تراویح کی نماز

مصنف : ابو طلحہ مختار اللہ حقانی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : اکتوبر 2005

ابو طلحہ مختار اللہ حقانی ( مفتی و استاد سعبہ تخصص فی الاسلامی و الافتاء - جامعہ دارالعلوم حقانیہ ، اکوڑہ خٹک )

تیسرانقطہ نظر، تراویح ایک الگ نمازہے جس کی تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے بروایت عبداللہ بن عباس اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام اورتابعین کے تعامل سے بیس رکعات ثابت ہے۔

محترم جناب ایڈیٹر ماہنامہ ‘‘الحق’’ اکوڑہ خٹک۔

السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔

            جناب! ماہنامہ الحق ستمبر ۲۰۰۴ء جلد نمبر ۳۹ ص ۳۴ میں درج ہے کہ نبی کریم صلعم نے بنفس نفیس ۲۰ رکعات تراویح کی نماز ادا فرمائی ہے …… حالانکہ علمائے احناف اس کے خلاف فرماتے ہیں۔

۱۔ امام ابو حنیفہؒ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے لے کر فجر تک آٹھ رکعت اور تین وتر پڑھتے تھے (کتاب الآثار ص ۲۶)

۲۔ امام محمد تلمیذ ابو حنیفہؒ: رسول ؐاللہ رمضان میں یا اس کے علاوہ گیارہ رکعات پر اضافہ نہیں کرتے تھے (موطاء امام محمد مترجم ص ۱۲۲)

۳۔ امام ابن ھمام ـحنفیؒ: ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں۔ تراویح کی مسنون تعداد گیارہ رکعات ہے۔ (ص ۶۰۷، ج ۱)

۴۔ علامہ بدرالدین عینیؒ: (عمدۃ القاری ص ۱۷۷، جلد ۱

۵۔ ملا علی قادری حنفی: (مرقاۃ المفاتیح ص ۱۹۶، ج ۱)

۶۔ مولانا عبدالحئی لکھنویؒ:(التعلیق الممجدص۱۶۱)

۷۔ انور شاہ کاشمیریؒ (العرف الشذی ص ۱۶۶،ج۱)

۸۔ جلال الدین السیوطی:(المصابیح فی رکعات التراویح ،ص ۱۶)

۹۔ عبدالحق دہلوی: (ماثبت بالسنۃ، ص ۲۱۷)

۱۰۔ قاضی شمس الدین (القول الفصیح ، ص ۵)

۱۱۔ طحطاوی شرح در مختار جلد نمبر ۱ ، ص ۲۹۵۔ ان النبی ﷺ لم یصلھا عشرین بل ثمانیا۔

۱۲۔ ابو السعود شرح کنز الدقائق ص ۱۶۵۔ ج ۱، مصری۔ لان النبی ﷺ لم یصل عشرین بل ثمانیا۔

۱۳۔ الشیخ عبدالحق دہلوی۔ اپنی کتاب ‘‘فتح سرالمنان فی تائید مذہب النعمان’’ کے صفحہ نمبر ۳۲۷ میں لکھتے ہیں۔ ولم یثبت روایۃ عشرین منہ ﷺ کما ھو المتعارف: (مروجہ ۲۰ رکعت نبی ﷺ سے ثابت نہیں ……) تو جناب آپ کے پاس کوئی نص ہے تو بندہ کی رہنمائی فرمائیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۰ رکعت تراویح ادا کی ہے۔ امید ہے ضرور جواب دیں گے۔

دعا گوعبیدالرحمان یزدانی (لائبریرین)

اشرف لیبارٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ، فیصل آباد

 

باسمہ تعالیٰ

الجواب وباللہ التوفیق

محترم المقام جناب عبیدالرحمان یزدانی

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!

            بعد از سلام مسنون امید ہے کہ مزاجِ گرامی بخیر و عافیت ہوں گے، آنجناب کا والہ نامہ بتاریخ ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۴؍ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ کو موصول ہوا۔ پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آنجناب نے احقر (راقم الحروف) کے مضمون کا بغور مطالعہ کیا ہے اور پھر ایک مقام (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس بیس رکعت تراویح پڑھی ہے) کے اصل ماخذ کے بارے میں مزید وضاحت طلب کی۔ اور اس روایت کو رد کرنے کے لیے چند اقوال اور بعض کتابوں کے حوالجات بھی تحریر فرمائے ہیں۔ مکتوب ارسال کرنے کا بہت شکریہ، اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ جواب حاضر خدمت ہے۔

