مسلم دنیا عیسائیت کی زد میں

مصنف : محمد مشتاق طارق

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : نومبر 2006

عصرحاضر میں ایک طرف آزادیِ رائے اور مذہب کے ذاتی معاملہ ہونے کے پروپیگنڈے کو مغرب کی طرف سے خوب اچھالا جا رہاہے اور آئے روز اس میں شدت آرہی ہے تو دوسری طرف عیسائی مبلغین نے اپنی سرگرمیوں کونہ صرف تیزکر دیا ہے بلکہ ان کی طرف سے یہ اعلان بھی سامنے آ رہا ہے کہ ہم پوری دنیا کو عیسائی اسٹیٹ بنا دیں گے۔ عیسائی مبلغین کی سرکردہ شخصیات مختلف کانفرنسوں اور میٹنگوں میں واضح الفاظ میں یہ اعلان کرچکی ہیں کہ اسلام کو مزید پھلنے پھولنے سے روکو۔ اس کے لیے انھوں نے پانچ مختلف جہات سے کام شروع کر رکھا ہے:

۱- مسلمانوں کے دلوں میں مختلف طریقوں سے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں۔

۲- مسلمانوں کو نفسیاتی خواہشات کے پیچھے اس حد تک لگا دو کہ وہ ان کے غلام بن کر رہ جائیں اور یوں وہ اسلامی تعلیمات سے دُور ہوجائیں گے۔

۳- عیسائی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اسلام سے دُور رکھا جائے تاکہ اسلام قبول نہ کرسکیں۔

۴- مسلمانوں کو لسانی’ علاقائی اور قومی گروہ بندیوں کا شکار کردو تاکہ اسلامی وحدت کا تار و پود بکھر جائے۔

۵- عیسائی رسوم و روایات اور مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے میں عام کردو’ تاکہ ان کے زرخیز ذہنوں کی فکری صلاحیتیں مغرب کے عیسائیت زدہ افکار کو پھیلانے میں خرچ ہوں اور وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ وہ سیاست ہو’ اقتصاد ہو’ معاشرت ہو یا عائلی و خاندانی نظام’ مغربی سوچ کے حامل ہوں۔

عیسائی مشنری تنظیمیں مذکورہ بالا اہداف و مقاصد کے حصول کی خاطر مقدور بھر تمام وسائل کو بروئے کار لاتی ہیں اور غریب و پسماندہ علاقوں میں اسکول’ ہسپتال اور مہاجر کیمپ قائم کر کے تعلیم’ علاج’ خوراک اور کپڑوں کے بدلے عیسائی تعلیمات کو متعارف کراتی ہیں۔ نیز مختلف رسائل’ جرائد’ ریڈیو’ ٹی وی اسٹیشنوں اور انٹرنیٹ پر بڑے پیمانے پر اپنا کام کر رہی ہیں۔

اس وقت یہ عیسائی تنظیمیں علی الاعلان اپنے لائحہ عمل اور اہداف و مقاصد کا تذکرہ کر رہی ہیں۔ فرنٹیئر نامی ایک عیسائی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ‘‘ہمارا ہدف یہ ہے کہ آئندہ بیس سالوں میں ہر دو مسلمانوں کے درمیان دو سو عیسائی مبلغ ہونے چاہییں’ جو وہاں مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے کلیساؤں کو تعمیر کریں گے’’۔

زویمر اکیڈمی (ایک عیسائی ادارہ) کی طرف سے کچھ عرصہ قبل ایک پمفلٹ شائع ہوا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عام مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں میں عیسائیت کو عام کریں۔

ان عیسائی تنظیموں کی کوشش ہے کہ اگر مسلمان اسلام ترک نہ بھی کریں’ تب بھی ان کو اس اسٹیج تک پہنچا دیا جائے کہ وہ صرف نام کے مسلمان رہ جائیں اور عملی طور پر وہ اسلام کو خیرباد کہہ دیں’ جیساکہ عیسائی مبلغ زویمر کے ان الفاظ سے مترشح ہوتا ہے جو اس نے ۱۹۳۲ء میں القدس میں منعقد ایک عیسائی کانفرنس میں کہے تھے کہ ‘‘ہم اگر مسلمانوں کو عیسائی نہ بھی بنا سکیں تو اتنا ضرور کریں کہ ان کو اسلام سے نکال دیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے عقائد کے بارے میں شکوک و شبہات ڈال دیں’’۔

