میں کیسے مسلمان ہوا؟

مصنف : راج بیر ٹھاکر

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مئی 2015

من الظلمت الی النور
میں کیسے مسلمان ہوا؟
راج بیر ٹھاکر 

براہ کرم آپ اپنا تعارف Introduction کرایئے؟
جواب : میرے اسکول کے سرٹیفکٹ کے لحاظ سے ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۳۹ء میں بنارس کے ایک گاؤں کے ایک راجپوت خاندان میں پیدائش ہوئی، والد صاحب ایک بڑے زمین دار تھے، میرا نام راج بیرٹھا کر تھا، شروع کی تعلیم قریب کے ایک اسکول میں ہوئی، ہائی اسکول کے بعد بنارس چلا گیا، بی کام بنارس سے کیا، میرے چچا بنارس یونیورسٹی میں پروفیسر تھے انھوں نے مجھے انگلینڈ جاکر ایم بی اے کرنے کا مشورہ دیا اور انھوں نے وہاں جانے کی ساری کاروائی پوری کرائی، انگلینڈ جاکر تعلیم کے شوق میں اضافہ ہوا اور میں نے Ph.D. میں رجسٹریشن کرالیا اچانک اطلاع ملی کہ میرے والد کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا، دور ملک میں رہنے والے اکیلے بیٹے کے لئے یہ خبر جس قدر نا قابل برداشت تھی وہ ظاہر ہے، میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ وہ زمانہ تھا میں اپنے دل میں سوچتا کہ اپنی ہوس کے لئے میں نے اپنی گھریلو زندگی داؤ پر لگا دی، گھر پر رہ کر اپنی زمینوں کو دیکھتا اور اپنے ماتا پتا ( والدین ) کی خدمت میں رہتا تو کتنا اچھا تھا، بہت اداس میں گھر لوٹ آیا اور تعلیم بند کرنے کا ارادہ کیا مگر میری ماں نے بتایا کہ میرے پتاجی کو میرے پی ایچ ڈی کے ارادے سے بہت خوشی ہوئی تھی وہ کہتے تھے، ہمارے خاندان میں جائیداد اور مال کی کمی نہیں تھی چلو بھائی کے بعد ایک بیٹا بھی پی ایچ ڈی ہو جائے گا۔ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ تمھارے پی ایچ ڈی کرنے سے ان کی آتما کو خوشی ہوگی اس لئے میں انگلینڈ واپس چلا گیا ، بزنس مینجمنٹ میں ریسرچ مکمل کی اور واپس ہندوستان آیا ، یہ وہ زمانہ تھا جب MBA ہی بہت کم ہوتے تھے، بزنس مینجمنٹ میں ہمارے ملک میں توپی ایچ ڈی کی تعلیم تھی ہی نہیں ، میرا خیال ہے کہ ہم چند لوگ ہی اس موضوع پر پی ایچ ڈی ہوں گے، واپس آنے کے بعد میری خواہش تھی کہ میں کسی تعلیمی ادارہ میں سروس کروں ، مگر میں کامیاب نہ ہو سکا، میں یونیورسٹی یا کسی معیاری ادارہ سے وابستہ ہو نا چاہتا تھا، میں کوشش میں تھا کہ ٹاٹا نگر جمشید پور سے وہاں کے چیف جنرل منیجر آئے اور مجھے جمشید پور لے گئے، مجھے ایک کمپنی کا جنرل منیجر بنایا مگر میری دلچسپی تعلیمی لائن میں تھی ۔پانچ سا ل سروس کر کے مجھے ایک موقع مل گیا، مجھے بنارس یونیورسٹی میں ایک اچھی ملازمت مل گئی اس دوران میری والدہ کا شادی کے لئے دباؤ تھا، پرتاب گڑھ میں ایک بڑے راجا خاندان میں میری شادی ہوگئی۔ میری اہلیہ نے سینٹ اسٹیفن کا لج دہلی سے گریجویشن کیا اور بنارس یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا ہے۔ ان کے والد بھی یونیورسٹی میں رجسٹر اررہ چکے ہیں ان کے تعلق سے بہت جلدی میں پروفیسر بن گیا اور ڈین کی پوسٹ سے ۱۹۹۹ ؁ء میں ریٹائر ہوا، یہ میری پہلے جنم کی زندگی کی داستان ہے اس زندگی میں بہت موڑ آئے نہ جانے کتنے ساتھیوں سے اور افسروں سے واسطہ پڑا اور اسٹوڈنٹ کی ایک بھیڑ ہے، جو اللہ کے کرم سے ملک بھر میں بڑی بڑی پوسٹوں پر پھیلے ہوئے ہیں اس زندگی کی ایک لمبی داستان ہے جس میں خود میری شادی کی ایک لمبی کہانی جو ایک لمبے زمانے تک افیر کے بعد ہوئی اس میں شامل ہے۔ مگر یہ سب پہلے جنم کی باتیں ہیں ان کا ذکر بھی کیا کرنا۔
سوال : الحمد اللہ آپ نے اسلام قبول کیا ہے، آپ با ر بار پہلے جنم کی بات کررہے ہیں اسلام میں تو اس کا تصور ہی نہیں ہے؟
جواب : پہلے جنم کا جو تصور ہندودھرم میں ہے، اس کا میں پہلے بھی قائل نہیں تھا، مگر پہلے دوسرے تیسرے جنم کا تصور تو اسلام میں ہے، ہم لوگ اپنی روحوں کے ساتھ ازل میں تھے، اس دنیا میں جنم لے کر آئے اور پھر برزح اور آخرت کے دو دو ر باقی ہیں میں جو پہلے جنم کی بات کررہا ہوں وہ صرف میری زندگی میں مجھ جیسے خوش قسمت لوگوں کی زندگی میں ہوتا ہے، جن کو اس دنیا کی زندگی میں نیا جنم ملتا ہے، آپ میری بات سنیں گے تو آپ بھی پہلے اور دوسرے جنم کے قائل ہو جا ئیں گے۔
سوال :جی جی قبول اسلام کے بعد از سر نو زندگی شروع تو ہوتی ہی ہے۔
جواب : آپ سمجھ گئے ہوں گے نا ! آپ بھی دوسرے جنم کے قائل ہیں۔
سوال :تو اب آپ اس دوسرے جنم کی بات بتایئے، یعنی اپنے قبول اسلام کے بارے میں؟
جواب : ریٹائر منٹ کے بعد مجھے بہت سی جگہوں سے آفر آئے میں نے بجاج کمپنی کی ایک آفر کو قبول کیا، ان کو یوپی میں کچھ شو گر ملیں لگانا تھیں اس کے لئے ایک ایڈ وائزر کی ضرورت تھی میں نے اپنے لحاظ سے اس کام کو مناسب سمجھا اور آفر کو قبول کر لیا، جنوری ۲۰۰۳ ؁ء کو ایک میٹنگ کے لئے میرا ممبئی کا سفر تھا میٹنگ سے واپسی پر علی گڑھ کے قریب ایک قصبہ میں معائنہ کے لئے جانا تھا، فلائٹ سے دہلی جاکر پھر گاڑی سے لمبا سفر کرنے کے بجائے میں نے اگست کرانتی سے متھرا آکر گاڑی سے سائٹ پر جانے کو اچھا سمجھا ، فرسٹ اے سی میں ایک رزرویشن کرایا، ممبئی میں سڑکوں کا جام بس اللہ بچائے، بالکل گاڑی چھوٹنے سے آدھا منٹ پہلے گاڑی میں سوار ہو سکا، چلتی گاڑی میں کیبن میں پہنچا تو دیکھا کہ ایک مسلمان سجن ہمارے کیبن میں موجود ہیں، ملاقات و مصافحہ کیا خیا ل ہوا ایک دھارمک آدمی کے ساتھ راستہ ذرا اچھا گزرے گا میں نے خوشی کا اظہار کیا۔ سامان سیٹ کے نیچے رکھ کر ڈریس بدلی اور پیشاب وغیرہ سے فارغ ہوا اور ذرا ریلیکس(Relax) محسوس کیا، آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی یوپی کے ضلع مظفر نگر کے کھتولی کے پاس ایک بزرگوں اور اسلامی اسکالرس کی بستی پھلت کے رہنے والے ہیں اور ان کا تعلق وشوو کھیات اسلامی مہا پرش مولانا علی میاں سے ہے، وہ دھارمک سجن آپ کے والد مولانا کلیم صدیقی صاحب تھے۔ ان سے کئی مناسبتیں ہوئیں،ایک تو کھتولی بار ہا گیا، یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران میرے ایک دوست کوہلی جی کھتولی شوگر مل کے جی ایم تھے، وہ مجھے ملازمین میں لکچر کے لئے بارہا بلایا کرتے تھے کئی دفعہ میں نے مسز کے ساتھ چھٹیاں وہاں گزاریں ، دوسرے وہ یوپی کے رہنے والے تھے اور تیسرے میں مسلمانوں میں حضرت مولانا علی میاں جی سے بہت متاثر تھا۔ میں لکھنؤ میں چھ سات بار ان کی خدمت میں گیا اور ان کے پیام انسانیت کے چار پانچ پروگراموں میں شریک ہوچکا تھا، میں نے بیگ سے کچھ ناشتہ خود نکالا اور مولانا کی خدمت میں پیش کیا مولانا صاحب نے پہلے تو بہت انکار کیا مگر میرے بہت زور دینے پر انھوں نے اس میں سے کچھ لے لیا۔ میں بھی میٹنگ میں ایک لمبی بحث کے بعد لوٹا تھا اور مولانا صاحب بھی ، ممبئی میں بہت مصروف سفر سے لوٹے تھے، ایک دو گھنٹے ہم دونوں ایک دوسرے سے کچھ نہیں بولے۔ سات بجے کے بعد میں نے مولانا صاحب سے کہا، بہت تھکا ہوا گاڑی میں سوار ہوا تھا، خیال تھا کہ فوراً گاڑی میں سوجاؤں گا، مگر آپ کو گاڑی میں دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ چلو ایک دھارمک آدمی کی سنگتی ملی ہے، بدن کا آرام تو کل بھی مل جائے گا آتما کی شانتی اور آرام کو حاصل کیا جائے۔ مجھے دھرم سے بڑا تعلق رہا ہے میں بہت سے دھارمک لوگوں سے ملا ہوں، بنارس خود ہندو دھرم کے پنڈتوں کا گڑھ ہے الہ آباد، رشی کیش، ہری دوار میں جاتا رہا ہوں ، جے گرو دیو، بر ہما کماری، راما کرشنا مشن، رادھا سوامی ست سنگ ، نرنکاری ست سنگ ، پران ناتھی کے علاوہ ، گولڈن ٹیمپل گیا، میں بدھ مت کے لوگوں سے بھی ملا ہوں، دلائی لاما سے ملاقات کی ہے، ساؤتھ کے مٹھوں میں وقت گزارا ہے، بریلی اور اجمیر بھی گیا ہو ں ،میری نیچر ریسرچ کی ہے ان سب جگہوں پر جانے کے باوجود میرا دماغ مطمئن نہ ہو سکا میری آتماکوشانتی کس طرح نہیں ملی ،میں نے مولانا صاحب سے کہا کبھی کبھی شانتی کی تلاش میں اپنے یہاں کی مسجد میں چلا جاتا ہوں تو مجھے مسجد میں بڑی شانتی ملتی ہے یا مولانا علی میاں جی سے جب بھی ملا ہوں تو اپنے اندر عجیب شانتی محسوس کرتا تھا ایسا لگتا جیسے کوئی گرم دھوپ سے ہلکی ساون کی پھوار میں چلا گیا۔ دوڈھائی گھنٹے آپ کے سامنے شانت بیٹھا رہا تو مجھے بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے میں مولانا علی میاں جی کی سنگتی میں بیٹھ آیا ،مولانا صاحب نے کہا یہ آپ کے دل کی صفائی کی علامت ہے دل کی حیثیت آئینہ کی ہوتی ہے اگر اس سے میل صاف ہو تو اس کے سامنے جو آتا ہے وہ دکھائی دیتا ہے سچی بات یہ ہے کہ میں مظفر نگر کا ایک گنوار ہوں جو کچھ مجھے ملا صرف اور صرف میرے مالک نے میرے حضرت مولانا علی میاں کی سنگتی اور ان کے چرنوں کی طفیل دیا ہے ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں ہے ،صرف اس دیوڑھی کا فیض ہے ،مولانا بار بار حیرت سے کہتے رہے کہ واقعی آپ کی حس پر بہت تعجب ہوا ۔
حضرت مولانا علی میاں کے رشتہ کی وجہ سے ہم دونوں نے ایسا محسوس کیاکہ جیسے ہم دونوں ایک گھر کے فرد ہوں ،مولانا صاحب نے مجھ سے تفصیلات معلوم کیں سب سے پہلے آپ کس دھر م گرو سے ملے ،میں بنارس کے مختلف آشرموں اور ہندو پنڈتوں سے ملاقات اور اس کے بعد الگ الگ مذہبی لوگوں سے ملاقات ،مٹھوں اور آشرموں اور ست سنگوں کے سفروں اور وہاں جا کر مایوس اور بے چین لوٹنے کی روداد تفصیل سے سنائی اس دوران کھانا بھی آیا اور ہم نے کھایا۔ میں سناتا رہا اور مولانا صاحب سنتے رہے اور اتنی لمبی داستاں سنتے سناتے بارہ بج گئے ، مولا نا صاحب نے کہا میں بھی چند منٹ اپنی بات کرنا چاہتا تھا مگر آپ ممبئی کے سفر سے واپس آئے ہیں اور میں نے اپنے مزے کے لئے چار گھنٹے آپ کو لگائے رکھا اب آپ آرا م کر لیجئے صبح کو مالک نے زندگی باقی رکھی تو میں بھی چند منٹ آپ سے لوں گا۔ اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ایک دھارمک آدمی کے ساتھ جس کی سنگتی کی تاثیر میں محسوس بھی کر رہا تھا ،زبان بننے کے بجائے کان بننا چاہئے تھا میں نے کسی صوفی کا یہ اپدیش پڑھا تھا کہ کسی پیر کے پاس فائدہ اٹھانے کے لئے زبان بند کر کے اور کان کھول کر وقت گزارنا چاہئے میں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور مولانا صاحب سے بہت معافی مانگی میں نے اپنا وقت تو ضائع کیا آپ کو تھکا دیا مولانا صاحب نے محبت سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑے پیار سے کہا ٹھاکر صاحب کیسی بات کرتے ہیں مجھے بہت مزا آیا اور تھوڑے وقت میں بہت سی نئی معلومات بھی ہوئیں ،آپ نے مجھ پر احسان کیا میں مولانا صاحب کے اخلاق سے بہت متاثر ہو ا سوا بارہ بجے ہم دونوں سو گئے۔ 
صبح سویرے مولانا صاحب اٹھے ،ایک دو دفعہ میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہ کیبن میں نمازو دعا میں مشغول ہیں صبح آٹھ بجے ناشتہ والوں نے ہمیں اٹھایا میں ٹائلٹ جا کر فریش ہوا ، ناشتہ کیا اس کے بعد مولانا صاحب نے بات شروع کی گاڑی ایک گھنٹہ راستہ میں لیٹ ہو گئی تھی ،ڈیڑھ گھنٹہ متھرا پہنچنے میں باقی تھا مولانا نے مجھے اسلام کے بارے میں بتایا اور تھوڑی دیر کے بعد مجھے زور دیا کہ میں کلمہ پڑھ لوں اور بار بار مجھے یہ بھی کہتے رہے کہ آپ کی پوری کہانی سن کر بالکل مطمئن ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف مسلمان بنایا ،مسلمان تو ہر انسان پیدائشی طور پر پیدا ہوتا ہے آپ کو اللہ نے مسلمان رکھا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کا خاتمہ ضرور انشاء اللہ اسلام پر ہونا ہے اس لئے آپ ابھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جایئے میں نے اپنے ذہن میں آپ کا نام بھی محمد عمرطے کر لیا ہے انھوں نے اپنے بریف کیس سے اپنی کتاب آپ کی امانت آپ کی سیوا میں مجھے دی میں اسے پڑھنے لگا مولانا صاحب بولے یہ تو آپ بعد میں بھی پڑھ سکتے ہے یہ تو صرف اس لئے دی ہے کہ آپ اپنے فیصلہ پر مطمئن ہو جائیں اب تو کلمہ پڑھ لیں میں نے کہا یہ فیصلہ اتنی آسانی سے کرنے کا نہیں میں غور کروں گا اور پھر آپ کے پاس پھلت آؤں گا۔ مولانا صاحب نے بتایا دو روز کے بعد ان کا علی گڑھ کا سفر ہے ایک دن رات علی گڑھ رہیں گے آپ فون پر رابطہ کر لیں وہاں آکر بھی مل سکتے ہیں مگر اس فیصلہ میں دیر کی گنجائش نہیں ہے نہ جانے موت کا کب پیغام آ جائے ۔میں نے وعدہ کیا کہ بہت جلد اور سنجیدگی سے غور کروں گا اور علی گڑھ تو ملنے ضرور آؤں گا۔ متھرا آ گیا ،مولانا صاحب دروازے تک گاڑی سے مجھے سی آف کرنے آئے ،گاڑی چلنے کے بعد بھی کھڑکی پر کھڑے مجھے دیکھتے رہے ۔
گاڑی سے میں اتر تو آیا مگر اندر سے کوئی بار بار کہتا تھا کہ تجھے مولانا صاحب کی بات مان کر کلمہ پڑھ لینا چاہئے تھا، یہ احساس بڑھتا گیا میں نے دوپہر کو مولانا صاحب کو فون کیا مگر نہ مل سکا اگلے روز دوپہر کو پچاسوں مرتبہ کوشش کے بعد فون ملا معلوم ہوا کہ مولانا چندی گڑھ کے پاس کسی پروگرام میں گئے ہیں میں نے اجازت چاہی کہ میں وہیں آجاؤں مولانا نے کہا کہ ہم یہاں سے نکلنے والے ہیں اچھا ہے آپ علی گڑھ میں ملیں میرے لئے ایک دن گزارنا مشکل ہو گیا ،جب احساس زیادہ ہوتا میں آپ کی امانت لے کر بیٹھ جاتا دو روز میں دس دفعہ میں نے اسے پڑھا اپنی حالت سے بے چین ہو کر میں صبح دس بجے علی گڑھ پہنچ گیا نئے گیسٹ ہاؤس میں ان کا انتظار کیا مولانا صاحب حسب پروگرام بارہ بجے آئے مجھے انتظار میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے دونوں ایک دوسرے سے ملے رسیپشن پر ہی مولانا صاحب سے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا مولانا صاحب نے فوراً کلمہ پڑھوایا فرط محبت سے میرا ماتھا چوما اور بولے نام تو میں نے ٹرین میں رکھ دیا تھا محمد عمر آپ کانام انشاء اللہ رہے گا ۔
سوال :اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے کیسا محسوس کیا؟
جواب : ایمان قبول کرنے کے بعد احمد میاں بالکل مجھے ایسا لگا جیسے میں آج ہی پیدا ہوا ہوں میں نے کلمہ پڑھ کر ایسا محسوس کیا جیسے کوئی جان لیواگھٹن سے چھٹکارہ پاتا ہے ، ۱۸؍نومبر ۲۰۰۳ ؁ء سے آج تک ہر لمحہ مجھے مولانا صاحب کے اس قول کی سچائی دکھائی دے رہی ہے کہ مسلمان تو ہر بچہ پیدا ہوتا ہے مگر اللہ نے آپ کو بائی نیچر (فطرتاً) مسلمان رکھا ہے مجھے اسلام قبول کرکے اجنبی پن محسوس کرنے کے بجائے بہت اپنائیت اور مناسبت معلوم ہوئی ،ان دودنوں میں مجھے ٹرین میں اسلام قبول کرنے سے محرومی کی وجہ سے ایسی بے چینی رہی کہ سائٹ کا معائنہ نہ کر سکا تین روز تک کام روک رکھا ،مولانا صاحب کو بھی میرے اسلام قبول کرنے کی بڑی خوشی ہوئی انھوں نے بتایا کہ ہم جیسے درمیانی درجہ کے لوگ فرسٹ اے سی میں تو دور کی بات تھرڈاے سی میں بھی سفر نہیں کرتے میں تو ہمیشہ سلیپر کلاس میں سفر کرتا ہوں پہلے سے واپسی طئے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے رفیق مفتی محمد ہارون صاحب نے اگست کرانتی میں رزرویشن کرا دیا کہ دہلی اور چندی گڑھ کے پروگرام میں شرکت ہو جائے گی ایک روز پہلے رزرویشن کرانے کے باوجود انھوں نے ٹکٹ تک مجھے نہیں دیا اور سیدھے گاڑی میں چھوڑنے آئے فرسٹ اے سی کے ڈبے میں جانے لگے تو میں بار بار کہتا رہا کہ یہ فرسٹ اے سی ہے مفتی صاحب اور بھائی عبدالعزیز صاحب نو مسلم دونوں بولے کہ یہاں سے نکل کر چلے جائیں گے کیا ہم کمپارمنٹ اندر سے دیکھ بھی نہیں سکتے ،جب انھوں نے مجھے اندر بٹھا یا تو میں نے کہا کہ میں ہر گز اس کوچ میں نہیں جاسکتا مفتی صاحب نے بتایا کہ اگست کرانتی میں رزرویشن نہیں ملا تو بھائی عبدالعزیز نو مسلم پیسے لے کر گئے کہ میں کراکر لاتا ہوں اور جا کر رزرویشن کرا لائے، ٹکٹ دیکھا تو فرسٹ اے سی کا تھا مفتی صاحب نے ان سے کہا کہ وہ ہر گز فرسٹ اے سی میں سفر نہیں کریں گے ۔بھائی عبدالعزیز نو مسلم نے کہا میں مولانا صاحب کو راضی کر لوں گا جب میں کسی طرح سفر پر راضی نہ ہوا تو بھائی عبدالعزیز بولے کہ جہاز میں تین گھنٹے سفر کے دوران ڈاکٹرقاسم جیسے بڑے آدمی مسلمان ہو گئے اب آپ کے ساتھ تین آدمی ہوں گے اور ۱۶ ؍ گھنٹے کا ٹائم ہو گا اگر کچھ روپئے خرچ ہو کر تین وی آئی پی مسلمان ہو گئے تو سودا کتنا سستا ہے۔ مولانا صاحب نے بتایا کہ عبدالعزیز بھائی کی اس تقریر نے مجھے مطمئن کر دیا مگر فرسٹ اے سی میں کون سفر کرتا ہے جس کو دوسروں کے پیسوں سے جانا ہو جب کوئی نہ آیا ٹرین چلنے کو ہو گئی تو میں نے سوچا کہ دوسرے کیبن والے سے بات کر لیں گے ۔آپ آئے اور اپنے برابر ایک داڑھی والے کو دیکھ کر اجنبیت محسوس نہ کرنے کے بجائے خوشی کااظہار کیا میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں بھی آپ کو فرسٹ اے سی میں دیکھ کر ذرا عجیب سامحسوس کرتا تھا مگر بعد میں خیال ہو ا کہ کسی شردھالو عقیدت مند نے ٹکٹ کرایا ہوگا ،مگر آج محسوس ہوا کہ کسی عقیدت مند نے نہیں بلکہ میرے کریم مالک نے مجھ پیاسے اور بے چین بندے کے لئے آپ کو دوست بنا کر اے سی ڈبے میں سوار کیا تھا ۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : میں بار بار اللہ کے اس احسان پر سجدہ کرتا ہوں اور میرا رواں رواں تعریف کرتا ہے کہ میرے لئے فطری طور پر اسلام کو آسان بنا دیا۔
سوال :آپ کے گھر والوں کا کیا ہوا ؟
جواب : مجھے اپنی بیوی کے لئے تو ذرا جوجھنا پڑا وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ایک سال تک ہم لوگ الگ رہے مگر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا اور اللہ نے بھی میری دعا قبول کی اور خود اسلام کے لئے راضی ہو گئی ،الحمد للہ وہ مسلمان ہیں مولانا صاحب نے ان کانام عائشہ رکھا انھوں نے اسلام کا بہت مطالعہ کیا اور ماشاء اللہ تہجد گزار ہیں میں بھی دو چلے لگا چکا ہوں ،میرا بیٹا اور اس کی بہوجو نیو یارک امریکہ میں ہے اپنے دونوں بچوں کے ساتھ مسلمان ہیں اور ان کو اسلام قبول کرانے میں مجھے ذرا بھی دقت محسوس نہیں ہوئی میری بیٹی بھی مسلمان ہے جو فرانس میں ہے اور انھوں نے ایک عرب سے میرے مشورہ سے شادی کی ہے ان کے قبول اسلام کی بڑی تفصیلات ہیں ،مولوی احمد صاحب وہ سننے کی چیزیں ہیں مگر فلائٹ ہے اور مجھ کو کوچین جانا ہے اس لئے انشاء اللہ پھر کسی وقت باقی باتیں ہوگی 
سوال :ایک منٹ میں مسلمانوں کے لئے کوئی پیغام ؟
جواب : اسلام ہر انسان کی ضرورت ،اس کی بھوک ،اس کی پیاس کا حقیقی علاج ہے ، اللہ نے مسلمانوں کے پاس پوری انسانیت کے مسائل اور امراض کا علاج رکھا ہے انسانیت پر ترس کھائیں اور ان کو دوزخ سے بچانے کی فکر کریں ،انشاء اللہ اگلی ملاقات میں اپنے دعوتی تجربات اور عزائم کے بارے میں بات کروں گا ۔میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ میرے نشانوں میں تعاون کریں بس بات یہ ہے کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے میں بہت جلد صرف آپ سے اس سلسلہ میں بات کرنے کے لئے سفر کروں گا ۔
مستفاداز ماہ نامہ ارمغان، فروری ۲۰۰۷ ؁ء