مطالعہ فطرت اور ایمان

مصنف : ندیم اعظم

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2005

            ایمان یوں تو بہت سی ان دیکھی حقیقتوں کو نبیوں اور رسولوں کی شہادت کی بنیاد پر ماننے کا نام ہے لیکن اس کی جڑ ‘‘ایمان باللہ’’ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ہستی، اس کی وحدانیت اور اس کی صفاتِ کمال کی معرفت اور اس کی عظمت کا نقش دل پر قائم ہو جائے اور انسان اس کی کبریائی کے تصور سے نہ صرف لرزہ بر اندام ہو بلکہ اس کا دل حمد و ثنا اور تحسین و آفرین کے جذبات سے معمور ہو جائے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھے کہ اللہ نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا۔ اس کا آسان ترین ذریعہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق پر غور کیا جائے اور اس کی خلاقی، صناعی اور مصوری کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا جائے۔ اس لیے کہ کائنات کی وسعت و عظمت درحقیقت اس خالق ہی کی عظمت کا عکس ہے۔ اسی لیے اپنی عظمت اور کبریائی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انفس و آفاق یعنی ہمارے اپنے اندر کی دنیا اور باہر کی ساری کائنات کے مطالعے پر بہت زور دیا ہے۔ اسی مقصد سے انسانی جسم اور کائنات کے بارے میں جو معلومات آج تک انسان نے حاصل کی ہیں ان کا ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ اس سے اللہ کی عظمت کا نقش دلوں پر قائم ہو کہ یہی ایمان کی اصل بنیاد ہے۔

انسانی جسم …… اعداد و شمار کے آئینہ میں:

            انسان کا اپنا وجود جو اپنے جسم کے اعتبار سے اگرچہ بہت بڑا نہیں مگر اس کی ساخت پر غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس جیسی مشین نہ آج تک کوئی بنا سکا، نہ کبھی بنا سکے گا۔ پھر اربوں انسانوں میں سے کوئی ایک دوسرے کی مکمل نقل بھی نہیں ہوتا۔ ایک عجیب و غریب اور وسیع و عریض کائنات کوانسان میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ جسے انسان خود بھی سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن پوری طرح آج تک نہیں سمجھ سکا۔

٭        جسم انسانی چھوٹے چھوٹے خلیات سے مل کر بنتا ہے۔ ایک اوسط قد و قامت کے انسانی جسم میں ان خلیات کی تعداد ایک دو ارب نہیں بلکہ ایک کروڑ ارب ہوتی ہے۔ یہ تمام اربوں کھربوں خلیے ایک ہی خلیے سے بنے ہوتے ہیں۔

٭        کروڑوں خلیے روزانہ ختم ہوتے اور دوسرے خلیے اسی وقت ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔

٭        اندازہ ہے کہ ہر سیکنڈ میں خون کے دس لاکھ سرخ خلیات ختم ہو جاتے اور اسی تعداد میں نئے خلیات جنم لیتے ہیں۔

٭        ان تمام اربوں، کھربوں خلیوں کا آپس میں اتنا اتفاق ہوتا ہے کہ ہر ایک اپنا کام بڑی ذمہ داری اور صحت کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ ہر خلیہ اپنا فرض اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح اس نے سارے بدن کی بہتری کے لیے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔

٭        یہ خلیے گویا ایک مکمل شہر ہیں۔ یہ جسم کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی گھروں کی طرح جنریٹر کا کام کرتے ہیں۔ ان کی فیکٹریوں میں کیمیائی اجزاء تیار ہوتے ہیں۔ اس تیار شدہ سامان کو جسم کے تمام حصوں میں پہنچانے کا انتظام بھی ہے۔ خطرہ یا نقصان پہنچنے پر ان سے دفاعی اقدامات اور احکام بھی جاری ہوتے ہیں۔

٭        خلیے مختلف شکل، جسامت اور مختلف خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں نازک خلیے بھی ہیں جن کی جسامت ملی میٹر کے دس لاکھویں حصے کے برابر ہے۔ ہر گیارہ ماہ بعد کھربوں خلیوں پر مشتمل تمام نظام بدل جاتا ہے پھر خود خلیوں کے اندر ہزار ہا جین ہوتے ہیں۔ ہر جین ایک عجیب و غریب مالیکیول سے بنتا ہے جسے DNAکہا جاتا ہے۔ اس کے اربوں یونٹ ایک خلیے میں ہوتے ہیں۔ ہر فرد کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ، قد،رنگ، بالوں کا رنگ، جسامت پہلے ہی سےDNAکی ٹیپ میں ریکارڈ ہوتی ہے۔ DNAجو ایک عام خوردبین سے بھی نہیں دیکھاجا سکتا، اس کی تفصیلات اگر تحریر میں لائی جائیں تو بڑے سائز کے ایک لاکھ صفحات میں سمائیں۔

٭        ہمارے دماغ میں تقریباً ایک ارب Nerve Cellsہیں۔ ہر Cellسے باریک تار نکل کر تمام جسم کے اندر پھیلے ہوتے ہیں جن کو ‘‘عصبی ریشے’’(Nerve Fibres)کہا جاتا ہے۔ ان پتلے ریشوں پر وصول کرنے اور حکم بھیجنے کا ایک نظام انتہائی تیز رفتار سے دوڑتا رہتا ہے۔ انہی اعصاب کے ذریعے ہم چکھتے، سنتے، دیکھتے، محسوس کرتے اور عمل کرتے ہیں۔ اس مواصلاتی نظام پر دن رات کروڑوں خبریں ادھر سے ادھر دوڑتی رہتی ہیں جو دل کو بتاتی ہیں کہ وہ کب دھڑکے، اعضاء کو بتاتی ہیں کہ وہ کب حرکت کریں، پھیپھڑوں سے کہتی ہیں کہ وہ کیسے اپنا عمل کریں اور جسم کے ہر ہر حصے کو آگاہ کرتی ہیں کہ وہ کب اور کیا رد عمل ظاہر کرے۔ ساری دنیا کے ٹیلی فون کا نظام بھی اس نظام کی برابری نہیں کر سکتا۔ اگر جسم کے اندر یہ مواصلاتی نظام نہ ہو تو ہمارا پورا وجود منتشر چیزوں کا مجموعہ بن جائے جن میں سے ہر ایک ،الگ الگ، اپنے اپنے راستے پر چل رہا ہو۔

٭        ہمارا دل وزن میں تقریباً ایک پاؤ ہوتا ہے، اس میں دو پمپ ہوتے ہیں۔ ایک پھیپھڑوں کو خون بھیجنے کے لیے تاکہ وہاں سے آکسیجن جذب ہو سکے ۔ دوسرا اس صاف شدہ خون کو سارے بدن میں دوڑانے کے لیے۔ ایک آدمی کی اوسط زندگی میں دل ۳ لاکھ ٹن خون پمپ کرتا ہے ۔آدمی اگر ستر سال زندہ رہے تو دل ۳ ،ارب دفعہ دھڑکتا ہے۔

٭        انسان کی اوسط زندگی میں پھیپھڑے ۵۰ کروڑمرتبہ پھولتے اور سکڑتے ہیں۔ انسان کی بنائی ہوئی کوئی مشین نہ ایسی مشقت مسلسل برداشت کر سکتی ہے اور نہ ہی بغیر مرمت اتنے لمبے عرصے تک اپنا کام جاری رکھ سکتی ہے۔

٭        ہماری آنکھ میں ایک کھرب سے زیادہ روشنی قبول کرنے والے ریشے اور ۱۳ کروڑ Nerve Fibersہوتے ہیں جو تصویری مجموعے دماغ کو بھیجتے ہیں۔ آنکھ کے Musclesدن میں ایک لاکھ سے زیادہ دفعہ حرکت کرتے ہیں۔

٭        انسانی بدن میں خون کی شریانوں کی لمبائی ۶۰ ہزار سے ایک لاکھ میل تک ہے۔

٭        انسانی جسم ۳۰ کروڑ سے زیادہ کیمیائی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر آپ ان اعداد وشمار پر مشتمل اجزاء کو لفظوں میں لکھنا چاہیں تو اس سے ۱۰ ہزار موٹی موٹی کتابوں کی ایک لائبریری بن جائے گی۔

٭        ہماری زبان میں ۱۰ ہزار ‘‘ذائقہ خانے’’ (Tastebuds)ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے علیحدہ عصبی تار کے ذریعہ دماغ سے جڑا ہوا ہے۔ انہی کے ذریعے وہ ہر قسم کے ذائقوں کو محسوس کرتا ہے۔

