اردو املا’ چند اصول او رقاعدے

مصنف : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : فروری 2005

            آپ نے دیکھا ہو گا کہ اردو کے بہت سے الفاظ مختلف کتابوں ، رسالوں اور اخبارات میں مختلف طریقوں سے لکھے جاتے ہیں۔ املا کا یہ اختلاف اور انتشار ایک افسوس ناک صورت ِ ہال کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس اختلاف کو کم اور دور کرنے کے لیے ذیل میں چند اصول اور قاعدے بیان کیے جا رہے ہیں۔

            راقم الحروف نے یہ نکات، ماہرین املا (عبدالستار صدیقی، رشید حسن خاں، فرمان فتح پوری وغیرہ) اور بعض اداروں (انجمن ترقی اردو، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد اور ترقی اردو بیورو دہلی) کی مرتب کردہ سفارشات املا کے مطالعے، اور اس کے موضوع پر منعقدہ متعدد ورکشاپوں، سیمیناروں اور بحث مباحثوں میں شرکت کے بعد مرتب کیے ہیں۔ ہر اصول اور ہر قاعدہ کسی نہ کسی دلیل یا سبب سے متعین کیا گیا ہے۔ ان اصولوں کو اختیار کرنے سے اردو املا کی بے قاعدگیاں کم ہو سکتی ہیں۔

املا کے قاعدے اور اصول حسب ذیل ہیں:

۱۔         حتی الوسع لفظوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، خصوصاً مرکبات کو، مثلاً ان کو، آپ کے، کے لیے ، جائے گا، جس قدر، خوب صورت، آج کل، قلم کار، عقل مند، بے شک، بے خوف، ہم قدم۔

            انھیں یوں لکھنا درست نہ ہو گا۔

            انکو، آپکے، کیلیے، جائیگا، جسقدر، خوبصورت، آجکل، قلمکار، عقلمند، بیشک، بیخوف، ہمقدم۔

۲۔        انگریزی اور یورپی الفاظ بھی الگ الگ لکھنا ہی مناسب ہے، اس طرح انھیں پڑھنا نسبتاً آسان ہو گا، مثلاً:

            کاپی رائٹ، پبلی کیشنز، یونی ورسٹی، سیمی نار، انڈی پینڈنٹ، ٹیلی گراف، ٹیلی وژن، ٹیلی فون، انسٹی ٹیوٹ، ایجی ٹیشن، سائنٹی فک، انسائی کلو پیڈیا۔

            البتہ بعض الفاظ ملا کر ہی لکھے جائیں گے، جیسے:

            کانفرنس، پارلیمنٹ، میونسپلٹی وغیرہ ……

۳۔        مرکب حروف ہمیشہ ہائے مخلوط یا دوچشمی ‘‘ھ’’ سے لکھے جاتے ہین، جیسے:

            انھوں، انھیں، تمھارا، جنھیں، کولھو، کمھار، بھائی، دلھن،سرھانا، ساٹھ، بھٹی، دھندا، کلھاڑی وغیرہ۔

            اس کے برعکس ہائے ملفوظ (ہ) والے الفاظ (ہ، شروع میں ہو، خواہ درمیان میں) کہنی دار ‘‘ہ’’ ( ؔ)سے لکھنا درست ہے۔

            جیسے: ہمیشہ، دہلی، لاہور، انتہا، ہمارا ، اہم …… وغیرہ۔

            ہاے مخلوط ‘‘ھ’’ اور ہاے ملفوظ ‘‘ہ’’ میں امتیاز کرنا ضروری ہے، ورنہ لفظوں کے معنی بدل جائیں گے، جیسے:

            ‘‘بھائی’’ اور ‘‘بہائی’’ …… اسی طرح: ‘‘گھر’’ اور ‘‘گہر’’ مختلف المعانی الفاظ ہیں۔

۴۔        بعض عربی الفاظ کے آخر میں الف کی آواز ہے، مگر وہاں بجاے الف کے ‘‘ی’’ اور ‘‘واؤ’’ لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے(اسے کھڑا زبر بھی کہتے ہیں) جیسے: ادنیٰ، اعلیٰ، ربو ٰ…… مگر اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پورے الف سے رائج ہیں، جیسے تماشا، تقاضا، ربا، مدعا وغیرہ …… (کئی الفاظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں) ایسے لفظوں کا املا اس طرح مناسب ہو گا، جیسے:

            ادنا، اعلا، تمنا، مدعا، مولا، دعوا، فتوا، معرا وغیرہ۔

            باقی الفاظ اس طرح لکھنا مناسب ہو گا ، جیسے:

