رنگوں کا نفسیاتی مفہوم اور ان کے ذہن انسانی پر اثرات

مصنف : عابد حسین قریشی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2005

استاد شعبہ فائن آرٹس، بلوچستان یونیورسٹی،کوئٹہ

            رنگوں کے انسانی نفسیات(بلکہ حیوانی نفسیات پر بھی) بے شمار اثرات ہوتے ہیں’ مثلاً کچھ رنگ انسانوں کو مشتعل کرتے ہیں’ کچھ ذہن کو پر سکون کرتے ہیں، اور چند رنگ ذہن کو ُسلا بھی دیتے ہیں۔ کچھ رنگ انسان کو ہشاش بشاش کرتے ہیں تو چند رنگ سست کر دیتے ہیں۔ کچھ رنگ انسان کے اعصاب کو ڈھیلا کر دیتے ہیں اور انسان میں نفسیاتی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے’ اور کچھ رنگ ڈیپریشن میں لے جاتے ہیں۔

سرخ رنگ

            کچھ رنگوں کا اثر اگر چہ نفسیاتی طور پر ذہن کو قدرے مشتعل کرنے کا ہوتا ہے’ تاہم مجموعی طور پر یہ رنگ مثبت اثرات نقش کرتے ہیں’ مثلاً سرخ رنگ بین الاقوامی طور پر خون کا رنگ ظاہر کرتا ہے اور خون زندگی کی علامت ہے۔ چنانچہ سرخ رنگ ایسے بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن کا مطلب مثبت ہو۔ بہت سی رسومات میں سرخ رنگ کو اہمیت حاصل ہے۔ تقریباً پورے برصغیر پاک و ہند میں دلہن کا لباس عروسی سرخ رنگ کا ہوتا ہے اور دولہا کی کلائی پر سرخ پھول باندھا جاتا ہے۔ یہ سب سرخ رنگ کو خوش بختی سے تشبیہہ دینے کی علامات ہیں۔ سرخ رنگ ذہن کو مشتعل اور اس کے خلیات کو جھنجھوڑ کر جگانے میں بھی مدد کرتا ہے’ اورانسانی نفسیات کو ہشاش بشاش اور چاک وچوبند رکھنے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔

            شعروں کے انتخاب کی مانند رنگوں کا انتخاب بھی دل کے راز کھول دیتا ہے۔ چنانچہ محبوب کو سرخ گلاب پیش کرنے کا مطلب تقریباً بین الاقوامی سطح پر اپنی شدید محبت کے جذبات دوسرے تک پہنچانا ہے۔ یورپ کے دورِ تاریک کی بہت سی رسومات میں سرخ رنگ کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ چنانچہ سرخ لبادہ’ سرخ جام اور سرخ شراب استعمال میں لائی جاتی تھی۔ قدیم روم میں بھی سرخ رنگ کو خصوصی اہمیت حاصل تھی اور اسے جذبات کو ابھارنے والا رنگ تصور کیا جاتا تھا۔

             سرخ رنگ زمانہ قدیم سے حیوانیت کا رنگ بھی تصور کیا جاتا رہا ہے اس لیے یہ انتہا پسند جذبات کی ترجمانی بھی کرتا ہے’ یعنی شدید محبت’ شدید نفرت ،شدید قوت ارادی، مکمل اقتدار، مکمل قربانی کے شدید جذبا ت وغیرہ سب اسی رنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس رنگ کو پسند کرنے والے ‘‘تخت یا تختہ’’جیسے نظریات کے قائل ہوتے ہیں اور کسی درمیانی راہ پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اس کے گرویدہ انسان عموماً خود دار اور غیرت مند پائے گئے ہیں۔ یہ رنگ کیونکہ خون کو علامتی انداز میں پیش کرتاہے’ اس لیے اس کو زندگی کا علامتی رنگ بھی سمجھا جاتا ہے۔ قدیم پتھروں کے دور کے انسان کیونکہ زندگی اور موت سے متعلق باشعور نہیں تھے اس لیے مردے کی تدفین میں ایک اہم رسم یعنی اس کے جسم پر سرخ رنگ چھڑکنا بھی شامل کرلیا کرتے تھے’ تاکہ مرنے کے بعد اسے نئی زندگی مل سکے۔

             ہماری اپنی تاریخ سے ہمیں ایک حوالہ ملتا ہے جہاں سرخ رنگ کو زندگی’ غیرت ’ خون اور قربانی کی علامت تصور کیا گیا۔ ۱۵ مئی ۱۸۵۷ء کو شروع ہونے والی ہندستان کی جنگ آزادی سے قدرے قبل اس رنگ کو انہیں اقدار کے لیے علامتی انداز میں استعمال کی گیا تھا۔ چنانچہ بنگال سے ‘‘سرخ کنول’’ کی تحریک ابھری تھی’ جس نے چند ماہ میں پورے بنگال کو علامتی انداز میں یہ پیغام پہنچا دیا کہ اب تمہارے ملک کا حسن بھی اور غیرت بھی غیروں کے قبضے میں آچکی ہے اور بنگال کے سرخ شفق والے آسمانوں پر بھی اب انگریزوں کی حکومت ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ خون کی قربانی دے کر اپنے ملک کی سرخی، شادابی اور رعنائی کو بچا لو۔

