اجالوں کا سفر

مصنف : لیاقت علی خاں نیازی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2005

            میری بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتی کے دوران میں ایک دفعہ دو ہندو بھائی مجھ سے ملنے آئے۔ بڑے بھائی کا نام چونی لعل تھا اور چھوٹے کا نام درشن لعل۔ یہ دونوں چکوال سے تیس پینتیس کلومیٹر دور موضع کوٹ چودھریاں کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد کا نام مکھن شا تھا۔ میں حیران ہوا کہ چکوال میں بھی ہندو بستے ہیں۔ درشن لعل بتانے لگا کہ ہم تقسیم ہند کے بعد بھارت نہیں گئے۔ ہمارے بزرگ والد صاحب سنار کا کام کرتے ہیں جو ہمارا جدی پشتی پیشہ ہے۔ چونی لعل سکول ٹیچر تھا اور درشن لعل تعلیم سے فارغ ہو کر ملازمت کی تلاش میں تھا۔ ان کا کوئی کام تھا جو میں نے فوری طور پر کر دیا۔ دونوں بھائیوں کے چہرے میں بڑے غور سے پڑھتا رہا۔چونی لعل کے چہرے پر کفر کی سیاہی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے برعکس درشن لعل کا چہرہ روشن روشن سا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ تضاد کیوں کر۔ میں نے ان کا کام کر دیا اور کہا کہ آپ لوگ مجھ سے ملتے رہیں بلکہ اپنے والد صاحب سے بھی کہیں وہ بھی کبھی تشریف لائیں۔

            ایک دن دونوں بھائی پھر مجھ سے ملنے دفتر آئے۔ ان کے ہمراہ سید غلام شاہ صاحب تھے جو ان دنوں چکوال میں ڈسٹرکٹ رجسٹریشن آفیسر تھے۔ شاہ صاحب سے شناسائی اور تعارف تھا کیونکہ شناختی کارڈ کے سلسلے میں اجلاس ہوتا تو وہ میرے دفتر آتے۔ شاہ صاحب درویش منش انسان تھے۔ لمبی زلفیں رکھتے۔ آنکھوں میں عجب قسم کی مستی اور نور تھا۔ اکثر عمرے پر سعودی عرب جاتے۔ شاہ صاحب کہنے لگے میں ان دونوں بھائیوں کا تعارف کرانے آیا ہوں۔ میں نے عرض کیا ،ان دونوں کو جانتاہوں۔ شاہ صاحب نے مجھے آنکھوں آنکھوں میں سمجھایا کہ ان دونوں بھائیوں کو اہمیت دی جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کے لیے ہمہ تن حاضر ہوں۔ اب تو شاہ صاحب نے بھی آپ کا تعارف کرا دیا ہے۔ آپ بلا جھجک مجھ سے ملا کریں۔ وہ دونوں بھائی چلے گئے۔ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا کہ میں آج دوسری بار ان دونوں بھائیوں سے ملا ہوں۔ بڑے کے چہرے پرمیں نے کفر کی سیاہی دیکھی ہے، لیکن چھوٹے کا چہرہ میں نے زیادہ روشن پایا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ شاہ صاحب کہنے لگے: ‘‘میں دونوں بھائیوں پر محنت کر رہا ہوں۔ انھیں اسلام کی طرف راغب کر رہا ہوں۔ بڑا بھائی تو کٹر ہندو ہے، میری بات تک نہیں سنتا، البتہ درشن لعل میری طرف راغب ہو رہا ہے۔ گو اس نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا، لیکن اسلام پر لٹریچر پڑھ رہا ہے بلکہ اب تو اس نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ میں چونک اٹھا اور کہا: ‘‘شاہ صاحب! اب تو یہ ہندو کنارے لگ گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس کا چہرہ کیوں روشن ہے۔ میں اس کے چہرے پر نور کیوں دیکھ رہا ہوں۔ یہ نورانی چہرہ درودشریف کی برکت سے ہے۔’’

            شاہ صاحب نے کہا: ‘‘اب میں چلتا ہوں۔ آپ ان بھائیوں کی مالی مدد بھی کیا کریں اور درشن لعل کو ملازمت بھی دلوائیں تاکہ میری محنت ثمر لائے اور یہ دائرہ اسلام میں داخل ہو۔ ’’ شاہ صاحب بڑی سنجیدگی سے اپنے مشن میں سرگرداں تھے۔

            ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ کوٹ چودھریاں سے مکھن شا ملنے آیا ہے۔ میں نے فوراً اسے بلوایا اور باہر لان میں لگی کرسیوں پر اسے اور اس کے ہمراہ آئے ہوئے اس کے بیٹے درشن لعل کو بٹھایا۔ میں نے مکھن شا کو خوش آمدید کہا اور اس کی خیریت دریافت کی۔ کہنے لگا: ‘‘صاحب! میں سخت پریشان ہوں۔ کوٹ چودھریاں کے ایک غنڈے نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ اپنی بیٹی میرے پاس بھیج دو ورنہ میں پولیس کے ذریعے تمھاری بیٹی کو اور تمھیں تھانے بلا کر گرفتار کرا دوں گا۔ صاحب! ہم ہندو گھرانے کے چند افراد یہاں ہیں جو کمزور بھی ہیں اور بے یارومددگار بھی۔ ہم کدھر جائیں، ہماری عزت خطرے میں ہے۔’’ درشن لعل بھی سہما ہوا اپنے والد کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے کہا: ‘‘عزیز، کیوں پریشان ہو۔’’ کہنے لگا: ‘‘ہم بہت پریشان ہیں کیونکہ وہ غنڈہ بہت با اثر ہے۔ ہماری عزت خطرے میں ہے۔’’

            میں نے باپ بیٹے کو تسلی دی اور فوراً وائرلیس کے ذریعے متعلقہ تھانے پیغام بھجوایا کہ درشن لعل کی مکمل دادرسی کی جائے اور متعلقہ غنڈے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ پھر میں نے مکھن شا سے کہا کہ تمھاری بیٹی میری بیٹی ہے۔ اول تو میرے پیغام کے بعد اس غنڈے کا صحیح علاج ہو جائے گا، تاہم اگر اس غنڈے کی طرف سے تمھیں دوبارہ دھمکی ملے تو فوراً اطلاع دینا۔ مکھن شا اور درشن لعل کو حوصلہ ہوا اور وہ خوشی خوشی اجازت لے کر واپس چلے گئے۔

            چند ہفتوں بعد سید غلام شاہ درشن لعل کو لے کر پھر آیا۔ دونوں بہت خوش تھے۔ شاہ صاحب کہنے لگے درشن لعل نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اب اس کا موجودہ نام درشن لعل کے بجائے محمد فہیم اختر ہے۔ میں بھی بہت خوش ہوا۔ مٹھائی بانٹی۔ میرے پاس ایک ریشمی سبز چادر تھی جو مجھے کسی عرس پر محکمہ اوقاف والوں نے دی تھی۔ میں نے وہ سبز چادر منگوائی اور محمد فہیم اختر کے کندھوں پر ڈالی اور مبارک باد دی۔ وہ شرمانے لگا۔ شاہ صاحب فوراً بولے: ‘‘فہیم ! کیوں شرماتے ہو؟ ڈی سی صاحب کی طرف سے سبز چادر پیش کرنا آپ کے لیے باعث اعزاز ہے۔ اسے روضۂ اطہرؐ سے نسبت ہے۔ گنبد خضریٰ کے حوالے سے یہ سبز چادر اپنے کاندھوں پر سجاؤ اور مبارک قبول کرو۔’’ میں بہت خوش تھا کہ شاہ صاحب نے درشن کو کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشن شاہراہ پر گامزن کر دیاہے۔ شاہ صاحب کہنے لگے: ‘‘فہیم کی شادی ہونے والی ہے اور اس کے بعد ہم سب لوگ حج کے لیے ارادہ رکھتے ہیں۔ ’’ چنانچہ فہیم، اس کی اہلیہ اور شاہ صاحب کی حج کی درخواستیں منظور ہوئیں اور فہیم جلد ہی اس روضہ اطہرؐ پر حاضری دینے کے لیے پہنچ گیا جس کی ذات بابرکات پر وہ کوٹ چودھریاں سے درود پاک بھیجا کرتا تھا۔ ایک دفعہ درشن لعل میرے دفتر آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم کس قدر خوش نصیب ہو کہ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہو۔سرکاردوعالمؐ پر زیادہ سے زیادہ درودشریف بھیجا کرو۔ تم جہنم کی دائمی آگ سے ان شاء اللہ بچ گئے ہو۔ پھر میں نے اسے تقسیم ہند سے قبل کا ایک واقعہ سنایا جو پروفیسر نعیم الرسول نے بیان کیا تھا۔

