ایک دل دوز خط

مصنف : محمد اخلاق ندوی

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : نومبر 2006

گوانتاناموبے کے قید خانہ سے سعودی نژاد جمعہ عبداللطیف الودعانی الدوسری کا

اس خط میں وہ دلدوز داستان ہے جو گوانتاناموبے کے بے گناہ اسیروں کی رہائی کی کوشش میں لگے ہوئے بحرین کے وکلاء کے توسط سے ابھی گذشتہ دنوں سعودی پریس میں شائع ہوئی تھی۔ خداجانے اس طرح کی اور کتنی دلدوز داستانیں ہوں گی جنھوں نے جیل کی گونگی’ بہری دیواروں ہی سے ٹکرا کر دم توڑ دیا ہوگا اور جن کو الفاظ و حروف کا جامہ’ قلم و روشنائی کا سہارا نہ مل سکا ہوگا۔ (محمد اخلاق ندوی)

 افسوس کہ ہم نے قرآن کی قوت کو مخملی جزدانوں میں سمیٹ کر اور ایصالِ ثواب کی حد تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔ اب ہم جس طرح گھر کے آنگن میں خوشبو کے لیے ‘‘رات کی رانی’’ لگاتے ہیں اسی طرح گھر میں ‘‘برکت’’ کے لیے قرآنِ مجید رکھتے ہیں۔

الدوسری نے اپنے خط کے آغاز میں لکھا ہے: ‘‘جب قلم میرے ہاتھ لگا اور میں نے اپنی داستان لکھنا شروع کی تو میں عجیب شش و پنج میں مبتلا ہوگیا۔ میں اس داستان کو کہاں سے شروع کروں’ میں کس لیے یہاں پہنچا’ میں نے سب کچھ کس کی خاطر سہا اور میری آنکھوں نے وہ سب کچھ کیوں دیکھا جو دیدنی تھا نہ شنیدنی۔ میرے لیے اس داستان کو کاغذپر منتقل کرنا امرمحال تھا۔ مجھے وہ سارے درد و الم اور جور و ستم یاد آنے لگے جو مجھ پر بیت چکے تھے۔ مجھے اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا اور میں لرز کر رہ گیا۔ میں یہ سب کچھ کیسے بھلا پاؤں گا اور جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں’ اس کے بعد میں معمول کی زندگی کیسے گزار پاؤں گا……؟ میں اس وحشیانہ تشدد کو کیسے بھلا پاؤں گا جو مجھ پر روا رکھا گیا۔ مجھے وہ غلیظ حملے کیسے بھولیں گے جن کا مجھے نشانہ بنایا گیا’ جو شرمناک تھے اور جو تاریخ کے ایک بھیانک باب کی طرح ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ رہیں گے۔ مجھے حیرت ہے کہ میرے بیمار دل نے یہ سارے صدمے کیسے اٹھائے۔ مجھے حیرت ہے کہ میں نے اس قدر شدید نفسیاتی دباؤ کیسے برداشت کیا۔ میرے ہاتھ میں قلم ہے’ میرے آگے کاغذ رکھا ہوا ہے اور میں یہ چاہوں گا کہ میں ساری کہانی کاغذ پر منتقل کروں۔ میں اپنے ساتھ روا رکھے گئے شرمناک رویے کو بھی بیان کروں گا۔ میں سارے مظالم کے بارے میں لکھوں گا۔ میں اپنے اوپر ہونے والے مظالم’ اپنے ساتھ روا رکھی گئی توہین’ تذلیل اور تضحیک کے بارے میں لکھنا چاہوں گا۔ مزیدبرآں مجھ پر میرے مذہب پر، میرے اخلاق پر’ میرے وقار پر اور میرے انسان ہونے کے حق پر جو حملے کیے گئے’ میں ان کے بارے میں لکھنا چاہوں گا اور یہ سب کچھ میرے ساتھ ایک دن’ ایک ماہ’ ایک سال کے لیے نہیں ہوا’ بلکہ میں نے یہ سب کچھ برسوں تک برداشت کیا۔اُس جیل کی گونگی بہری دیواروں کے پیچھے سے یہ داستان لکھ رہا ہوں’ جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہمارے مذہب’ ہماری عزت اور ہماری توقیر کو تحقیر کا نشانہ بنایا گیا۔ میری داستان میرے اغوا سے شروع ہوتی ہے۔ مجھے پاک افغان سرحد سے اغوا کیا گیا اور امریکی فوجی دستوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا جہاں سے مجھے اس مقام پر لایا گیا جسے دنیا گوانتاناموبے کے نام سے جانتی ہے۔ اس حقیقت کے دستاویزی ثبوت اور عینی شہادتیں موجود ہیں۔ مجھ پر گزرنے والے ہر ستم کو اس تفتیشی کیمپ کے دوسرے اسیروں نے دیکھا اور داستانیں بین الاقوامی ریڈکراس کے نمائندے کو سنائی گئیں۔ ان مظالم کی شہادتیں تو ان سپاہیوں’ تفتیش کاروں اور مترجموں سے بھی لی جا سکتی ہے جو اس سارے عمل میں لمحہ بہ لمحہ میرے ساتھ رہے۔ پھر ان تمام واقعات کو ویڈیو کیمروں کے ذریعے محفوظ کیا گیا اور یہ ساری فلمیں اب بھی کہیں نہ کہیں خفیہ آرکائیوز میں محفوظ ہوں گی۔