            اولیٰ، مقفیٰ، عقبیٰ، مجلس شوریٰ، تقویٰ، مجتبیٰ، موسیٰ، عیسیٰ، تعالیٰ، یدطولیٰ، سدرۃ المنتہیٰ، وغیرہ۔

            خیال رہے کہ ‘‘استعفا’’ صحیح ہے ‘‘استعفیٰ’’ غلط ہے۔

۵۔        سابقے اور لاحقے (بہ، چہ ، کہ) انھیں ملا کر لکھنا بہتر ہو گا، مثلاً: بلکہ، چنانچہ، کیوکہ، جبکہ، بشرطیکہ، بخدا، بخوبی، بدقت، بہرحال، بدستور، بدولت، بانذار وغیرہ۔

۶۔        بعض عربی الفاظ کے درمیانی حروف پر چھوڑا الف (کھڑا زبر) آتا ہے۔ (جیسے اسمٰعیل، رحمن) بہتر ہے، ایسے الفاظ پورے الف سے لکھے جائیں۔ اس طرح کمپوزنگ میں بھی آسانی ہو گی، مثلاً ابراہیم، اسماعیل، رحمان، اسحاق، یاسین ، مولانا، (نہ کہ مولیٰنا) وغیرہ۔

۷۔        عربی اور ترکی کے کچھ الفاظ (اسی طرح غیر عربی یعنی انگریزی ، ہندی اور یورپی زبانوں کے) الفاظ بھی ‘‘ہ’’ سے نہیں بلکہ الف سے لکھنا درست ہے، مثلاً:

            ملغوبا، قورما، سانچا، ڈاکیا، شوربا، ڈھانچا، معما، تماشا، بقایا، تمغا، مچلکا، حلوا، مربا، چغا، خون خرابا، ناشتا، آریا، معما، خارا، داروغا، کٹورا، غنڈا، راجا، ڈراما، دھماکا، بھروسا، کلیجا، پتا، پتا، باڑا، بلبلا، تارا، گھونسلا، میلا، انگارا، فرما، انڈا،وغیرہ بطور استثنا ، بعض لفظوں کا املا یہ ہو گا(کیونکہ یہ اسی طرح رائج ہیں: نقشہ، کمرہ، زردہ، غبارہ، عاشورہ، خاکہ، بارہ، تکیہ، مہینہ، سموسہ، سقہ، مژہ، ماشہ، تولہ، آزوقہ، پسینہ، روپیہ، وغیرہ۔

۸۔        اسماے معرفہ مروج طریقے سے لکھے جائیں گے، جیسے:

            افریقہ، مرہٹہ، کلکتہ، چیکوسلواکیہ، آگرہ، شملہ، پٹنہ، ہزارہ ، بنگلہ دیش، امریکہ وغیرہ۔

۹۔        بعض لفظوں میں ہمزہ اور بعض میں ‘‘ی’’ کا استعمال اس طرح ہو گا۔

صحیح          غلط          صحیح          غلط

لیے          لئے          چاہیے          چاہئے

جیے          جئے          چاہییں          چاہئیں

لکھیے          لکھئے          کیجیے          کیجئے

دیے          دیئے

۱۰۔         ‘‘انشاء اللہ’’ کا املا قرآن پاک کے مطابق لکھنا مناسب ہے: ‘‘ان شاء اللہ’’ اگر اسے ملا کر ‘‘انشاء اللہ’’ لکھیں گے تو اس کا معنی مختلف ہو گا۔

۱۱۔        اضافت کے قاعدے میں ، لفظ کے آکری حرف کے نیچے زیر آتا ہے، جیسے: ماہِ رمضان، تحریکِ اسلامی، اتمامِ حجت …… مگر جن لفظوں کے آخر میں یائے ساکن ہوتی ہے، اضافت کی صورت میں اس ‘‘ے’’ کے نیچے زیر آئے گا (نہ کہ ہمزہ) مثلاً:

صحیح:      مرضیِ خدا، رعنائیِ خیال، آزادیِ وطن

غلط:        مرضیء خدا، رعنائی ء خیال، آزادی ء وطن

            ایسے مقامات پر ہمزہ لکھنا، مرزا غالب کے الفاظ میں ‘‘عقل کو گالی دیناہے۔’’

۱۲۔       عربی جمع اور مصادر کے آخر میں ہمزہ آتا ہے۔ اردو میں ان کے آخر میں ہمزہ نہیں لکھیں گے، مثلاً:

            ابتدا، انتہا، ارتقا، التوا، ابتلا، استدعا، اولیا، انبیا، جہلا، وزرا، فقرا، حکما، غربا، املا، اخفا، القا، وغیرہ۔