            پروفیسر مذکورچکوال تعینات تھے اور ان کا تعلق لِلہ شریف سے تھا۔ وہاں کے سجادہ نشین حسنات الرسول ان کے بھائی تھے۔ واقعہ یوں ہے کہ ۱۹۴۷ء سے قبل لِلہ میں ایک ہندو سنار امیر درشن رہتا تھا۔ جب بھی اذان ہوتی وہ اپنے بیٹوں سے کہتا کہ مسجد سے آنے والی اذان کا احترام کرو اور کام بند کردو، لیکن اس کے بیٹے کام نہ روکتے اور برابر ٹک ٹک کرتے اور زیور بناتے رہتے۔ وہ ہندو ہر دفعہ اپنے بیٹوں کو ڈانٹتا کہ تم اچھا نہیں کر رہے۔ وہ خود اذان غور سے سنتا اور احتراماً کام بند کر دیتا۔ جب اس ہندو کی موت واقع ہوئی تو اس کی برادری نے چتا جلانے کے لیے اس کی لاش سوکھی لکڑیوں پر رکھی اور خاصی مقدار میں مٹی کا تیل ڈالا۔ دیا سلائی سے کئی مرتبہ آگ لگانے کی کوشش کی، لیکن آگ نہیں لگتی تھی۔ آگ لگانے کے کئی حربے ناکام ہوئے۔ ہندو برادری سخت پریشان تھی۔ مسلمانوں کو اس واقعے کا پتا چلا تو انھوں نے کہا کہ ہم اس بزرگ ہندو کو دفن کرتے ہیں۔ یہ اذان اور کلمہ طیبہ کو غور سے سنتا اور احترام کرتا تھا،ہم اسے جلنے نہیں دیں گے۔ اللہ کو اس ہندو کی ادا اس قدر پسند آئی کہ آگ اس پر حرام کر دی۔ اب مسلمانوں اور ہندوؤں میں جھگڑا ہوگیا۔ ہندو کہتے تھے ہم جلائیں گے، مسلمانوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ہم اسے دفن کریں گے۔ حالات سنگین ہو گئے اور تصادم کا خطرہ بڑھ گیا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر نے حکم دیا کہ متعلقہ انتظامیہ اس مسئلے کو سلجھائے، چنانچہ پنڈدادن خان کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ہندو کی لاش جلائی جائے نہ دفن کی جائے بلکہ دریائے جہلم میں بہا دی جائے۔ اس طرح تصادم کا خطرہ ٹل گیا۔

            جب میں محمد فہیم اختر سابق درشن لعل کو یہ ایمان افروز واقعہ سنا چکا تو وہ کہنے لگا آپ درست فرما رہے ہیں۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے معجزات اس دنیا ہی میں دکھا دیتے ہیں۔ پھر اس نے بھی ایک واقعہ سنایا۔ وہ کہنے لگا: ‘‘میرے دادا جان جو سنار تھے ان کی دکان کوٹ چودھریاں میں مسجد کے قریب تھی۔ دادا جان نمازیوں کا بہت احترام کرتے، چنانچہ انھوں نے مسجد کو جانے والی گلی کو ، جو کچی تھی، اینٹوں سے پختہ کروا دیا۔

            جب دادا جان کی وفات ہوئی تو چتا جلانی تھی تاکہ انھیں اس دنیا سے الوداع کیا جا سکے۔ خاصا مٹی کا تیل ڈالا گیا، مگر تمام کاوشوں کے باوجود آگ نہ لگی۔’’

            محمد فہیم نے آخر میں کہا: ‘‘میں سمجھتا ہوں یہ معجزہ اس وجہ سے رونما ہوا کہ دادا جان نے اللہ کے ایک چھوٹے سے گھر کو جانے والی گلی پختہ کرا دی تھی۔ آگ ان کے جسم پر کیونکر اثر کرتی!’’