موت کی دستک

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2017

موت ہر آدمی کے گھر دستک دیتی ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ موت پہلی دستک کے بعد ہی گھر میں داخل ہو جاتی ہے اور آدمی کی روح کو قبض کر لیتی ہے - وہ اچانک دنیا کے امتحان گاہ سے نکال کر آخرت میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنے اعمال کا انجام پائے 
اچانک موت کا یہ معاملہ مختلف صورتوں میں پیش آتا ہے - مثلا دل کا تیز دورہ پڑا اور فوری طور پر آدمی کی موت واقع ہوگئی - سڑک پر سخت حادثہ پیش آیا اور ایک لمحہ کے اندر زندہ انسان مردہ انسان میں تبدیل ہو گیا - کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان صحت کی حالت میں رات کو سویا اور صبح ہوئی تو بستر پر صرف اس کی بے جان لاش پڑی ہوئی تھی ۔ اچانک موت بلاشبہ بے حد سنگین موت ہے کیونکہ آدمی کو اس میں یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ موت سے پہلے اپنی غلطیوں کی تلافی کر سکے۔دوسری صورت وہ ہے جب کہ موت بار بار ایک آدمی کے گھر دستک دیتی ہے لیکن اندر داخل ہونے سے پہلے ہی وہ لوٹ جاتی ہے - اس واپسی کی مختلف صورتیں ہیں - مثلا آدمی بیمار ہو کر اچھا ہو جائے ۔ سخت حادثہ پیش آ جانے کے باوجود وہ موت سے بچ جائے - اس کے اوپر حملہ کیا جائے لیکن حملہ آور کا نشانہ خالی چلا جائے، وغیرہ۔یہ دوسری قسم آدمی کو بار بار موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے بارے میں سوچے ۔ وہ اپنی زندگی پر نظر ثانی کرے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے زیادہ صحیح زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے ۔ موت کا آپ کے دروازے پر دستک دے کر چلے جانا گویا اس بات کا الارم ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ جلد ہی تمہارا آخری وقت آنے والا ہے اپنی اصلاح کر لو، اس سے پہلے کہ اصلاح کا وقت ہی باقی نہ رہے ۔ ہر آدمی موت کی زد میں ہے ۔ کوئی بھی چیز آدمی کو موت سے بچانے والی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی آج مرنے والا ہے اور کوئی وہ ہے جس پر کل کے دن موت آئے گی ۔ موت کی یاد سے بہتر کوئی معلم انسان کے لئے نہیں ۔
انتظار بھی حل ہے
مختلف زبانوں میں جو مثلیں مشہور ہیں وہ دراصل لمبے انسانی تجربات کے بعد بنی ہیں  ان میں سے ہر مثل کامیابی کا ایک یقینی فارمولہ ہے اس طرح کی ایک انگریزی کہاوت یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ انتظار کرو اور دیکھو
(ویٹ اینڈ سی)امریکہ کا مشہور رائٹر ڈیوڈ تھارو 1817 میں پیدا ہوا اور 1862 میں اس نے وفات پائی ۔اس کا ایک قول ہے کہ ہیرو وہ ہے جو یہ جانے کہ کہاں انتظار کرنا ہے اور کہاں جلدی کرنا ہے ۔ ہر بھلائی اس انسان کے حصہ میں آتی ہے جو دانش مندانہ طور پر انتظار کرے:
زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب کہ آدمی کو فوری طور پر ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے تاہم اگر آدمی فوری فیصلہ کرنے میں چوک جائے تو اس کے بعد اس کے لئے جو چیز ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ گھبرا کر یا جلد بازی میں بے فائدہ کارروائیاں کرنے لگے اب اس کو انتظار کرنا چاہئے ۔ عقلمند وہ ہے جو اس فرق کو جانے کہ کب فوری فیصلہ لینا ہے اور کب معاملہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال دینا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انتظار بھی ایک عمل ہے ۔ انتظار کرنا کوئی سادہ بات نہیں ۔ انتظار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے معاملہ کو فطرت کے نظام کے حوالہ کر دیا ہے وہ خدا کے فیصلہ کا منتظر بن گیا ہے۔
اگر وقت پر صحیح فیصلہ لینا کامیابی ہے تو ناموافق حالات میں انتظار کی پالیسی اختیار کرنا بھی کامیابی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ایک کا نتیجہ حال میں نکلتا ہے اور دوسرے کا نتیجہ مستقبل میں ۔
دین میں غلو
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے - اس کا ترجمہ یہ ہے: دین میں غلو سے بچو(ایاکم والغلو) کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے، وہ دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہو گئے(مسند احمد، حدیث نمبر 3248) ۔ غلو کا لفظی مطلب انتہا پسندی ہے ۔انتہا پسندی ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہے  اصل یہ ہے کہ دین کے دو حصے ہیں ایک ہے بنیادی حصہ(basics)، اور دوسرا ہے جزئی حصہ(non-basics) - دین کے بنیادی حصے پر اگر زور دیا جائے تو اس سے دین میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو گی - لیکن جب دین کے غیر بنیادی حصہ پر زور دیا جانے لگے تو اسی سے غلو پیدا ہوتا ہے، اور تباہی کا ذریعہ بن جاتا ہے - مثلاً دین میں اصل اہمیت روح(spirit) کی ہے، اور اس کا جو فارم(form) ہے، وہ اصل کے مقابلے میں جزئی حیثیت رکھتا ہے - مثلاً نماز میں خشوع کی حیثیت بنیادی ہے، اور نماز کا جو فارم ہے، وہ اس کے مقابلے میں غیر بنیادی حیثیت رکھتا ہے - اگر نماز کے فارم پر بہت زیادہ زور دیا جانے لگے، اور اسی پر نماز کے ہونے یا نہ ہونے کا انحصار قرار پائے تو یہ غلو ہو گا ۔ اس غلو کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ نماز کے فارم پر تو بہت زیادہ دھیان دیں گے، لیکن نماز کی روح ان کے یہاں عملاً غیر اہم بن جائے گی ۔ اسی شدت پسندی کو حدیث میں ہلاکت کہا گیا ہے ۔
دین کی روح ہمیشہ ایک ہوتی ہے البتہ دین کے فارم میں فرق ہوتا ہے ۔ دین کی روح پر اگر زور دیا جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا لیکن اگر اس کے فارم پر زیادہ زور دیا جانے لگے تو فرقے پیدا ہو جائیں گے کیونکہ روح میں یکسانیت ممکن ہے، لیکن فارم کے معاملے میں تعدد(diversity) کے اصول کو مان لیا جائے یعنی یہ بھی درست اور وہ بھی درست مثلاً نماز میں آمین بالسر بھی درست اور آمین بالجہر بھی درست  مصافحہ میں، ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست اور دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست، وغیرہ ۔ اگر فارم میں تعدد کے اصول کو مان لیا جائے تو دین میں کبھی فرقہ بندی نہیں ہو گی ۔
مسئلہ اور غم