٭        ہمارے کان میں ایک لاکھ کی تعداد میں ‘‘سماعتی خانے’’ ہوتے ہیں۔ انھیں سے ہمارا دماغ ایک نہایت پیچیدہ عمل کے ذریعے سنتا ہے۔

٭        ہماری تمام جلد میں ‘‘حسیاتی ریشوں’’ کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ اگر گرم چیز جلد کے سامنے لائی جائے تو تقریباً ۳۰ ہزار گرم خانے اس کو محسوس کرکے فوراً دماغ کو اس کی خبر دیتے ہیں۔ گرمی کی خبر دماغ کو ملتے ہی ۳۰ لاکھ پسینہ کے غدود پسینہ خارج کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ پسینہ جسم کو ٹھنڈک مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح جلد میں اڑھائی لاکھ خانے ایسے ہیں جو سرد چیزوں کو محسوس کرتے ہیں۔ جب کوئی سرد چیز جسم سے چھوتی ہے تو دماغ اس کی خبروں سے بھر جاتا ہے۔ جسم کانپنے لگتا ہے، جلد کی رگیں پھیل جاتی ہیں، فوراً مزید خون ان رگوں میں دوڑ کر آتا ہے تاکہ زیادہ گرمی پہنچائی جا سکے۔

٭        عصبی نظام کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے ایک Autonomic Branchہے۔ یہ ایسے کام انجام دیتی ہے جو خود بخود جسم کے اندر ہوتے رہتے ہیں مثلاً ہضم، سانس لینا اور دل کی حرکت وغیرہ۔ پھر اس عصبی شاخ کے بھی دو حصے ہیں: ایک کا نام Sympathetic Systemجو کہ حرکت پیدا کرتا ہے اور دوسرا Parasympathetic System جو کہ روک کا کام کرتا ہے۔ اگر جسم تمام تر پہلے نظام کے قابو میں چلا جائے تو مثال کے طور پر دل کی حرکت اتنی تیز ہو جائے کہ موت آجائے اور اگر بالکل دوسرے کے اختیار میں آجائے تو دل کی حرکت ہی رک جائے۔ دونوں شاخیں نہایت درستگی کے ساتھ مل کر اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ جب دباؤ کے وقت فوری طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تو Sympatheticکو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے اور دل اور پھیپھڑے تیزی سے کام کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح نیند کے وقت Parasympatheticکا غلبہ ہوتا ہے جبکہ وہ تمام جسمانی حرکتوں پر سکوت طاری کر دیتا ہے۔

            یہ سب جاننے کے بعد بھی کیا کوئی ذی ہوش یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ جسم اپنے آپ وجود میں آ گیا اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے جب کہ ایک کیمرہ، ایک ریڈیو اور ایک ٹی وی تک تو خود وجود پا نہیں سکتے۔

کائنات …… اور نظامِ کائنات:

٭        ہماری زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی وسعت کا حال یہ ہے کہ زمین سورج سے ۱۵ کروڑ کلومیٹر دور ہے جبکہ پلوٹو سیارے کا سورج سے فاصلہ ۱۵ ،ارب ۹۱ کروڑ کلومیٹر ہے۔

٭        ہماری زمین کا قطر ۱۲۷۵۴ کلومیٹر ہے۔ سورج کا قطر ۱۴ لاکھ کلومیٹر ہے یعنی زمین سے ۱۰۹ گنا بڑا۔ قطر کی یہ وسعت تو کچھ بھی نہیں جبکہ ہماری کہکشاں کا قطر ایک لاکھx۷۱ کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کہکشاں میں ایک کھرب سے زائدستارے پائے جاتے ہیں اور اب تک ایسی کھرب سے زائد کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں۔

٭        سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات کے درمیان ایک کہکشاں ایسی ہے جس کے گرد تمام کہکشائیں چکر کاٹ رہی ہیں۔ ان کا ایک چکر ۲۵ کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔

٭        سورج کا وزن دس کھربx۱۹۸۸۹ کھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجہ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ اس میں ۴۰ لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سیکنڈاستعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت ۶۰۰۰ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ سورج کی حرارت ابھی مزید ۵، ارب سال کے لیے کافی ہے۔

