عہد وفا

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : فروری 2005

عاملوں اور جھوٹے پیروں کی وارداتوں اور غیرت کے قتل کے پس منظر میں لکھی جانے والی خصوصی تحریر

            یارمحمود،بڑاحوصلہ ہے تم میں،نہ توتم نے ظفرین کو زندگی سے محروم کیا اور نہ ہی اسے طلاق دیـــــ’’محمود چوہدری کی کہانی سننے کے بعدمیں نے کہا۔وہ بولا،‘‘وفا کے وہ دوبول،جو شادی کی پہلی رات اس سے بولے تھے،میں تو آج تک وہی نبھا رہا ہوں،وگرنہ یہ عورت اس قابل ہے ہی نہیں کہ میں اسے گھر تو کیا،زندہ بھی دیکھوں۔میری ماں،بڑے چاؤ سے اپنی بھتیجی کو بہو بنا کر لائی تھی،اب میں اس عورت کو بے گھر کر کے امی جان کی روح سے شرمندہ نہیں ہو نا چاہتا۔یہ کام کرکے میں کس منہ سے ماں کی قبر پر جاؤں گا۔ڈاکٹر صاحب!۸ ۱سال ہو گئے ہیں ہماری شادی کو، شروع کے چند سالوں کے سوا،اس عورت سے ،مجھے ایک دن بھی سکھ نہیں ملا۔’’‘‘محمود آخرایسی کون سی وجہ ہے کہ تم نے اسے اب تک قتل نہیں کیا۔’’میں نے شدید اصرارکرتے ہوئے اس سے پوچھا،‘‘کیونکہ ایسی عورتیں توشوہر کے ہاتھوں قتل ہو جایا کرتی ہیں۔اورہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل تو روز کا معمول ہے۔’’ لیکن اس نے میر ے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور اس وقت وہ طرح دے گیا ۔

            ظفرین کئی سالوں سے میرے پاس آرہی تھی۔وہ قریب کے ایک گاؤں کی رہنے والی تھی۔کبھی اپنی دوائی لینے اور کبھی اپنے بچوں کی دوائی لینے اور کبھی کبھار محلے کی کسی عورت کے ساتھ،بہرحا ل مہینے دو مہینے میں وہ ایک دو بار ضرور آ جا تی تھی۔میرے ساتھ خاصی مانوس بھی ہو گئی تھی۔طبیب اور مریض کا رشتہ ایک عجیب قسم کا با اعتماد رشتہ ہوتا ہے۔جو ڈاکٹر صاحبان،میری طرح جنرل پریکٹیشنزہوتے ہیں،وہ ایک طرح سے مریضوں کے فیملی ممبر ہوتے ہیں۔مرض کی تشخیص کے لئے،مریض کے ذاتی حالات سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔اور یوں ڈاکٹر مریضوں کے ایسے کئی رازوں کا امین ہوتا ہے ،جو اس کے دیگر یملی ممبرز کو بھی معلوم نہیں ہوتے۔ میں مختلف اوقات میں،مختلف نشستوں میں،ظفرین سے اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں کئی قسم کی باتیں معلوم کر چکا تھا۔بعض مریض تو بڑے باتونی ہوتے ہیں،سوال پوچھ پوچھ کر ڈاکٹر کا دماغ چاٹ لیتے ہیں۔ظفرین بھی اسی قسم کی مریضہ تھی۔میں اپنے طریق علاج میں مریض کو بولنے کی اجازت دیتا ہوں،میں اپنا کام بھی کرتا رہتا ہوں اور مریض کی بھی سنتا رہتا ہوں۔بعض اوقات تو بڑی دلچسپ صورتحال ہوتی ہے کہ ایک مریض کی نبض پر ہاتھ،دوسرے کے منہ میں تھرما میٹر،تیسرے کا نسخہ زیرقلم اور چوتھے مریض کو اس کی پرہیز بتا رہا ہوتا ہوں۔اس طرح کے حالات میں،ظفرین جب میرے پاس آ جاتی،تو میں ذہنی طور پر تیا ر ہو جاتا کہ اب مجھے طرح طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔وہ ایک ایک سوال کو تین تین ،چار چار،بار پوچھتی تھی۔بعض اوقات تو اُس کے اِس طرح کے بے معنی سوالوں سے،پاس بیٹھے مریض بھی گھبرا جاتے لیکن میں اُس کی اِس عادت سے لطف لیا کرتا۔ اکثراوقات تو وہ لایعنی قسم کی شکایات کے ساتھ آتی،جن سے جسمانی کم نفسیاتی بیماری کا اظہارزیادہ ہوتا۔سال میں کبھی کبھار وہ۴،۵ماہ کے وقفے سے آتی،تو میں حیران ہوتا کہ اتنا عرصہ وہ کہاں رہی۔اس غیرحاضری کی کوئی معقول وجہ تووہ نہ بتا پاتی اور میں بھی اصرارنہ کر تا،اس لئے کہ ہر ماہ ہسپتال آنا کوئی ضروری بھی تو نہیں ہوتالیکن بہر حال، مجھے تجسس ضرور رہتا کہ اتنا لمبا وقفہ کیوں پڑ جاتا ہے۔

            وہ اگرچہ سانولے رنگ کی تھی،لیکن نین نقش اور جسم کی تراش خراش کے اعتبارسے مجموعی طور پر خوبصورت کہی جا سکتی تھی۔جسم فر بہی مائل اور قد قدرے لمبا تھا۔کپڑے عموماسادہ پہنتی اور زیور بہت کم ہی استعمال کرتی۔امورخانہ داری میں لاپرواہ اور بچوں کی دیکھ بھال کے معاملے میں لا تعلق سی لگتی تھی۔بچوں کی بیماری،علاج اور پرہیز کے بارے میں جتنے سوالات وہ کرتی تھی،اتنی زیادہ احتیاط سے دوائی کا استعمال کرانا اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا۔اس سے جتنی رقم طلب کرو،اس نے کبھی جھگڑا نہ کیا،لیکن دوائی کے معاملے میں ایسی بے احتیاط کہ تو بہ بھلی۔زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی،لیکن زمیندارنیوں کے سے کروفر سے دور تھی۔کبھی میں اسے ملنگنی کہتا اور کبھی اللہ لوک۔اس پر وہ خوش ہوتی۔

            ‘‘ظفرین ،کیابات ہے،آج بڑی خاموش خاموش سی ہو’’ایک دن اُس کا معائنہ کرتے ہوئے میں نے کہا،‘‘نہیں ڈاکٹر صاحب،ایسی تو کوئی بات نہیں،بس رات سے جسم میں آگ لگی ہوئی ہے،دل دھک دھک کر رہا ہے اور معدہ کسی چیز کو قبول نہیں کر رہا۔’’‘‘کیاآج پھر محمود خان سے جھگڑا ہوا ہے؟’’میں نے اندازے سے سوال داغا۔‘‘نہیں نہیں،یہ بات نہیں،بس ایسے ہی طبیعت میں گرانی ہے۔’’وہ طرح دے گئی۔لیکن مجھے یقین تھا کہ محمود نے اِس پر آج ضرور ہاتھ اٹھایا ہے۔مختلف ذریعو ں سے مجھے یہ اطلاع ملتی رہتی تھی کہ محمود چوہدری و قتاً فوقتاً اُس پر ہاتھ اُٹھاتا رہتا ہے۔لیکن نہ تو وہ کوئی بات اگل رہی تھی اور نہ ہی محمود خان کچھ بتاتا تھا۔حالانکہ وہ بھی میرا اچھا خاصا جاننے والا بن گیا تھا۔اور وہ مجھے اپناہمدرد اور مخلص بھی سمجھتا تھا۔بڑی دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ دونوں میاں بیوی الگ الگ،ایک عرصے سے میرے پاس اپنی اپنی تکالیف اور شکایات کے ازالے کے لئے آرہے تھے اوردونوں ہی میرے ساتھ اچھے خاصے مانوس بھی ہو چکے تھے۔ لیکن مجھے کئی سالوں بعد پتہ چلاکہ یہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہیں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی کس حد تک پرُ سکون تھی؟؟اس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ ان دونوں میاں بیوی کی الگ الگ رام کہانی سے میں یہ طے کر چکا تھا کہ ظفرین کا خاوندبڑااجڈ،گنواراور ظالم ہے۔وہ ظفرین جیسی سادہ دل اوردرویش صفت عورت کو ستا رہا ہے۔اوراس کی جسمانی ونفسیاتی تکالیف کا باعث بنا ہوا ہے۔اور دوسری طرف محمود چوہدری کی بیوی کے بارے میں،میں یہ رائے قائم کر چکا تھاکہ وہ ایسی کمزوریوں کی مالک ہے،جس کے باعث وہ محمود جیسے شریف آدمی کے لئے سراپا اذیت بن چکی ہے۔اور یہ کمزوریاں کس قسم کی ہیں میں محمود کی باتوں سے کوئی اندازہ نہ لگا پایا تھا۔لیکن مجھے اس کی تلاش ضرور تھی۔

            اور آخر کار میں یہ راز بھی پا گیا تھا کہ ان دونوں کے درمیان وجہ اختلاف کیا ہے۔اب تو ان سے تعلق بنے ایک مدت گزر چکی تھی۔وہ بچہ جو کبھی ظفرین اپنی گود میں اٹھا کر میرے پاس علاج کے لئے لایا کرتی تھی،اب وہ جوان ہو کر، اپنے ماں باپ کو گاڑی میں میرے پاس لانے لگا تھا، کبھی باپ کو اور کبھی ماں کو۔پچھلے چھ ماہ سے محمود چوہدری اکیلا ہی آرہا تھا،ویسے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی،کیونکہ وہ میاں بیوی اکیلے اکیلے ہی جی رہے تھے۔لیکن چھ ماہ سے ظفرین بھی نہیں آرہی تھی،اس لئے ایک دن میں محمودچوہدری سے ویسے ہی سوال کر بیٹھا،کہ‘‘چوہدری،آج کل‘‘ظفری’’نہیں آرہی،کہیں اسے پار تو نہیں کر دیا؟’’ہمارے ملک میں معمولی معمولی باتوں پر عورتیں اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہو جایا کرتی ہیں،یہاں تو خلیج ہی بہت بڑی حائل تھی۔اس لئے میں نے ہوا میں ہی یہ تیر چلایا تھا۔لیکن یہ تیر صحیح نشانے پر جا لگا۔اور محمود خان پھٹ پڑا،‘‘دفع کرو اس ذلیل بے وفاعورت کو،میں تو اس کی شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں۔اسے اگر قتل کرنا ہی ہوتا،تو دس سال پہلے کر لیتا۔وہ عورت ہے ہی نہیں ڈاکٹر صاحب،کتیا ہے کتیا!اس کا بڑا بیٹا بھی ساتھ تھا،جب اس کی ماں کی باتیں شروع ہوئیں تو وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور میرے دفتر سے اٹھ کر باہر چلا گیااور چوہدری محمود مجھے کہانی سنانے لگا۔

            شادی کے پہلے دو سال نہایت یاد گار سال تھے۔ظفرین،محمود کے ماموں کی بیٹی تھی،دونوں اکٹھے پلے بڑھے تھے۔شادی سے قبل ایک دوسرے کے لئے محبت کے خفیف جذبات رکھتے تھے،لیکں شادی کے بعد تو دونوں نے ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہا۔اور ان کی چاہت کی مثالیں دی جانے لگیں،وہ یک جان دو قالب ہو چکے تھے،شادی کے دو سال بعد محمود کویت چلا گیا۔وہاں کمائی تو خوب تھی،لیکن ظفرین کے بغیر دل نہیں لگتا تھا۔جیسے تیسے کر کے ایک سال بعد، وہ چھٹی پر آیاتو اس کی ظفرین کچھ بدلی بدلی سی تھی۔ان کا ایک بچہ بھی ہو چکا تھا۔ظفرین کے طرز عمل میں وہ چاہت اورمحبت نہ پا کر محمود پریشان ہو گیا۔لیکن اس کو نہ تو اس کی وجہ سمجھ آتی تھی اور نہ ہی وہ اس کا اظہار کر پاتا تھا۔بظاہر وہ ٹھیک تھی،وہ دونوں سیریں بھی کر رہے تھے،شاپنگ بھی کرتے تھے،رشتہ داروں کے ہاں بھی آ جا رہے تھے،لیکن جن جذبات ِمحبت کا وہ متمنی تھا،اسے ظفرین سے نہیں مل رہے تھے۔کبھی کبھی وہ کھو سی جاتی تھی۔گھر کے کام کاج میں عدم دلچسپی،خاوند کے ذاتی کاموں میں عدم دلچسپی اور بچے کی نگہداشت میں لاپرواہی اس کی عادت بن چکی تھی۔اگر اسے کچھ کہا جائے،تو کھانے کو دوڑتی۔زمین آ سمان سر پر اٹھا لیتی۔محمود کے لیے یہ سب کچھ حیران کن بھی تھا اور پریشان کن بھی۔

            اس اثناء میں محمود چوہدری کی چھٹی ختم ہو گئی اور وہ دل کی دل میں لئے واپس چلا گیا۔اب اسے وہاں کسی کل چین نہ تھا۔ہر وقت دھیان ظفرین پر اٹکا رہتا۔روزانہ فون کرتا۔اب تو وہ فون پر آنے سے بھی کترانے لگی ۔ابھی تک اس نے اس کیفیت کا ذکر کسی سے نہ کیا۔کام تو وہ کر رہا تھا،پیسے بھی پہلے سے زیادہ کما رہا تھا،لیکن اس کے دل کا چین چھن گیا اور سکون و اطمینان جاتا رہا۔اس دوران میں ایک تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ مذہب کی طرف اس کا رحجان ہو گیا۔ایک عالم دین سے قرآن مجید سیکھنا شروع کر دیااور نمازوں میں باقاعدگی پیدا کر لی۔اگرچہ دیانتداری تو پہلے ہی اس کے اندرکوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لیکن قرآنی تعلیم سے اس کے معاملات میں مزید بہتری پیداہونے لگی۔ڈیوٹی میں بھی زائدوقت لگانا شروع کر دیا۔اس طرح اس کے دل کی بے چینی تو کم ہو گئی لیکن ظفرین کے بارے میں تشویش بہرحال قائم رہی۔اس کا کوئی حل اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

            ادھر پاکستان میں، محمود کے گھر میں اس کی ماں تھی،ایک اس کا چھوٹا بھائی تھاجو سکول میں پڑھتا تھا،باپ فوت ہو چکا تھا۔بیوی اور بچہ تھے۔ظفرین کے ماں باپ دونوں فوت ہوچکے تھے۔ایک اس کا بڑا بھائی تھا،جو پچھلے دس سالوں سے امریکہ میں مقیم تھا اور اس کے بیوی بچے اس کے پاس تھے۔کبھی کبھار وہ فون پر ظفرین سے بات کر لیتا،باقی رشتہ داروں سے وہ قطع تعلقی کر چکا تھا۔یہی وہ دن تھے جب ظفرین نے اپنے طبی مشوروں کے لئے میرے پاس آنا شروع کیا،جس کا ذکر آغاز میں کر چکا ہوں۔جس محلے میں وہ رہتی تھی،اس کے ایک گھر میں کشمیر سے ایک پیر صاحب آتے تھے۔وہ وہاں محفل شفاء منعقد کرتے تھے،جس میں تعویذ،گنڈااور دم درود کے علاوہ وعظ و نصیحت کا کام بھی ہوتا تھا۔یہ مجلس شفاء ہر ماہ منعقد ہوتی اور لنگر بھی پکتا تھا جو ساری بستی میں تبرکا ًتقسیم کیا جاتا تھا۔یہ مجلس کئی سالوں سے منعقد ہو رہی تھی۔بڑے پیر صاحب تو اب فوت ہو چکے تھے اب ان کا بڑا بیٹا جو گدی نشین تھا،وہ آیا کرتا۔بڑے شاہ صاحب تو سہ ماہی پھیرا لگاتے تھے،لیکن یہ صاحبزادہ صاحب ہر ماہ تشریف لانے لگے۔بظاہر تو یہ روحانی مجلس تھی،لیکن بباطن کئی گفتنی نا گفتنی کہانیاں بھی اس کے بارے میں مشہور تھیں۔کشمیر میں جہاں پیر صاحب کے اجداد کے مزار تھے وہاں سالانہ عرس لگا کرتا ،جس میں شرکت کے لئے اس بستی سے عورتوں اور مردوں کی بسیں شامل ہوا کرتیں۔ماہانہ مجلس میں آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی آیا کرتے۔زیادہ تر عورتیں ہی پیر صاحب کے دست شفاء سے فیض یاب ہوتیں۔پہلے تو پیر صاحب ماہانہ دورہ فرماتے تھے،اب پچھلے کچھ عر صے سے وہ زیادہ تر وہیں قیام کرنے لگے تھے۔

            گاؤں میں رواج تھاکہ نیا شادی شدہ جوڑا شادی کے بعد، لازماً،پہلی منعقد ہونے والی مجلس میں شریک ہوتا۔محمود نے یہ روایت توڑ دی تھی،اور شادی کے بعدکی محفل میں حاضری نہ دی تھی۔کیونکہ وہ چوہدریوں کی اولاد تھا،اس لئے کسی نے سر عام تو اس پر اعتراض نہ کیا،لیکن عورتوں عورتوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ پیر صاحب اس گستاخی پر معاف نہیں کریں گے۔اور سزا کا نزلہ عضو ضعیف یعنی دلہن پر ہی گرے گا۔وہ تو خیریت رہی کہ بڑے پیر صاحب انہی دنوں فوت ہو گئے۔جس کی تکفین و تدفین میں چوہدری محمود نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور میت کو کشمیر پہنچانے، دفن کرنے اور بعد از تدفین، چالیس دن تک کی رسومات میں دامے درمے سخنے حصہ لیا۔اس چیز کو سابقہ گستاخی کی ازالہ سمجھ لیا گیا۔لیکن ظفرین کے ذہن میں یہ بات قائم رہی کہ مجھے بے ادبی اور گستاخی کی سزا ضرور ملے گی۔چوہدری محمود کے لئے نہ تو وہ کوئی گستاخی تھی اور نہ ہی تدفین کی خدمت میں حصہ لینا اس کا کفارہ۔اس کے بقول دوسرا کام تو ہماری روایت اور ذمہ داری تھی،کیونکہ پیر صاحب ہمارے گاؤں میں بمنزلہ مہمان تھے۔وہ جب اس عالم مسافری میں فوت ہو گئے تو یہ ان کا حق تھاجو اسلام نے ہم پرقائم کیا ہے کہ ہم عزت و احترام سے مرنے والے کو دفن کریں۔باقی رہا گستاخی والا مسئلہ،تو یہ روایت تو بس خود ساختہ روایت ہی ہے کوئی شریعت کا حکم نہیں۔ اور ہماری غیرت کے بھی یہ خلاف ہے،اس لئے اس پر عمل نہ کرنا،کسی قسم کا دینی یا اخلاقی جرم نہیں ہے کہ جس پر کسی قسم کی غیبی سزا کا خطرہ ہو۔لیکن ظفرین کے لئے یہ بات ایک خوف کی شکل اختیار کر گئی۔ اس میں زیادہ دخل خواتین کی باتوں کا تھا۔جلد ہی محمود روزگار کے سلسلے میں کویت چلا گیا۔خاوند کی عدم موجودگی میں ظفرین عدم تحفظ کاشکار ہو گئی اور اس کا یہ خوف شدت سے ابھر کر سامنے آگیا۔اس لئے اس نے پیر صاحب کی اس مجلس میں ، خاوند کی اجازت کے بغیر،چوری چوری شریک ہونا شروع کردیااور یہ راز ایسا قائم رہا کہ محمود جب دوسری بار چھٹی آیا تو بھی وہ کوئی راز پائے بغیر واپس چلا گیا۔اگرچہ وہ ظفرین کے رویے کا عادی ہو چکا تھا،لیکن اس کے گلے میں پھانس ضرور قائم رہی۔

            کچھ ظفرین کے دلکش سراپا کے باعث،کچھ اس کی دولت کی کشش اور کچھ چوہدری محمود سے انتقام کے جذبے کی بنا پر،پیر گل بادشاہ ظفرین پر خصوصی توجہ کرنے لگا۔اور یہ خصوصی توجہ شیطان کا راستہ صاف کرنے میں کامیاب ہو گئی۔وعظ وہدایت کے پردے میں،انسان کا ازلی دشمن اپنا کھیل کھیلنے لگا۔ظفرین اور پیر گل بادشاہ کو ہوش اس وقت آیاجب وہ شیطان کے پھندے میں کسے جا چکے تھے۔اور وہ کام جو دوجوان دلوں کی بھول قرار دیا جا سکتا تھا،اب ان کامن پسند مشغلہ بن گیا۔

            دربار اور کاروبار کی مجبوریوں نے پیر گل بادشاہ کو اپنے وطن میں اتنا مصروف کر لیاکہ اسے یہ گاؤں اور اس کی محفلیں چھوڑنا پڑگئیں۔اس کی شادی ہو گئی اور مذہبی و روحانی کاموں کے علاوہ اب اس نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔اس طرح گاؤں کی محفلیں بند ہو گئیں اور پیر صاحب کا آناجانا بھی ختم ہو گیا۔خاص طور پر وہ ظفرین سے کنی کترانے لگا۔خاوند کی عدم موجودگی،اور پیر صاحب کی عدم التفاتی نے ظفرین کو پاگل سا کر دیا۔اس کی بیماری کا سن کر چوہدری محمود کویت سے واپس آ گیا۔کویت میں سات سالہ کمائی سے اس نے کچھ زرعی زمین خرید لی،مکان بنایا،ٹریکڑخرید لیا اورڈیرہ بنا کر زمین کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ظفرین کا دل اس سے اچاٹ ہو گیا،لیکن بظاہر وہ اس کی بیوی بنی رہی۔ظفرین دیگر لوگوں کے ساتھ دربار پر بھی جاتی رہی اور کسی نہ کسی طرح پیر گل بادشاہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔روحانیت کے اس روپ پر سادہ دل محمود رکاوٹ نہ بنا۔ایک بار وہ خود بھی پیر گل بادشاہ سے ملنے اس کے علاقہ میں چلا گیا۔آدمی سیانا تھا،وہ ظفرین اور پیر صاحب کے درمیان خفیہ تعلق کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی ایکشن لیتا، ظفرین اس سے بھی سیانی نکلی،اس نے مذہب اور تصوف کا لبادہ اوڑھ لیا۔اور‘‘ مدنی سرکار کی ملنگنی’’ کا نام اختیار کر لیا۔جس کی وجہ سے کسی قسم کا شک کیا جانا مداخلت دین قرار پا سکتا تھا۔اولاد جوان ہو رہی تھی،چودھری کی والدہ بھی فوت ہو گئی،بیوی جس سے وہ شدید محبت رکھتا تھا،ملنگنی بن گئی۔گھر سے اسے کوئی دلچسپی نہ رہی۔گھر سے باہر وہ آسودہ،ہنس مکھ اور ایک باوقار زمیندار تھا۔گھر کے اندر آتے ہی اسے بیوی کی شکل میں ایک آزمائش کا سامنا تھا۔بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے دیگر امور تو نوکر چاکر سنبھالے ہوئے تھے،لیکن ایک ذمہ دار خاتون خانہ کی موجودگی میں،جس طرح گھر ایک جنت نما ٹھکانہ ہوتا ہے،اس سے چودھری محمود محروم تھا۔اوپر سے بیوی کا آئے روز کشمیر جانا الگ سے پریشانی تھی۔وہ دربار میں جا کر دو دو تین تین مہینے رہنے لگی تھی۔پیر صاحب کے ساتھ کبھی کبھی وہ تبلیغی اور روحانی دوروں پر بھی نکل جاتی۔اس کے لیے اسے نہ تو خاوند کی اجازت کی ضرورت تھی اور نہ ہی خاوند کے وسائل کی۔وہ ایک شدید کشمکش میں تھا۔روحانیت اور مذہب کے پردے میں جو کھیل کھیلا جا رہا تھا ، اس سے آ گاہی اس کے لیے سوہان ِ روح تھی۔اور پھر راز بھی رازنہ رہا،لوگوں کی زبانوں پر بھی یہ بات آہی گئی۔اب تک تو محمود صبر کر رہا تھا کہ بات میاں بیوی کے درمیان تھی۔یہ صبر بھی اتنا آسان نہ تھا۔خاص کر جس دن سے اسے ظفرین کی بے وفائی کی خبر ہوئی تھی وہ خون کے آنسو رو رہا تھا۔لیکن اب بات نکل گئی تھی۔گھر برادری کے مرد اسے اکسانے لگے تھے کہ ظفرین کو قتل کر دیا جائے۔محمود کے چچا زاد بھائی،خاص کر ظفرین کے معاملے میں محمود کو غیرت دلاتے رہتے تھے۔اب تک تو محمود یہ سوچ کر چپ ہو رہتا تھا کہ اچھا یا برا، گھر تو چل رہا ہے۔بچے چھوٹے چھوٹے ہیں،پل تو رہے ہیں۔خود یہ یتیم لڑکی ہے۔اس کا کوئی اور آسرا اور سہارا بھی تو نہیں ہے۔ماں جی کو بہت پیاری ہے۔میں اگر اسے طلاق دے دوں تو میری ماں جیتے جی مر جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔اس وقت تو معاملہ محض طلاق کا ہو سکتا تھا، اب تو اس کے جو کرتوت تھے،ان کے باعث ،بات اس کے قتل تک پہنچ رہی تھی۔اور آخر لوگوں کے طعنے سن سن کر وہ اس بات پر تیا ر ہو گیا کہ اسے ٹھکانے لگا دیا جائے۔ہمارے معاشرے میں عورت کی قیمت ہی کیا ہے؟؟اور ایسی عورت جو خاوند سے بے وفائی کر رہی ہو،ہماری دیہی معاشرت میں جینے کا حق نہیں رکھتی۔لیکن مرد چاہے جدھر منہ مارتا رہے، جتنی چاہے آشنائیاں گانٹھ لے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

            لیکن محمود تو نیک آدمی تھا۔وہ تو وفادار تھا۔اور ظفرین سے کیے اپنے قول کو نبھا رہا تھا۔لیکن دوست یار اسے جینے نہیں دے رہے تھے۔اپنے طور وہ ظفرین کو سمجھا رہا تھا۔وہ اگرچہ اپنی وفاداری کی قسمیں کھاتی تھی،لیکن دربار پر جانا بھی نہیں چھوڑتی تھی۔چھ چھ مہینے گھر سے غائب رہتی اور ہر بار دربار سے واپس لائی جاتی۔اب تو پیر گل بادشاہ بھی جوانی کے لا ابالی پن سے آگے نکل کر سنجیدہ ،باوقار اور روحانی اور سیاسی شخصیت بن چکا تھا۔ دونوں کی ملاقاتیں تو ضرور ہوتی تھیں، لیکن اس میں اب شیطان کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا۔جوانی کی بھول ایک اذیت ناک یاد کی حیثیت سے دونوں کے گلے کی پھانس تھی جس کے مداوے کی کوئی شکل ان دونوں کو نہیں سوجھ رہی تھی۔ایسے میں محمود سوچتا کہ اسے قتل کرے بھی تو کیوں کر؟سزا دے بھی تو کس اصول اور ضابطے کے تحت؟آخر ایک انسانی جان ہے،جس کی اللہ کے ہاں بڑی تکریم ہے۔آخر ایک انسان کا قتل ہے ،کوئی مکھی یا مچھر کا قتل تو نہیں کہ اللہ کے حضور اس کی پرسش ہی نہ ہو۔اللہ کریم نے تو فرما رکھا ہے۔‘‘وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے،جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے۔اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔’’اللہ کریم انسانی جان کو قتل کرنے کی صرف اس صورت میں اجازت دی ہے کہ یا تو وہ قصاس میں قتل کیا جائے یا وہ اسلامی حکومت میں ایک فسادی اور غداری کا مرتکب ہو۔اس کے علاوہ کی وجوہات قتل ناحق میں آ تی ہین جس کی بڑی سخت جواب دہی کرنی پڑے گی۔