            آنجناب نے جس حدیث کے بارے میں وضاحت طلب کی ہے وہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۹۴ اور سنن بیہقی ۲؍۴۹۶؍ باب ماروی فی عدد رکعات الصیام فی شھر رمضان میں مذکور ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ کے الفاظ یہ ہیں: حدثنا یزید بن ہارون اخبرنا ابراہیم بن عثمان عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والو تر (مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۹۴) اور سنن بیہقی میں یصلی فی رمضان بغیر جماعۃ عشرین رکعۃ الوتر کے الفاظ سے مذکور ہے۔

            اسی طرح اس روایت کو عبد بن حمید نے مسند عبد بن حمید میں، علامہ بغویؒ نے اپنی معجم میں اور امام طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے (التعلیق الحسن علی آثار السنن ۲۵۴ واعلاء السنن ۷؍۸۲) مگر عموماً اس حدیث پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اس لیے اس سے استدلال کرنا درست نہیں، اور گمان غالب ہے کہ آنجناب نے بھی اسی اعتراض کی وجہ سے مضمون میں درج شدہ مفہوم حدیث کے اصل ماخذ کی وضاحت طلب کرنے کے لیے مکتوب ارسال فرمایا، اور یہ بات قرین قیاس ہے اس لیے کہ جب کسی کو اس مسئلہ کے بارے میں اتنی کتابوں کا علم ہو تو اس کو اس روایت کا اصل ماخذ کیسے معلوم نہ ہو گا، لازماً اسی اعتراض کی وجہ سے مضمون میں یہ روایت انوکھی لگی، مگر اس اعتراض کی حقیقت اور جواب سے قبل چند مقدمات کو ذہن نشین کرنا نہایت ہی ضروری ہے، جب ہی اشکال و اعتراض کی حقیقت معلوم ہو گی اور جواب سمجھ میں آئے گا۔

۱۔ مقدمہ اولی:

            کسی حدیث کے قابل عمل ہونے کے لیے صرف اس حدیث کی سند کا صحیح ہونا ضروری نہیں یہ اس لیے کہ اگر اس شرط کو ضروری قرار دیا جائے تو پھر بہت ساری احادیث کا ترک کرنا لازم آئے گا، حالانکہ ان احادیث مبارکہ کو باوجود سند کے اعتبار سے غیر صحیح ہونے کے فقہاء کرام اور محدثین عظام نے معمول بہ بنایا ہے۔ اور اسی پر عمل کرکے چلے آ رہے ہیں۔ مثلاً

(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لا وصیۃ لوارث (الحدیث) کہ وارث کے لیے وصیت نہیں۔ اس بارے میں امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کو اہل حدیث ثابت نہیں کہتے۔ لیکن عامہ علماء نے اس کو قبول کر لیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے اس حدیث کو آیت وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے۔

(۲)       اسی طرح العینان وکاء السہ (الحدیث) آنکھیں سرین کے تسمے ہیں۔ یہ روایت بھی سنداً ضعیف ہے مگر اس کے باوجود بعض محدثین اور فقہاء کرام نے اس کو معمول بہ قرار دیا ہے۔

(۳)      اسی طرح من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد اتی بابا من ابواب الکبائر (ترمذی۱؍۳۰۳) اس روایت کے بارے میں امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: قال ابو عیسیٰ حنش ھذا ھو بو علی الرحبی وھو حسین بن قیس وھو ضعیف عند اھل الحدیث ضعف احمد وغیرہ لیکن اس کے باوجود والعمل علی ھذا عند اھل العلم ان لا یجمع بین الصلاتین الا فی السفر او بعرفہ (الجامع الترمذی۱؍۳۰۳)

            امام ترمذی فرماتے ہیں: حنش یہ بو علی الرجی ہے اور اس کا نام حسین بن قیس ہے اور یہ راوی محدثین کے ہاں ضعیف ہے ۔ امام احمد اور دوسرے ائمہ جرح و تعدیل نے اس کی تضعیف کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اہل علم کا اس پر عمل ہے اور ان کے ہاں سفر اور عرفہ کے علاوہ جمع بین الصلاتین جائز نہیں۔

۲۔ مقدمہ ثانیہ:

            دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ جس طرح حدیث سند کی وجہ سے درجہ صحت اور درجہ حسن تک پہنچتی ہے تو اسی طرح امت مسلمہ کے تلقی بالقبول سے بھی وہ روایت باوجود سنداً ضعیف ہونے کے درجہ صحت و حسن کا مقام پا لیتی ہے، اسی لیے محدثین عظام نے فرمایا ہے: قال بعضھم یحکم للحدیث بالصحۃ اذا تلقاہ الناس بالقبول وان لم یکن لہ اسناد صحیح (تدریب الراوی۱؍۶۷)بعض نے کہا ہے کہ حدیث پر صحیح کا حکم اس وقت بھی لگایا جائے گا۔ جب امت اس کو قبول کرے اگرچہ اس کی سند ضعیف ہو۔