٭        سب سے لمبی کہکشاں کی لمبائی تقریباً ایک ارب xدس کھرب کلومیٹر اور موٹائی دس کھرب x ۵ کروڑ ۳۰ لاکھ کلومیٹر ہے۔ اس کی روشنی ۲۰ کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر اور اس کا قطر ہماری کہکشاں سے ۸۰گنا زیادہ ہے۔ روشنی ایک شمسی سال میں تقریباً ۳ لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ۹۵ کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کرتی ہے اسے نوری سال کہا جاتا ہے اور یہ کہکشاں ہماری زمین سے ایک ارب ۷ کروڑ نوری سال دور ہے۔

٭        ۱۹۸۹ء میں فلکیات دانوں نے خلاء میں عظیم دیوار (Great Wall)کی دریافت کا اعلان کیا۔ یہ کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ اس کی لمبائی دس کھرب xساڑھے سات ارب کلومیٹر ہے۔ اس کی چوڑائی دس کھرب x۶.۲ ارب کلومیٹر ہے اور اس کی گہرائی دس کھرب x۲۲ کروڑ کلومیٹر ہے۔

٭        اب تک جو کائنات معلوم ہوئی ہے اسے اگرمکعب کلومیٹر میں ناپا جائے( ایک مکعب کلومیٹر ایک کلومیٹر لمبائی، ایک کلومیٹر چوڑائی اور ایک کلومیٹر اونچائی ہے )تو پوری معلوم کائنات کا گھیراؤ نکالنے کے لیے ایک کے آگے ۶۹ صفر لگانے پڑیں گے تب حساب پورا ہو گا۔ اس کے باوجود اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ یہ کائنات مسلسل ،انتہائی تیز رفتاری سے مزید پھیل رہی ہے۔

٭        اندازہ ہے کہ ایک کہکشانی نظام ایسا ہے کہ اس کی جو شعاعیں اس کہکشاں سے چار ارب نوری سال پہلے روانہ ہوئی تھیں وہ آج ہم تک پہنچی ہیں۔ یعنی اس کہکشاں کی روشنی نے زمین تک پہنچنے کے لیے چار ارب x۹۵ کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کیا ہے۔

٭        ہماری قریب ترین کہکشاں Andromeda Glaxy M31 ہے۔اس کا ہماری کہکشاں سے فاصلہ ۲۲لاکھ x۹۵ کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کا حجم ہماری کہکشاں سے دگنا ہے۔ اس میں تقریباً ۴ کھرب ستارے ہیں۔

            بعض کہکشاؤں کا قطر ۲ ہزار سے ۸ لاکھ نوری سال ، وزن ۱۰ لاکھ سے ۱۰۰ کھرب سورجوں کے برابر اور روشنی دس لاکھ سے ۱ یک کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر ہے۔ کہکشائیں کیا سب سے بڑی چیز ہیں؟ جی نہیں! کہکشائیں مل کر Cluster بناتی ہیں۔ Clusterمیں سینکڑوں سے لے کر ہزاروں کہکشائیں ہو سکتی ہیں۔ ہماری کہکشاں جس Clusterمیں ہے یہ 30کہکشاؤں کا مجموعہ ہے جبکہ Sprial Galaxy M100 تقریباً 2500کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔

            پھر Super Clusterدرجنوں Clustersپر مشتمل ہوتا ہے۔ ابھی تک دکھائی دینے والی کائنات میں تقریباً ۱۰ لاکھ سپر کلسٹر ہیں۔

            Quasarsکائنات کے اب تک دریافت شدہ روشن ترین اجسام ہیں۔ زیادہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی چھوٹے ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں۔ ان کی روشنیاں جو آج ہم تک پہنچی ہیں یہ دراصل ۱۰ ارب سال پہلے وہاں سے چلی تھیں۔ ہمارے نظام شمسی جتنا Quasarدس کھرب سورجوں سے زیادہ روشن جبکہ ہماری کہکشاں کی مجموعی روشنی سے سو گنا زیادہ روشن ہوتا ہے۔Quasar3cg۱۰ سے ۱۶ ،ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

٭        اگر ہم ۷ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کریں تو کائنات عبور کرنے میں تین ہزار کھرب سال لگیں گے وہ بھی اگر کائنات محدود ہو تو، جبکہ کائنات لا محدود ہے۔

