سوال ، جواب

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : نومبر 2005

ج: رسول اللہﷺ کے تو کوئی بیٹا نہ تھا لیکن آپ کی بعض ازواج مطہرات جو بیوہ خواتین تھیں، ان کی پہلے سے اولاد تھی ، ان میں بیٹے بھی تھے اور بیٹیاں بھی تھیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ اصول پر قیاس کیا جائے گا ۔ جو قریبی اعزا موجود تھے، قرآن نے ان کا ذکر کر دیا ہے اگر اس فہرست میں کوئی دور کا عزیز شامل ہو نا چاہے تو ظاہر ہے قیاس کی بنیاد پر شامل کیا جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نیچے اتر کر نماز پڑھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یعنی میدان جنگ میں اجازت نہیں ہے۔ ایسی صورت پیش آگئی ہے کہ جس میں اترنا ممکن نہیں ہے تو کیا کرے ۔اس صورت میں اجازت ہے کہ آپ چاہیں تو چلتے چلتے نماز پڑھ لیں اور چاہیں تو سواری ہی پر نماز پڑھ لیں ۔ اگر اس طرح کی صورت آپ کی کار اور موٹر سائیکل پر پیش آگئی ہے، کوئی ایمرجنسی کی صورتحال ہے ، کہیں آپ پھنس گئے ہیں ، اترنا ممکن نہیں ہے تو پھر پڑھ لیں لیکن یہ کہ جہاں موٹر سائیکل روکنے میں کوئی دقت نہیں ہے تو وہاں آپ اتر کر پڑھ لیں ، رسول اللہ ؐ سفر کے دوران میں بھی فرض نمازیں سواری کو روک کر جماعت کروا کر پڑھتے تھے۔ لیکن اگر میدان جنگ ہے ،کوئی اور ایسی صورتحال ہے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے جیسے گاڑی چھوٹ رہی ہے ، کہیں سے نکلنے میں مشکل ہو رہی ہے کہیں ٹریفک جام ہو گئی ہے یا اس طرح کی صورت ہے توآپ پڑھ سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید کی ترتیب نزول کسی کوبھی نہیں معلوم نہیں ،جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ اصل میں اللہ تعالی کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ نے بڑی غلطی کر دی ہے معاذاللہ ۔ بہتریہ تھا کہ جس ترتیب سے آپ نے نازل کیا تھا اسی ترتیب سے مرتب کرتے ، جب اللہ تعالی نے خوداس کو ایک نئی ترتیب دے دی ہے اور یہ کہا ہے کہ میں نے دی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اب اس کے مطابق پڑھا جائے گا ،( انا علینا جمعہ و قرانہ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ) قرآن یہ کہتا ہے کہ اس کو قدیم ترتیب کے ساتھ پڑھنا ناجائز ہے اب جو ترتیب اللہ نے دے دی ہے اسی کے مطابق اس کی قرات ہو گی ، کسی اور ترتیب سے نہیں پڑھا جا سکتا۔ اس صورتحال میں مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ میں اللہ کومشورہ دوں۔ قرآن کو سمجھنے کی ساری حکمت موجودہ ترتیب کے اندر ہی ہے۔ اسی سے قرآن کا سارا مدعاواضح ہوتا ہے ۔ جو لوگ اس کو کوئی اور ترتیب دینا چاہتے ہیں وہ اصل میں اللہ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ سے غلطی ہوئی ، میں یہ جسارت نہیں کر سکتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں آپ نے دو بزرگوں کا ذکر ہی کیوں کیا ہے اگر یہ کا م کرنا ہی ہے تو ساری امت کو بیٹھ کر کر لینا چاہیے لیکن اس کی ضرورت کیا ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کی آخر کیا ضرورت ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہم میں سے کسی کو بھی پیغمبر نہیں بنایا ، ہم پر وحی نہیں آتی ، ہم طالبعلم لوگ ہیں اور طالب علمانہ طریقے سے دین کی جو بات سمجھتے ہیں اس کو دلائل کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں ، ہو سکتا ہے ہماری بات ٹھیک ہو اور ممکن ہے ہمیں غلطی لگ گئی ہو ۔ پیغمبروں کو بھی غلطی لگ سکتی ہے لیکن اللہ تعالی فوراً ان کی تصحیح کردیتاہے۔ وہ اگر کوئی اجتہاد کرتے ہیں اور اس میں غلطی ہو جائے تو فورا ان کو متنبہ کر دیا جاتا ہے ۔ مشہور واقعہ ہے ( مسلم اور احمد بن حنبل میں اس کی بڑی روایتیں بیان ہوئی ہیں)کہ ایک دفعہ نبی ﷺ کے گھر میں عذاب قبر کامعاملہ زیر بحث آگیا ۔کسی یہودی خاتون نے سیدہ عائشہؓ کے سامنے عذاب قبر کے بارے میں اپنا موقف بیا ن کیا کہ عذاب قبر ہوتا ہے ۔ حضورﷺ نے سختی سے تردید کر د ی۔ یہ کہہ کر باہر چلے گئے لیکن فورا ہی واپس چلے آئے اور کہا کہ مجھے متنبہ کر دیا گیا ہے کہ یہ یہودی والی بات ٹھیک ہے ، دیکھیے پیغمبر کو غلطی لگ گئی تو اللہ نے اصلاح کردی۔ پیغمبر کے ساتھ تو یہ معاملہ ہوتا ہے ہم لوگوں کے ساتھ تو یہ معاملہ نہیں ہوتا ۔ہم تو غلطی بھی کر سکتے ہیں اور ٹھیک بھی بیان کر سکتے ہیں اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس طرح کے سب طالب علم اور سب اہل علم یہ کام کرتے رہیں اور اپنے دلائل لوگوں کے سامنے رکھتے رہیں۔ دلائل کی بنیاد پر جس کی بات زیادہ معقول لگے اس کو قبول کر لیجیے ۔البتہ آپ کی یہ خواہش بہت اچھی ہے کہ ان لوگوں کے مابین بھی بات چیت ہوتی رہنی چاہیے ۔اپنی حد تک تو میں بتا سکتا ہوں کہ میرے دروازے تو ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں میں ہر بات ہر وقت کرنے کے لیے تیار ہوتا ہوں لیکن یہ کہ لوگوں کے سامنے گفتگو کر کے ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں ایسا دنیا میں نہ پہلے کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی اچھا طریقہ ہو سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ لوگ آپس میں مل جل کر بات چیت کرتے رہیں او رکھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سنیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی ہمیشہ یہی کہیں کہ ہم میں کوئی پیغمبر نہیں ، ہو سکتا ہے ہم غلطی کر رہے ہوں، جہاں آپ ہماری بات سنتے ہیں دوسروں کی بھی ضرور سنیں اور جہاں کہیں دوسروں کی بات زیادہ معقول نظر آئے اس کو قبول کر لیں۔ اس لیے کہ ہم کسی انسان کی پیروی کے مکلف نہیں ہیں بلکہ ہمارے ذمہ حق کی پیروی ہے ۔حق اپنی آخر ی شکل میں محمد ﷺ کی صورت میں دنیامیں تھا اور ان کے جانے کے بعد اب سارے انسان عام انسان ہیں ، ان پر وحی نہیں آتی، کچھ معلوم نہیں کہ کہاں غلطی کر لیں۔ اس وجہ سے میرے خیال کے مطابق اگر چند چیزیں اپنا لی جائیں کہ لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں ، ایک دوسرے کی عزت کریں ، اپنی بات کو طالبعلمانہ طریقے سے پیش کریں ، لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ دوسرے لوگوں کی بات بھی جا کر سنیں ، ان سے سوالات کریں پوچھیں تو یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے خیال میں جماعت سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی ہے اور اس نظم اجتماعی سے جڑ کر رہنا مذہبی ذمہ داری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ لیکن یہ کہ مسلمانوں کا ایک ہی سربراہ ہونا چاہیے یہ لازم نہیں ہے اور میرے نزدیک یہ ممکن بھی نہیں ہے اورنہ ہی ہماری مذہبی ذمہ داری ہے     