(۱)       مثلاً استذکار میں علامہ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں کہ لما حکی عن الترمذی ان البخاری صحح حدیث البحر ھو الطھور ماؤہ و اھل الحدیث لا یصححون مثل اسنادہ لکن الحدیث عندی صحیح لان العلماء تلقوہ بالقبول (بحوالہ مقدمہ اعلاء السنن؍۶۱۔ و تدریب الراوی۱؍۶۵)، امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ البحر ھو الطھورماء ہ کو صحیح فرماتے ہیں اور دوسرے محدثین اس روایت کو سند کی وجہ سے صحیح نہیں کہتے مگر میرے نزدیک یہ روایت صحیح ہے اس لیے کہ علماء نے اس روایت کو قبول کیا ہے۔

(۲)       اسی طرح علامہ سیوطی نے تعصبات میں ایک مثال ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وقال الترمذی قد رای ابن المبارک وغیرہ صلوٰۃ التسبیح وذکروا الفضل فیہ قال البیہقی فان عبداللہ بن المبارک یصلیھا وتداولہ الصالحون بعضھم عن بعض وذلک تقویۃ للحدیث المرفوع (مقدمہ اعلاء السنن؍۶۲)‘‘کہ عبداللہ بن مبارک اور دوسرے اہل علم نے صلوٰۃ تسبیح کی ترغیب دی ہے۔ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارکؒ صلوٰۃ تسبیح پڑھا کرتے تھے اور صالحین کے ہاں یہ نماز چلی آ رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے اس حدیث مرفوع کو تقویت ملی۔

            یہ چند روایات بطور نمونہ ذکر کی گئیں ورنہ اور بھی کافی ساری روایات ذخیرہ حدیث میں موجود ہیں۔ جو سنداً ضعیف ہیں مگر تلقی بالقبول کی وجہ سے علماء نے ان کو صحیح کہا ہے۔

۳۔ مقدمہ ثالثہ:

            تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ جس طرح حدیث صحت سند اور تلقی الامۃ بالقبول کی وجہ سے صحت اور حسن کا مرتبہ پاتی ہے تو اسی طرح دوسرے قرائن شرع، مثلاً اجماع امت، شواہد اور توابع وغیرہ کی وجہ سے بھی ضعف روایت صحت کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔

            اس لیے علامہ ابوالحسن بن الحضار المالکیؒ نے تقریب المدارک علی موطا مالک میں لکھا ہے: قدیعلم الفقیہ صحۃ الحدیث اذا لم یکن فی سندہ کذاب بموافقۃ ایۃ من کتاب اللہ او بعض اصول الشریعۃ فیحملہ ذلک علی قبولہ والعمل بہ۔ (تدریب الراوی ۱؍۶۸) کبھی فقیہ کسی حدیث کی صحت کو صرف اس وجہ سے جان لیتا ہے کہ وہ روایت قرآنی آیت یا اصول شرعیہ کے موافق ہے اور وہ اس روایت کو قبول کرکے اس پر عمل کر لیتا ہے بشرطیکہ اس روایت کی سند میں کوئی کذاب راوی نہ ہو ۔ اور حافظ ابن حجرؒ نے اپنے استاد حافظ عراقی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ان یتفق العلماء علی العمل بمد لول حدیث فانہ یقبل حتی یجب العمل بہ(بحوالہ التعلیقات الحافلۃ علی الاجویۃ الفاضلۃ ص۲۳۱)

            علماء امت مدلول حدیث پر عمل کرنے پر متفق ہیں اور اس کو قبول کرتے ہیں حتیٰ کہ اس پر عمل کرنے کو واجب اور ضروری سمجھتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ روایت اصول شرع کے موافق ہواگرچہ اس کی سند میں کوئی کمزوری ہو تب بھی وہ روایت ان کے ہاں معمول بھا ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے محقق ا بن ھمامؒ نے لکھا ہے کہ فان ضعف الاسناد غیر قاطع ببطلان المتن بل ظاھر فیہ فاذا تاید بما یدل علی صحتہ من القرائن کان صحیحاً (فتح القدیر۲؍۸۷) سند کا ضعیف ہونا متن کے بطلان کی دلیل نہیں، بلکہ اس میں ظاہر ہے کہ جب اس صحت پر قرائن شرع میں سے کوئی قرینہ دلالت کرے تو وہ روایت صحیح کہلاتی ہے۔

۴۔ مقدمہ رابعہ:

            چوتھا مقدمہ یہ ہے کہ کسی بھی حدیث کو قطعی طور پر اس وقت تک ضعیف اور غیر معمول بھا نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے بارے میں پوری تحقیق نہ ہو، علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں: واذا قیل ھذا حدیث صحیح فھذا معناہ ای ما تصل سندہ مع الاوصاف المذکورۃ فقبلنا عملاً بظاہر الاسناد لا انہ مقطوع بہ فی نفس الامر لجواز الخطاء والنسیان عن الثقۃ واذا قیل ھذا حدیث غیر صحیح (ضعیف) فمعناہ لم یصح اسنادہ علی الشرط المذکور لانہ کذب فی نفس الامر لجواز صدق الکاذب واصابۃ من ھو کثیر الخطاء(تدریب الراوی بحوالہ مقدمہ اعلاء السنن؍۵۶)

            جب یہ کہا جائے کہ یہ روایت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ روایت ہے جس کی سند صفات مذکورہ کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے، تو ہم اس کو ظاہر سند کی وجہ سے قبول کرتے ہیں لیکن اس کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نفس الامر میں بھی یہ روایت صحیح ہے اس لیے کہ ثقہ راوی سے بھی خطاء اور نسیان کا احتمال ہے، اور جب کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روایت کی سند مذکورہ شرائط کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ نفس الامر میں بھی یہ جھوٹ ہے اس لیے کہ جھوٹے سے بھی سچ اور اصابت رائے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

            یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی ضعیف حدیث بھی محـتج بہ بن جاتی ہے جب اس کی صحت پر کوئی قرینہ دلالت کرے اور جب قرائن اس کے خلاف ہو تو صحیح حدیث پر بھی عمل ترک کیا جاتا ہے۔ (اعلاء السنن؍۵۶)

            لہٰذا اب ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد دیکھیے کہ اس روایت پر ضعف کا جو اعتراض کیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ اس روایت کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان العبسی ہے اور اس کو محدثین نے ضعیف کہا ہے ۔یہ بات صحیح ہے کہ اس کومحدثین نے ضعیف کہا ہے لیکن اس کے برخلاف بیانات بھی موجود ہیں جن سے ابو شیبہ کا ضعیف نہ ہونا واضح ہوتا ہے لیکن اگر بالفرض ان حضرات کی جرح کو مان بھی لیا جائے اور ان کی وجہ سے ابراہیم بن عثمان کو ضعیف قرار دیا جائے تو صرف اس سے روایت کوضعیف نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ اس کی تائید میں عہد فاروقی کے مسلمانوں کا علانیہ عمل اور ائمہ مجتھدین کے اتفاق رائے جیسے قوی اور ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ روایت قابل احتجاج ہے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسریؒ نے خود ایک موقعہ پر اعتراف کیا ہے کہ بعض ضعیف ایسے ہیں جو امت کی تلقی بالقبول سے رفع ہو گئے ہیں(اخبار اہل حدیث مورخہ۱۹؍ اپریل۱۹۰۷ء بحوالہ بیس تراویح کا ثبوت ص۴)

غیر مقلدین کی نا انصافی:

            تلقی بالقبول پر مزید تفصیلی بحث کرنے سے قبل حضرات مقلدین کی نا انصافی بتانا ضروری ہے، کہ تراویح کے مسئلہ میں تو احناف کے مستدل حدیث بالا پر ورق کے ورق سیاہ کرتے ہیں کہ ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ سخت ضعیف ہے، اس سند کو پیش کرنا بد نامی اور حماقت ہے۔ مگر نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ثبوت میں مشہور غیر مقلد حکیم محمد صادق سیالکوٹی نے اپنی کتاب صلوٰۃ الرسول کے صفحہ ۴۳۴ پر اسی راوی کی روایت بحوالہ ابن ماجہ پیش کی ہے۔ وعن ابن عباس ان النبی قرا علی الجنازۃ بفاتحۃ الکتاب (ابن ماجہ) کہ رسول ﷺ نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھی ہے۔

            اور ابن ماجہ میں اس روایت کی سند یوں ہے، حدثنا احمد بن منیع ثنا زید بن الحباب ثنا ابراھیم بن عثمان عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس ان النبی قرا علی الجنازۃ بفاتحۃ الکتاب (ابن ماجہ، ص ۱۰۷)

