بوڑھا چوکیدار

مصنف : میاں عبدالعزیز

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : مئی 2005

            محکمہ نہر کے بچیانہ ریسٹ ہاؤس کا چوکیدار مجھے کبھی نہیں بھول سکتا، لیکن مجھے اس کا نام یاد نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے اپنا نام بتایا ہی نہیں تھا۔ یہ ایک بوڑھا سا شخص تھا، جس کی کمر جُھکی ہوئی تھی ۔ لیکن بلا کا مستعد اور خدمت گزار تھا۔ اس شام ،میں نے نہ جانے کیوں مانانوالہ پل سے پکی سڑک کے ساتھ جانے کے بجائے نہر کی پٹڑی کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ بیس میل کا فاصلہ طے کر چکا تو کار کا ایک ٹائر برسٹ ہو گیا۔ فاضل ٹائر لگا کر مزید پندرہ میل کا فاصلہ طے کیا تو گاڑی کا پٹرول ختم ہوگیا۔ کچھ دیرانتظار کیاکہ کوئی گاڑی گزرے تو پٹرول مانگ لیں، لیکن شومئے قسمت سے کوئی گاڑی نہ آئی ۔ اتنے میں محکہ نہر کا ایک بیلدار آگیا۔اس نے کہا:‘‘صاحب ! رات پڑ رہی ہے اور سردی ہو رہی ہے ۔ بچیانہ بنگلہ تھوڑے سے فاصلے پر ہے۔ آپ وہاں چلے جائیں، میں ساتھ کے گاؤں سے بیلوں کا انتظام کرتاہوں اور گاڑی کو بنگلے لے آتا ہوں۔’’ ہم نے اس فرشتۂ رحمت کے کہنے پر عمل کیا اور بنگلے پہنچ گئے۔چوکیدار نے ہمیں مصیبت میں دیکھ کر ریسٹ ہاؤس کا دروازہ کھول دیا۔آتش دان میں لکڑیاں جلادیں۔ میز پر پانی رکھ دیا ۔تھوڑی دیر کے بعد چائے لے آیا۔پھر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ بولا :‘‘صاحب جی آپ کیا کھائیں گے ؟ مرغ پسند کریں تو ایک گھنٹے میں تیار ہوگا۔ خالی سبزی میں آدھا گھنٹہ لگے گا اور انڈے کا آملیٹ تو چٹکی بجانے میں تیار کر دوں گا۔ ’’ میں نے کہا : ‘‘باباجی ! میں چائے پیتا ہوں ، آپ مرغ تیار کر لیں۔ اتنے میں گاڑی بھی آجائے گی ۔’’ اور واقعی چوکیدار نے ایک گھنٹے کے بعد کھانا میز پر لگا دیا ، لیکن کار ابھی تک نہیں پہنچی تھی ۔ بابا چوکیدار کہنے لگا: ‘‘اب آپ یہیں آرام کریں ، میں کار کا پتا کراتا ہوں۔’’

            اگلی صبح کار آگئی ، چوکیدار ساتھ کے گاؤں کے زمیندار سے پٹرول مانگ لایا تھا ۔ میں نے چوکیدار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے سو روپے کا نوٹ پیش کیا۔ چوکیدار نے بنگلے کا رجسٹر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا : ‘‘صاحب جی ! اس پر اپنا نام اور ۵۵ روپے ۴۰ پیسے کی ادائیگی لکھ دیں۔’’ یہ کہہ کر اس نے چوالیس روپے ساٹھ پیسے واپس کر دیے۔ میں نے کہا : ‘‘باباجی ، یہ رکھ لیں ۔ آپ کا انعام ہے! ’’

            چوکیدارہاتھ باندھ کرکھڑاہوگیا:‘‘نہ صاحب جی! میرا انعام تو آپ کی خدمت ہے، آپ کی دعا ہے ۔ میں فالتو پیسے نہیں لیتا۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔’’ چوکیدار کی آنکھیں داخلی طمانیت سے چمک رہی تھیں۔ میں بچیانہ بنگلہ کے اس چوکیدار کوکبھی نہیں بھول سکا۔(بشکریہ ۔قومی ڈائجسٹ،فروری۱۹۹۰ )