میرا تھان کی کہانی ’تاریخ کی زبانی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مارچ 2005

Charlie Lovett

ترجمہ: محمد صدیق بخاری

             دوڑ اور ریس کی دنیا میں میراتھان سب سے دلچسپ اور طویل دوڑ کا نام ہے۔ اس کے لیے ۱۹۵.۴۲کلومیٹر (۲.۲۶ میل) کافاصلہ مقر ر ہے۔ یہ ریس صد یوں سے ہزاروں کھلاڑیوں ’ شائقین اور تماشائیوں کی دلچسپی کا مرکزر ہی ہے۔میڈیا کوریج کے اعتبار سے بھی اسے ایک ممتاز مقام حاصل ہے اور ہمیشہ ہی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اسے اہمیت دیتے رہے ہیں۔یہ ریس منعقد کرنے کے پیچھے منتظمین’ اوررضاکاروں کی ایک لمبی محنت ہوتی ہے ۔ مختلف فوڈ کمپنیاں بھی غذائی اشیا سپلائی کر کے اس میں تعاون کرتی ہیں۔بعض اوقات جیتنے والوں کے لیے بڑے بڑے انعام بھی رکھے جاتے ہیں۔اس میں حصہ لینے لینے کے لیے ۱۸ سال سے زائد عمر کا ہونا شرط ہے۔البتہ بچوں کے لیے منی میراتھان ہوتی ہے۔معذور افراد بھی اپنی وہیل چیرز پر اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔

             میراتھان ریس کی تاریخ میں بوسٹن کی میراتھان اپنا ایک تاریخی مقام رکھتی ہے اور دنیامیں اولمپک کے بعد اس کاکوئی ثانی نہیں ۔ یہ ریس۱۸۹۷ سے ہر سال اپریل میں منعقد ہوتی ہے۔

             اس میں دس کلومیٹر کی ریس بھی ہوتی ہے جو عموما بطور کھیل تماشا ہوتی ہے اور اصل میں بڑی میراتھان ریس کی تیار ی کے لیے ہوتی ہے۔

منی میراتھان

            یہ عام طور پر گیارہ سے سترہ سال کے بچوں کے لیے ہوتی ہے او ر اس کا فاصلہ عموما ۲۶.۴ کلومیٹر یا۶۵.۲ میل مقر ر ہے۔

میراتھان کی تاریخ

            میراتھان کی تاریخ کی جڑیں صدیوں قبل کے یونان میں پائی جاتی ہیں۔قدیم یونانیوں کے لیے طویل دوڑ کوئی اجنبی چیز نہ تھی لیکن ان کے ہاں دوڑ اصل میں پیغام رسانی کا ذریعہ تھی نہ کہ مقابلوں کا۔اہم پیغامات انسانوں ہی کے ذریعے شہر سے شہر پہنچائے جاتے تھے اور لوگ عموماً پیدل ہی یہ خدمت انجام دیتے تھے۔ اسی دوران میں ایک لوک کہانی (legend) نے جنم لیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ۲۵۰۰ برس پرانی ہے۔ اور یہ کہانی کچھ اس طرح سے بیان کی جاتی ہے۔

            ۴۹۰ قبل مسیح میں ایرانی فوج میراتھان کے میدان میں اتری جو ایتھنز سے ۲۵ میل دور تھا اور اس فوج کا مقصد شہر پہ قبضہ کرنا اور لوگوں کو غلام بنانا تھا۔ایتھنز کے لوگوں نے جنگ کی تیاری شروع کی وہ جنگ جو کہ صدیوں کی تاریخ مرتب کرنے والی تھی۔کیونکہ اگر ایرانی فتح یاب ہو جاتے تو نہ صرف یونان کی روشن تہذیب ختم ہو جاتی بلکہ ان کی آزاد ی اور روایات بھی درہم برہم ہو کر رہ جاتیں ۔جونہی ایران کی کثیر فوج نے یہاں پڑاؤ کیاتو ایتھنز والوں نے فلیپیڈیز (philippides) نامی ایک شخص کوسپارٹاکی ریاست کی طرف بھیجا کہ وہ ان کی مد د کرے۔فلیپیڈیز کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس نے ۱۵۰’ میل کا فاصلہ، پیدل، دو دن سے بھی کم وقت میں طے کرلیا۔جو کہ ایک عجیب مثال تھی۔لیکن اسی اثنا میں .ایتھنز میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سپارٹا والوں کاانتظار نہ کیا جائے بلکہ فو ری طور پر جارح فوج پر حملہ کر دیا جائے۔ اہلِ ایتھنز حب الوطنی کے جذبے سے بھر پور اپنے سے کئی گنا فوج پر ٹوٹ پڑے۔اور پھر یہاں مقدر نے ان کا ساتھ دیا اور وہ فتح یاب ہوئے۔یہ الگ بات ہے کہ اسوقت کے مورخ اس جنگ کا کوئی ذکر نہیں کرتے ۔ اور نہ ہی اس شخص کا ذکر کرتے ہیں جو یہ خبر لے کر گیا ۔اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بات اتنی اہم تھی کہ ممکن نہیں کہ اس دور کا مورخ اسے نظر انداز کر دیتا۔البتہ اس واقعے سے ۶۰۰ برس بعد کی تاریخ یہ ذکر کرتی ہے کہ ایک شخص کو ایتھنز شہر کی طرف بھیجا گیا کہ وہ اس عظیم فتح کی خوشخبر ی پہنچائے۔کہانی کے مطابق یہ شخص نہایت ہی جوش و جذبے سے دوڑتا ہوا ایتھنز پہنچااور اس نے جاتے ہی نعرہ لگایا‘‘خوشیاں مناؤ ہم نے فتح حاصل کر لی’’ (Rejoice,we conquer) اور اس کے ساتھ وہ گرا اور مر گیا۔

            اگرچہ بعض ماخذ اس شخص کا نام بھی فلیپیڈیز ہی بتاتے ہیں لیکن یہ بات باور کرنا مشکل ہے کہ یہ شخص سپارٹا کا ۱۵۰ میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی اس قابل ہو گا کہ وہ ایتھنز کی طرف اس جوش اور جذبے سے دوڑتا چلا جاتا۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ صدیوں بعد سپارٹا کا لیجنڈ اور ایتھنز کا لیجنڈ آپس میں خلط ملط کر دیے گئے اور یہ دو سے ایک ہی نام بن گیا اور اس کا نام بھی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ فیڈیپیڈیز بن گیا(Pheidippides) اگرچہ اس کہانی میں بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں اور ماڈرن مورخ اس کی صداقت پر یقین نہیں رکھتے لیکن بہر حا ل یہ ہی وہ لیجنڈ یا کہانی ہے جس کی کوکھ سے ماڈرن میراتھان نے جنم لیا۔