            گزشتہ تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ ضعیف راوی نہیں لیکن اگر ان محدثین کی بات مان لی جائے تو بعض کی توثیق اور بعض کی تضعیف سے اس کو مختلف فی راوی مان لیا جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے مقدمہ ثانیہ میں ذکر کیا کہ ایک ضعیف روایت تلقی بالقبول کی وجہ سے بھی قابل استدلال اور صحیح قرار دیا جاتی ہے۔یہاں پر بھی اس روایت کو امت مسلمہ نے معمول بھا قرار دیا ہے اور دور صحابہ سے لے کر آج تک اسی روایت پر عمل ہوتا رہا ہے اور بیس رکعات تراویح کاعمل خیرالقرون سے آج تک منقول و مشاہد ہے،خلفاء راشدین، صحابہ کرام، تابعین،تبع تابعین اور ائمہ مجتھدین کے اقوال، افعال اور فتاوی اس روایت کے موید ہیں ہم نے مقدمہ ثالثہ میں یہی ذکر کیا ہے کہ ایک حدیث ضعف سند کے باوجود قرائن شرع کی تائید سے صحیح اور قابل احتجاج بن جاتی ہے اور یہاں پر قرائن شرع یعنی اجماع صحابہ، تعامل امت اور ان کا اتفاقی عمل اس روایت کے موید ہیں، ذیل میں بعض آثار اور قرائن ذکر کئے جاتے ہیں تا کہ مزید وضاحت ہو سکے۔

دورِ فاروقی:

            امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں باقاعدہ طور پر نماز تراویح با جماعت کا اہتمام کیا گیا اور اس وقت لوگوں نے باقاعدہ طور پر بیس رکعت تراویح کا اہتمام کرنا شروع کیا۔

(۱)       چنانچہ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں: کنانقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر۔حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھتے تھے۔ (معرفۃ السنن للبیہقی ص ۳۶۷)

(۲)       عن ابی بن کعب ان عمر بن الخطاب امرہ ان یصلی باللیل فی رمضان فصلی بھم عشرین رکعۃ (کنزالعمال ۸؍۲۶۴)حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں رات کو (تراویح) پڑھائیں اس لیے انہوں نے لوگوں کو بیس رکعات پڑھائیں۔

دورِ عثمانی:

            حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ عہد فاروقی میں لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بھی، اور لوگ لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر سہارا لیتے تھے (السنن الکبریٰ ۴؍۲۹۲)اسی طرح علامہ عینی نے لکھا ہے وفی روایۃ لہ (سائب بن یزید) و علی عھد عثمانؓ و علیؓ مثلہ (البنیایۃ۳؍۱۰۱) کہ حضرت سائب بن یزید سے روایت کہ لوگ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی بیس رکعات پڑھتے تھے۔ دورِ فاروقی کی طرح عہد عثمانی میں بھی کسی نے بیس رکعت تراویح پر تنقید نہیں کی اور نہ اس کو بدعت کہا ہے، گویا اس دور میں سب مسلمانوں کا بیس رکعات تراویح پر اتفاق رہا۔

دورِ مرتضوی:

            اسی طرح دورِ مرتضوی (حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت) میں بھی اسی پر مواظبت رہی، حضرت علیؓ نے خود قرا کو بیس رکعت تراویح پڑھانے پر مامور فرمایا تھا۔ عن ابی عبدالرحمان السلمی عن علی قال دعا القراء فی رمضان فامرمنھم رجلا یصلی بالناس عشرین رکعۃ و کان علی یوتربھم (سنن کبریٰ اللبیہقی۲؍۴۹۶)کہ حضرت علیؓ نے قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑھایا کرے اور خود حضرت علیؓ لوگوں کو وتر پڑھاتے تھے۔

دیگر صحابہ کرام و تابعین کا عمل:

            دورِ خلفاء ثلاثہ کے علاوہ بعد کے ادوار میں بھی قریباً جمیع صحابہ کرام کا بیس رکعت پڑھنے کا عمل تھا۔ چنانچہ امام حسن بصریؒ عبدالعزیز بن رافع سے روایت کرتے ہیں:

(۱)       کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینۃ بعشرین رکعۃ ویوتر بثلاث (مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۲۸۵) ‘‘کہ ابی بن کعبؓ مدینہ منورہ میں رمضان مبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھایا کرتے تھے۔’’

(۲)       عن عطاء قال ادرکت الناس وھم یصلون ثلاثا و عشرین رکعۃ بالوتر (مصنف ابن ابی شیبہ۲؍۲۹۳) ‘‘حضرت عطاء بن ابی رباحؒ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھتے پایا ہے۔’’ اس روایت میں الناس سے مراد صحابہ کرام اور تابعین ہیں۔

اجماعی ثبوت:

            اور اسی پر صحابہ کرامؓ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے۔ چنانچہ علامہ بدر الدین العینیؒ نے لکھا ہے: والیہ ذھب من التابعین ابن ابی ملیکۃ، وعطاء وابو البختری والحارث الھمدانی و سعید بن ابی الحسن، اخوالحسن البصری و عبد الرحمان بن ابی بکر و غیرھم قال ابن عبدالبر وھو قول جمھور العلماء وبہ قال الکوفیون والشافعی واکثر الفقھاء وھو الصحیح عن ابی بن کعب من غیر خلاف من الصحابۃ (بحوالہ معارف السنن ۵؍۵۴۲)

            ابن قدامۃ نے المغنی کے ۱؍۸۰۲ پر لکھا ہے کہ (بحوالہ معارف السنن ۵؍۵۴۳)بے شک حضرت عمرؓ نے آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام کو رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت ابی بن کعبؓ کی اقتداء میں جمع کیا اور آپؓ نے ان کو ہر رات بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے اور کسی اس پر نکیر نہیں کی، گویا اسی پر ان کا اجماع ہوا، علامہ ابن قدامہؒ نے المغنی میں لکھا ہے کہ (صحابہ کرام کا نکیر نہ کرنا) اجماع کی طرح ہے۔

مذاہب اربعہ:

            جس طرح صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کا بیس رکعات تراویح پر اتفاق تھا۔ اسی طرح مذہب اربعہ میں بھی یہ مسئلہ اتفاقی ہے،کسی بھی مذہب کے امام نے آٹھ تراویح کا قول نہیں کیا۔

۱۔ امام ترمذی نے جامع ترمذی میں لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ‘‘رمضان المبارک کے مہینے میں قیام کا مسئلہ اہل علم کے ہاں مختلف فیہ ہے، بعض اہل علم وتر کے ساتھ اکتالیس رکعات کے قائل ہیں اور یہی اہل مدینہ کا قول ہے اور اسی پر ان کا عمل ہے، اور اکثر اہل علم بیس رکعت کے قائل ہیں اور یہ رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام مثلاً حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے مرویات کے موافق ہے، اور یہی سفیان ثوری ، عبداللہ بن مبارک اور امام شافعی کا قول ہے۔ اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ میں بیس رکعات پڑھتے دیکھا ہے۔ اور امام احمد حنبلؒ کا کہنا ہے کہ تراویح میں مختلف روایات ہیں (بیس سے لے کر اکتالیس تک) ۔ اور امام اسحاق فرماتے ہیں کہ ہم اکتالیس رکعت کو اختیار کرتے ہیں، اور یہی حضرت ابی بن کعبؓ کی روایت کے موافق ہے’’(جامع ترمذی۱؍۱۱۲) امام ترمذیؒ کی عبارت پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے زمانہ میں کہیں بھی کوئی جماعت یافرد مشہور آٹھ رکعت تراویح کا قائل نہیں تھا۔ ورنہ امام ترمذیؒ اس کا تذکرہ ضرور کرتے، ان کا ذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان ادوار میں آٹھ رکعات تراویح کا کوئی رواج ہی نہیں تھا۔ اور نہ لوگ آٹھ رکعات تراویح پڑھتے تھے۔

 شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ فرماتے ہیں:

            اس میں کوئی شک نہیں کہ بیس رکعات تراویح آنحضرت ﷺ سے محدثین کے اصول کے مطابق مرفوعاً صحیح طریقے سے ثابت نہیں اور جو روایت (بیس رکعات) کی عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے، محدثین کے اصول کے مطابق متکلم فیھا ہے۔ لیکن اس کے ثبوت سے انکار کرنا حضرت عمرؓ کے فعل اور صحابہ کرامؓ کے سکوت کی وجہ سے ممکن نہیں ان کا حضرت عمرؓ کے فعل کو قبول کرنے پر اتفاق کرنا نص کی طرح ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے ہاں اس فعل (بیس رکعات کی تراویح) کے لیے اصل موجود ہے(اوجز المسالک ۲؍۵۳۴)۔ اور یہی بات علامہ انور شاہ کشمیریؒ صاحب فتاویٰ تاتارخانیہ کے حوالہ سے نقل کرکے فرماتے ہیں:

            تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابو یوسفؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے سوال کیا کہ حضرت عمرؓ کے بیس رکعات کے اعلان کے لیے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کوئی اصل ہے امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ حضرت عمرؓ بدعتی نہیں تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بیس رکعات تراویح کے لیے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اصل موجود ہے اگرچہ وہ ہم تک قوی سند کے ساتھ نہیں پہنچی ہے۔ جب یہ بیس رکعات تراویح کا ثبوت آنحضرت ﷺ سے بنفس نفیس ثابت ہوا۔ جمیع صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ متجھدین سلفاً و خلفاً اسی پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں تو اس کے بعد آٹھ رکعت کا قائل ہونا، بیس رکعات کو بدعت اور ناجائز کہنا خرق للاجماع ہے۔        