ماضی قریب میں دو امریکی مبلغوں نے ‘‘دنیا کو عیسائی بنانے کے سات سو منصوبے’’ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے’ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت عالم گیر عیسائی تحریک سالانہ تقریباً ایک سو پینتالیس بلین ڈالر (ایک کھرب ۴۵ ارب) خرچ کر رہی ہے’ اس کے مستقل کارکنوں کی تعداد چالیس لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہ تحریک تیرہ سو جنرل لائبریریاں چلا رہی ہے۔ مختلف زبانوں میں دو سو بیس رسالے اس کی نگرانی میں شائع ہورہے ہیں۔ اسی طرح ہر سال کتاب مقدس کے تقریباً چار بلین نسخے طبع کر کے دنیا کے مختلف خطوں میں تقسیم کر رہی ہے اور انیس سو ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن اس کی نگرانی میں دن رات عیسائیت کی ترویج و اشاعت میں مصروف کار ہیں اور چار ملین ویب سائٹس اس کے استعمال میں ہیں’ اسی طرح چار ہزار ایجنسیاں کام کر رہی ہیں’ جو ہر سال کلیسا کو آٹھ بلین ڈالر دیتی ہیں اور ہر سال تقریباً دس ہزار ایسی کتابیں اور مقالات و مضامین لکھے جاتے ہیں’ جن میں عیسائیت کی ترویج وا شاعت پر بحث اور نئے نئے طریقوں کو بیان کیا جاتا ہے۔

اس کے برخلاف امریکا کے عیسائی مشنریوں سے متعلقہ شماریات کے محکمہ کی ۱۹۹۲ء کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ عالم گیر عیسائی تحریک کا سالانہ بجٹ ایک سو اکیاسی ڈالر ہے جب کہ یہ بجٹ اس سے صرف دو سال قبل ۱۹۹۰ء میں ایک سو چونسٹھ ارب ڈالر تھا اور صرف دو سال کے اس قلیل وقفے میں سترہ ارب ڈالر کے اخراجات کا اضافہ ہوا ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ عیسائی کس طرح اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور دن رات اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحمن سمیط نے اپنی کتاب لمحات عن التنصیر فی افریقیا میں بتایا ہے کہ اس وقت چار لاکھ پندرہ ہزار ایسے عیسائی مبلغ کام کر رہے ہیں جو اپنے علاقوں سے نکل کر مسلم دنیا میں پھیل گئے ہیں’ جب کہ اپنے اپنے علاقوں میں کام کرنے والے عیسائی مبلغین کی تعداد چالیس لاکھ نو ہزار دس ہے’ گویا کہ مجموعی طور پر پچاس لاکھ سے زائد عیسائی مبلغین اس وقت دنیا کے مختلف علاقوں میں عیسائیت کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں اور چوبیس ہزار آٹھ سو کتابیں اس موضوع پر لکھی جاچکی ہیں نیز تینتیس ہزار سات سو رسائل اور تین ہزار سات سو ستر ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن کام کر رہے ہیں اور اب تک دو ارب چودہ کروڑ ترانوے لاکھ اکتالیس ہزار کی تعداد میں اناجیل طبع ہو کر دنیا میں تقسیم ہوچکی ہیں اور عیسائی دنیا میں تیرہ سو چالیس ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں’ جن کا مقصد صرف عیسائیت کی ترویج و اشاعت ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً پچیس ہزار پانچ سو ستر ایسی تنظیمیں ہیں جو دن رات عیسائی مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں لگی ہوئی ہیں اور تین ہزار آٹھ سو ایسی تنظیمیں ہیں جو باقاعدہ فنی تربیت کے ساتھ عیسائی مبلغ تیار کر رہی ہیں اور مشنری اسکولوں کی تعداد اٹھانوے ہزار سات سو بیس سے زائد ہے’ جہاں بچوں کی برین واشنگ جاری ہے اور ان کے دل و دماغ میں عیسائیت کا زہر انڈیلا جا رہا ہے۔

موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت ہرکس و ناکس کے نزدیک مسلم ہے اور کوئی بھی ذی شعور اور صاحبِ عقل اس کی تخریبی اثر آفرینی کا منکر نہیں’ خواہ یہ اخبار و رسائل کی صورت میں ہو یا ریڈیو’ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی صورت میں’ لہٰذا عیسائی مشنری تنظیموں نے بھی ان کا بھرپور استعمال کیا ہے اور اس کے جدید سے جدید ذرائع کو بھی اپنے اہداف و مقاصد کے لیے بطور ایک زینہ کے استعمال کیا ہے یہاں تک کہ سٹیلائٹ سیاروں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے پروگرام اور مذاکرے براہِ راست دکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں ویب سائٹس اور سیکڑوں ریڈیو و ٹیلی ویژن چینل اور ہزاروں رسائل و جرائد اس وقت دنیا میں عیسائی تعلیمات کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف افریقی زبانوں میں پچاس سے زائد مشنری ریڈیو اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسلامی ممالک میں بھی وہاں کی علاقائی زبانوں میں مختلف چینل کام کر رہے ہیں سوائے چند ایک کے جیسے سعودی عرب کہ وہاں کوئی مشنری ریڈیو و ٹیلی ویژن چینل نہیں ہے۔

ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی اس بات کا پورا پورا ادراک رکھتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ ایک انتہائی کارگر اور زود اثر ذریعہ ہے جو ان کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لیے مفید بھی ہے’ نتیجہ خیز بھی’ اس لیے وہ آئے روز اسی جستجو میں رہتے ہیں کہ کس طرح ان چیزوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور گذشتہ تیس سالوں میں ہونے والی دسیوں ایسی کانفرنسیں جن میں ذرائع ابلاغ کے تمام شعبوں اور پادریوں کو مدعو کیا گیا اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ اس میدان میں بہتر سے بہتر کی جستجو میں رہتے ہیں اور ہمہ وقت اس بات کے متلاشی رہتے ہیں کہ کیسے ان ذرائع کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پہلے سے بہتر اور اچھے انداز میں استعمال کیا جائے۔ ان کانفرنسوں میں باقاعدہ یہ حکمت عملی طے کی جاتی ہے کہ ان ذرائع کو کیسے’ کہاں اور کیوں کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نیز ان میں اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ عیسائیت کے نام پر کس طرح زیادہ سے زیادہ فنڈز اکٹھے کیے جاسکتے ہیں تاکہ اس کام میں مبلغین کو کوئی دشواری یا مشکل پیش نہ آئے اور اس فنڈ سے ایسی باصلاحیت شخصیات تیار کی جائیں’ جو عقائد اور فنی مہارت کے اعتبار سے اس قابل ہوں کہ ان وسائل کو بھرپور اور پُراثر طریقے سے استعمال میں لاسکیں۔

ذرائع ابلاغ کے حوالے سے منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں جوحکمتِ عملی عیسائی مشنریوں نے طے کی تھی اسے ویٹی کن سٹی کی ایک مجلس نے اپنے اعلامیے میں شائع کیا جسے ہم اختصار کے ساتھ آئندہ سطور میں واضح کریں گے۔

۱- کلیسا کے فرائض میں سے یہ ہے کہ وہ میڈیا کے تمام وسائل کو عیسائیوں کی نجات کے پیغام کی نشرواشاعت میں استعمال کرے۔

۲- کلیسا اجتماعی روابط کے وسائل کو اپنائے’ کیوں کہ اجتماعی رابطہ مسیحی تربیت اور دعوتی سرگرمیوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

۳- عیسائی مشنری تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے وسائل صحیح سمت اور مناسب حالات میں خرچ کریں اور زمانی و مکانی تبدیلیوں اور اشخاص کے طبائع و مزاجوں کو مدنظر رکھیں۔

۴- تمام چرچز کو چاہیے کہ وہ اپنی کوششوں کو ایک جگہ مرکوز کریں اور عیسائی مشن کے وسائل کو پراثر اور اہتمام کے ساتھ استعمال کریں۔

۵- عیسائی مبلغین کو چاہیے کہ وہ تمام قسم کے ذرائع ابلاغ کو اپنائیں تاکہ وہ اپنا کام بطریق احسن سرانجام دے سکیں۔

۶- جب بھی فرصت ملے عیسائی تبلیغی ریڈیو و ٹیلی ویژن چینل قائم کریں اور ان کا معیار انتہائی اعلیٰ ہونا چاہیے۔

۷- ایسے پادری اور مبلغ تیار کیے جائیں جو موجودہ ذرائع ابلاغ کو بہتر سے بہتر طریقے سے استعمال میں لائیں اور ضروری ہے کہ ان کی تربیت میں عقائد’ فنی مہارت اور ادب کا خاص اہتمام کیا جائے۔

۸- ایسے مدارس’ اسکول’ کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں کہ جہاں طلبہ کی تربیت اور ذہنی نشوونما کلیسا کی تعلیمات کے مطابق ہو۔

۹- تمام چرچز کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے تمام اداروں کی فنی اور مالی معاونت کریں جو عیسائی مشن کو پھیلانے میں مصروف ہیں خواہ وہ رسائل و جرائد شائع کرنے والے ادارے ہوں یا ریڈیو’ ٹیلی ویژن اور فلمی ادارے ہوں’ تاکہ عیسائیت کی تبلیغ میں کسی قسم کی فنی یا مالی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

۱۰- ہر علاقے میں علاقائی سطح پر ایسے ادارے قائم کیے جائیں’ جو مشنری پروگراموں کا انعقاد کریں اور انھیں سہارا دینے کی حتی الامکان کوششیں کریں۔

۱۱- اس میں شک نہیں کہ عیسائی مبلغین نے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر اس طرح قدم اٹھایا ہے کہ وہ اس وقت روزانہ کروڑوں انسانوں تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں اور اس کا انھیں خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا ہے جس کی مثال انڈونیشیا نائیجیریا میں واضح ہے۔

رسائل و جرائد’ ریڈیو و ٹیلی ویژن کی طرح ان عیسائی مبلغین نے انٹرنیٹ کو بھی خوب استعمال کیا ہے اور پوری دنیا میں انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے افکار و نظریات کو پھیلایا ہے’ انٹرنیٹ پر ان مشنری مبلغین کا ایک بین الاقوامی اتحاد کام کر رہا ہے’ جو ہر سال ایک ایسی کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے جہاں تمام عیسائی مبلغ مل بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے افکار و نظریات اور نجات کے پیغام کو پھیلانے کے بہتر سے بہتر طریقوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں’ان کی انھیں سرگرمیوں کی بدولت اس وقت ہزاروں عیسائی ویب سائٹس مصروف عمل ہیں جو کہ اسلامی ویب سائٹس سے سیکڑوں گنا زیادہ ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر تقریباً باسٹھ فی صد ویب سائٹس عیسائیوں کی ہیں۔ اس کے بعد یہودیوں کا نمبر ہے اور پھر مسلمانوں کا کہ اسلامی ویب سائٹس دس بارہ فیصد سے زیادہ نہیں۔ نیز انٹرنیٹ کے ذریعے کلیسا اور ابنائے کلیسا کی یلغار مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ حقیقت’ بشارتِ مسیح’ روحانیت’ ادب’ دین جیسے موضوعات کے ذریعے عیسائی افکار و نظریات کا زہر اُمت مسلمہ کی نئی نسل کے دل و دماغ میں اُتار رہے ہیں۔

ان حالات و واقعات اور رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی مشنری کس طرح پوری دنیا میں عیسائیت کے غلبے اور دوسرے مذاہب بالخصوص اسلا م کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمان بھی اپنے سچے دین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور نئی نسل کو اسلام کی حقیقی روح سے روشناس کرانے میں اپنا کردار ادا کریں اور انھیں عیسائی مبلغین کے خوشنما پُرفریب جالوں سے بچائیں۔