دو منظر ، دو سوال

مصنف : حافظ محمد ابراہیم شیخ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2005

یہ لاہور ہے

 پہلا منظر

میں کچھ عرصہ قبل ایک رات سو نے سے محرو م رہا حالانکہ نہ میری طبیعت خراب تھی اور نہ ہی کوئی اور پریشانی۔ البتہ اتنی سی بات ضرورتھی کہ اہل محلہ قریبی گراؤنڈ میں پورے خشوع و خضوع یعنی پورے شور و غل سے"محفل میلاد "منا رہے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز اتنی بلند تھی کہ خدا کی پناہ.... مجھ جیسے خاموشی میں سونے والے شخص کو بھلا نیند کیسے آتی؟چنانچہ مجبوراً بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ رات کی آخری گھڑی میں آنکھ لگی ہی ہو گی کہ فجر کے لیے الارم بج پڑا۔

فجر کی نماز کے لیے گیا تو عجیب منظر دیکھا۔ گراؤنڈ روشنی میں نہارہی تھی۔ کچھ لوگ رات کے بچے ہوئے "شاندار" کھانے سے فجرانہ کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف مسجد میں ،جو اسی گراؤنڈ کے بالمقابل تھی، معمول کے چند نمازی تھے۔ حالانکہ عشاء کی نماز کے بعد جب میں نے دیکھا تھا تو گرؤانڈمیں حاضرین کی تعداد ہزار سے زیاد ہ ہی تھی۔

ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ ،کیا فرض نمازوں کی اہمیت اب محفل میلاد سے بھی کم ہو گئی ہے؟ کیا اصحاب میلاد وہ فرمان نبوی ﷺ بھول گئے ہیں کہ جس میں آپؐ نے عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کو پوری رات کی عباد ت کے برابر ٹھہرایا ہے۔ وہ نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ ﷺ کا میلاد مناتے ہوئے ان ہی کے فرامین کو بھول گئے کیا؟یہ بھی بھول گئے کہ جس نبی ﷺ نے نمازی کے پاس باآواز بلند قرآن کی تلاوت سے منع فرمایا ہے وہ اپنی شان میں ایسی بلند آوازسے نعت خوانی کہ جس سے اہل محلہ اذیت کا شکا ر ہو جائیں کیا خوش ہوں گے؟

 اس تحریر سے "میلاد" کی مخالفت مقصود نہیں ۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان کو پوری آزادی ہے کہ وہ نبی ﷺ سے اپنی محبت و عقیدت کا جتنا چاہے اظہار کرے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا غیر شائستہ انداز میں کیا جانے والااظہارِ عقیدت اور ایذا سے بھرپور شور و غل پیدا کرنے والی نعت خوانی جائز بھی ہے یا نہیں؟میرا ناقص علم تو اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے تاہم ، مجھے اہل علم کے آراو فتاویٰ کا انتظار رہے گا۔

دین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میری آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں کسی دوسرے کی آزادی متاثر ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سگریٹ نوشی اپنی ذات میں کوئی حرام کام نہیں ہے لیکن چونکہ اس کا دھواں ددوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے لہٰذا اپنی اس ‘‘ضرررسانی’’ کی بدولت اسے public places پر ممنوع قرار دیا جائے گا۔

دوسرا منظر

مجھے یا د آ رہا ہے کہ ایک رات اور بھی ایسی گزری تھی جس میں اسی طرح کے شور و غل کے باعث میں رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتا رہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس رات کا شورو غل تو محفل میلاد کے شور سے بھی کئی گنا زیادہ تھا۔ کیونکہ محفل میلاد تو صرف گراؤنڈ میں منائی جا رہی تھی جبکہ یہ ‘‘خاص محفل’’ تو ہر گھر کی چھت پر منائی جا رہی تھی۔ جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے ہیں ، میں ‘‘بسنت نائٹ’’ کا رونا ہی رو رہا ہوں۔

میں مالی لحاظ سے ایک متوسط درجے کا آدمی ہوں چنانچہ ایک متوسط علاقے ہی میں رہتا ہوں۔5,5 مرلے کے چھوٹے گھروں والے علاقے میں جب ہر گھر کی چھت سے کم از کم ایک ڈیک تیز آواز میں بج رہا ہو تو نیند کیا خاک آئے گی؟یہاں بھی بسنت کے جواز اور عدم جواز کی بحث مقصود نہیں بلکہ میرا اعتراض یہاں بھی وہی ہے جومحفل میلاد پر تھا۔بسنت کے نام پر آپ جشن بہاراں منائیے اور خوب منائیے۔ آپ کو مکمل آزادی ہے لیکن میر اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا کیا قصورہے کہ جنہیں رات جاگنے پر مجبور کیا جاتا ہے؟

قارئین کرام، اس تحریر کا مقصد میلاد اور بسنت پر بحث نہیں بلکہ ان دو سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ کیا کچھ لوگوں کو اپنی آزادی کے نام پر دوسروں کی آزادی کوسلب کر لینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے؟ اور دوسرے یہ کہ اگر دین کے نام پر مذہبی محفل میں شوروغل برپاکرناجائزہے توپھرمیں ‘‘بسنت نائٹ’’ کے غل کو کس منہ سے اور کس دلیل سے ناجائز قرار دوں؟