کوئی آدمی جب بھی کسی مسئلہ سے دو چار ہوتا ہے تو ایسا ہمیشہ فطرت کے قانون کے تحت ہوتا ہے ۔ لیکن مسئلہ کو اپنے لئے ایک غم بنا لینا یہ انسان کا اپنا اضافہ ہے ۔ ابتدائی طور پر کوئی مسئلہ صرف ایک مسئلہ ہوتا ہے ۔ لیکن جب آپ مسئلہ پیش آنے پر غم میں مبتلا ہو جائیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ نے فطرت کے واقعہ پر اپنی طرف سے ایک غیر مطلوب اضافہ کر دیا ۔مسائل کے مقابلہ میں یہی انسان کی اصل غلطی ہے ۔ یہ غلطی بے حد سنگین ہے کیونکہ وہ مسئلہ کے حل میں معاون تو نہیں بنتی، البتہ وہ اس کے حل میں ایک فیصلہ کن رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی رسی میں گرہ پڑنے کے بعد اس کو اور زیادہ کس دیا جائے ۔آدمی کو یہ بات جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں وہ تنہا نہیں ہے یہاں بہت سے دوسرے لوگ ہیں جن کے درمیان اس کو زندگی گزارنا ہے ۔ اس دنیا میں انسان کی حیثیت گویا ایک بہت بڑی مشین کے اندر ایک چھوٹے پرزہ کی ہے یا وہ ایک بے حد مصروف سڑک پر ایک راہگیر ہے ۔انسانی زندگی کی یہی مخصوص نوعیت ہے جو مسائل پیدا کرتی ہے ۔ یہ مسائل کبھی عالم فطرت کی طرف سے پیش آتے ہیں اور کبھی دوسرے انسانوں کی طرف سے ۔ دونوں حالتوں میں مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ضبط و تحمل کے ساتھ اس کا سامنا کیا جائے ۔ مسئلہ کو غم کا سوال بنانے کے بجائے اس کو تدبیر کا سوال بنایا جائے ۔ مسئلہ پیش آ جانے کے بعد اگر آپ صبر و تحمل کا ثبوت دیں تو آپ کی دلجمعی اور آپ کا ذہنی سکون باقی رہے گا آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ آپ اپنی پوری صلاحیت کو پیش آمدہ مسئلہ کے حل کے لئے استعمال کر سکیں اور اگر ایسا ہو کہ آپ مسئلہ پیش آنے کے بعد غم میں مبتلا ہو کر اس کو اپنے لئے درد سر بنالیں تو مسئلہ کے مقابلہ میں آپ اپنا ضروری حصہ ادا کرنے کے قابل نہ رہیں گے ۔ یہ ایسا ہی ہو گا جیسے اپنے حریف کو خود سے بلا مقابلہ جیت کا موقع دے دیا جائے ۔
ابو یحیی
خدا کا ہاتھ
اس کے ہاتھ نے اپنی ماں کے پلو کو تھام رکھا تھا۔ چھوٹا سا ہاتھ۔۔ کمزور سا ہاتھ۔۔ معصوم سا ہاتھ۔ یہ بچہ سال بھر کا بھی نہیں ہو گا۔باپ آگے بیٹھاموٹر بائیک چلا رہا تھا اور اس کے پیچھے ماں اپنے بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی۔اس نے ایک ہاتھ سے موٹر بائیک کی سیٹ کواور دوسرے ہاتھ سے بچے کو پکڑ رکھا تھا۔اس پورے منظر میں میرے لیے کوئی نئی بات نہ تھی سوائے اس چھوٹے سے ہاتھ کے جس نے ماں کے پلو کو پکڑ رکھا تھا۔
میں نے سوچا کہ اگر اس بچے کی ماں اپنے ہاتھ کی گرفت برقرار نہ رکھ سکے تو کیا یہ چھوٹا سا ہاتھ، یہ معصوم سی مٹھی، اتنی طاقتور ہے کہ خود کو گرنے سے روک سکے۔ میرے ذہن نے کہا، ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ بچہ نہیں بلکہ ماں ہے جو اسے سنبھالے ہوئے ہے‘‘۔
میں اس سے قبل گرمی کے روزوں کی مشقت اور اس کے اجر پر غور کر رہا تھا، مگر اس منظر کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ جہنم کے گڑ ھے میں ہمیں گرنے سے اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ ہماری عبادت کا کمزور ہاتھ نہیں بلکہ پروردگار کی رحمت کا طاقتور ہاتھ ہے۔جنت کی منزل تک ہماری رسائی ہو ہی نہیں سکتی اگر مالک دو جہاں کا شفقت بھرا ہاتھ ہمیں نہ سنبھالے ہوئے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری مذہبیت اور عبادات بھی دراصل خدا کی دی ہوئی توفیق کی مرہون منت ہیں۔اسی نے ہماری ساری دینداری کا بھرم رکھا ہوا ہے۔ وہ اگر ہم پر مطالبات اور آزمائشوں کے بوجھ ڈال دے تو ہماری ساری دینداری کی پول کھل جائے گی، (محمد۴۷:۳۴)۔