 تاریخ انسانی میں اس خواہش کے پورا ہونے کی دو ہی صورتیں نظر آتی ہیں تیسری کوئی صورت ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکی۔ ایک یہ ہے کہ کوئی سکندر اٹھے ، فتوحات شروع کرے اورانسانوں کو مارمار کر ایک حکومت قائم کرلے یا پھر یہ ہے کہ عامتہ الناس کے رائے اورمشورے سے حکومتیں قائم کی جائیں۔سکندر کی طرح کی فتوحات کا اب زمانہ نہیں رہا۔ امریکہ اس وقت سپر پاور ہے اور اس نے افغانستان اور عراق پر قبضہ بھی کیاہے لیکن اس کے باوجود اس تگ ودو میں مصروف ہے کہ وہاں مقامی حکومت بنا ئی جائے کیونکہ عالمی سطح پر قبضے والے طرز عمل کو پسند نہیں کیا جاتا۔

 دوسری صورت اقتصادی صورتحال اور معاشی عمل ہے۔ جس طرح یورپی یونین میں ہو رہا ہے اس طریقے سے بھی آہستہ آہستہ اتحاد کی شکلیں نکلتی چلی آتی ہیں۔ مثلا کسی موقع کے اوپر یورپی یونین یہ فیصلہ کرے کہ اچھا ہم ایک ہی حکومت بنا لیتے ہیں تو یہ ہوجائے گا لیکن یہ ان کی کسی مذہبی خواہش کانتیجہ نہیں ہو گابلکہ تمدنی، سیاسی اور اقصادی حالات کاارتقا ہو گا۔ کوئی امیر قوم غریبوں کو اپنے ساتھ شامل کر نا پسند نہیں کرتی ۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ برطانیہ میں جا کر آپ شہریت حاصل کرلیتے ہیں لیکن سعودی عرب میں آپ یہ بھی نہیں کر سکتے ۔، وجہ کیا ہے ، وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنی دولت میں شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج سے سو سال پہلے یہ لوگ ترستے تھے کہ کوئی وہا ں آئے۔ اب کیا تبدیلی کیا آئی ہے صرف یہی کہ اقتصادی حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔چنانچہ اقتصاد ی حالات بھی تاریح و جغرافیے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا اشارہ ہمیں قرآن سے بھی ملتا ہے ۔ قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تعز من تشاء وتذل من تشائمیں یہی بیان ہوا ہے کہ بادشاہی میری ہے اور میں اپنے قانون کے مطابق کبھی ایک قوم کو دیتا ہوں کبھی دوسری قوم کو دیتا ہوں یہ کا م میں کرتا رہتا ہوں ، اس آیت کو ختم کیا ہے وترزق من تشاء بغیر حساب پریعنی اس کی بنیاد اصل میں اقتصادی حالات ہوتے ہیں اللہ تعالی بے حساب دولت دیتا ہے تو وہ اقتصادی طاقت بنتی ہے اور اقتصادی قوت والا

 سپر پاور کا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں میں فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اس لیے اس طرح کے خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے ۔مسلمانوں کی اس وقت باون پچپن حکومتیں موجود ہیں دعا کیجیے وہ بہتر ہوں ، اپنی تعمیر کریں ، یہ جو بے مقصد مسائل میں الجھ کر مسلمان اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں اس سے باز آئیں ۔

ایک حکومت قائم کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے ۔آپ کویادہوگا کہ خلافت راشدہ کے صرف نوے سال بعد مسلمانوں کی دو حکومتیں قائم ہو گئی تھیں یعنی بغدادمیں عباسیوں اور اندلس میں امویوں کی حکومت، دونوں حکومتیں صدیوں تک Parallel کام کرتی رہی ہیں نہ کسی نے یہ کہا کہ ان کو ایک ہو جانا چاہیے اور نہ کسی نے ان کی حرمت کا فتوی دیا۔مسلمان آج بھی اندلس پر فخرکرتے ہیں۔بغداد بھی آپ کی تاریخ ہے اوراندلس بھی آپ کی تاریخ ہے ۔

یہ مسئلہ تو لوگوں نے اس زمانے میں پیدا کر دیا ہے کیونکہ اس زمانے میں بعض ایسے مذہبی رہنما پیدا ہو گئے ہیں جو نہ اصول عمرانیات سے واقف ہیں اور نہ تاریخی ارتقا سے، نہ ہی انہیں سماجی تبدیلیوں کے قانون سے واقفیت ہے اورنہ ہی تمدن کے ارتقا سے ، نہ قوموں کے عروج و زوال کافلسفہ ان کے علم میں ہے اور نہ اقتصادی حالات کے اثرات کا، وہ اصل میں مذہبی واعظ ہیں ۔ اس طرح کی خواہشوں کو وہ دین بنا کر بیان کر تے رہتے ہیں جب کہ یہ چیزیں اللہ کی کتاب سے بالاتر ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ 50 حکومتیں آپ کی پہلے ہی ہیں کوئی دس پندرہ اور بھی قائم کر لیں توکوئی خلاف شریعت نہیں ہو گا۔البتہ مسلمانوں کی ہر حکومت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ شریعت کوبالاتر مانے ، یہ ہی اصل بات ہے اسکے علاوہ کسی اور مطالبے یا امر پر اپنی توانائی ضائع کرنے کی ضرورت سرے سے موجود نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز استخارہ نہیں بلکہ استخارہ کی دعا کہیے ، رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اور بہت سی دعائیں سکھائی ہیں اسی طرح استخارے کی بھی دعا سکھائی ہے ۔استخارہ کیا ہوتا ہے ، کسی معاملے میں اللہ تعالی سے خیر کا پہلو طلب کرنا ۔دعا کی جاتی ہے کہ پروردگار میں اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا آپ اس معاملے میں میرے لیے جو خیر کا پہلو ہے اس کو نمایاں کر دیجیے ، یہ دعا ہے ۔جس طرح باقی دعائیں ہیں اس طرح کی یہ دعا ہے اور جس طرح باقی دعائیں آپ مانگتے ہیں ویسے ہی یہ مانگنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: موسیقی کو دیکھا جائے گا کہ کیسی ہے ۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں تو کوئی قباحت نہیں ہے او راگر کوئی اخلاقی خرابی ہے تووہ قابل مذمت ہے اس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔ اسلام کا مقصد انسان کے ظاہرو باطن کو پاکیزہ بنانا ہے۔ جس طرح ظاہر کی پاکیزگی کے بارے میں آدمی کو حساس ہونا چاہیے اسی طرح باطن کی پاکیزگی کے بارے میں بھی آدمی کو حساس ہونا چاہیے ۔جب غیر اخلاقی چیزیں آدمی کے زیادہ اشتغال کا باعث بن جاتی ہیں تو وہ اس کی پاکیزگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لیے ان سے احتراز کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر آپ روح کو اس معنی میں بول رہے ہیں جس معنی میں ہم سمجھتے ہیں تو پھر اس کی غذا صرف اللہ کا ذکراور اللہ کی یاد ہے جس سے اس کو غذا ملتی ہے ، موسیقی نفس کی غذا ہے یعنی ہمارا نفس ایک جسمانی وجود بھی رکھتا ہے اور ایک باطنی وجود بھی رکھتا ہے، جسمانی وجود کے لیے انواع و اقسام کے کھانے کھلانے پڑتے ہیں اور باطنی وجود کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن جس چیز کو انسان کی روحانی شخصیت کہا جاتاہے اس کی غذا اللہ کا ذکر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ آپ نے کہاں پڑھا ہے اگر قرآن میں پڑھاہے تووہاں تواللہ نے وجہ بھی بتائی ہے وہ بھی پڑھیے۔ پوری آیت اس طرح ہے ۔الئن خفف اللہ عنکم وعلم ان فیکم ضعفا فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین وان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن اللہ و اللہ مع الصابرین(انفال ۶۶)

‘‘اب اللہ نے تمہارے ذمے داری ہلکی کر دی اوراس نے جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے سو تمہارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے اوراگر تمہارے ہزار ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پربھاری ہوں گے اوراللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے’’ ۔

 اس میں اللہ نے یہ بتایا ہے کہ اب چونکہ تمہارے اندر ایمانی ضعف آگیا ہے ، تمہاری اخلاقی حالت وہ نہیں رہی ، اس لیے اللہ نے نسبت تناسب تبدیل کر دی ہے ایمان اوربصیرت کے لحاظ سے یہ کمی اکابر صحابہ میں نہیں آئی تھی جونئے مسلمان ہو رہے تھے ان کا مسئلہ تھا۔یہ نئے آنے والے ظاہر ہے سیدنا ابوبکر ؓ یا سیدنا عمر ؓ کے درجے کے نہیں تھے ۔قرآن نے پوری بات بیان کی ہے اور اس سے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ ایمانی طاقت کی نسبت تناسب تبدیل ہونے سے مادی طاقت کی نسبت تناسب بھی تبدیل ہوجاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ جب سو کر اٹھیں تو تہجد کی نماز کاوقت شروع ہو گیا یہ کب تک رہے گا ، فجر تک رہے گا فجر جب ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی تہجد کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور یہ سارا بہترین وقت ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں جس وقت چاہیں پڑھ لیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قربانی ایک عبادت ہے ، قربانی کا ثواب تو قربانی کرنے سے ہی ملے گا ،غریب کو پیسے دینا الگ سے ایک نیکی ہے اس کا الگ ثواب ہے۔ اس لیے آپ اس میں ادلہ بدلہ کیوں کرتے ہیں۔قربانی ایک بہت بڑی عبادت ہے یہ اصل میں اپنے آپ کو خدا کی نظر کر دینے کا علامتی اظہا ر ہے، عبادات کو عبادت سمجھ کر کیجیے۔ کل کو آپ کوکہیں گے کہ نماز کا وقت کسی اسپتال میں جا کر خدمت کے لیے دے دیا جائے ۔ عبادت عبادت ہے اور دین نام ہے عبادت کا ۔خدا کے ساتھ تعلق کے اظہار کے لیے جو عبادات مقرر کی گئی ہیں ان کو کبھی کوئی چیز معمولی نہ سمجھیں وہ اصل میں بندگی کا اظہا ر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)