غلاف کعبہ

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : گوشہ حج

شمارہ : جنوری 2005

            قرآن مجید سے ثابت ہے کہ خانہ کعبہ وہ عمارت ہے جو اب سے چار ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر سید نا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر تعمیر کی تھی۔ اور یہ بات بھی قرآن میں بصراحت ارشاد ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنا گھر قرار دیا اور ہمیشہ کے لیے قبلۂ اہل توحید بنا دیا۔ یہ امور تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہیں، اس لیے ان پر کسی بحث و گفتگو کی حاجت نہیں۔ البتہ یہ بات عام طور پر لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اس پر غلاف چڑھانے کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس میں کیا حکمت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ کوئی بدعت ہے جو بعد کے کسی زمانے میں شروع ہوئی ہے۔ یہ خیالات بھی بعض ذہنوں میں پائے جاتے ہیں کہ اس عمارت پر غلاف چڑھانا بے جا اسراف ہے، کیوں نہ اتنا روپیہ غریب انسانوں کی تن پوشی پر صرف کیا جائے؟

            کسی فعل کے متعلق جب معتبر و مستند ذرائع سے ثابت ہو جائے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہے، یا وہ آپؐ کے سامنے ہوا ہے اور آپؐ نے اس سے منع نہیں فرمایا، تو اس کے بارے میں یہ گمان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ بدعت ہے۔ کعبے کے متعلق یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جبکہ یہ گھر کفارِ قریش کی تولیت میں تھا، اس پر غلاف چڑھا ہوا تھا اور فتح کے بعد جب وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تولیت میں آیا تو نہ صرف یہ کہ آپؐ نے اسے باقی رکھا بلکہ غلاف چڑھانے کے طریقے پر خود عمل کیا اور غلاف چڑھانے کے اس فعل کا ذکر تعظیم و تکریم کے ساتھ فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ:

            ‘‘رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے مسلمان یومِ عاشورہ (۱۰ محرم) کا روزہ رکھا کرتے تھے اور یہ وہ دن تھا جب خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔’’

            اور حضرت عبداللہؓ بن مسعود ہجرت سے پہلے کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

            میں خانہ کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا تھا کہ تین آدمی آئے۔ ایک قبیلہ ثقیف کا تھا، دو اس کے قریشی داماد تھے۔ تینوں بڑے موٹے تازے تھے مگر عقل و فہم سے عاری۔ انھوں نے آپس میں کچھ باتیں کیں۔ پھر ایک نے کہا، تمھارا کیا خیال ہے، یہ باتیں جو ہم نے کی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو سن لیا ہے؟ دوسرے نے کہا میرا خیال یہ ہے کہ جب ہم زور سے بات کرتے ہیں تو اللہ اس کو سن لیتا ہے اور جب آہستہ بولتے ہیں تو وہ اسے نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر وہ کچھ سنتا ہے تو پھر ساری باتیں سنتا ہے۔’’

            یہ دونوں روایات ظاہر کرتی ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے اہل عرب خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ اس کے بعد حضرت انسؓ بن مالک کی حسب ذیل روایت ثابت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کر لیا تو آپؐ نے زمانۂ جاہلیت کے اس طریقے کو برقرار رکھا، حالانکہ جاہلیت کی جتنی یادگاریں اسلام کے خلاف تھیں۔ ان کو آپؐ نے بلا تاخیر مٹا دیا تھا۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوئے اور آپؐ سر پر خود پہنے ہوئے تھے۔ جب آپؐ نے خود اتارا تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ ابن خطل کعبے کے پردوں سے لپٹا کھڑا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے قتل کر دو۔

            ان روایتوں کے باوجود یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ شاید عین فتح کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاف نہ اتروایا ہو اور بعد میں اس کو اتروا دیا ہو۔ لیکن ایک دوسری روایت اس شبہ کو رفع کر دیتی ہے۔ اس میں حضرت عروہ ؓبن زبیر فتح مکہ کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ اس روز حضرت سعدؓ بن عبادہ نے ابوسفیان کو مخاطب کرکے کہا:

            ‘‘آج قتل وخون کا دن ہے۔ آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔’’

            اس بات کی شکایت ابو سفیان نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا:

            ‘‘سعد نے غلط کہا۔ بلکہ آج تو وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کعبے کی عظمت قائم فرمائے گا اور وہ دن ہے جب کعبے پر غلاف چڑھایا جائے گا۔’’

            آخری فقرے کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ ‘‘اس ارشاد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اب ہم کعبے پر غلاف چڑھائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔’’ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس حقیقت پر بھی دلالت کرتا ہے کہ کعبے پر غلاف چڑھانا اس کی تعظیم کے مقتضیات میں سے ہے۔ اسی بنا ء پر علما امت اس کے جواز پر متفق ہیں، علامہ ابن حجر لکھتے ہیں : ‘‘کعبے کے لیے وہ تعظیم ہے جو دوسری مساجد کے لیے نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ کعبے کو حریر و دیبا سے ڈھانکنا جائز ہے مگر مساجد پر اس طرح کے پردے ڈالنے کے جواز پر اختلاف ہے …… کعبے کو دیبا کے غلاف سے ڈھانکنے کے جواز پر اجماع ہے۔’’ (فتح الباری، کتاب الحج، باب کسوۃ الکعبہ)

            اور یہی بات علامہ بدرالدین عینی بھی ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘اس میں غلافِ کعبہ کے مشروع ہونے کی دلیل پائی جاتی ہے۔’’ (عمدۃ القاری، کتاب الحج، باب کسوۃ الکعبہ)

اسرافِ بے جا کا شبہ:

            رہا یہ شبہ کہ اس میں بے جا اسراف ہے، کیوں نہ یہی کپڑا غریبوں کی تن پوشی پر صرف کیا جائے ، تو اس کا جواب ہمیں اس واقعہ میں مل جاتا ہے جو بخاری، ابن ماجہ اور طبرانی نے نقل کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحب خانہ کعبہ کے کلید بردار شیبہ کے پاس کچھ روپے لے کر آئے اور اس مقدس گھر کے لیے نذرانے کے طور پر پیش کیے۔ شیبہ نے پوچھا، کیا یہ تم اپنی طرف سے دے رہے ہو انھوں نے جواب دیا کہ یہ ایک شخص کا ہدیہ ہے جو اس نے میرے سپرد کیا تھا۔ میرا اپنا مال ہوتا تو میں ہدیہ نہ کرتا۔ اس پر شیبہ نے کہا جہاں تم بیٹھے ہو اسی جگہ (یعنی خانہ کعبہ کے اندر) ایک دفعہ حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا میں کعبے کے خزانے میں رتی بھر سونا اور چاندی بھی نہ رہنے دوں گا۔ سب کچھ فقرا ء مسلمین میں تقسیم کر دوں گا۔ میں نے کہا، آپؓ کے دونوں پیشروؤں ، (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا تھا، حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ تو یقینا راست رو لوگ تھے ، میں انہی کے نقش قدم پر چلوں گا۔

            اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت عبدالرزاق نے حضرت حسن بصریؒ سے نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ کعبے کے خزانے کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ حضرت ابی بن کعبؓ کے سامنے آپؓ نے اس خیال کا اظہار کیا تو انھوں نے کہا آپ کو یہ کام کرنے کا حق نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ‘‘کیوں؟’’ انھوں نے جواب دیا: ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ہدیوں اور نذر کے اموال کو جوں کا توں رہنے دیا تھا جو زمانۂ جاہلیت سے کعبے کے خزانے میں چلے آ رہے تھے۔’’