            سرخ رنگ کو اس حدتک فضیلت حاصل ہے کہ دنیا کے تمام جھنڈوں میں مجموعی طور پر سرخ رنگ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے’اور انگلستان میں برٹش ہاؤس آف لارڈز میں کرسیوں کا رنگ سرخ ہے جس سے امر کا صاف اشارہ ملتا ہے کہ سرخ رنگ کو رنگ فضیلت کے طور پر بھی مانا جاتا ہے۔

            جہاں فضیلت،زندگی،خون اور قربانی جیسے اعلیٰ اوصاف سرخ رنگ سے منسوب ہیں وہاں یہ رنگ جذبات میں ابال اور جنسی خواہشات میں ابھار بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کو پسند کرنے والے زندگی سے بھی شدید پیار کرتے ہیں۔ بعض جانوروں کو بھی سرخ رنگ سے اشتعال انگیز ہوتے دیکھاگیا ہے۔ مثلاً سپین میں Bull Fightمیں بھینسے کو مشتعل کرنے کے لیے سرخ رنگ کی چادر دکھائی جاتی ہے۔ بندر کی نفسیات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ اگر میسر آجائے تو وہ اپنے جسم کو کسی رنگدار کپڑے میں لپیٹنا پسند کرتا ہے اور سرخ کپڑا مل جائے تو بے انتہا خوش ہوتا ہے۔ سرخ رنگ کو پسند کرنے والے بہت جلد غصے میں آجاتے ہیں۔ چنانچہ مریخ کو سرخ سیارہ کہتے ہیں اور زمانہ قدیم سے یہ جنگ وجدل کا سیارہ مانا جاتا ہے اور قدیم مائی تھالوجی کے مطابق مریخ دیوتا کی ڈھال بھی سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔

            اردو ادب میں سرخ رنگ کو اچھے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی آمیزش سے کچھ اچھے استعارے موجود ہیں۔ مثلاً سرخ وسفید(صحت مند)، سرخ چشم(غیور آنکھ) سرخرو(کامیاب)، سرخی شفق(شادابی)، سرخی حیا (صنف نازک کا زیور) وغیرہ۔ اسی طرح سرخ کے ساتھ مرکب الفاظ بھی اچھے مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں’ مثلاً سہرو(سونا)، گل سہرو(گلاب کا پھول) ،سرخند (گھوڑے کی اعلیٰ نسل) سہرچم(غیور)، سہرگیں ورنا ( سرخ وسفید جوان)، سہراب (سرخرو) اورسہرپل (سرخ لالہ)۔

             سرخ رنگ کو کلر تھیراپی کے طور پر بہت سی اقوام میں استعمال کیا جاتا ہے’ مثلاً بلوچوں کے عقائد کے مطابق الرجی کے مریض کو اگر شہد میں گیروا رنگ ملا کر کھلایا جائے اور اوپر سے سرخ کمبل اوڑھا دیا جائے تو کلر تھیراپی کے ذریعے کمبل الرجی کو زیادہ سے زیادہ باہر کھینچ لے گا اور حیران کن حدتک یہ ٹوٹکا درست ثابت ہوا ہے۔

سفید رنگ

            سفید رنگ تقریباً تمام دنیا میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو پسندیدہ رنگوں میں سے ایک سفید تھا۔ بہت سی اقوام میں سفید رنگ کو افضل اور اونچا مقام حاصل ہے۔ سفید رنگ کو بادلوں سے بھی مناسبت ہے اور بادلوں کو بالا و پاک ہونے کی وجہ سے سفید رنگ کو تقدس اور قدرو منزلت ملی ہے۔ عیسائیت میں سفید رنگ کو پاکدامنی سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ چنانچہ سفید رنگ کے للی کے پھول اگر کسی خاتون کو پیش کیے جائیں تو اس کا مطلب اس کے دامن کا بے داغ ہونا ہے۔ چنانچہ عیسائی نظریے کے مطابق حضرت جبرائیل علیہ السلام جب حضرت مریمؑ کو ولادتِ یسوع مسیح کی بشارت سنانے تشریف لائے تو ان کے ہاتھ میں سفید للی کے پھول تھے’ جو انہوں نے تحفت ً پیش کیے اور اٹلی میں سیانا مکتب فکر کے چودھویں صدی کے مشہور مصور سیمونے مارٹینی نے ۱۳۳۳ء میں اسی موضوع کو خوبصورتی سے اس طرح مصور کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ میں زیتون کی شاخ ہے جو امن کی علامت ہے اور تصویر کے عین درمیان میں رکھے گلدان میں سفید للی کے پھولوں کا گلدستہ سجایا گیا ہے اور حجرے میں اوپر فضا میں مقدس ارواح آسمانوں سے بشارت دینے کے لیے جمع ہیں۔ یہ تصویر اس وقت فلورنس کی یوفی زی آرٹ گیلری میں محفوظ ہے۔