احناف کی بعض کتابوں کے حوالہ جات کا جواب:

            اور جو حوالہ جات آنجناب نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمائے ہیں ان کے بارے میں لکھنے سے قبل یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں درج شدہ جزئیات میں سے صرف ان جزئیات کا اعتبار کیا جاتا ہے جو فقہا ء امت کے ہاں راجح ہوں یا ان کا تعلق ظاہر الروایۃ سے ہو، اس لیے جو جزئیات ان دونوں میں سے الگ ہوں تو وہ فقہ حنفی شمار نہیں ہوں گی۔ اس لیے اگر کسی حنفی عالم نے اس قسم کی کوئی بات لکھ دی ہو وہ اس کا تفرد اور ذاتی رائے شمار ہوتی ہے، فقہ حنفی شمار نہیں ہو گی۔

            آنجناب نے کتاب الآثار کے حوالہ سے جو عبارت نقل کی ہے اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ آپ ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھی تھی، اور نہ اس میں رمضان کا ذکر ہے، اس لیے اس کو تراویح کی تعداد کی دلیل میں پیش کرنا نا مناسب ہے۔ اس روایت کو امام محمدؒ نے باب الصلوٰۃ تطوعاً میں ذکر کیا ہے اس سے مراد قیام اللیل یعنی تہجد ہے جو رمضان وغیررمضان دونوں میں جائز اور مستحب ہے۔

ضروری تنبیہ:

۱۔         اگر آنجناب نے اس روایت سے استدلال اس لیے کیا ہے کہ اس میں لفظ کان ذکر ہے اور کان دوام اور استقرار کے معنی میں آتا ہے تو مقصد یہ ہوا کہ اس سے مراد صلوٰۃ تراویح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بھی آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ ‘کان’ عموماً اور کلیۃ استقرار کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ موقع اور محل کے اعتبار سے اس میں دوام پایا جاتا ہے ہر وقت دوام کے لیے نہیں ورنہ پھر اس روایت کے متصل روایت کہ کان عبداللہ بن عمرؓ یصلی التطوع علی راحلتہکا معنی ہو گا کہ عبداللہ بن عمرؓ ہمیشہ نفل سواری کے اوپر پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ آپؓ عموماً ایسا نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کیفیت آپؓ کی صرف حالت سفر میں ہوتی تھی کہ آپ سواری کے اوپر نفل پڑھتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ کان عموماً دوام کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ اور اس کے اور بھی نظائر موجود ہیں یہاں لفظ کان مضارع پر داخل ہوا مگر کسی نے دوام کا معنی نہیں لیا۔

۲۔        اسی طرح دوسرا جواب یہ ہے کہ آنجناب نے جو عبارت امام محمدؒ کی کتاب الموطا کے حوالہ سے نقل کی ہے وہ دراصل حضرت عائشہؓ کی روایت کا حصہ ہے، امام محمدؒ کا اپنا قول نہیں اور حضرت عائشہؓ کی روایت تہجد کی نماز پر محمول ہے۔

۳۔        اسی طرح امام ابن ھمامؒ کے حوالہ سے جو بات مکتوب میں نقل کی گئی ہے تو وہ ابن ھمامؒ کا اپنا اجتہاد اور تفرد ہے، اس کو علماء احناف نے قبول نہیں کیا ہے، اور میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ فقہ حنفی میں مذہب کے حوالہ سے انفرادی رائے قبول نہیں ہوتی۔

۴۔        اسی طرح آنجناب نے جو حوالہ عمدۃ القاری کا دیا ہے۔ اس میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ یہ احناف کی یا علامہ عینی ؒ کی رائے اور فتویٰ ہے، بلکہ علامہ صاحب تو تفصیلی بحث میں آنجناب کے حوالہ کے خلاف فرماتے ہیں۔ وقبل عشرون وحکاہ الترمذی عن اکثر اھل العلم فانہ روی عن عمرو علی وغیر ھما من الصحابۃ وھو اصحابنا الحنیفۃ۔ (عمدہ القاری۱۱؍۱۲۶)

            تراویح کی تعداد کے بارے میں ایک رائے بیس رکعت کی ہے۔ اور اسی کو امام ترمذیؒ نے اکثر اہل العلم سے نقل کیا ہے، اسی طرح حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہ کرام سے مروی ہے اور یہی ہمارے احناف کی رائے ہے۔