میں نے سر اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہاروزہ داروں نے روزہ کی مشقت اٹھا کر تیرا قرب چاہا ہے لیکن یہ مشقت اس بچے کے کمزور ہاتھ سے زیادہ نہیں جس نے اپنی ماں کا دامن پکڑ رکھا تھا۔ ماں کے ہاتھ کو بچے کا سہارا بنانے والے، اپنے طاقتور ہاتھ کو آگے بڑ ھادے۔وگرنہ دنیا کی کوئی طاقت ان بندوں کو جہنم سے نجات اور جنت کی کامیابی کا حقدار نہیں بنا سکتی۔
اسی رمضان میں
’’آپ میں سے ہر شخص کو روزہ رکھنے کا تجربہ تو ہوگا۔ یہ بتائیے کہ روزہ توڑنے کا تجربہ کتنے لوگوں کو ہوا ہے۔؟‘‘
عارف کایہ سوال لوگو ں کے لیے قطعاً غیر متوقع تھا۔ رمضان سے قبل احباب کے ساتھ عارف کی یہ آخری مجلس تھی جس میں لوگ رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے تھے۔ مگر جو سوال ان سے پوچھا گیا تو اس کا رمضان کی فضیلت سے کوئی تعلق کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔کچھ دیر خاموشی چھائی رہی، پھر ایک صاحب نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور بولے: ’’جی مجھے ایک دفعہ رمضان میں روزہ توڑ نا پڑ ا تھا۔‘‘عارف نے کہا: ’’ذرا تفصیل سے بتائیے کہ کن حالات میں آپ کو روزہ توڑ نا پڑا تھا۔‘‘اب ان صاحب نے تفصیل بیان کرنا شروع کی: ’’دراصل اس روز میری طبعیت خراب تھی۔ مگر میں نے ہمت کر کے روزہ رکھ لیا۔ دن بھرمیں نے ہمت کیے رکھی لیکن روزہ کھولنے سے آدھ گھنٹے قبل میری حالت غیر ہونے لگی۔ جب مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں بے ہوش ہوجاؤں گا تو میں نے روزہ توڑ دیا۔‘‘
’’کیا عام حالت میں آپ روزہ توڑ نے کا سوچ سکتے ہیں؟‘‘، عارف نے ان صاحب سے سوال کیا تو انہوں نے فوراً جواب دیا:
’’سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ جب تک دم میں دم ہے، کوئی مسلمان اس کا تصور نہیں کرسکتا۔‘‘وہ صاحب خاموش ہوئے تو عارف نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا: ’’اگر آپ نے روزہ رکھ کر روزے کو نہیں سمجھا تو روزہ توڑ نے کی کیفیت کا سن کر روزہ کو سمجھ لیں۔ روزہ ناقابل شکست عزم کے سہارے رکھا جاتا ہے۔ بھوک، پیاس، اذیت، گرمی، خواہش، وقت کی طوالت جیسی مضبوط چیزیں روزہ کی حالت میں انسانی عزم کے سامنے پسپا ہوجاتی ہیں۔ انسان ان چیزوں کے سامنے ڈٹارہتا ہے یہاں تک کہ افطار کا وقت آجائے یاپھر انسان کاجسم اس کاساتھ چھوڑ دے۔‘‘
عارف ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر گویا ہوئے: ’’یہی روزہ ہے۔ عزم انسانی کا تعارف۔ ناقابل شکست عزم جو ہر منہ زورجذبے کو نکیل ڈال کر انسان کے قدموں میں لا ڈالتا ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان جذبوں کا غلام بن کر شیطان کا بندہ بن جاتا ہے۔ جب ہوس کی بھوک، حرص کی تونس، لالچ کی پیاس، حرام کی چاٹ، گناہ کی لذت، معصیت کا ذائقہ انسان کاروزہ اطاعت توڑنا چاہیں یا پھر انسان کی عمر بھر کی ریاضت بہکی ہوئی نظروں، ڈگمگاتے قدموں،بے لگام خواہشوں اور بدلحاظ  رویوں کی نذرہونے لگے تویہ عزم انسانی ہی ہے جو ان اٹھتے طوفانوں کو روک دیتا ہے۔ شیطان خواہش کے پھندوں میں اسے الجھاتا ہے مگر بندہ مؤمن پورا زور لگا کر خود کو ہر گرفت سے چھڑ ا لے جاتا ہے۔ نفس جذبات کے جال میں اسے جکڑ تا ہے، مگر مؤمن کا عزم؛ صبر کی تلوار سے ہر جال کو کاٹ ڈالتا ہے۔ عزم انسانی ہی روزہ کی اساس ہے جس کا مظاہرہ ہم میں سے ہر شخص روزہ رکھ کر کرتا ہے۔‘‘