            جنگ میں سفید رنگ کو صلح و امن کا رنگ تصور کیا جاتا ہے۔ سفید فاختہ دنیا میں امن کی علامت ہے۔ سفید رنگ کو کردار کے بے داغ ہونے سے بھی تشبیہہ دی جاتی ہے۔ جاپانی مرد مبارکباد کے موقع پر سیاہ سوٹ کے ساتھ سفید چاندی ایسی نکٹائی زیب تن کرتے ہیں اور سفید گلاب کا تحفہ بھی جاپان میں خوشی کے موقع پر دیاجاتا ہے۔

            عیسائیت میں دلہن کا لباس سفید ہوتا ہے جو عفت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ مغرب زدہ ہونے کی وجہ سے اب جاپان میں بھی دلہن کے روایتی لباس میں مخصوص کیمونو کے بجائے یورپ کی مانند سفید لباس بڑے پیمانے پر زیب تن کیا جاتا ہے۔

            سفید رنگ کو پسند کرنے والے انسان متوازن ذہن کے ہوتے ہیں اور اپنی خواہشات پر سب سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں۔ وہ مدبر ہوتے ہیں، بہتر حکمت عملی کا ثبوت دیتے اور اچھے منتظم ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کبھی جوشیلے نہیں ہوتے۔ دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں اور اپنے جذبات پر قابورکھتے ہیں۔ اردو ادب میں سفید رنگ کو اونچے پہاڑوں پر پڑی برف سے بھی تشبیہہ دی جاتی ہے۔ اس لیے اس کو پاکیزگی اور عفت کا رنگ بھی سمجھا جاتا ہے۔ سفید ریش ایک استعارہ ہے جس کا مطلب قابل احترام ہستی اور تقریباً دنیا کے ہر ملک میں اس کا یہ ہی مطلب ہے۔ سفید رنگ سب سے ٹھنڈا رنگ ہے اور ذہن کو سکون اور ٹھنڈک بخشتا ہے۔

            سفید رنگ میں ایک اور خوبی بھی ہے۔ یہ اپنے حجم سے بڑا نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس کالا رنگ اپنے حجم سے چھوٹا نظر آتا ہے’ مثلاً برابر کے حجم کی دو اشکال میں ایک میں کالا اور دوسری میں سفید رنگ بھر کر دیکھیں۔ سفید شکل اپنے حجم سے بڑی اور کالی حجم سے چھوٹی نظر آئے گی۔

سیاہ رنگ

            سیاہ رنگ بہت سی وجوہات کی بنا پر منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے تاہم شاذ و نادر یہ مثبت مطالب میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس وقت اس کی قدرومنزلت بڑی منفرد اور بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بین الاقوامی طور پر اس کو ماتم اور سوگ کا رنگ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کوموت کارنگ بھی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ بہت سی قوموں میں مرگ کی تمام رسومات میں مردوزن سیاہ لباس ہی زیب تن کرتے ہیں’ مثلاً جاپان میں مرگ کی رسموں یعنی‘‘اوتسویا’’(مرگ والے گھر میں رت جگا) اور سؤیشکی(مردے کو جلانے کی رسم) دونوں میں مرد سیاہ سوٹ کے ساتھ سیاہ نکٹائی اور خواتین سیاہ سکرٹ اور جیمپر یا سیاہ ون پیس اور یا پھر قدیم روایتی سیاہ کیمونو پہنتی ہیں۔ برصغیر میں اس کو تاریکی ،بدکاری ،ظلم ،ناکامی، بیزاری ،نفرت ، گناہ اور سوگ وغیرہ سے منسوب کیا جاتا ہے مثلاً اردو ادب میں ایسے استعارے موجود ہیں جیسے سیاہ ،سیاہی، سیاہ کار، سیاہ کاری، کاروکاری، سیاہ رو، سیاہ بختی، سیاہ دلی وغیرہ یہ تمام منفی رحجانات کو پیش کرنے والے معنوں کے حامل ہیں۔ علاوہ ازیں یومِ سیاہ ،سیاہ حروف میں لکھی جانے والی تاریخ ،کالادھن ،کالاقانون، کالابازار، کالا من، کالے کرتوت ،تمام منفی مفاہیم کے حامل ہیں۔ تاہم یہ رنگ دہرے معنی کا بھی حامل ہے اور جہاں یہ مثبت معنوں میں استعمال ہوتا ہے وہاں ذوق جمالیات کی انتہائی خوبصورتی بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اردو ادب میں سیاہ رنگ کے ساتھ بہت سے نہایت منفرد اور خوبصورتی کی انتہا کے معانی لیے ہوئے استعارے بھی موجود ہیں، جیسا کہ سیاہ چشم ،سیاہ ابرو،سیاہ باد ل ،سرمہ، کاجل، تمام ذوق جمالیات کے اعتبار سے حسن کی علامات ہیں۔ اسی طرح خاتون کی خوبصورت خمیدہ لٹ کو کالی گھٹا سے تشبیہہ دینا بھی اردو ادب اور شاعری میں نایاب نہیں ہے۔ گورے چہرے پر یا کسی اور خوبصورت جگہ کالے تل کا ہونا بھی خوبصورتی کا عکاس ہے۔

