حقیقی اور مصنوعی تقوی

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : انتخاب

شمارہ : دسمبر 2006

            تقوی ہے کیا چیز؟ تقوی حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرز معاشرت کانام نہیں ہے بلکہ در اصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اوراحساس ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلومیں ظہور کرتی ہے ۔

            حقیقی تقوی یہ ہے کہ انسا ن کے دل میں خدا کا خو ف ہو عبدیت کا شعور ہو ، خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتاہوں جو مشیت الہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے اور ان انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتاہوں جن سے قضائے الہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے ۔

            یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہو جائے اس کا ضمیر بیدار ہوجاتاہے اس کی دینی حس تیز ہو جاتی ہے اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو ۔ اس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتاہے کہ میرے اندر کس قسم کے رحجانات و میلانات پرورش پار ہے ہیں۔وہ اپنی باتوں کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہاہوں۔ وہ صریح ممنوعات کوتو درکنار مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے ۔ اس کا احساس فرض اسے مجبور کر دیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجا لائے اس کی خد ا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کر دیتی ہے جہا ں حدود اللہ سے تجاوزکا اندیشہ ہو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وتیر ہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہو جائے ۔

            یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرہ عمل ہی میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرز فکر اوراس کے تمام کارنامہ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طر ز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے بخلاف اس کے جہاں تقوی اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اورمخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کر لے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمائش کی جا سکتی ہو وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکال تقوی جو سکھا دی گئی ہیں ان کی پابندی انتہائی اہتمام کے ساتھ ہورہی ہے مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں وہ اخلاق وہ طرز فکر اوروہ طرز عمل بھی ظاہر ہو رہے ہیں جو مقام تقوی تو در کنار ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جا رہے ہیں اوراونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جا رہے ہیں۔

            میری ان باتوں کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وضع قطع ، لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلووں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں میں ا ن کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انہیں غیر ضروری قرار دیتا ہوں خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ در اصل جو کچھ میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقت تقوی ہے نہ کہ یہ مظاہر ۔

            پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے بتدریج نشوو نما پاتی اور ایک مدت کے بعد برگ و بار لاتی ہے جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کر تی ہے اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اپراتے ہیں بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کر لی جاتی ہے جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے یہی وجہ ہے کہ تقوی کی پیداوارکا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے لیکن ظاہر ہے جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔(بشکریہ ، ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر ۰۶)