صاحب معرفت کی آواز تھی یا آسمان معرفت کی برستی برسات۔ حاضرین کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ لوگ سنتے رہے اور وہ بولتے رہے۔
’’جس شخص نے اپنے روزے سے اپنے اندر یہ عزم زندگی بھر کے لیے پیدا کر لیا، اس کا روزہ لاریب اسے جنت تک لے جائے گا۔ جس نے یہ نہیں کیا وہ اگلے رمضان کا انتظار کرے۔ کیونکہ اس نے ابھی تک روزہ رکھ کر اس چیز کو نہیں پایاجس کے لیے روزہ رکھوایا گیا تھا۔‘‘
عارف کی بات ختم ہوگئی۔ مگر رمضان کا اصل درس حاضرین تک پہنچا گئی۔ انہیں روزہ رکھنا تھا اسی رمضان میں۔ انہیں جنت کو پانا تھا۔ اسی رمضان میں۔
زکوٰۃ اور نذر
ہمارے ہاں زکوٰۃ کو ایک بہت اہم عبادت کے طورپر اداکیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ جو نماز نہیں بھی پڑھتے، زکوٰۃ بڑ ی پابندی سے دیتے ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں لوگ زکوٰۃ کو غریبوں کی مدد کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔انہیں نہیں معلوم کہ زکوٰۃ اصل میں کیا ہے اور کیوں ادا کی جاتی ہے۔ہمارے ہاں چونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کا مہینہ مقرر کر لیا گیا ہے، ا س لیے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر زکوٰۃ کی حقیقت سے متعلق لوگوں کی کچھ رہنمائی کر دی جائے۔
زکوٰۃ اپنی حقیقت کے اعتبار سے نذر ہے۔ نذر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال کا ایک حصہ اپنے معبود کو راضی کرنے کے لیے بطور نذرانہ اس کے حضور پیش کر رہا ہے۔ قدیم زمانے میں جب شرک کا غلبہ تھا تو لوگ مندروں اور معبدوں میں جا کر اپنا مال مختلف شکلوں میں بتوں کی بھینٹ چڑھاتے  تھے اور پھر یہ مال معبد کے خدام وہاں آنے والے زائرین کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے۔اسلام نے اس صورتحال کو تبدیل کیا۔ خدا کے حضور نذر کو زکوٰۃ کی مستقل عبادت کی شکل دے کر اسے نظم اجتماعی، غریبوں کی مدد اور ضرورت مندوں کے لیے خاص کر دیا۔ تاہم اس کے پیچھے جو روح اور جذبہ ہے وہ اسی طرح باقی ہے۔آج بھی جب کوئی شخص زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو وہ کسی انسان کو کچھ نہیں دے رہا ہوتا، بلکہ اپناسراوردل جھکا کر، اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر، لہجے میں عاجزی اورپستی پیدا کر کے دراصل اللہ تعالیٰ کو پیش کرتا ہے۔البتہ جوشخص سراٹھا کر، احسان جتلا کر، دبنگ لہجے کے ساتھ انسانوں کو زکوٰۃ دینے کی کوشش کرتا ہے، اس کا مال تو خرچ ہوجاتا ہے، مگر پروردگار عالم کی بارگاہ سے ایسے شخص کو سند قبولیت نہیں ملتی۔اس لیے کہ خدا کی بارگاہ میں کوئی گردن اس قابل نہیں کہ بلند ہوکر شرف قبولیت حاصل کرسکے۔اس کے حضور صرف عاجزی اور پستی قبول ہوتی ہے۔زکوٰۃ دینے اور انفاق کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انسانوں کو دے رہے ہیں تو بلاشبہ سر اٹھا کر دیں، لیکن مال اگر رب کی نذر کر رہے ہیں تو سر جھکا ہوا رکھیں۔یہی قبولیت کا راستہ ہے۔ 

بشکریہ : مولانا وحید الدین خان