            اب یہ ظاہر ہے کہ اگر سونے چاندی کے وہ ظروف تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رہنے دیے جو خانہ کعبہ کے لیے زمانہ جاہلیت میں ہدیتہ دیے گئے تھے، تو غلافِ کعبہ پر جو مال خرچ ہوتا ہے وہ اسراف کی تعریف میں کیسے آ سکتا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل ہی کی وجہ سے علما اسلام میں کبھی خانہ کعبہ کو ریشمی غلاف پہنانے کے جواز پر اختلاف نہیں ہوا۔ صحابہؓ و تابعین کے زمانے سے ریشمی غلاف پہنانے کا یہ عمل چلا آ رہا ہے۔ اور اس مسئلے میں کسی کی اختلافی رائے منقول نہیں ہوئی۔

غلافِ کعبہ کی تاریخ:

            اب ہم مختصراً یہ بیان کرتے ہیں کہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی ابتداء کب ہوئی اور اس وقت سے آج تک اس کی تاریخ کیا رہی ہے۔ اس تاریخ کے ماخذ حسب ذیل ہیں:

            (۱) فتح الباری شرح صحیح بخاری ، علامہ ابن حجر۔ (۲) سیرۃ ابن ہشام(۳) اخبارِ مکہ، محمد بن عبداللہ الازرقی (۴) شفاء الغرام، تقی الدین الفاسی (۵) الاعلام، قطب الدین الحنفی (۶) تاریخ الکعبہ، عبداللہ باسلامہ (۷) مراۃ الحرمین، ابراہیم رفعت پاشا۔

فتح مکہ سے پہلے:

            غلاف کے بارے میں زمانۂ قدیم کی تاریخ کا کوئی مرتب اور معتبر ریکارڈ موجود نہیں ہے لیکن اس زمانے کی جو روایات علمائے اسلام تک پہنچی ہیں ان میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا۔ اس کے بعد صدیوں تک تاریخ خاموش ہے۔ پھر یہ ذکر ملتا ہے کہ عدنان نے یہ خدمت انجام دی۔ اس کے بعد پھر کئی صدیوں تک کی تاریخ غائب ہے۔ تیسرا شخص جس کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس نے سرخ رنگ کے دھاری دار یمنی کپڑے (الوصائل) کا مکمل غلاف کعبے پر چڑھایا، وہ یمن کا ایک بادشاہ اسعد تھا جس کا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سو برس پہلے گزرا۔

            غلاف کی مسلسل تاریخ ہم کو اس وقت سے ملتی ہے جب خانہ کعبہ کا انتظام قبیلہ قریش کے ہاتھوں میں آیا۔ اس قبیلے کی روایات زمانۂ اسلام تک محفوظ رہی ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سے اس نے انتظام سنبھالا، اس کے مختلف خاندان ہر سال باری باری سے کعبے پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ پھر بنی مخزوم کے ایک سردار ابوربیعہ نے یہ طے کیا کہ ایک سال غلاف وہ چڑھایا کرے گا اور ایک سال کا غلاف قریش کا کوئی خاندان اپنی طرف سے چڑھائے۔

            زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ عرب کے مختلف قبیلے اور قبائلی سردار جب زیارت کے لیے آتے تھے تو کعبے پر لٹکانے کے لیے طرح طرح کے پردے لاتے تھے۔ جتنے لٹکائے جا سکتے تھے اتنے لٹکا دیے جاتے اور باقی کعبے کے خزانے میں رکھ دیے جاتے تھے۔ جب کوئی پردہ بوسیدہ ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا پردہ لٹکا دیا جاتا تھا۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا واقعہ ہے کہ آپؐ کی دادی کے ایک صاحبزادے (غالباً حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب) گم ہو گئے تھے۔ انھوں نے نذر مانی کہ اگر بچہ مل جائے تو وہ کعبے پر ریشمی غلاف چڑھائیں گی۔ جب وہ مل گئے تو انھوں نے اپنی نذر پوری کی اور سفید رنگ کا ریشمی غلاف کعبے پر چڑھایا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب کعبے پر ریشم کا غلاف چڑھایا گیا۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پانچ سال پہلے جب قریش نے کعبے کی از سرِ نو تعمیر کی تو پورے قبیلے نے بڑے اہتمام سے کعبے پر غلاف چڑھایا۔

