بسنت ۔ تصویر کا دوسرارخ

مصنف : اوریا مقبول جان

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : مارچ 2005

            پورا راستہ جب اس کی ڈیڑھ سالہ بچی موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھی اپنی ماں او ر پانچ سالہ بھائی کے ساتھ سفر کر رہی تھی تو اسکے باپ نے نہ جانے کتنی مضبوطی سے اس کو تھاما ہو گا ۔ موٹر سائیکل کی رفتار کو آہستہ رکھا ہو گا ’ کہیں اونچی نیچی جگہوں پر پاؤں زمین پر رکھ کر گزارا ہو گا کہ کہیں جھٹکے سے ننھی رخشندہ گر نہ جائے۔ اس کے دونوں بازو غیر ارادی طور پر اسے تھامے ہوئے ہوں گے ۔ لیکن وہ انہی بازوؤں میں اس خون آلود بچی کو تھامے ہسپتال کی طرف بھاگ رہا تھا ۔ اس کی گردن پتنگ کی کٹی ہوئی ڈور پھرنے سے کٹ چکی تھی۔ خون آلود بچی اس کے کپڑے بھگو رہی تھی او رپھر انہی مضبوط ہاتھوں میں اس بچی نے جان دیدی ۔ میں اس کی تصویر دیکھ رہا تھا جو شاید کہیں بچوں کے صفحات پر ہنستے مسکراتے بچوں کے درمیان سجنے کے قابل تھی ’ مگر کیا ہے اسے دیکھ کر تو آنسو نہیں رکتے ۔ دل بند ہو جاتا ہے ۔ اخبار پر نظریں نہیں جمائی جا سکتیں ۔

             لیکن چاروں جانب چھتوں ’ چوباروں اورکوٹھوں پر اس بے خبر مخلوق کو دکھ کا شور نہیں سنائی دیتا جو اس دکھ سے بے پروا محو رقص ہے کہ ان کے نزدیک کبھی کبھی تو خوشی کے مواقع آتے ہیں ۔

             پتا نہیں کیوں ان ساری ہنستی مسکراتی ’ رقص کرتی تصویروں میں ’ اپنے دھن میں مگن زندگی کی مسرتیں لوٹتے لوگوں کے چہروں پر مجھے ایک تمسخر نظر آتا ہے ۔ اس موت کا تمسخر جو ہم سب کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ جو اس سال کے اس دن کشف پر آئی جس کی گردن پتنگ کی ڈور سے کٹ گئی ۔ عارف اسلام پر آئی جودھاتی تار پھرنے سے مرغ بسمل کی طرح پھڑپھڑایا اور اگلے جہاں پہنچ گیا ۔ دس سالہ اورنگ زیب پر آئی جو چھت سے گرا اور پھر اسے اٹھانے کے لیے گھر والے پہنچے تو کسی کے پکارنے ’ بلانے ’ چیخنے او رفریاد کرنے کا جواب تک نہ دے سکا ۔ موت ان کے پاس بھی جا پہنچی جو اپنی دھن میں مگن آسمان پر پتنگوں کے پیچ دیکھ رہے تھے ۔ کٹی پتنگ کے پیچھے بھاگ رہے تھے کہ گاڑی کے پہیوں پر ان کے خون کے دھبے دور تک نشان بناتے گئے ۔

             جس شہر میں رات بھر چھتیں بقعہ نور بنی رہیں قہقے گونجتے رہے ۔ رقص ہوتے رہے خوشبودار کھانوں کی پلیٹیں پھیلتی رہیں ۔ اسی شہر کی گلیوں ’ محلوں او رگھروں سے ۲۱ جنازے برآمد ہوئے ۔ او ر ۶۰۰ کے قریب لوگوں کو ان کے عزیز و اقارب او ردوست اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر ہسپتال لے جاتے رہے اور انکی صحت کی دعائیں مانگتے رہے ۔ ہم کس بے حس معاشرے میں رہتے ہیں۔ کس بے روح کلچر کے نمائندے ہیں کہ جب میں نے اس بسنت کے منانے والوں سے ان المیوں کا ذکر کیا تو مسکرا کر ٹالتے ہوئے بس یہی بولے لوگ تو روز حادثات میں بھی مرتے ہیں ۔ لوگوں کو خوشی تو منانے دو ۔ ایک ہی تو موقع ملتا ہے ۔ او رجب پھر ایک ٹیلی ویژن چینل نے مزاحیہ پروگرام میں ایک بسنت کے رسیا سے سوال کیا گیا کہ بسنت سے لوگ مرتے ہیں تو اس نے کہا کہ مسجدوں میں بھی تو لوگ مرتے ہیں

             لیکن میرا دکھ عجب ہے ’ میرا درد انوکھا ہے کہ ان کے مرنے پر لوگوں کی آنکھ نم ضرور ہوتی ہے ’ لوگ افسوس ضرور کرتے ہیں ۔ ماتم ضرور بپا ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ کیا بے حس لوگ ہیں کہ جنہیں اپنے تعیش میں ’ اپنے رقص وسرور میں نہ ڈیڑھ سالہ بچی کی کٹی ہوئی گردن دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اس ماں کی دلخراش چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ انہیں تو کٹتی پتنگ ’ رقص کرتی محفل اورچمکتی روشنیوں میں یہ قیامت نظر ہی نہیں آتی ۔ لیکن ایسے معاشروں میں جب لوگ یہ تصور کر لیں کہ ان کی بے حسی پر لوگ احتجاج نہیں کرتے اور وہ ان کی بے بسی کا تمسخر اڑاتے جائیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ایک سرد آتش فشاں کے دھانے پر پھول اگا کر ’ گھر بنا کر لوگ خوش ہو رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک دن بس ایک کھولتا ’ پگھلتا ’ چنگھاڑتا لاوا ابلتا ہے اور کسی کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ’ نہ رقص ’ نہ پتنگ ’ نہ سرور ۔ بشکریہ ( روزنامہ جنگ)