٭        زمین اپنے محور پر ۱۰۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لٹو کی مانند گھوم رہی ہے۔ اگر زمین کی رفتار ۱۰۰ میل فی گھنٹہ ہوتی تو ہمارے دن اور رات موجودہ دن اور رات سے دس گنا زیادہ لمبے ہوتے۔ زمین کی تمام ہریالی اور ہماری فصلیں سو گھنٹے کی مسلسل دھوپ میں جھلس جاتیں اور جو بچ رہتیں وہ لمبی سرد رات میں سردی کی نذر ہو جاتیں۔

٭        سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہو جائیں مگر اسے اس کے خا لق نے ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پررکھا ہے کہ یہ ایک ‘‘کائناتی انگیٹھی’’بن جائے اور ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہو جائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آ جائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہو کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہو جائیں۔

٭        زمین کا کرہ فضا میں سیدھا نہیں کھڑا بلکہ ۲۳ درجے کا زاویہ بناتا ہوا ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہ جھکاؤ ہمیں ہمارے موسم دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہو جاتا ہے اور مختلف نباتات اور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

٭        چاند ہم سے تقریباً ۳۸۴۴۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مدوجزر کی لہریں اتنی بلند ہوتیں کہ تمام کرۂ ارض دن میں دوبار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہو جاتے۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے۔

٭        سورج اپنی غیر معمولی کشش سے ہماری زمین کو کھینچ رہا ہے اور زمین ایک مرکز گریز قوت کے ذریعہ اس کی طرف کھنچ جانے سے اپنے آپ کو روکتی ہے۔ اس طرح وہ سورج سے دور رہ کر فضا کے اندر اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی دن زمین کی یہ قوت ختم ہوجائے تو وہ تقریباً ۶۰۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچنا شروع ہو جائے گی اور چند ہفتوں میں سورج کے اندر اس طرح جا گرے گی جیسے کسی بہت بڑے الاؤ کے اندر کوئی تنکا گر جائے۔

٭        اگر آکسیجن ۲۱ فیصد کے بجائے ۵۰ فیصد یا اس سے زیادہ مقدار میں فضا کا جزو ہوتی تو سطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت کے آگ پکڑتے ہی سارا جنگل بھک سے اڑ جاتا۔

٭        زمین کے گرد ہوا کا غلاف اس انداز سے رکھا گیا ہے کہ زمین پر اس کا دباؤ مناسب رہے تاکہ انسان سانس لینے میں دشواری محسوس نہ کرے۔ اور باہر سے آنے والے شہاب ثاقب رگڑ سے ہی جل جائیں۔ شہابِ ثاقب ہر روز اوسطاً دو کروڑ کی تعداد میں ۶ سے ۴۰ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کرۂ ہوائی (ہوا کے غلاف) میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر یہ غلاف موجودہ کی نسبت لطیف ہوتا تو شہابِ ثاقب زمین کے اوپر ہر آتش پذیر مادے کو جلا دیتے اور سطح زمین کو چھلنی کر دیتے۔

 ٭        کیڑے مکوڑوں کی ۳ کروڑ مختلف اقسام ہیں: سب سے زیادہ سونگھنے کی حس Eudiaparonia کے نرکی ہے وہ مادہ کی خوشبو۱۱ کلومیٹر دور سے سونگھ لیتا ہے۔

            اس کائنات اور انسان کے اپنے وجود کے اندر خالقِ کائنات نے اپنی جو ان گنت نشانیاں پھیلا دی ہیں ان پر غور و فکر اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج پر عمل ہی حصولِ ایمان کابہترین ذریعہ ہے۔ اللہ کی قدرت سے یہ ناممکن نہ تھا کہ ہماری غذا کے لیے براہِ راست آسمان سے روٹی برستی۔ پھر یہ کیوں ضروری ہوا کہ ہوائیں چلیں، بادل اٹھیں، مینہ برسے، کھیتوں میں ہل چلیں، گندم بوئی جائے، خوشے نمودار ہوں، پھر ان میں دانے بیٹھیں، پھر گرم و خشک ہوائیں چلیں، جو ان دانوں کو پکائیں اور اس طرح کئی ماہ کے گرم و سرد مراحل سے گزر کر گندم کا دانہ کھیت سے کسان کے گھر پہنچے۔ یہ دنیا بالکل سادہ اور بے رنگ بھی تو ہو سکتی تھی۔ ہمارے آگے قسم قسم کے پھل پھول، سمندر، ستارے، بیج سے لے کر درخت بننے تک کے مراحل، سب انسان کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ انسان کائنات کے جس گوشے پر نظر ڈالتا ہے اگر آنکھیں کھلی اور دل بیدار ہو تو معرفت الٰہی کا ایک دفتر کھل جاتا ہے۔ ایک ایک شے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے نجانے کتنے بھیس بدلتی ہے تاکہ ہم اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دیکھیں اور ان سے سبق حاصل کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            ‘‘بے شک آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور جہازوں میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں لے کر، اور (بارش) کے پانی میں جس کو اللہ نے آسمان سے برسایا اور پھر اس سے زمین کو تروتازہ کیا اس کے خشک ہونے کے بعد، اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں، عقل مندوں کے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔’’ (البقرہ۲:۱۶۴)

            مگر انسان کی عجیب بد قسمتی ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنی ذہانت کے مظاہرے کا اتنا شوقین ہے کہ اگر ٹیکسلا اور موہنجوداڑو کے کھنڈروں سے کوئی ٹوٹا ہوا مٹی کا برتن بھی اس کے ہاتھ آجائے تو اس پر تہذیب، مذہب، سیاست غرض ہر چیز کا فلسفہ اور ایک فرضی تاریخ تیار کر دیتا ہے۔دوسری طرف اس کی بد ذوقی کا یہ حال ہے کہ خالق کائنات نے ایک ایک پتی ، ایک ایک پھول پر اپنی حکمت کی جو نشانیاں بنائی ہیں نہ ان کا کوئی حرف اس کی سمجھ میں آتا ہے نہ ان سے راہنمائی حاصل کرتا ہے۔ سائنس کو بھی چاروں طرف حکمت تو نظر آتی ہے حکیم نظر نہیں آتا۔

            کائنات کی ان تمام حقیقتوں پر غور و فکر کے نتیجے میں خالق کائنات کی عظمت و قدرت کا جو احساس اور جو پہچان حاصل ہو گی اور جو کیفیت قلب میں پیدا ہو گی وہی صحیح ایمان کی بنیاد بنے گی۔

             اپنے وجود اور ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات پر غور و فکر کواپنی عادت بنا ئیے۔ گھر میں، باغ میں لگے ہوئے پودوں کو غور سے دیکھیے، کیسے کلیاں بنتی ہیں، کیسے ان سے پھول، پھل تخلیق ہوتے ہیں، پھولوں کی خوشبو، پھلوں کے ذائقے، رنگ، اڑتے ہوئے پرندے، تاروں بھرا آسمان، چمکتا ہوا چاند، ایک بچے کا ننھا وجود ان سب کو دیکھیے، غور کیجیے۔ اس وقت آپ اپنے خالق کا قرب محسوس کریں گے۔ وہ آپ کو ان تمام مناظر میں سے پکارے گا: ‘مجھے پہچانا’۔ آپ آنسوؤں بھرے چہرے کے ساتھ پکاریں گے: ‘ہاں! میرے رب میں نے تجھے پہچان لیا’۔ یہ منظر آپ کی روح کو سرشار کر دے گا۔ اندھیرے میں ڈرا ہوا بچہ باپ کے قرب کا احساس کرکے جس طرح پر سکو ن ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح آپ اپنے رب کو پہچان کر اس کا قرب محسوس کرکے ایسا سکون محسوس کریں گے جس کے مقابلے میں دنیا بھر کی نعمتیں آپ کو ہیچ نظر آئیں گی۔ یہ ایمان آپ کے دل کو اتھاہ سکون سے بھر دے گا۔ سب خوف و غم قلب سے نکل جائیں گے۔ ‘‘کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟’’ کی صدا آپ کو اپنی شہ رگ سے آتی ہوئی محسوس ہوگی اور آپ بھیگی آنکھوں کے ساتھ سر بسجود ہو جائیں گے۔

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

            اتنا عظیم خدا ہر آن محبت بھری نظروں کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہے اور ہماری زندگیاں سنوارنے کے لیے اس نے ہدایت نامہ بھی بھیج رکھا ہے۔لیکن نہ تو ہم اسے پکارتے ہیں اور نہ اس کے ہدایت نامے پر کبھی غور کر تے ہیں تو کیا ایسے میں ہم اس کے مستحق نہیں کہ ہمیں بد ترین سزا دی جائے؟