گنجِ محبت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : پہلا صفحہ

شمارہ : فروری 2005

            باپ کو طوطے پالنے کا بہت شوق تھا۔ ایک سفر پہ چلتے ہوئے جہاں اس نے اپنے سات سالہ بیٹے کو ساتھ لیا وہیں طوطے کا پنجرہ بھی ہاتھ میں لٹکا لیا۔ راستے میں ایک باغ پر گز ر ہوا۔ باپ نے ایک کچا امرود توڑ کر پنجرے میں ڈال دیا۔ بیٹے نے اد ب سے کہا کہ ابا یہ باغ تو ہمارا نہیں آپ نے بلا اجازت یہ امرود کیوں توڑ لیا۔باپ نے کہا کہ بیٹے اس باغ کامالک ہمار ا دوست ہے ۔ اس کی طرف سے ہمیں اجازت ہے۔بیٹا جواب سے مطمئن نہ ہوااور باپ سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاتا۔ باپ نے کہا تم یہاں کھڑ ے ہو کر کیا کرو گے؟بیٹے نے کہا کہ باغ کے مالک کا انتظار کروں گا۔ جب وہ آئے گا تو اس سے درخواست کروں گا کہ ہمارے والد نے ایک امرود توڑ کر طوطے کو دیا ہے ۔تم خد ا کے لیے ہمیں معاف کر دو یا اس کی قیمت لے لو۔ جب وہ معاف کر دے گاتو آپ کے پیچھے پیچھے چلا آؤں گا۔

            حلال و حرام کی اس درجہ احتیاط کرنے والے اس ہونہار بِروا کوآنے والے دنوں میں اللہ نے علم’ عمل’ تقوی’ احتیاط’ توکل’ استغنا’ قناعت’ زہد ’ کلمۃ اعلائے حق’ اخلاص’ ذکر ’ استغفاراور گریہ کی وہ صفات نصیب فرمائیں تھیں کہ جن کی حرص کرنا تو آسان ہے مگر عمل بہت مشکل۔خاص طور پر محبت الہی وہ صفت ہے کہ جس میں یہ اپنی طرز کے واحد انسان معلوم ہوتے ہیں۔دارالعلوم ندوہ کے بانی مولانا سید محمد علی مونگیریؒ جو ان کے محبوب شاگر د تھے لکھتے ہیں کہ ایک دن مجھے ارشاد فرمایا کہ شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ قرآن سے دو سو برس پیشتر بھاکھا زبان میں قرآن کا نہایت عمدہ ترجمہ ہوا ہے ’جانتے ہو اس میں اللہ کا ترجمہ کیا کیا گیا ہے۔پھر خود ہی فرمایا ‘‘من موہن’’ یہ کہتے ہوئے ایک چیخ نکل گئی۔ شاہ سلیمان پھلواری ؒ کہتے ہیں جب میں نے جضرت سے بخاری پڑھی تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہمارے اور رسول اللہﷺ کے درمیان کوئی واسطہ او رحجاب نہیں رہا۔معا مجھے ارشاد فرمایا کہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ترجمہ کرو گے میں نے عرض کیا حضرت خود ہی ارشاد فرمائیں۔ کہا ‘‘پیار کرے ان کو اللہ اور سلامت رکھے’’محبت الہی اور محبت رسول نے اس مرد درویش میں جہاں حد درجہ ملائمت او رنرمی پیدا کر دی تھی وہیں ایک خاص ہیبت اور وجاہت بھی ان کو عطا کردی تھی بعض اوقات بڑے بڑے دنیا دار سہم کر رہ جاتے۔انگریزلیفٹیننٹ گورنر ملاقات کو آیا تواس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ ہاتھ باند ھ کر کھڑا ہوگیا اور بات کرنی بھی مشکل ہو گئی بمشکل اتنا کہا کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ۔ فرمایا کہ مخلوقِ خد ا پر ظلم نہ کرنا۔

             وجاہت او رمحبوبیت سی روشن صفات کی حامل اس شخصیت کا نام مولانافضل رحمن گنج مراد آبادی ہے۔ بر صغیر کے نامور اہل علم ان کی خانقاہ میں حاضر ہونا فخر سمجھتے تھے ا ن کی تفصیلی تصویر دیکھنی ہو تو مولانا مونگیری کی کتاب ارشادرحمانی اور نواب صدریار جنگ حبیب الرحمن شروانی کی مقالات شروانی یا علی میاں کی تاریخ دعوت و عزیمت میں دیکھی جا سکتی ہے۔اور ان کے منفرد مقامات کاایک اند ازہ لگانا ہو تو ناظم ندوۃ العلماء مولانا سید عبد الحی کا یہ بیان پڑھ لینا کافی ہے ‘‘اگر میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیا ن کھڑ ے ہو کر قسم کھاؤں کہ میں نے دنیا میں مولانا سے بڑ ھ کر کریم’ درہم و دینار سے بے تعلق’ کتاب وسنت کا پیرو نہیں دیکھا تو میں حانث نہ ہوں گا۔ اس کے ساتھ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا ان سے بڑا عالم نہیں پایا۔’’ مولانا فضل رحمن کو یہ شعر بہت پسند تھا۔ اکثر اس کی تکرار کرتے ۔ دل ڈھونڈنا سینے میں میرے بوالعجبی ہے ۔۔ایک ڈھیر ہے یا ں راکھ کا اور آگ دبی ہے۔ اس دبی ہوئی آگ کو کوئی کریدتا تو مولانا کے قلب سے اس کی لپٹیں نکلنے لگتیں اور پاس بیٹھنے والے بھی اس کی حدت اور شدت محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتے۔حتی کہ آج سو برس بعد ان کے سوانح پڑھنے والے بھی اس حرارت کو محسوس کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے توتجربہ شرط ہے۔