            تاہم سیاہ رنگ کی یہ مخصوص علامات بھی بدستور قائم ہیں کہ یہ رنگ افلاس ،ظلمت، غربت،پسماندگی ،غلامی اور کمتر سماجی حیثیت کی غمازی کرتا ہے۔چنانچہ سپین میں عورتیں سیاہ لباس بطور عجز یا اظہارِ شرم کے زیب تن کرتی ہیں۔ سیاہ رنگ جادو شکن قوتوں کا حامل بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسے جادو ٹونے اور نظر بد سے بچانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ برصغیر کے علاوہ بھی کئی اقوام میں اسے جادو شکن سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ پیارے بچے یا دوشیزہ کے گال پر سیاہ رنگ کا نظر وٹو لگانا بھی ایسے ہی یقین کا اظہار ہے۔ بلوچ معاشرے میں زچہ کے گھر کے باہر نظر بد یا شیاطین کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کالا توا لٹکانا اور بچوں کے سرہانے کالا ہرمل اور اون کی کالی گھتی لٹکانا بھی انہی نظریات کے زیر اثر رسومات ہیں۔

            بلوچوں کی رسوم کے مطابق کالے رنگ کو کبھی کبھی بہت افضل مثبت درجہ بھی حاصل ہے۔ مثلاً دو قبائل میں اگر کوئی خونریز جنگ ہو رہی ہو او رصلح کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو اور ایسے میں اگر کوئی سیہ سر (سیاہ بالوں والی خاتون) درمیان میں آجائے تو اس کی شرم و عزت رکھنے کے لیے دونوں قبائل جنگ روک دیتے ہیں اور پھر گفت وشنید کر کے صلح کی کوئی نہ کوئی صورت نکال ہی لی جاتی ہے۔

            کیونکہ یہ رنگ توجہ مبذول کروانے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے اس لیے اس کو پسند کرنے والے لوگ زیادہ تر ذوق جمالیات کے شیدائی ہوتے ہیں اور خوبصورتی کو سب سے اہم گردانتے ہیں۔ لیکن سیاہ رنگ کے ساتھ اگر کوئی سرخ رنگ بھی پسند کرتا ہے تو یہ جنگ وجدل کا انتہائی دیوانہ ،خون بہانے کا شوقین اور بدلہ لینے میں انتہا پسند ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے ہاتھ میں اگر طاقت آجائے تو وہ کسی ظالم حکمران سے کم نہیں ہوتا جو محض ظلم کر کے خوش ہوتا ہے۔ تاہم صرف سیاہ رنگ کو پسند کرنے والے انسان میں یہ اوصاف نہیں ہوں گے اور وہ زیادہ سے زیادہ خوبصورتی پر مرمٹنے والا شخص ہوگا، خواہ مرد ہو یا عورت۔

نیلا رنگ

            نیلا رنگ بین الاقوامی طور پر خوبصورتی، گہرائی اور طمانیت پسندی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ بعض اقوام میں یہ تحفظ پسندی کی علامت ہے۔ اگر نیلے اور سفید رنگوں کے خوبصورت امتزاج کے ساتھ ڈیزائننگ میں خاص ہم آہنگی پیدا کی جائے’ تو یہ تصوف کے رنگ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ملتان میں شاہ رکن عالم اور شیخ بہاء الدین زکریاؒ دونوں کے مقابر پرنیلے اور سفید رنگ کے خوشنما امتزاج فراخدلی سے استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی طرح لاہور میں حضرت علی ہجویریؒ کے مزار سے ملحقہ مسجد میں تصوف کے رنگوں کے طور پر خوبصورت نیلے اور سفید رنگ ہم آہنگ کیے گئے ہیں۔

