بچے بگڑتے کیوں ہیں؟

مصنف : سراج الدین ندوی

سلسلہ : تربیت اطفال

شمارہ : ستمبر 2005

(بچوں کا بگاڑ اور ان کی اصلاح)

تحریر: سراج الدین ندوی ؍ انتخاب: خدیجہ اظہار

            آپ کے صحن میں ایک پودا اگ آیا، آپ نے اس پودے کے اوپر کوئی وزنی چیز رکھ دی۔ اب کچھ مدت کے بعد آپ وہ وزنی چیز اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ پودا ٹیڑھا ہو چکا ہو گا۔ اب یہ پودا جوں جوں بڑھتا جائے گا، اس کا ٹیڑھا پن اور زیادہ نمایاں ہوتا جائے گا۔ پیڑ بڑا ہونے کے بعد اب سیدھا نہ ہو سکے گا۔ البتہ اگر آپ ابھی سے اس پودے کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو بڑی حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے کہ جو بچے کے ساتھ پیش آتی ہے۔ اگر بچے کے فطری و جبلی تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو اس میں کج روی پیدا ہونا ضروری بات ہے۔ اور اس کج روی کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا مناسب نہیں کہ جب بچہ بڑا ہو گا اور اپنے اچھے برے کو سمجھنے لگے گا ، تو اس عادت سے باز آجائے گا۔ یہ انداز فکر بچے کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہے۔ کم سنی کے عالم میں بچے کی تربیت کی اہمیت اور افادیت کا بھر پور خیال ہی بچے کو شائستہ و سلیقہ مند بنا سکتا ہے۔

            بچہ ایک سادہ کاغذ کے مانند ہوتا ہے، جس پر والدین اور گرد وپیش کا ماحول جو کچھ نقش کرتا ہے، وہ نقش ہو جاتا ہے او ریہ نقوش بہت نمایاں اور پائیدار ہوتے ہیں۔ اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بچے کے ذہن و دماغ میں کوئی غلط بات نہ بیٹھ سکے اور اس کی عملی زندگی میں کوئی کج روی پیدا نہ ہو سکے۔ اگر آپ اپنے بچے میں کسی بگاڑ کو دیکھیں تو اول فرصت میں، اس کے سبب کا سراغ لگا کر ازالے کی فکر کریں، ورنہ پھر بچے کا سدھرنا مشکل ہو جائے گا۔ ذیل میں ہم بگاڑ کے اہم اسباب اور ان کے تدارک پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

والدین کی باہمی رنجش        

والدین یا گھر کے افراد کی باہمی رنجش بچے کے بگاڑ کا ایک بڑا محرک ہوتی ہے۔ جب بچہ اپنے ماں باپ کو یا قریبی افراد کو لڑتے جھگڑتے دیکھتا ہے، روزانہ ان کی تو تو، میں میں، سنتا ہے تو وہ مختلف ذہنی و اخلاقی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ گھر کے افراد کے باہمی تعلقات خوش گوار نہ ہوں تو بچے کا بگڑ جانا یقینی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں گھر کی اصلاح کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر توجہ دینا چاہیے اور عجز و انکسار سے کام لے کر گھر کے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھنا چاہیے۔

غلط نمونہ

بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ بچے کے سامنے غلط نمونہ پیش کیا جائے۔ جب بچہ اپنے بڑے کو کوئی غلط کام کرتے دیکھتا ہے، تو اسے وہ کام کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا، بچہ اپنے ماں ، باپ، بھائی، بہن اور اساتذہ کی عادتوں کو شعور ی و غیر شعوری طور پر اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے بچے کے سامنے اپنی عملی زندگی سے کوئی غلط نمونہ پیش نہ کیجیے۔ اپنی زندگی میں دو رخے پن اور بے عملی کو کوئی جگہ نہ دیجیے اور بچے کو ایسے ماحول سے بچائے رکھیے، جہاں بچے کے سامنے کسی بڑے کا غلط نمونہ سامنے آ سکتا ہو۔

بری صحبت

            بری صحبت بچے کو یقینی طور پر بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ حساس اور شریف الطبع والدین کے بچے بھی بری صحبت میں بگڑ جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے اچھے ہم عمر ساتھیوں کا انتخاب کیجیے۔ اور انھیں صالح ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع دیجیے۔ بری صحبت سے بچانے کے لیے بچوں کو تنہائی و گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے پر آمادہ نہ کیجیے۔ تنہائی و گوشہ نشینی کی زندگی بھی بچے کو بہت سے اخلاقی و ذہنی امراض میں مبتلا کر سکتی ہے۔ متوازن شخصیت کی تعمیر کے لیے اچھے ساتھیوں کی صحبت بھی ضروری ہے۔

صحت پرور مشاغل کا فقدان  

            بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے اس کے جسمانی قویٰ میں نشوونما کی رفتار بھی بڑھنے لگتی ہے۔ اسی رفتار کے تناسب سے بچے کو صحت پرور مشاغل اور دلچسپ مصروفیات درکار ہوتی ہیں۔ اگر بچے کو اس عمر میں صحت پرورمشاغل مہیا نہ کیے جائیں اور ماحول کو دلچسپ مصروفیات کے لیے سازگار نہ بنایا جائے، تو بے کاری کی وجہ سے بچے کے بگڑنے کا پورا احتمال موجود رہتا ہے۔ اس صورت میں مناسب ہو گا کہ اپنے بچے کے لیے عمر اور صلاحیت کے مطابق دلچسپ اور تعمیری مشاغل فراہم کریں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کا بچہ ان مشاغل میں مصروف ہو کر بہت سی بری عادتوں سے دور ہوتا جا رہا ہے اور اس میں بہت سی خوبیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔

نقصان پر نامناسب ڈانٹ ڈپٹ

            بچے میں خود تجربہ کرنے کا داعیہ فطری طور پر موجود ہوتا ہے۔ اس تجرباتی دور میں بچے سے اگر کوئی نقصان ہو جائے تو اس پر برافروختہ نہ ہوئیے، بلکہ بچے کی شخصیت کی تعمیر کے لیے اس نقصان کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لیجیے مثلاً: آج ہی آپ ٹیپ ریکارڈر لے کر آئے، کئی بار اس کو آپ نے آن اور آف کیا، کئی بار آواز آہستہ اور بلند کی، پھر آپ گھر سے باہر چلے گئے، ٹیپ آپ کی میز پر رکھا ہوا ہے، کمرے میں صرف آپ کا ٹیپ ہے اور ‘‘منا’’ ہے۔ منا بھی اس کو آپ کی طرح آن کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ سوئچ ادھر ادھر گھماتا ہے، الٹے سیدھے بٹن دبانے سے ٹیپ میں کچھ خرابی آجاتی ہے۔ اسی دوران میں آپ کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ ٹیپ ہاتھ میں لے کر آن کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ٹیپ سے کوئی آواز نہیں آ رہی ہے، آپ منے پر برس پڑتے ہیں۔ خوف سے اس پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ غور کیجیے یہاں پر آپ نے بچے کی تجرباتی صلاحیت کا خون کیا ہے۔ اب بچہ کوئی بھی نیا تجربہ کرنے سے گریز کرے گا۔ جس کے نتیجے میں اس کے اندر نکما پن پیدا ہو جائے گا۔ بچے پر برافروختہ ہوتے وقت آپ یہ بھول گئے کہ آپ بھی تجربہ کرتے وقت بہت سے نقصانات کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے بچے کے جائز تجربہ و تجسس سے چشم پوشی کیجیے البتہ اگر آپ یہ دیکھیں یا محسوس کریں کہ بچے کا کوئی تجربہ نادانی کی وجہ سے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے تو اسے محبت اور نرمی سے روکیے۔

فطری تقاضوں کی عدم تکمیل 

            اگر بچے کے جبلی تقاضوں کی تکمیل نہ کی جائے اور فطری خواہشوں کو جائز طور پر پورا نہ کیا جائے تو اس کا قوی اندیشہ رہتا ہے کہ بچے غلط طریقے سے اپنی فطری خواہشوں کو پورا کریں، لہٰذا آپ بچے کے فطری تقاضوں کی تکمیل کا بھرپور اہتمام کریں۔ البتہ غیر معمولی لاڈ پیار سے بچے کو بگڑنے نہ دیجیے۔ زیادہ لاڈ پیار بھی بچے کو بگاڑ دیتا ہے۔ اس سلسلے میں توازن و اعتدال کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ ذرا سی بے اعتدالی بھی بچے کو بگاڑ سکتی ہے۔

احساس محرومی

            بعض بچے ماں باپ کی جائز محبت و شفقت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں اور یہ محرومی ان کے اندر بہت سی ذہنی و اخلاقی بیماریوں کا موجب بن جاتی ہے۔ بچہ اپنے ماں باپ سے بجا طور پر محبت و ناز برداری کی توقع رکھتا ہے اور جب اس کی توقع پوری نہیں ہو پاتی تو اس میں جھنجلاہٹ اور ہیجانی کیفیت کا پیدا ہو جانا فطری بات ہے۔ ایسی صورت میں آپ اپنے بچے سے غیر مشروط محبت کیجیے، وہ آپ کی محبت کا بھوکا ہے، اپنی عملی زندگی سے اسے اپنے پیار اور محبت کا یقین دلائیے۔ یہ پیار اور محبت بہت سی خرابیوں کا کامیاب ترین علاج ہے۔

رویوں کی اصلاح

            اگر بچہ آپ کے رویے یااپنی کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے احساسِ کمتری کا شکار ہو کر بگڑنے لگا ہے، تو فوراً اپنے رویے کی اصلاح کیجیے۔ کسی بات پر چڑانا، بات بات پر ٹوکنا، تحقیر و تذلیل کا رویہ اختیار کرنا بچے کے اندر احساس کمتری کو پیدا کر دیتا ہے اور یہ احساس کمتری بہت سے نقائص کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

معیاری خیالات کا فقدان

            گھر کے ماحول میں اگر معیاری اور اعلیٰ تصورات موجود نہ ہوں، بلکہ غیر معیاری اور پست خیالات پائے جاتے ہوں۔ تو بچے سے بلند کردار کی امید رکھنا، جو بو کر گیہوں کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ ایسے ماحول کے پروردہ بچے میں سفلی پن پایا جانا لازمی ہے۔ بہتر کردار کی تشکیل کے لیے گھر کے ماحول کا اعلیٰ تصورات اور بلند خیالات سے معمور ہونا ضروری ہے۔

تعلیمی نظام کا بگاڑ

            تعلیم و تربیت کا موجودہ نظام بچوں کے بگاڑ کا اہم سبب بنا ہوا ہے۔ نصابی کتب میں اخلاقی مواد کی کمی اور بے مقصد مواد کی بہتات، تعلیم گاہوں کا ماحول، اساتذہ و طلبہ کے باہمی تعلقات کی ناخوش گواری وغیرہ جیسے اسباب سے موجودہ درس گاہیں بگاڑ کے اڈے بن گئی ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کے تعلیمی نظام کی اصلاح کی کوشش میں بھر پور حصہ لینا چاہیے۔ اور اپنے بچوں کے لیے ایسی درس گاہوں کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں مذکورہ خامیاں نسبتاً کم ہوں۔

(بحوالہ:‘‘بچوں کی تربیت کیسے کریں؟’’)

٭٭٭