موٹيويشنل سپيكرز اور عارف انيس

مصنف : منصور ندیم

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : فروري 2023

قاسم علی شاہ، کو تو کیا، اس قبیل کے کسی بھی موٹیویشنل سپیکر کو میں بالکل پسند نہیں کرتا، مگر قاسم علی شاہ میرے نزدیک اور لوگوں کی نسبت قدرے کم نقصان دہ ہے، یعنی جیسے مثال لے لیں عارف انیس صاحب کی، عارف انیس صاحب کا کاروبار کیا ہے، شائد بہت کم لوگ جانتے ہونگے، چلیں اسے بھی رہنے دیتے ہیں۔ عارف انیس صاحب دنیا میں ہونے والے کسی بھی بڑے ایونٹ کے یا کوئی بھی ہائی لائٹ ہونے والی خبر کو اپنی ذات سے جوڑ کر ایک کہانی سنا دیتے ہیں، جیسے بیٹری بنانے والے احمدی خاندان کے پاکستانی فیملی کے اس فرد کو جو اپنی شناخت خود پاکستانی نہیں بتانا چاہتا، اس کو پاکستانی ٹائٹل کے ساتھ ایک کارنامہ بتانے پر مضمون، پھر بل گیٹس کے لئے ایک عجیب و غریب حقائق کا مضمون لکھا جائے۔ چند گھنٹوں کے بعد مجبور ہوکر ڈیلیٹ کردیا۔ اسی وقت ایک تصویریں کھینچنے والے نے بھی بل گیٹس کو پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کو پولیو کے مرض کی ویکسین فراہم کرنے والا لکھ ڈالا، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایسے ڈھکنوں کے یہاں اتنے طرف دار بھی ہیں کہ ان کی غلط باتوں پر بھی واہ واہ کے رقص شروع ہو جاتے ہیں۔ اس بیچارے کو یہ نہیں پتہ تھا کہ زمانوں سے ویکسین ہمیں امارات کی جانب سے ملتی ہے، بل گیٹس تو کئی زمانوں بعد اقوام متحدہ کی جانب سے اس عہدے پر آیا ہے، اور اسی ضمن میں بل گیٹس پچھلے برس پاکستان آیا تھا (بل گیٹس کی خدمات کا انکار مقصود نہیں ہے)، صرف پاکستان میں پولیو ویکسین کے حقائق کی بابت لکھا ہے۔
 عارف انیس صاحب دنیا بھر میں کہیں کچھ ہورہا ہو کوئی ایونٹ کوئی واقعہ، وہ اس کی نسبت اپنی ذات سے بتانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے برطانیہ میں خصوصاً انڈین کمیونٹی کے ہونے والے کلچرل ایونٹس کے ڈنرز میں جہاں برطانیہ کی معروف شخصیات آتی ہیں، وہاں یہ پہنچ کر اکثر ان شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوا کر پھر موقع مناسبت کے اعتبار سے وہ تصویر لگا کر ایک افسانوی کہانی گھڑتے ہیں، جس میں اکثر اعداد وشمار مکمل غلط ہوتے ہیں۔ یقین کریں انڈین کمیونٹی کے برطانیہ میں ہونے والے کلچرل ایونٹس اگر نہ ہوتے تو شائد آپ میں سے کوئی بھی عارف انیس کو نہ جانتا، جیسے مارون سیریز پر میں نے خود دوسال پہلے پوسٹ لکھی، مگر جیسے ہی مارون سیریز معروف ہوئی انہوں نے اس میں اپنی ذات کا تڑکہ لگادیا۔ پچھلے دنوں جمائما کی فلم پر بھی تڑکہ لگادیا، ابھی موصوف حال ہی میں سعودی عرب میں عمرہ کرنے آئے، انہوں نے یہی سب کیا۔ میرا ایک سوال ہے جو شخص پوری دنیا بھر کی معروف شخصیات کو جانتا ہے، جو فٹبال کا میچ دیکھنے ہسپانیہ کی گلیوں میں پہنچ جائے، جو برطانیہ کے ہر آنے والے وزرائے اعظم کو پہلے سے دوستوں کی طرح جانتا ہو، جو امریکا کے گلوکار، اداکار، سماجی شخصیات، دنیا کی معروف ہر شخصیت کو جانتا ہو، اسے سعودی عرب میں کوئی پروٹوکول کیوں نہیں ملااسے کسی پاکستانی کمیونٹی نے مدعو نہیں کیا، وہ کسی عرب معروف شخصیت سے کیوں نہیں ملا، اس کی سادہ سی وجہ یہی ہے کہ اگر یہ انڈین کمیونٹی کے کلچرل ڈنر میں نہ جائے تو اس کے پلے کچھ بھی نہیں۔ ورنہ سعودی عرب میں اسے کوئی پروٹوکول کسی شخصیت سے ملاقات، پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ دعوت و عشائیے، آہ کچھ بھی نہیں۔ اتنی خاموشی سے اس لئے کہ یہاں وہ ایسا کچھ کرنے کا موقع نہیں ملتا جس کی بنیاد پر وہ تصویر کھنچوا کر کوئی پوسٹ لکھ سکے، جیسے وہ بل گیٹس سے لے کر حالیہ وزیر اعظم برطانیہ کو صرف تصویر کھنچوانے سے زیادہ بالکل نہیں جانتا، مگر یہاں یہ تصویر سے بھی محروم رہا۔
 اب ان شخصیات کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی پسندیدگی دو طبقات میں ہے، ایک طبقہ جو انہیں ان کی سوشل میڈیا پر دی گئی آئیڈیالوجی کو پسند کرتا ہے، میرے خیال میں وہ طبقہ بہرحال اپنی رائے رکھنے میں اور انہیں پسند کرنے میں حق بجانب ہے، مگر سوچیں جو طبقات ان کے اصل حقائق بھی جانتا ہے، جو خود برطانیہ یا ان ملکوں میں رہتے ہوئے بھی ان کی خوشامد کرتے ہیں، آپ ان کے لئے کیا رائے رکھیں گے؟ خیر یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ کہ یہ ایسا کچھ نہیں کرتے مگر یہ سب کرکے اپنے لئے
 بہت کچھ کرتے ہیں ۔
 خیر بات ہورہی رھی تھی، قاسم علی شاہ کی، دراصل قاسم علی شاہ کی ملاقات اگر مہاتما عمران خان سے کامیاب رہتی، تو یقین کریں اہل یوتھ قاسم علی شاہ کی روحانی ولدیت سے کم پر گزارہ نہیں کرتے، کیونکہ کل تک ان کے روحانی ولدیت کے خانے میں جنرل باجوہ صاحب بھی تھے، ان سے ان کی ناراضگی فقط مہاتما کے لئے ہے، کسی اصول کے لئے نہیں ہے، بالکل ویسے ہی قاسم علی شاہ کی آج کل یہ جس طرح اصول سے ہٹ کر گھٹیا طرز میں فیملی کے لئے بھی تکذیب کررہے ہیں، اس سے ان کی جہالت آشکار ہوتی ہے، میں قاسم علی شاہ کو بالکل پسند نہیں کرتا، مگر میں کسی صورت بھی اس شخص کی فیملی پر کیچڑ اچھالنے والوں کے ساتھ نہیں کھڑا ہوسکتا۔ میں سخت ترین تنقید قاسم علی شاہ پر کرسکتا ہوں، مگر اصول وہی ہے کہ میں ایسے موٹیوشنل اسپیکر کو معاشرے کے لیے درست نہیں سمجھتا، اور ان کے مضمرات بتانے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ کسی فرد سے اختلاف کی بنیاد پر اس کی فیملی پر بات کی جائے۔ مگر افسوس ہوتا ہے کہ یہ موٹیوشنل اسپیکرز کی ایسی پسندیدگی دیکھ کر جب اسکول و کالج کے بچے موٹیوشنل اسپیکر کو بطور پروفیشن اپنانا چاہتے ہیں۔
 یعنی موٹیوشنل اسپیکر کیا پروفیشن بھی ہوسکتا ہے؟ المیہ ہے کہ ان چند لوگوں نے اسے بطور پیشہ بنا ڈالا ہے۔ 

نقطہ نظر
موٹیویشنل سپیکر اور عارف انیس
منصور ندیم