۵۔        اسی طرح یہی حال ملا علی قاریؒ کے مرقات کے حوالہ کی ہے، اگر چہ اختلاف فی المسئلہ کے بیان میں انھوں نے آٹھ کا ذکر کیا ہے، لیکن وہاں یہ بھی فرماتے ہیں: لکن اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ (مرقات۳؍۳۸۲) کہ بیس رکعت تراویح پر تمام صحابہ کرام متفق ہو چکے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکتوب میں درج شدہ حوالہ کی عبارت ملا علی قاریؒ کا فتویٰ یا رائے نہیں۔

۶۔        اسی طرح آنجناب نے علامہ عبدالحئی کے التعلیق الممجد کا حوالہ دیا ہے، اس حوالے کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے بناء بر حکایت حدیث ۱۱ رکعات نقل کی ہے لیکن اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ علامہ کی رائے ہے بلکہ علامہ صاحب دونوں طرح کی روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔     

            ‘‘حضرت عائشہؓ کی روایت کی صحت اور ابن عباسؓ کی روایت کے ضعف میں کوئی شک نہیں لیکن راجح کو لینے اور مرجوع کو ترک کرنے کا سوال تب پیدا ہو گا جب دونوں میں ایسا تعارض ہو کہ دونوں کا جمع کرنا ممکن ہی نہ ہو، اور یہاں جمع کرنا ممکن ہے وہ اس طرح کہ حضرت عائشہؓ کی روایت غالب احوال کے متعلق ہے جیسا کہ علامہ بابی ؒ نے موطا کی شرح وغیرہ میں لکھا ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت أحیاناً کے متعلق ہے۔(التعلیق المجد علی الموطا للامام محمد ۱؍۲۶۱)

۷۔        اسی طرح یہی حال آنجناب کے العرف الشذی کے حوالہ کا ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ نے اگرچہ آٹھ رکعات کا ذکر العرف الشذی میں کیا ہے مگر اس میں یہ کہیں نہیں کہ یہ حضرت شاہ صاحبؒ کی ذاتی رائے یا انھوں نے اس کو احناف کی طرف منسوب کیا ہے۔ بلکہ انھوں نے تو آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کو سخت الفاظ سے یاد فرمایا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: واما من اکتفی بالرکعات الثمانیۃ و شذعن السواد الاعظم وجعل ترمیھم بالبدعۃ فلیرعاقبتہ(فیض الباری۳؍۱۸۱)

            کہ جو آٹھ رکعات پر اکتفا کرتا ہے تو گویا اس نے سوادِ اعظم سے علیحدگی اختیار کی اور جو ان (بیس رکعات تراویح کے قائلین) کو بدعتی کہتے ہیں وہ اپنی عاقبت(انجام) کو دیکھ لے۔

            علیٰ ہذا القیاس یہی حال ان ـحوالجات کا بھی ہے جو آنجناب نے مکتوب میں احناف کا مذہب ظاہر کرتے ہوئے تحریر فرمائے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ذاتی طور پر مذہباً آٹھ رکعات تراویح کا قائل نہیں اور اگر بالفرض کوئی ہو بھی تو وہ اس کی ذاتی انفرادی رائے ہو گی، مذہب کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں، ان کی ذاتی رائے کو ہم جمہور کی رائے اور ترجیح کے مقابل بلا ضرورت نہیں قبول کر سکتے۔

            اس لیے یہ واضح ہو کہ آٹھ رکعات تراویح نہ صحابہ کرامؓ کا مذہب رہا ہے اور نہ اسلاف و اخلاف کا اور نہ مذاہب اربعہ میں سے کوئی آٹھ رکعات کا قائل ہے۔ بلکہ یہ آٹھ رکعات تہجد کی نماز ہے جو آنحضرت ﷺ رمضان اور غیر رمضان دونوں میں پڑھا کرتے تھے اگر اس کو تراویح قرار دیا ہے تو تراویح تو صرف رمضان میں ہوا کرتی ہے، غیر رمضان میں نہیں ہوتی جبکہ حضرت عائشہؓ کی روایت میں رمضان اور غیر رمضان دونوں میں آٹھ رکعات کا ذکر ہے۔ حضرت عائشہؓ کی یہی تصریح واضح کرتی ہے کہ اس روایت کا تعلق قیام اللیل (تہجد) کے ساتھ ہے۔ اور تراویح الگ نمازہے جس کی تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے جو بروایت عبداللہ بن عباس ذکر ہوا اور خلفاء راشدین ، صحابہ کرام اور تابعین کے تعامل سے بیس رکعات ثابت ہے۔

وھوالموفق(مفتی) ابوطلحہ مختار اللہ حقانی

خادم دارالافتاء والتدریس بجامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک

(۲؍رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ)