پسند کی شادی

مصنف : عبیداللہ طارق ڈار

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : فروری 2005

جھوٹے عامل نوجوان نسل کی زندگیاں کیسے برباد کرتے ہیں؟

            ہمارے محلے کا ایک نوجوان جو بی ایس سی کا طالب علم تھا، ایک دن مجھے ملنے کے لیے آیا۔ اس نے اپنے کسی مسئلہ کو بیان کرنے کے لیے علیحدگی میں ملاقات کا وقت مانا ۔ میں اس نوجوان کو اچھی طرح جانتا تھا۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ اسے مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے۔ بہرحال میں نے اسے دوسرے دن آنے کا کہا۔ اگلے روز نوجوان مقررہ وقت پر پہنچ گیا اور جھجکتے، شرمائے ہوئے بہت مشکل سے اپنا مدعا زبان پر لانے میں کامیاب ہوا۔ اس کے انداز گفتگو سے میں نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ تھا کہ دراصل اس نوجوان نے روحانی عملیات کے موضوع پر میری ایک کتاب کا مطالعہ کیا تھا اور اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ شاید میں بھی عامل ہوں۔ اس بناء پر اس نے اپنے ذاتی مسئلہ کے حل کے لیے میرا انتخاب کیا۔ نوجوان نے پہلے مجھ سے عہد لیا کہ میں اس داستان کا کسی سے ذکر نہ کرو گا اور دوسرا یہ کہ میں اس مسئلہ کے حل کے لیے پوری کوشش کروں گا۔ میں نے ان شاء اللہ کہہ کر اسے یقین دلایا کہ میں اس کے ساتھ ہر ممکن طریقے سے تعاون کروں گا۔

            نوجوان نے اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا میں اپنی پسند کی جگہ پر شادی کرانا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس لڑکی کی شادی ہو گئی ہے۔ اب میری خواہش یہ ہے کہ پہلے اس لڑکی کو طلاق ہو اور بعد میں میری اس کے ساتھ شادی ہو جائے۔ میری خواہش میں لڑکی کی رضامندی بھی شامل ہے۔ اگر آپ میرا یہ کام کردیں تو میں زندگی بھر آپ کا مشکور رہوں گا اور اس کام کومکمل کرنے کے لیے جو اخراجات درکار ہوں گے، میں ان کی ایڈوانس ادائیگی کے لیے تیار ہوں۔ نوجوان جو مجھے بہت شریف النفس معلوم ہو رہا تھا، اس کے ان خطرناک جذباتی ارادوں نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ میں اس کو جانتا تھا۔ مجھے اس سے یہ امید نہیں تھی۔

            بجائے اس کے کہ میں اسے انکار کرتا اور وہ کہیں غلط جگہ پھنس جاتا، میرے ذہن میں خیال آیا کہ اسے ان خیالات پر شرمندگی کا احساس دلانے کی بجائے اس سے تمام واقعات معلوم کیے جائیں۔ ضرورت مند چونکہ دیوانہ ہوتا ہے، اسے جہاں بھی امید کی ہلکی سی کرن نظر آتی ہے، وہ اپنے مسئلہ کے حل کے لیے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اب تقدیر اسے گھیر کر صحیح مقام پر لے آئی تھی، اس لیے میں نے سوچا کہ کم از کم اپنے طور پر میں اس کے ذہن سے یہ فاسد خیالات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میں نے نوجوان سے کہا کہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اب تک جو کوششیں وہ کر چکا ہے، ذرا اس کی تفصیل سے آگاہ کرے۔ اس کے بعد ہی میں اپنی کچھ رائے ظاہر کروں گا۔

            نوجوان نے اپنی داستان غم کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری اپنے محلے کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کی خواہش تھی، لڑکی بھی والدین کی باہمی رضامندی سے شادی کے حق میں تھی مگر میرے تمام خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب میرے والدین ان کے ہاں رشتہ مانگنے کے لیے گئے تو لڑکی والوں نے ہمارے مسلک سے اختلاف کی وجہ سے ہمیں رشتہ دینے سے صاف انکار کر دیا اور ساتھ ہی چند ماہ بعد اس کی زبردستی کسی اور جگہ پر شادی کر دی۔ لڑکی نے شادی سے پہلے یقین دلایا کہ والدین زبردستی شادی کر رہے ہیں مگر میں بہت جلد طلاق لے کر واپس آجاؤں گی۔ آپ میری ہمت کا اندازہ لگائیں کہ میں نے اس کی شادی کی تقریب میں شرکت بھی کی۔ مجھے اس کے وعدے پر مکمل اعتبار تھا لیکن حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ ہمارے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔

            مجھے کسی ذریعے سے علم ہوا کہ تعویذ دھاگے کے ذریعے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن مجھے ان چیزوں پر یقین نہیں تھا۔ میں نے اپنی اس آرزو کی تکمیل کے لیے بہت زیادہ نفلی عبادت کی۔ بہت دعائیں مانگیں لیکن مجھے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ تھک ہار کر میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی پیشہ ور عاملوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے میں لاہور جا کر مختلف عاملوں سے ملا۔ اس کام کے لیے انھوں نے ابتدائی فیس ۲۰۰ سو روپے سے ۱۱۰۰ سو روپے تک بتائی۔ اس رقم کے عوض انھوں نے صرف زائچہ بنا کر بتانا تھا۔ باقی اخراجات کی تفصیل انھوں نے زائچے کے نتائج سامنے آنے کے بعد بتانا تھی جو بقول ان کے ‘‘ہوائی مخلوق’’ بتاتی ہے۔ لاہور ہی کے ایک عامل نے اس مسئلہ کو حل کرنے کا خرچہ ۱۱۰۰۰ روپے بتایا۔ لاہور کے عاملوں کا سروے کرنے کے بعد میں گوجرانوالہ شہر کے مشہور عاملوں سے ملا۔ تمام ملاقاتوں کے بعد میں نے گوجرانوالہ کے ایک معروف عامل سے اپنا مسئلہ حل کرانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پہلی ملاقات ہی میں عامل سے اپنے آنے کا مقصد بیان کر دیا کہ میں ایک شادی شدہ لڑکی کو طلاق دلوا کر اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میری بات سن کر عامل نے کہا کہ یہ تو ہمارے لیے کوئی مشکل کام نہیں، آپ ۲۵۰ روپے زائچہ بنانے کی فیس ادا کردیں، آپ کی دلی مراد پوری ہو جائے گی۔

            جب میں نے زائچہ بنانے کی فیس ادا کر دی تو عامل کہنے لگا کہ زائچہ بنانے کے بعد اس کام کے باقی تمام مرحلوں کو طے کرنے کے لیے آپ کو مزید ۲۶۰۰ روپے ادا کرنا ہوں گے۔ علاوہ ازیں اس سامان کے جس کی لسٹ انھوں نے میرے ہاتھ میں تھما دی۔ سامان کی لسٹ میں موجود اشیاء کی تفصیل کچھ یوں تھی ایک عدد تولیہ، سلور کا گلاس، اپنے پاؤں کے نیچے سے مٹی کی کچھ مقدار، اگر بتی کا ایک پیکٹ، چار دن بعد میں ۲۶۰۰ روپے اور سامان لے کر عامل کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ عامل نے میرا خیر مقدم کرتے ہوئے بخوشی رقم اور سامان قبول کرنے کے بعد مجھے اپنے کمرے کے پیچھے بنے کیبن میں لے جا کر عمل کا آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے اگربتیاں جلائی گئیں اور پرفیوم چھڑکا گیا۔ اس کے بعد عامل نے مجھے کہا کہ جیب میں جو کچھ بھی ہے، اس کو نکال کر باہر رکھ دو۔ اس کے بعد جائے نماز بچھا کر عامل نے تسبیح پکڑی اور اس پر بیٹھ گیا۔ مجھے ساتھ ہی تولیہ بچھا کر اس پر بٹھا دیا۔ عامل نے میرے پاؤں کی مٹی کو سلور کے گلاس میں ڈال کر اوپر سے کالے رنگ کے کپڑے کے ساتھ اس کو ڈھانپ دیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر عامل نے کمرے کی لائٹ بجھا کر میرا ہاتھ پکڑکر کچھ ایسے انداز میں گفتگو شروع کر دی کہ جیسے کوئی پراسرار مخلوق حاضر ہو گئی ہے۔

            اس حاضری کے دوران عامل نے اس ہوائی مخلوق سے جو مجھے نظر نہیں آ رہی تھی، میرے کام کے متعلق دریافت کیا۔ عامل مجھے پہلے ہی بتا چکا تھا کہ جب ‘‘ہوائی مخلوق’’ کی حاضری ہو گی تو اس کی آواز عامل کے علاوہ کسی اور کو سنائی نہیں دے گی۔ حاضری کا یہ عمل ۲۰ منٹ تک جاری رہا۔ اس دوران عامل نے مجھے بتایا کہ ‘‘ہوائی مخلوق’’ کہہ رہی ہے کہ عمل کی کامیابی کے لیے ۱۶۰ جنگلی کبوتروں کو رات کے اڑھائی بجے کسی قبرستان میں لے جا کر ذبح کرکے گوشت وہیں پھینک آنا اور خون کو ایک برتن میں جمع کرکے واپس لے آنا ہے۔ میں ذرا کمزور دل تھا اس لیے میں نے پوچھا کہ یہ عمل میری جگہ میرا کوئی دوست کر سکتا ہے؟ عامل کہنے لگا کہ ‘‘ہوائی مخلوق’’ کہہ رہی ہے کہ تمھارے علاوہ کوئی دوسرا شخص یہ عمل نہیں کر سکتا۔ دوران حاضری میں نے یہ حامی بھر لی کہ یہ عمل خود کر لوں گا۔ اس کے بعدعامل نے میرا ہاتھ چھوڑتے ہوئے حاضری کے عمل کا اختتام کر دیا۔

            میں نے عامل سے اجازت لینے سے پہلے پوچھا کہ فرض کریں اگر میں قبرستان والا عمل خود نہ کرنا چاہوں تو کیا آپ میری جگہ یہ عمل کرلیں گے تو عامل نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا فکر نہ کرو مجھے اس عمل کو کرنے کا بہت تجربہ ہے۔ عامل نے عمل کرنے کی حامی بھرتے ہوئے کہا میں تو یہ بتانا بھول ہی گیا کہ قبرستان میں کبوتروں کو ذبح کرنے کا عمل ہر صورت آج ہی کرنا ہے ورنہ آپ کو جانی و مالی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عامل نے مجھے بتایا کہ ۱۶۰ جنگلی کبوتروں کو خریدنے کے لیے ۹۶۰۰ روپے درکار ہیں۔ مجھے یہ سن کر دھچکا لگا کہ میں اتنی بڑی رقم کا فوری طور پر کیسے انتظام کروں گا۔ عامل نے مجھے گھر جا کر رقم کا بندوبست کرنے کے لیے کہا اور ساتھ ہی یہ مشورہ دیا کہ گھر جاتے ہوئے راستے میں درود شریف کا مسلسل ورد جاری رکھوں۔ کوتاہی کی صورت میں ‘‘ہوائی مخلوق’’ کے نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہے۔ میں راستہ بھر درودشریف کا ورد کرتا ہوا اور یہ سوچتا ہوا کہ رقم کا بندوبست کہاں سے ہو گا، گھر پہنچ گیا۔ میں نے آتے ہی گھر والوں سے کہا کہ میرے فلاں دوست کو ۵۰۰۰ روپے کی اشد ضرورت ہے، باقی رقم میں نے مختلف دوستوں سے بہانے بنا کر ادھار لے لی اور رقم لے کر عامل کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور ۹۶۰۰ روپے اس کے حوالے کر دیے۔ عامل نے مجھے کہا کہ آپ کا کام تین دن میں مکمل ہو جائے گا اور ساتھ تاکید کی کہ آنے سے پہلے مجھے فون ضرور کرنا۔ میرے دو دن بہت خوش و خرم گزرے۔ مجھے اپنے مسئلہ کا حل ہونے کا مکمل یقین تھا۔ وقت مقررہ گزرنے کے بعد میں نے عامل سے فون پر رابطہ کیا تو وہ مجھے کہنے لگا کہ آپ آجائیں۔ جب میں عامل کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ میں نے کبوتروں والا عمل مکمل کر لیا ہے لیکن درمیان میں ایک رکاوٹ آ گئی ہے، جس لڑکی سے آپ شادی کرنا چاہتے ہیں، اس کا ستارہ بہت کمزور ہے۔ اس کو طاقتور کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی اور چند مزید چیزوں کی ضرورت بھی پڑے گی۔ اس کے بعد آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اپنی بات مکمل کرکے عامل نے مجھے آٹے کا بنا ہوا ایک پتلا دیا۔ ا س میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ عامل کہنے لگا کہ یہ اس لڑکی کی تشبیہ ہے اس کے ساتھ آپ کا ‘‘حب نکاح’’ کیا جائے گا۔

            مجھے اس چیز کا قطعاً علم نہیں تھا کہ ‘‘حب نکاح’’ کیا بلا ہوتی ہے۔ عامل نے مجھے بتایا کہ آپ کے مسئلہ کے حل کے لیے ‘‘حب نکاح ’’ کا ہونا بہت ضروری ہے اور ‘‘حب نکاح’’ کا عمل کرنے کے لیے دو تولے خالص کستوری درکار ہے۔ دو تولے کستوری کی قیمت انھوں نے ۱۸، ۲۰ ہزار روپے بتائی۔ مجھے یہ سن کر اتنی پریشانی ہوئی کہ اتنی پرشانی مجھے اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب اس لڑکی کی شادی ہوئی۔ لیکن اس امید پر کہ کسی طرح میرا کام ہوجائے، میں نے دو تین تولے کستوری مہیا کرنے کی حامی بھر لی، عامل نے مجھے دو دن کی مہلت دی۔ میں نے ایک جگہ سے ۱۰۰ روپے کی نقلی کستوری خرید کر عامل کو پیش کر دی کہ شاید اس سے کام بن جائے لیکن عامل نے نقلی کستوری پہچان لی اور کہا کہ اس سے کام نہیں چلے گا۔ پھر اس نے خود ہی تجویز دی کہ اگر تم واقعی اپنے مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ ہو تو اصلی کستوری خریدنے کے لیے رقم لا کر مجھے دے دو، میں اپنے ایک جاننے والے سے اصلی کستوری منگوالوں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا ایک مرتبہ پھر میں اپنے تمام دوستوں سے قرض لینے کی مہم پر روانہ ہو گیا بمشکل ۱۰ ہزار روپیہ اکٹھا ہوا، دوسرے دن میں نے عامل کو رقم ادا کرنے کے لیے جانا تھا کہ سخت بیمار ہوگیا۔ میں نے عامل کو فون کرکے اطلاع دی کہ کچھ رقم کا بندوبست ہو گیا ہے مگر میں بخار کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا تو عامل نے مجھ سے میرے گھر کا ایڈریس معلوم کیا اور کہا کہ میں اپنے ملازم کو بھیج رہا ہوں، رقم اس کو ادا کر دی جائے۔ عامل کا ملازم میرے پاس پہنچ گیا۔ میں نے رقم اس کے حوالے کی تو اس نے پیغام دیا کہ آپ باقی رقم کا جلد از جلد بندوبست کریں۔ دو دن میں نے ادھر ادھر ۹ ہزار روپے ادھار پکڑے اور عامل کے حوالے کر دیے۔ عامل نے لڑکی کی تصویر کا مطالبہ بھی کیا مگر پتا نہیں کیوں میں نے تصویر دینے سے انکار کر دیا اور بہانا بنایا کہ تصویر لانا میرے بس میں نہیں۔