            نیلا رنگ دنیا بھر میں بہت زیادہ لوگوں کا پسندیدہ رنگ ہے بالخصوص فرانسیسی اسے بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کو پسند کرنے والے لوگ وجدانیت پسند ہوتے ہیں اور آسمانوں کی بلندیوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ نیلا رنگ بیک وقت گہرائی اور بلندی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ سمندر اور آسمان دونوں نیلے ہیں۔ اس لیے ایسے استعارے موجود ہیں جو انتہائی اونچائی اور انتہائی گہرائی میں اچھے مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں،گہری جھیل جیسی آنکھیں، نیلے آسمان جیسی بلندی ،آسمان جیسا بلند، نیلا پربت۔ جاپان میں بھی ایک نیلا پہاڑی سلسلہ موجود ہے جس کو جاپانی میں Aoi Samyaku کہتے ہیں اور جو ،ان کے ادب میں فراخدلی سے استعمال ہوتا ہے۔ یہ رنگ پسند کرنے والے دوسروں کی عزت اور اپنی عزت دونوں کے حامی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی کبھار انتہا پسند بھی ہو جاتے ہیں اگر چہ عموماً یہ متوازن ذہن کے مالک اور اعتدال پسند ہوتے ہیں’ لیکن انتہا پسندی میں مکمل طور پر روحانیت پسند یا مادہ پرست بن جاتے ہیں۔ بہر حال یہ مشکل اور کٹھن راستوں سے نہایت متوازن ہو کر اپنے آپ کو گزار سکتے ہیں۔ برطانیہ کی شہزادی مارگریٹ کاپسندیدہ رنگ بھی نیلا ہے جس کی مناسبت سے اس میں اس رنگ کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں۔ گہرا خوبصورت نیلا رنگ قوم یہود کا بھی پسندیدہ ہے۔ بلوچ قوم میں نیلے رنگ کے کچھ علامتی معانی بھی لیے جاتے ہیں۔

            اس کو شیاطین’جنات اور وباؤں کے خلاف قوت سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایام زچگی میں زچہ اورنومولود کو بد روحوں اور حاسدوں کے شر سے پاک رکھنے کے لیے اس کے کمرے کے در ودیوار پر مختلف مقامات پر نیلے رنگ سے کراس(X) کے نشانات لگائے جاتے ہیں۔ بچے کی دونوں ہتھیلیوں میں نیل چھڑکتے ہیں اور پنگھوڑے کے پایوں پر نیلے رنگ سے نشانات لگائے جاتے ہیں یا نیلا ربن باندھا جاتا ہے۔

            اگر نیلا رنگ قدرے پھیکا گدلا اور سلیٹی مائل ہو تو یہ نفسیاتی طور پر مفلسی کی ترجمانی کرتا ہے اور ایسا رنگ پسند کرنے والے ذہنی یا نفسیاتی طور پر مفلس ہوتے ہیں۔ چنانچہ ۱۸۹۹ء میں پیرس میں وارد ہونے کے بعد سپین کا مشہور مصور پبلو پکاسو انتہائی مفلسی سے دوچار ہوا تھا اور ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۵ء تک چھ برس کے لیے پکاسو پر Blue Periodچھا گیا تھا۔ جس دوران اس نے ہلکے اور سلیٹی مائل نیلے رنگوں میں تصاویر بنانا شروع کر دی تھیں،حتی کہ موضوعات کے اعتبار سے بھی پکاسو کا یہ دور معاشرے کے مفلس اور دھتکارے ہوئے لوگوں کو پینٹ کرنے کا دور تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں اس کے ہاتھوں فٹ پاتھ پر بیٹھے ،باجا بجانے والے، معاشرے سے خارج اور فقرا و غربا کے موضوعات پر بے شمار تصاویر تخلیق ہوئیں۔ یہ اس کی غربت کا اس پر نفسیاتی اثر تھا۔ ۱۹۰۶ء میں امیرزادی اولگا سے شادی ہوجانے کے بعد غربت کا یہ طلسم ٹوٹا اور اس کے بعد پکاسو پر Pink Periodیا Rose Period آتا ہے جو خوشحالی کا رنگ ہے۔

سبز رنگ

            سبز رنگ آنکھوں اور بینائی کے لیے انتہائی خوشگوار اور صحت مند رنگ ہے۔ پھیلے ہوئے سبزہ زاروں کو دیر تک دیکھتے رہنے سے بینائی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خصوصاً گنبدِخَضرا کا کھلتا کھلتا خوشگوار سبز رنگ مسلمانوں کے لیے تو گویا قابل عبادت ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا پسندیدہ رنگ یہ ہی سبزرنگ تھا۔ یہ اعصاب کی تھکن دور کرتا ہے ، ٹینشن دور کرکے الجھے ذہن کو سکون بخشتا اور ذہن پر تازگی اور مثبت اثرات چھوڑتا ہے۔ بینائی کو بڑھانے کی وجہ سے عموماً مصروف جاپانیوں کی زندگی میں ایک بہت بڑی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ٹوکیو اور اوساکا جیسے پرشور بڑے شہروں سے نکل کر شمالی جزیرے ہوکائیدو میں آٹھ دس روز گزاریں اور صرف دور تک پھیلے ہوئے سبز میدانوں کوگھورتے رہیں اور موقع میسر آنے پر بہت سے جاپانی سچ مچ ایسا ہی کرتے ہیں۔

            سبزہ زاروں اور نباتات سے سبز رنگ کو ایک خاص مناسبت ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں اس رنگ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ اردو ادب میں بہت سے ایسے استعارے ہیں جن سے سبز رنگ کی قدرومنزلت ظاہر ہوتی ہے یعنی سبز پوش (بزرگ ہستی) سبز پرندہ(خوشخبری لانے والا)’ سبز گنبد (گنبد خضرا) اور مزاروں پرسبز چادریں۔