وہ بار بار سوچتا کہ کس اتھارٹی کی بنا پر عورت کو ہمارے معاشرے میں قتل کر دیا جاتا ہے؟اور میرے پاس کیا جواز ہو گا اللہ کے ہاں اس قتل کا؟ایک طرف اس کی یہ سوچیں تھیں اور دوسری طرف برادری کا رسم و رواج تھا۔دوست احباب کے طعنے تھے،تیسری طرف گھر کا ماحول تھا کہ جو اسے کھانے کو دوڑتا تھا۔بہرحال اس نے ہوش کا دامن تھامے رکھا اور ظفرین کو مسلسل سمجھانا بھی ترک نہ کیا۔صبر اور ہمت سے وہ حالات کا مقابلہ کررہا تھا۔چچا زاد بھائی، جوان بھتیجے اور دیگر احباب نے اس کا جینا دو بھر کر دیا تھا۔وہ شرم کے مارے زیادہ وقت ڈیرے پر گزارتا ۔گلی بازار جانے سے کتراتا اوراہل بستی کا سامنا کرنے سے ڈرتا۔اِدھر خدا کا ڈر تھا اُدھر زمانے کا ڈر تھا۔ایک طرف آخرت میں جوابدہی کا احساس تھااور دوسری طرف سماج کے سامنے سرخرو ہونے کا مسئلہ،ایک طرف خدا کا قانون تھا اور دوسری طرف برادری اور گاؤں کا رسم و رواج۔گویا وہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا تھا۔

            کویت میں،جو چند روز اس نے ایک عالم دین کی صحبت میں گزارے تھے،اس کی دی ہوئی تعلیم و تربیت اب کام آ رہی تھی۔جس کے نتیجے میں وہ ہر کام پر یہ دیکھنے لگا تھا کہ اس قدم کے اٹھانے پر اس کا اللہ اس سے راضی ہو گا یا ناراض۔اس کی زندگی اب آخرت رخی ہو چکی تھی۔تمام تر دنیاوی امور کو وہ انجام دے رہاتھا،لیکن دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہوا تھا۔دنیا کے اندر جی رہا تھا،لیکن آخرت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔صبر اور حکمت اس استاد کی تعلیمات تھیں۔مسجد سے تعلق قائم رکھا تھا۔لیکن اہل مدرسہ بھی اسے بزدلی،نامردی اور بے غیرتی کے طعنے دیتے ۔ایسے ہر موڑ پر وہ قرآن اور نماز سے سکون حاصل کرتااور اپنے رب سے دعائیں اورآہ وزاریاں کرتا۔اپنے مسئلے کے حل کے لئے عقل و خرد سے راہیں تلاش کرتااور مکمل ہوش سے تمام تر اقدام اٹھا رہا تھا۔اب تو یہ حالت ہو چکی تھی کہ وہ اسے قتل کر بھی دیتا تو اس کا مسئلہ سلجھ نہیں سکتا تھا کہ وہ عورت شہیدہ کا درجہ پا جاتی اور اس کی قبر مرجع خلائق بن جاتی اور وہ پوجی جاتی۔

            ‘‘ڈاکٹر صاحب!اب آپ ہی بتائیے’’وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ‘‘قتل،طلاق یا برداشت میں سے کون سا راستہ اختیار کروں کہ آخرت میں میرا نقصان نہ ہو؟ایک طرف اللہ کریم کا واضح حکم ہے کہ کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہوقتل نہ کرو مگر یہ کہ حق کے ساتھ،اور یہ کہ ایک جان کا نا حق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور دوسری طرف لوگوں کے طعنے اور تمسخر ہے۔طلاق دیتا ہوں تو ایک طرف بچے تباہ ہو تے ہیں اور دوسری طرف وہ عورت بھی گمراہی اور بے راہ روی کی دلدل میں پھنس جائے گی۔وہ میری بیوی نہ رہی تو کیا ہوا،میرے ماموں کی بیٹی تو ہے اور میرے بچوں کی ماں تو ہے۔اس کی مزید تباہی کی ذمہ داری کس پر آئے گی؟تیسرا راستہ برداشت کا راستہ ہے،دعائے ہدایت کا راستہ ہے اور وہی میں نے اختیار کیاہوا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ میرا اللہ میری دعا ضرور سنے گا اور ظفرین کے ساتھ میری گہری محبت ایک دن ضرور رنگ لائے گی اور طفرین راہ ہدایت پر واپس آ ئے گی۔انشا اللہ!!لیکن یہ کٹھن راستہ ہے۔دعا کریں کہ رب تعالیٰ مجھے صبر و ہمت سے اس آزمائش پر پورا اترنے کی توفیق دے۔ آمین!