            ہجرت سے پہلے کاواقعہ ہے کہ قبیلہ بنی سلیم کے ایک صاحب اپنی ماں کے ساتھ زیارتِ کعبہ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں انھوں نے کعبے پر مختلف قسم کی اور مختلف رنگوں کی چادریں لٹکی ہوئی دیکھی تھیں۔

            فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان کہ فلاں فلاں اشخاص اگر کعبے کے پردوں سے بھی لپٹے ہوئے ہوں تو انھیں قتل کر دیا جائے، اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ اس وقت کعبے پر پردے لٹکے ہوئے تھے۔

فتح مکہ کے بعد:

            جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ آج وہ دن ہے جب اللہ کعبے کی عظمت قائم فرمائے گا اور اب ہم اس پر غلاف چڑھائیں گے۔ اسی زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک عورت غلافِ کعبہ کو خوشبو دینے کے لیے بخور جلا رہی تھی، اتفاقاً کپڑا آگ پکڑ گیا اور پورا غلاف جل گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت کا لبادہ کعبے پر سے خود اتار دیا اور پھر زمانۂ اسلام میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اللہ کے گھر پر غلاف چڑھایا۔ یہ روایت علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں حضرت سعیدؓ بن المسیب سے نقل کی ہے۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ اپنے زمانے میں کعبے پر یمنی کپڑے کا غلاف چڑھاتے تھے۔ پھر جب مصر فتح ہو گیا تو حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ ،قباطی (مصری کپڑے) کا غلاف بنوانے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آپؓ نے اپنے عہد خلافت میں غلاف چڑھایا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں روایات خاموش ہیں۔ ممکن ہے کہ فتنوں نے آپؓ کو اس خدمت کا موقع نہ دیا ہو۔

            قدیم زمانے سے یہ دستور چلا آ رہا تھا کہ جب حج کے بعد سب حاجی رخصت ہو جاتے تھے تو ۱۰ محرم کو کعبے پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ اسی طریقے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی عمل ہوتا رہا۔ امیر معاویہؓ نے اپنے عہد میں یومِ عاشورپر غلاف چڑھانے کے علاوہ ایک اور غلاف عیدالفطر کے موقع پر بھی چڑھانا شروع کر دیا۔ یہ بات بھی روایات سے معلوم ہوتی ہے کہ زمانۂ اسلام میں سب سے پہلے امیر معاویہؓ نے ریشمی غلاف بنوایا تھا۔ پھر یزید اور حضرت عبداللہ بن زبیر نے اپنے اپنے زمانے میں اس کی تقلید کی اور عبدالملک بن مروان کے عہد سے یہی مستقل طریقہ بن گیا جو آج تک جاری ہے۔ اس عمل کی ابتدا جس وقت ہوئی تھی اس وقت بکثرت صحابہ و تابعین اور جلیل القدر فقہاء موجود تھے۔ کسی نے ریشمی غلاف پر اعتراض نہیں کیا۔ اسی وجہ سے بعد کے علما بھی اسی کے جواز پر متفق رہے۔

            زمانۂ اسلام سے پہلے مختلف لوگ کعبے پر چڑھانے کے لیے چادریں لایا کرتے تھے۔ اسلامی دور میں غلاف چڑھانا حکومت کی ذمہ داری قرا ر پا گیا۔ عبدالرزاق کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا ہم کعبے پر غلاف چڑھائیں؟ آپؓنے فرمایا اب تمھیں اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ حکام نے تمھاری طرف سے اس خدمت کو سنبھال لیا ہے۔ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ کسوۃ البیت علی الامراء ‘‘بیت اللہ کا غلاف حکام کے ذمے ہے۔’’

            عباسی خلافت کے زوال تک غلاف کی تیاری مرکزی حکومت کے انتظام میں ہوتی رہی ۔ پھر جب کوئی مرکزی حکومت باقی نہ رہی تو مختلف علاقوں کے سلاطین اپنی طرف سے غلاف بنوا کر بھیجتے رہے اور بسا اوقات بیک وقت کئی کئی غلاف بھی چڑھائے گئے۔ اس سلسلے میں ایک مرتبہ ہندوستان سے بھی (۴۶۶ھ میں) غلاف بنوا کر بھیجا گیا تھا اور چونکہ اس زمانے میں اسلامی حکومت ان علاقوں تک محدود تھی جو اب پاکستان میں شامل ہیں، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غلاف پاکستان سے بن کر گیا تھا۔

            ۷۵۰ء میں مصرکے فرمانروا الملک الصالح اسماعیل بن ناصر نے غلاف کعبہ تیار کرانا اپنے ذمے لے لیا اور اس غرض کے لیے تین گاؤں وقف کر دیے۔ اس وقت سے موجودہ زمانے تک مصر ہی سے غلاف بن کر آتا رہا ہے۔ مصر پر ترکی سلاطین کا قبضہ ہو جانے کے بعد اس وقف میں سات گاؤں کا اور اضافہ کر دیا گیا اور اس عظیم وقف کی آمدنی سے ہر سال کعبے کا غلاف اور ہر پانچویں سال حجرۂ نبوی کے پردے اور منبر نبوی کا غلاف مصر سے بن کر آنے لگا۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے اندر کے پردے بھی وقتاً فوقتاً اسی وقف سے بنا کر بھیجے جاتے تھے۔ اس زمانہ میں اس وقف کی آمدنی ۳۶۶۷۳۶ درہم تھی جسے موجودہ زمانے کے مصری سکے کے لحاظ سے ۵۰ ہزار اور ایک لاکھ درہم مصری پونڈ کے درمیان سمجھنا چاہیے مگر جب پچھلی صدی کے آغاز میں مصر کے وائسرائے محمد علی پاشا نے ترکی سلطنت سے بغاوت کرکے خود مختاری اختیار کر لی تو اس نے یہ وقف منسوخ کر دیا اور صرف غلافِ کعبہ حکومت مصر کے خرچ پر بنوا کر بھیجنا شروع کر دیا۔ کعبے کے اندرونی پردے اور حجرۂ نبوی کے پردے آج تک مصر سے نہیں بھیجے گئے۔

            پہلے غلاف مختلف رنگوں کے ہوا کرتے تھے۔ مامون الرشید نے سفید رنگ کا غلاف چڑھایا تھا۔ محمود غزنوی کے غلاف کا رنگ زرد تھا۔ مصر کے فاطمی خلفا سفید رنگ کے غلاف بھیجتے تھے۔ خلیفہ ناصر عباسی (۵۷۵۔۶۲۲ھ) نے ابتدا میں سبز غلاف بنوایا تھا۔ پھر سیاہ ریشم کا بنوا کر بھیجا۔ اس کے بعد سے سیاہ غلاف ہی بنوایا جاتا رہا اور آج تک یہی طریقہ جاری ہے۔

            غلافِ کعبہ کے چاروں طرف زری کے کام کی پٹی بنانے اور اس پر کعبہ کے متعلق قرآن مجید کی آیات لکھوانے کا سلسلہ سب سے پہلے ۷۶۱ھ میں مصر کے سلطان حسن نے شروع کیا تھا ۔ اس کے بعد یہ پٹی لگانے کا طریقہ آج تک چل رہا ہے۔ اس پٹی پر حسب ذیل آیات لکھی جاتی ہیں:

            ایک طرف: اِنَّ اوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo فِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاط وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَo (آل عمران۹۶۔۹۷)

            دوسری طرف: جَعَلَ اللّٰہُ الکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَالْھَدْیَ وَالْقَلَآئِدَط ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌo (المائدہ:۹۷)

            تیسری طرف: وَاِذْ یَرْفَعَ اِبْرٰھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنَ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ص وَاَرِنَامَنَا سِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَاج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo (البقرہ۱۲۷۔۱۲۸)