۱۳۔       الف پر ختم ہونے والے انگریزی الفاظ کے آخر میں ہمزہ لکھنا قطعی غلط ہے، مثلاً

            مارشل لا، بار ایٹ لا …… صحیح ہے اور : مارشل لاء، بارایٹ لاء…… غلط ہے۔

۱۴۔       مرکب ِاضافی لکھنے کی صحیح صورت یہ ہو گی: حکماے اسلام، ابتداے کار، یعنی ‘‘ے’’ پر ہمزہ نہیں ہو گا، کیوں کہ ‘‘ے’’

            اضافت کی علامت ہے ، اور ہمزہ کی قائم مقام ہے، اس کے اوپر ایک اور ہمزہ لگانا زائد اور غیر ضروری ہے۔

۱۵۔       مرکب عطفی کی صورت یہ ہو گی: شعرا و ادبا۔ فقرا و مساکین، آباو اجداد، وغیرہ۔

۱۶۔       قانون امالہ: جن واحد مذکر لفظوں کے آخر میں ‘‘ہ’’ یا الف ہو اور ان کی جمع یاے تحتانی لگانے سے بن سکتی ہو اور ان کے فوراً بعد حرفِ عاملہ (مغیرہ) یعنی تک، سے، کو، کے ، کی ، میں ، پر،وغیرہ میں سے کوئی حرف آئے تو اردو املا میں اس ‘‘ہ’’ یا ‘‘الف’’ کو یاے تختی سے بدل، دیا جائے گا، مثلاً:

٭        آپ کے بارہ میں……

٭        اس افسانہ کا ……

٭        تمھارے بھروسا پر……

٭        وہ چوراہا میں کھڑا تھا ……

            کے بجاے یوں لکھنا صحیح ہو گا:

٭        آپ کے بارے میں……

٭        اس افسانے کا……

٭        تمھارے بھروسے پر……

٭        وہ چوراہے میں کھڑا تھا ……

            البتہ اسماے معرفہ جوں کے توں رہیں گے۔ خیال رہے کہ بعض الفاظ امالہ قبول نہیں کرتے، جیسے:

            امریکہ، دادا، نانا، چچا، ابا، ایشیا، برما، ہمالیہ، والدہ، جمیلہ وغیرہ۔

۱۷۔      گول ‘‘ۃ’’ والے عربی کے متعدد لفظ ‘‘ت’’ سے رائج ہیں، جیسے: حیاۃ، نجاۃ، رحمتہ وغیرہ …… انھیں اردو میں حیات، نجات، رحمت وغیرہ لکھتے ہیں۔ مناسب ہے کہ ایسے سب لفظ ‘‘ت’’ ہی سے لکھے جائیں، جیسے:

            حیات، ممات، نجات، بابت، مسمات، نشات (ثانیہ) زکات، تورات، وغیرہ۔

            خیال رہے کہ بعض مرکب الفاظ اس طرح لکھے جائیں گے:

            رحمت للعالمین (رحمت کے بعد الف نہیں آے گا) امت الزہرا، رومت الکبرا، وغیرہ۔

۱۸۔       بعض فارسی الفاظ ، اردو میں فارسی ہی کے طریقے پر اور کبھی اس سے مختلف انداز میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ کا یہ املا مناسب ہے:

            آیندہ، جویندہ، نمایندہ، آزمایش، نمایش، آلایش، آرایش، آسایش وغیرہ۔

۱۹۔       چلنے، چھوڑنے اور پار کردینے کے معانی میں گذاردن، گذشتن اور گذاشتن، سرگذشت، رہ گذر، گذرگاہ، درگذر، پذیرائی، رفت گذشت، واگذاشت وغیرہ۔

۲۰۔      ادا کرنے، پیش کرنے اور شرح کرنے کے معانی میں گزاردن مصدر اور اس سے بننے والے الفاظ ‘‘ز’’ سے لکھے جائیں گے، جیسے:

            نماز گزار، تہجد گزار، خدمت گزار، شکر گزار، عرضی گزار، گزارش (اگر اسے ‘‘گذارش’’ لکھیں گے تو یہ ‘‘گذاشتن’’ سے مشتق قرار پائے گا اور اس کے معنی ہوں گے: چھوڑنا)۔

۲۱۔       پذیر فتن (قبول کرنا) سے پذیرائی، دل پذیر، اثر پذیر، صحیح ہے۔

۲۲۔      گزیدن (پسند کرنا، قبول کرنا) اور گزیدن (کاٹنا، ڈنگ مارنا) سے بننے والے لفظ ‘‘ز’’ سے صحیح ہیں:

            جاگزیں، خلوت گزیں، برگزیدہ، مردم گزیدہ، مارگزیدہ وغیرہ۔

۲۳۔      گزرنا ، گزارنا اردو کے مصدر ہیں۔ ان سے بننے والے لفظ ‘‘ز’’ سے لکھے جائیں گے، مثلاً:

            گزرا، گزراہوں، گزر جانا، گزارا (شکر خدا کا کہ گزارا ہورہا ہے)، گزر بسر، گزرا لینا، گزار دینا وغیرہ۔

            خیال رہے کہ اردو، ہندی اور انگریزی کے الفاظ میں ہمیشہ ‘‘ز’’ لکھی جائے گی۔

غلط          صحیح          غلط          صحیح         

پرواہ          پروا          موقعہ          موقع

لاپرواہی          لاپروائی          عقاید          عقائد

سینکڑوں          سیکڑوں          ادائیگی          ادائی؍ ادایگی

پائیدار          پایدار          عش عش کرنا          اش اش کرنا

اژدھام          ازدحام          ناراضگی          ناراضی

مصرعہ          مصرع          زخار          ذخار

معہ؍بمعہ          مع؍مع

۲۵۔         بعض الفاظ کے املا کا تعین، ان کے معانی کے اعتبار سے ہوتا ہے، مثلاً:

٭        گلا؍ گلہ (شکایت)

٭        بیضا(سفید، روشن) بیضہ (انڈا)

٭        نالا(ندی) نالہ (تھوڑا، قلیل)

٭        مسل(فائل)؍ مثل

٭        لالہ (گل لالہ) لالا (لقب)

٭        زہرا(حضرت فاطمہؓ کا لقب) زُہرہ (ایک ستارہ) زَہرہ (پتا، دلیری، ہمت)

٭        دانہ (بیج، دانہ، گندم) دانا (عقل مند)

٭        آسیا (چکی) آسیہ(فرعون کی بی بی کا نام)

٭        پارہ(ٹکڑا، حصہ) پارا(سیماب)

٭        خاصہ(یہ عربی لفظ ہے معنی: طبیعت ، عادت، خاصیت)

            خاصہ: وہ نفیس چیز جو بادشاہوں اور امرا و وزرا کے لائق ہیں۔ شاہی دسترخوان کا کھانا، ایک قسم کا سفید کپڑا …… ان سب معنوں میں یہ فارسی لفظ ہے ۔ خاصا (بہ معنی= اضافہ، جیسے: اچھا خاصا)

٭                    ؁ (بمعنی سال) سن (عمر)

٭        آزر (حضرت ابراہیمؑ کے والد؍چچا) آذر (آگ۔ آذرکدہ= آتش کدہ)

            بتانِ آزری اور آزریت تراش …… صحیح ہے۔

٭        لفظ ‘‘ہندوستان’’: عام طور واو کے بغیر پڑھا جاتا ہے لہٰذا اس طرح لکھا جائے تو بہتر ہے یعنی : ‘‘ہندوستان’’ البتہ کسی شعر میں حسب ضرورت ‘‘و’’ کے ساتھ ‘‘ہندوستاں’’ لکھا اور پڑھا جائے گا۔

۲۶۔      بعض انگریزی الفاظ کا املا اس طرح صحیح ہو گا:

            بنک نہ کہ بینک، بائبل نہ کہ بائیبل، انجینر نہ کہ انجینیروغیرہ۔

۲۷۔      اردو کتابوں ، رسالوں اور عبارتوں میں ہندسے بھی اردو میں لکھنا مناسب اور انگریزی میں لکھنا غلط ہو گا، جیسے:

            ۷،۱۳۶،۶۱۵…… نہ کہ :615,136,7

۲۸۔      بعض انگریزی الفاظ، اب اردو کے الفاظ بن چکے ہیں۔ ان کی جمع اردو (نہ کہ انگریزی) قاعدے کے مطابق بنائی اور لکھی جائے گی، مثلاً سکول؍ سکولوں …… نہ کہ : سکولز ، یونی ورسٹی؍ یونی ورسٹیوں…… نہ کہ یونی ورسٹیز، کالج؍کالجوں …… نہ کہ کالجز، چیلنج؍ چیلنجوں …… نہ کہ چیلنجز، پروگرام؍ پروگراموں…… نہ کہ : پروگرامز۔

            خیال رہے کہ سکول، کالج، پروگرام، ہسپتال وغیرہ ، واحد ہیں مگر اردو میں جمع کے معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