            اسی قدرو منزلت کی مناسبت سے سبز رنگ کو احتراماً جوتوں میں استعمال نہیں کیا جاتااور بلوچی ادب میں قدم اور سبز کا اکٹھے استعمال یعنی سبز قدم منفی معانی کا حامل ہے۔ اس کا مطلب ناکامی ہے۔ یعنی سبز قدم شخص در اصل سبزی جیسی پاک شے کو روندتا چلا آرہا ہے’ اس لیے ناکام ہے، چنانچہ اس میں بھی بلا واسطہ تقدس ہی پنہاں ہے۔ حالانکہ اور کئی مقامات پر بلوچی ادب میں سبز مبارکباد اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، مثلاً اسے محبت، خوشحالی، فارغ البالی، آسودگی، صحت وتوانائی کا رنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلوچی ادب میں محبت کا پیامبر قاصد پرندہ ہمیشہ سبز رنگ کا ہوتا ہے۔ بلوچی میں سانولے اور سانولی کو پیار سے سوز کہا جاتا ہے۔ سوز کے معنی سبز ہیں۔ محبوبہ کے لیے سوزیں کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ بلوچ خواتین کا پسندیدہ لباس، خصوصاً خوشی کے مواقع پر سبز ہوتا ہے۔ اس رنگ میں انبساط کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔اس لیے دعائیہ کلمات میں ‘‘سبز باتے’’ ایک فصیح وبلیغ دعا ہے۔ جس کے معنی ہیں پھلو پھولو، خوشحال رہو۔

            زمانہ قدیم سے تہذیبی دور میں سبز رنگ کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں۔ اس کے مخصوص علامتی معانی ہیں اور اسے حسن وجمال کا مظہر گردانا جاتا تھا، مثلاً قدیم مصر میں ابتدائی فرعونی دور میں خواتین اپنی آنکھوں کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے خوبصورت گہرے سبز رنگ کا پاؤڈر آنکھوں کے اردگرد لگاتی تھیں جو چمکتے سورج کی تیز دھوپ سے ان کی آنکھوں کو تحفظ بھی دیتا تھا۔

            سبز رنگ حسن وجمال کو ابھارتا ہے اسی مناسبت سے دنیا بھر میں خواتین کے لباس میں سبز رنگ فراخدلی سے استعمال ہوتا ہے۔ مگر سرتا پا سبز رنگ میں رنگے جانے کی خواہش کا قدرے مطلب اور ہوتا ہے، خصوصاً لڑکیوں کے حوالے سے۔ ایسی لڑکیاں دنیا کے مسائل و مصائب سے فرار چاہتی ہیں اور یہ نہایت فارغ البالی اور لاابالی پن کی بھی علامت ہے۔ ایسی خواتین ولیم ورڈز ورتھ کی مانند تہذیب سے گریزاں اور فطرت کی بے پناہ عاشق ہوتی ہیں۔ اگر کوئی حسینہ اپنے کمرے میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک سبز رنگ کی اشیا سجائے ،یعنی سبز دیواریں، سبز پردے، سبز لباس وغیرہ میں اسے گوشہ عافیت نظر آئے تو سمجھ لیں کہ کسی سبز پری نے دنیا کے مشکلات سے منہ موڑ کر راہ فرار اختیار کر لی ہے۔ کھلتا ہوا سبز رنگ آسودگی اور خوشحالی کی علامت ہے۔ مگر بچھو جیسا سیاہی مائل گہرا سبز رنگ حسد کی علامت ہے اور اس کو پسند کرنے والاشخص کبھی دوستوں سے باوفا نہیں ہوسکتا۔ مگر خوبصورت سبز رنگ کا شخص بطور دوست قابل اعتماد اور پرخلوص ہوتا ہے، اگرچہ وہ قدرے لا ابالی، غیر سنجیدہ اور کبھی کبھی غیر ذمہ دار بھی ہوسکتا ہے۔

پیلا رنگ

            پیلا یا زرد رنگ بین الاقوامی طور پر بیماری، کمزوری، نقاہت یا بزدلی کی علامت ہے۔ امریکہ میں داخل ہوتے وقت پیلے رنگ کا میڈیکل کارڈ دیا جاتا ہے۔ اس رنگ کو اسپتالوں اور مریضوں کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ جاپان میں اسپتال میں داخل ہوتے وقت پیلے رنگ کے سلیپر پہننے پڑتے ہیں۔ پلیگ کو پیلا بخار کہتے ہیں۔ زرد صحافت کے معانی بھی منفی لیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ نا پسندیدگی کی علامت کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی پیلا ربن باندھ کر کسی کو دعوت نامہ دینا اسے ناپسند کرنے کے مترادف ہے۔ اردو ادب میں منفی رحجانات کے ساتھ یہ رنگ استعمال ہوتا ہے’ مثلاً پیلا پڑجانا۔ پیلاہٹ وغیرہ۔ پیلے رنگ سے کمزوری کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ جاپان میں کسی ہیوی ٹریفک والی سڑک کو عبور کرنے کے لیے اسکول کے چھوٹے ناتواں بچے سڑک کے دونوں کناروں پر رکھی پیلے رنگ کی جھنڈی اٹھا لیتے ہیں اور تمام گاڑیاں ایک لمحہ میں رک جاتی ہیں۔ گویا ناتواں بچے کو مدد کی ضرورت ہے۔

            بلوچی ادب میں بھی پیلا رنگ اظہار ناپسندیدگی اور عیب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر کبھی کبھی شاعری میں اچھے معنوں میں بھی نظر آجاتا ہے، مگر بہت کم۔ مثلاً ایک بلوچی شعر کا ترجمہ ہے:

            جنگلوں میں سرخ سرخ بیر پک کر تیار ہوگئے ہیں۔ ان میں کہیں کہیں زرد بیر بھی ہیں، بالکل جیسے محبوبہ کے آویزے ہوں۔ تاہم بلوچی ادب اور معاشرے میں پیلے رنگ کو عموماً ناپسندیدہ رنگ کے طور پر مانا جاتا ہے، مثلاً خواتین بچوں کو پیلے رنگ کے کپڑے پہنانے سے گریز کرتی ہیں۔ خود بھی پیلے رنگ کا لباس شاذ و نادر ہی استعمال کرتی ہیں۔ رنگدار لباس میں پیلے رنگ کا فقدان یا کمی ہوتی ہے۔ مرد عموماً پیلے رنگ کا لباس زیب تن نہیں کرتے۔

            اس رنگ کے نفسیاتی اثرات یہ ہیں کہ یہ ذہن کو تھکا دیتا ہے اور اس کے خلیات کو گہری نیند سلا دیتا ہے۔ ہندو مت میں خاص طور پر مذہبی رسوم کے لیے پیلے رنگ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رانی مہارانیوں کے لیے سر تا پا پیلے رنگ میں ملبوس رہنا، جسم کے مختلف حصوں میں سونے سے پیلا کرلینا اور رسوم میں پیلے رنگ کے پرساد، پیلے رنگ کے ظروف استعمال کرنا اچھا بھی لگتا ہے اور ان کے مذہب کا ایک اہم جزو بھی ہے۔ سونے کے رنگ سے قریب ترین ہونے کی وجہ سے اردو ادب میں کم سہی مگر مثبت معنوں میں بھی پیلے رنگ کے استعارے موجود ہیں، مثلاً سونے میں پیلی ہونا، امارت اور خوشحالی کی علامت ہے۔ ہاتھ پیلے کرنا، بیٹی کو رخصت کرنا ہے۔

            پیلا رنگ اندھیرے میں اور رنگوں کی نسبت دور سے بھی نظر آتا ہے۔ اسی اعتبار سے اس رنگ کو پسند کرنے والے انسان انتہائی دور اندیش اور موقع شناس ہوتے ہیں اور کئی سالوں پر محیط اپنی زندگی کی پلاننگ کرتے ہیں،اور اپنے دوست احباب کی توجہ حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ہمارے ہاں پیلا پتھر خوش بختی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ پیلارنگ کہر، دھند اور تاریکی میں بہت دور سے نظر آجاتا ہے۔ اسی لیے ٹریفک لائٹس عموماً پیلے رنگ کی ہوتی ہیں۔ خصوصاً جو شہروں سے باہر کی ٹریفک ہو۔

            اس رنگ کو پسند کرنے والے، خصوصاً خواتین صاف، ہموار اور متوازن ذہن کی حامل ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک اور مذہب میں عموماً پیلے رنگ کو کم استعمال میں لایا جاتا ہے، اور خصوصاً مردوں کے لباس میں یہ استعمال نہیں ہوتا۔

            یاد رہے کہ یہاں پیلے رنگ سے مراد وہ خوبصورت اورکھلتا کھلتا پیلارنگ نہیں ہے۔ جو آنکھوں کو بھلا لگتا ہے اور روح کو زندگی بخشتاہے اور جو پیلا رنگ ہم عموماً پھولوں میں دیکھتے ہیں، بلکہ یہاں مراد کھٹا پیلا، زردی مائل پیلا، گدلا پیلا اور خاکی مائل پیلا رنگ ہے۔ ایسے پیلے رنگ انسانی ذہن پر مثبت اثرات نہیں ڈالتے۔

            اوپر ذکر کیے گئے یہ تمام وہ رنگ تھے جن کے اثرات ،سوائے پیلے کے، انسانی ذہن پر مثبت ہوتے ہیں یا کم ازکم منفی نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں بہت سے ایسے رنگ بھی ہیں جن کے اثرات منفی ہوتے ہیں، مثلاًجامنی رنگ انسان کو ڈیپریشن میں لے جاتا ہے اور اس کو پسند کرنے والے لوگ بھی اعصابی ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ کیمل کلر اور ہلدی کی مانند پیلا رنگ انسان کے ذہن کو سست کر دیتا ہے۔ گدلا مٹیالا رنگ ، نسواری رنگ اور خاکی رنگ بھی ذہن کو سست اور کاہل بنا دیتے ہیں اور ذہن کے خلیات کو سلانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بھورے اور سلیٹی مائل گدلے رنگ بھی انسانی ذہن کے لیے خواب آور گولیوں سے کم نہیں ہوتے۔ سب سے زیادہ نقصان دہ گدلا پیلا رنگ، سلیٹی ،سلیٹی مائل گدلا سبز رنگ، خاکی، گدلا نیلا اور براؤن کے تقریباً تمام شیڈز ہیں۔ یہ رنگ انسان کی قوت ارادی ،قوت مدافعت، جذباتی ابال اور ذہنی طاقت کو آہستہ آہستہ سلب کر لیتے ہیں اور ایک ایسا وقت بھی آتا ہے، جسے اقبال نے خوبصورت الفاظ اور عمدہ انداز میں کیا خوب بیان کیا ہے:

چشم آدم سے چھپاتے ہیں، مقامات بلند

کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیمار

            اب آیئے اس سب سے اہم نکتے کی طرف کہ وہ کونسا میکانزم ہے جس کے ذریعے رنگ انسان کے دماغ تک پہنچتے ہیں اور اس کے خلیات پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور اس کو اس قدر متاثر کرتے ہیں کہ کسی انسان کی شخصیت کا اہم حصہ بن جاتے ہیں؟ ہوتا دراصل یوں ہے کہ سورج کی شعاؤں کی وجہ سے کائنات میں پھیلے ہوئے رنگ پردہ بصارت کو متاثر کرتے ہیں۔ حس بصارت(Optic Nerve) پردہ بصارت کا دماغ کے سب سے اہم حصے Hypothalamusکے ساتھ تعلق پیدا کرتی ہے اور اس حس کو دماغ تک لے جاتی ہے۔ چنانچہ Hypothalamusجو Neurohumours چھوڑتا ہے ان کے ذریعے Piuitary Glandکو متاثر کرتا ہے۔ یہ چھوٹا سا گلینڈ جو Hypothala-

musکے عین نیچے واقع ہے(مگر دماغ کا حصہ نہیں) انسانی جسم کے تقریباً تمام بڑے بڑے نظاموں (میکانزمز)کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ نو قسم کے ہارمونز چھوڑتا ہے جن میںGrowth Hormones اور Gonadotrophic hormonesجیسے اہم ہارمونز بھی شامل ہیں۔ یہیں سے انسان کی شخصیت بننا شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جو ساخت اور رنگ انسان پیدا ہونے کے فوراً بعد سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے وہ اس کی شخصیت کو متاثر کرتے رہتے ہیں اور پھر ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ وہ مخصوص ساخت اور رنگ اس کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں اور وہی اس کے پسندیدہ رنگ کہلاتے ہیں اور انہیں کے مطابق اس کی شخصیت ڈھل چکی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ہر رنگ کی حس جداگانہ نوعیت کی حامل ہے۔

             رنگوں کی طول موج کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ طول موج سب برابر نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی لمبائی کم یازیادہ ہو کر اعصاب پر جداگانہ طریقے سے اثر انداز ہو کر ایک مخصوص قسم کی حس پیدا کرنے کا موجب بنتی ہیں۔ جب ایک انسان کسی مخصوص رنگ کو بقایا رنگوں پر ترجیح دیتا ہے تو وہ خود کو اور اپنے ماحول کو زیادہ تر اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کے اعصاب اور ان کے زیر اثر Hypothalamusایک مخصوص اثر کے عادی ہوجاتے ہیں اور یوں وہ رنگ اس کی شخصیت اور نفسیات پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی شخصیت اور ذہنی کیفیت کے مطابق ہی تمام کائنات کو دیکھتا ہے اور محسوس کرتا رہتا ہے۔ اس نقطے پر پہنچ کر ہم یہ بخوبی سمجھ چکے ہوں گے کہ مختلف رنگوں کو پسند کرنے والے اشخاص اس کائنات کو نہایت مختلف انداز میں دیکھتے ہوں گے۔ چنانچہ اگر ایک شخص کو یہ کائنات بنیادی طور پر پیلی نظر آتی ہے اور دوسرے کو سرخ تو یہ محض ان کی پسند ہی کا فرق نہیں’ بلکہ ان کے دماغ، ان کی Optic Nerveان کے Hypothalamus کے خلیات اور ان کی Pituitary Glandsتمام بالترتیب پیلے اور سرخ رنگ اور ان کی طول موج سے متاثر بن چکے ہوتے ہیں۔

(بشکریہ، سہ ماہی پیغام آشنا، اسلام آباد،جنوری /مارچ۰۵)