            چوتھی جانب اس فرمانروا کا نام لکھا جاتا ہے جس نے غلاف بنوایا ہو۔

            موجودہ صدی کے آغاز تک غلافِ کعبہ دنیا کے سیاسی حالات سے غیر متاثر رہا ۔ لڑائیاں ہوتی تھیں، سلطنتوں کے تعلقات بنتے اور بگڑتے تھے ، مگر کعبے کے لیے غلاف جہاں سے آیا کرتا تھا وہیں سے آتا رہا۔ لیکن اس صدی کے آغاز میں دنیا کے سیاسی حالات اس پربھی اثر انداز ہونے لگے۔ جنگ عظیم اول میں جب ترکی سلطنت جرمنی کے ساتھ شریک جنگ ہو گیا تو اسے اندیشہ ہوا کہ انگریز مصر سے غلاف کے آنے میں مانع ہوں گے۔ اس لیے اس نے استنبول سے ایک نہایت شاندار غلاف بنوا کر حجاز ریلوے کے ذریعے مدینہ بھیج دیا۔ مگر چونکہ مصر سے عین وقت پر غلاف پہنچ گیا تھا اس لیے وہ ترکی غلاف مدینہ طیبہ میں محفوظ کر دیا گیا۔ ۱۹۲۳ء میں شریف حسین اور حکومت مصر کے تعلقات خراب ہو گئے اور مصری حکومت نے عین حج کے موقع پر جدہ پہنچے ہوئے غلاف کو واپس منگوا لیا۔ خوش قسمتی سے اس وقت وہ ترکی غلاف کام آگیا جو جنگ کے زمانے میں ترکی حکومت نے مدینہ طیبہ بھیج دیا تھا۔ پھر ۱۹۲۸ء میں سلطان ابن سعود اور شریف حسین کی لڑائی کے زمانے میں مصرسے غلاف نہ آیا اور ابن سعود نے عراق کا بنا ہوا ایک غلاف چڑھادیا جو شریف حسین نے احتیاطاً بنوا کر رکھ چھوڑاتھا۔ ۱۹۲۷ء میں ٹھیک یکم ذی الحجہ کو حکومت مصر نے غلاف بھیجنے سے انکار کردیا اور ابن سعودکو فوراً مکے میں ایک غلاف بنوانا پڑا۔ پھر ۱۹۲۸ء میں بھی مصری غلاف نہ آیا اور امرتسر سے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا اسماعیل غزنوی کے اہتمام میں غلاف بنوا کر بھیجا گیا۔ ان تجربات کی بنا پر اسی زمانے میں مکہ معظمہ کے اندر ایک دارالکسوہ قائم کر دیا گیا تھا تاکہ مصر سے آئے دن غلاف نہ آنے کی مصیبت کا مستقل علاج کر دیا جائے۔ اس کارخانے میں مولانا اسماعیل غزنوی مرحوم کی مدد سے ہندوستان کے بہت سے کاریگر فراہم کیے گئے تھے۔ کچھ مدت تک وہیں غلاف تیار کیا جاتا رہا۔ پھر سعودی حکومت اور مصر کے تعلقات درست ہو گئے اور وہاں سے غلاف کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب پچھلے سال وہی قضیہ پھر پیش آیا اور سیاسی تعلقات کی خرابی نے مصری غلاف کی آمد کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مدتِ دراز کے بعد اس سال پاکستان کی سرزمین پر غلاف کعبہ کا کپڑا تیار ہو رہا ہے۔ پورے غلاف کے لیے ایک ہزار گز کپڑا درکار ہوتا ہے۔ پاکستان سے صرف یہ کپڑا ہی بنا کر بھیجا جائے گا۔ زری کے کام کی پٹی مکہ معظمہ کے دارالکسوہ میں تیار کی جائے گی۔

(یہ مضمون اس وقت لکھا گیا تھا جب جماعت اسلامی کے زیر اہتمام غلافِ کعبہ پاکستان میں تیار کیا گیا)