صحافی ساتھیوں کی اہم خبروں کو، جسے اس نے کمرے کے ہاتھی کا نام دیا، نظر انداز کرنے پر سر زنش نہیں کی۔ یعنی میڈیا نے یہ نہیں بتایا کہ متاثرین کا تعلق کس نسل اور کس معاشی طبقے سے ہے۔ جمعہ کی صبح جب صدر بش تباہی کا جائزہ لینے خود روانہ ہوئے تو اس وقت بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ بحث آخری مرحلے میں ہے کہ حکومتی امداد نہ ہونے کی صورت میں لوگوں کا اسٹور سے ازخود سامان لے کر کھانے پینے کی ضروریات اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا لوٹ مار کے زمرے میں آئے گا یا نہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے پہلے صفحے کے ایک مضمون کے مطابق ‘‘یہ احساس شدت اختیار کر تا گیا کہ نسل اور طبقہ غیر مبینہ پیمانے تھے، جس سے اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ کون باہر گیا اور کون وہیں رکا رہا۔ ٹھیک ترقی پذیر ممالک کی طرح جہاں دیہی ترقی سے متعلق پالیسیوں کی ناکا می کا واضح طور سے اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب قدرتی آفات سے سامنا ہوتا ہے مثلاً سیلاب یا خشک سالی…… امریکا کے بعض شہروں کو بھی فیڈرل پالیسی نے کسمپرسی کے عالم میں چھوڑ دیا ہے۔’’ لا قانونیت، افلاس عامہ کی ناگزیر دوست ہے۔ یہ الفاظ USA Today نے اپنے ایک اداریے، غریبوں کے مصائب کا اندازہ لگانے میں حکومت کی نا کامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھے اور ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ خطے کی صورتحال جو سامنے آرہی تھی وہ تیسری دنیا کے کسی پناہ گزین کیمپ کا نظارہ پیش کر رہی تھی پھر یہ اخبار لکھتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ نیو اوورلیئنز جب اپنے معمول کی حالت پر واپس آئے گا تو غریب ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے کم ازکم اس وقت تک تا آنکہ کوئی دوسری بڑی تباہی وارد ہو۔ یہ بہر حال ایک افسوس ناک بات ہے۔

(بشکریہ روز نامہ ‘‘ڈان’’ ۔۴ستمبر۲۰۰۵ء)