            رقم وصول کرنے کے بعد عامل نے مجھے کہا کہ بس اب آپ بے فکر ہوجائیں، لڑکی دو دن بعد آپ کے پاس ہو گی۔ یہ خوش خبری سن کر میں سہانے سپنے دیکھتا ہوا گھر آگیا اور بے تابی سے دو دن گزرنے کا انتظار شروع کر دیا۔ اللہ اللہ کرکے یہ پہاڑ جیسے دو دن گزرے تو میں پھر عامل کے پاس جا حاضر ہوا کہ ابھی تک کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلا؟ تو عامل نے ٹال مٹول شروع کر دی کہ مجھے اپنے علم کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ لڑکی اس وقت حاملہ ہے اور شرعی طور پر اس حالت میں طلاق نہیں ہو سکتی۔ چونکہ طلاق اس وقت موثر ہوگی جب وہ اس حالت سے فارغ ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ اب عامل نے مجھے ایک اور چکر دیا کہ صرف ہفتہ بھر کا ایک چھوٹا سا عمل کرو، تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ عمل یہ تھا کہ سات دنوں میں درودشڑیف کی ایک ہزار تسبیح پڑھنی ہیں۔ میں نے یہ عمل بھی مکمل کر لیا۔ اس کے بعد عامل نے پھر مجھے دلاسہ دے کر ایک ہفتہ کا ایک اور عمل بتادیا۔ غرض یہ کہ جو کام تین دن میں مکمل ہونے کا مجھے یقین دلایا گیا تھا اس کو شروع ہوئے، دو ماہ ہو چکے تھے اور کامیابی کا اب بھی دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔

            ایک دن جب میں غصے میں بھرا ہوا عامل کے پاس گیا تو اس نے مجھے کہا کہ بس ایک آخری عمل رہ گیا۔ وہ بھی آزما کر دیکھ لیتے ہیں۔ اس نے مجھے کہا کہ روئی کا ایک پتلا اس طرح بنوا کر لاؤں کہ اس کا پیٹ چاک کیا ہوا ہو، میں عامل کی ہدایت کے مطابق اپنے ایک جاننے والے درزی سے روئی کا پتلا بنوا کر لے گیا۔ اس دن بارش ہو رہی تھی۔ عامل نے پتلے پر کچھ پڑھ کر اس میں سوئیاں پیوست کیں اور جلدی جلدی اس کے پیٹ میں کچھ پڑیاں رکھیں اور پتلے پر ایک تعویذ بنا کر میرے حوالہ کر دیا اور کہا کہ اس پتلے کو اپنے شہر کے کسی قبرستان میں کسی بچے کی قبر کے پاؤں کی جانب دفن کرنا ہے اور تاکید کی جلد از جلد گھر پہنچ کر اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤ۔ میں عامل سے اجازت لے کر دفتر سے باہر نکلا اور گھر جانے کے لیے بس پر سوار ہو گیا۔ مجھے بس میں سوار ہوئے ابھی چندہی منٹ ہوئے تھے کہ اس پتلے میں سے جس کو میں نے چھپا کر ایک شاپر میں ڈالا ہوا تھا، دھواں اور آگ کے شعلے نکلنا شروع ہو گئے۔ اس اچانک رونما ہونے والے واقعہ سے میں سخت گھبرا گیا۔ بس کے مسافروں نے ڈرائیور سے سخت احتجاج کرکے مجھے بس سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے بہت شڑمندگی ہوئی۔ میرے کپڑے بھی کئی جگہ سے جل گئے۔ بس سے نیچے اتر کر میں نے سڑک کے ارد گرد کھڑے بارش کے پانی میں پتلے کو بھگو کر آگ پر قابو پایا اور ایک دوسری بس میں سوار ہو کر پتلے کو بحفاظت گھر لے آیا۔

            گو کہ اس واقعہ نے مجھے پریشان کیا مگر میرے سر پر عشق کا بھوت سوار تھا اور میں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ اسے طلاق ضرور دلوانی ہے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنی ہے، لیکن پتلے کو قبرستان میں دفن کرنے سے میں خوفزدہ ہو گیا اور میرے دل میں یہ خیال پختہ ہونے لگا کہ عامل میرے ساتھ ڈرامے بازی کر رہا ہے۔ میں نے پتلے کو قبرستان میں دفن کرنے کی بجائے گھر میں ہی چھپا کر رکھ دیا۔ دو دن بعد میں نے کچھ حوصلہ کرکے عامل کو فون پر سخت الفاظ میں کہا کہ آپ کے بتائے ہوئے عملوں سے ابھی تک مجھے فائدے کی بجائے نقصان پہنچا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ آپ نے مجھے آگ لگنے والے واقعہ سے فوراً کیوں نہ آگاہ کیا۔ عامل نے کہا کہ میں اسے فوراً آ کر ملوں۔ ایک بار پھر میں اس کے جھانسے میں آگیا اور عامل سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب میں عامل کے پاس پہنچا تو وہ فرمانے لگے کہ آپ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ ‘‘ہوائی مخلوق ’’ کا حملہ تھا۔ شکر ہے کہ انھوں نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا لیکن اب میرا اس سے اعتماد اٹھ چکا تھا۔ اب مجھے ہوش آنا شروع ہوا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ میں عمال کو کچھ کہے بغیر گھر واپس آگیا اور بہت سوچ وبچار کے بعد اپنے ایک قریبی عزیز کو بتایا کہ میں کس طرح ایک عامل کے چنگل میں پھنس کر ہزاروں روپے برباد کر چکا ہوں۔ وہ مجھے ساتھ لے کر اس عامل کے پاس آئے اور اس سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگا کہ میں نے تو بہت محنت کی ہے۔ اب کام کا ہونا یا نہ ہونا اللہ کے اختیار میں ہے۔

            میرے اس عزیز کے سخت رویہ اختیار کرنے پر عامل نے بیس ہزار روپے واپس کرنے کی حامی بھر لی اور اس کے لیے ایک مہینہ کی مہلت مانگی۔ جب ہم ایک مہینہ بعد رقم لینے کے لیے عامل کے آستانے پر پہنچے تو وہاں اس کی بجائے کوئی اور عامل بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ پہلے عامل کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور وہ اس حادثے میں انتقال کر گئے ہیں۔ ہم صبر شکر کرکے واپس تو آگئے مگر مجھے شک تھا کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ میں نے اس عامل کی تلاش کے لیے کوشش جاری رکھی جس کے نتیجہ میں مجھے معلوم ہوا کہ پہلے والے عامل نے اپنا یہ آستانہ ۵۷ ہزار میں فروخت کرکے اب کسی دوسرے شہر میں نیا آستانہ بنا لیا ہے۔ میری کوشس ابھی تک جاری ہے لیکن مجھے امید نہیں کہ مجھے میری رقم واپس مل جائے گی۔

            یہ نوجوان جس کے ساتھ یہ فراڈ ہوا، آج بھی اس امید پر زندگی بسر کر رہا ہے کہ ایک نہ ایک دن میں کسی عامل کامل کو تلاش کرکے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لوں گا۔

            ایک روزنامہ میں روحانیت کے صفحہ پر ہماری طرف سے ایک اعلان شائع ہوا تھا کہ کیا آپ یا آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار کسی روحانی مرض میں مبتلا ہے؟ دوران علاج آپ کو کن تجربات سے گزرنا پڑا؟ کیا آپ کا پیشہ ور عاملوں اور اشتہاری جادوگروں سے واسطہ پڑا؟ انھوں نے آپ کا کس طریقے سے علاج کیا؟ آپ سے کتنی رقم بٹوری؟ آپ کو کیا سبز باغ دکھائے اور دوران علاج آپ کن ذہنی روحانی اور جسمانی اذیتوں سے دوچار ہوئے، کن تکلیف دہ مراحل سے گزرے۔ اس وقت آپ کی کیا کیفیت ہے۔ ہمیں اپنی یہ تمام کیفیات اور تجربات لکھ بھیجئے۔ ہم انھیں شائع کریں گے۔ آپ کی راہنمائی کریں گے اور آ پ کے روحانی مسائل کے حل کے لیے آپ کی رہنمائی بھی کریں گے۔ اس اعلان کی اشاعت کے بعد ہمیں زیادہ تعداد میں خطوط موصول ہوئے جن میں عاملوں کے ہاتھوں ڈسے ہوئے افراد نے اپنی دردناک آپ بیتیاں تحریر کی تھیں، یہ عامل سادہ لوح خواتین و حضرات کو کس طرح بیوقوف بنا کر لوٹتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو یہ خط پڑھ کر ہو گا جو ایک محترمہ نے ہمیں ارسال کیا۔

            ‘‘میں ایم اے کی طالبہ ہوں۔ میں ایک جگہ شادی کی خواہش مند تھی مگر لڑکے کے والدین اس کے لیے آمادہ نہیں۔ اور انھوں نے اس کی زبردستی کہیں اور منگنی کر دی ہے۔

            میں نے اپنی پسند کی شادی کے لیے لاہور کے سب سے مشہور پامسٹ سے رابطہ کیا اور اس سے اپنا زائچہ بنوایا۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ پر نحوست کا سایہ ہے۔ اگر آپ نے صرف نحوست اتروانی ہے تو اس پر ۲۷ ہزار روپے خرچ آئے گا اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس پر ۵۰ ہزار روپے خرچ آئے گا اور اس کے لیے کالا جادو کرنا پڑے گا۔ میں نے سوچا کہ کالے جادو والا گناہ اس قدر بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا، سو میں نے اس سے علاج کرانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

            اسی اثناء میں اخبار میں ایک عامل کا اشتہار شائع ہوا جس نے نوری عمل کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کا دعویٰ کیا تھا میں نے اسے فون پر اپنا مسئلہ بتایا۔ اس نے تسلی دی کہ کوئی مسئلہ نہیں میں آج ہی آپ کے مسئلے کے لیے حاضری کروں گا اور اس کے بعد جو کچھ آپ سے کہا جائے گا وہ آپ کو کرنا پڑے گا۔ وہ نوافل، زکوٰۃ اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے حامی بھر لی، میرے دوبارہ فون کرنے پر اس نے کہا کہ الو کی نر اور مادہ جوڑی چاہیے، اس پر عمل کرنا پڑے گا اور اس کے لیے رقم درکار ہے۔ یقین جانیے میں نے ادھا ر لے کر پیسے بھجوا دیئے۔ اس نے ایک نقش مجھے پہننے کے لیے بھیجا اور کہا کہ یہ بازو پر باندھ لیں۔ وہ لوگ فوراً آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ وہ نقش میرے پاس اب بھی موجود ہے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے سبز مور کی جوڑی چاہیے۔ اس پر ۸۴۰۰ روپے لگیں گے تو آپ کا عمل مکمل ہو گا۔ میں نے یہ رقم بھی بھجوا دی کہ پہلے پیسے ضائع نہ ہوں اور یہ عمل مکمل ہو جائے۔ اس نے مجھے گیارہ عدد نقش بھجوائے اور کہا کہ یہ آٹے کی گولی بنا کر اس پر سوئیاں لگا کر ایک دن کے وقفے سے درودشریف اور الحمدشریف پڑھ کر بہتے پانی میں بہا دینا۔ میں نے یہ عمل بھی کر دیا۔ جب کچھ نتیجہ نہ نکلا تو میں نے دوبارہ اسے فون پر آگاہ کیا۔ عامل نے کہا کہ میں رات کو حاضری کرکے معلومات حاصل کروں گا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ آپ پر کوئی مسلسل کالا عمل کر رہا ہے۔ اس کے توڑ کے لیے دوبارہ محنت کرنا پڑے گی۔ اب یہ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں اسے مزید رقم بھجوا سکوں۔ اس طرح کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا اور میری رقم ضائع ہو گئی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس نے میری تصویر منگوائی تھی جو اس کے پاس ہی ہے۔

            اب میں اس پوزیشن میں نہیں کہ مزید رقم ضائع کر سکوں۔ اب میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ میں نے پڑھائی تک چھوڑ دی ہے۔ بہت ڈسٹرب ہوں۔ خدارا میری مدد کریں ورنہ میرا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔ میرے گھر والوں کو اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں یہ میری زندگی کا سوال ہے، ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گی۔