میری بدنصیبی کی داستان اس وقت سے شروع ہوئی جب کہ میں افغانستان کی سرحد پار کر کے پاکستان کی حدود میں داخل ہوا۔ یہاں پر میں نے خود کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا اور ان سے کہا میں اپنے ملک (سعودی عرب) کے سفارت خانے تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ پاکستانی حکام نے معنی خیز والہانہ پن سے میرا خیر مقدم کیا اور وہ مجھے ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کرتے چلے گئے۔ تاہم مجھے زیادہ تر کوہاٹ میں رکھا گیا۔ میں نے سرحد پر دیگر بہت سے ملکوں کے شہریوں کو سرحد عبور کرتے اور پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ پاکستان میں ہمیں بدترین اور غلیظ ترین بیرکوں میں رکھا جاتا تھا’ ہمیں ایک تنگ بیرک میں رکھا گیا جہاں ۵۹ دوسرے نظربند بھی شامل تھے۔ اس بیرک میں بستر اور تکیہ ناپید تھے۔ باتھ روم نام کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ تمام نظربندوں کو کسی پردے اور اوٹ کے بغیر رفع حاجات کے مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔

اس گھٹن زدہ ماحول میں ہم کوئی حرکت نہیں کرسکتے تھے۔ ہم کئی دنوں تک اس جیل میں رہے اور یہاں پر ہمیں کھانے کے لیے روٹی کے ٹکڑوں پر گزارنا پڑتا تھا۔ ہمارے بعض ساتھیوں نے پیسے دے کر کھانا منگوانے کا سلسلہ شروع کیا’ مگر جیل کا عملہ پیسے غبن کرجاتا تھا اور بہت کم کھانا لاتا تھا۔ پاکستان کی جیلوں میں بہت سے نظربندوں کے پیسے چرا لیے گئے حتیٰ کہ ہمارے کپڑے’ جوتے’ گھڑیاں اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کے پاسپورٹ تک چرا لیے گئے۔ یہاں پر تفتیش کے دوران کئی بار مجھے مارا پیٹا گیا’ میری بے عزتی کی گئی’ ہمارے ساتھ ناروا سلوک کا بدترین حصہ وہ مواقع تھے جب ہم میں سے بعض نظربندوں کو رسیوں سے باندھ کر ہماری گردن اور پیروں کو کس کر ہمیں ٹرکوں پر لاد دیا گیا اور ہمیں گھنٹوں اسی حالت میں سفر کرایا گیا۔ سفر کے دوران ہمیں کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا گیا۔ جب ہم میں سے کسی نے اس صورت حال کی شکایت کی تو انھوں نے ہم پر بندوقیں تان لیں اور ہمیں دہشت زدہ کیا۔ ہمیں اسیری کے دوران برے طریقے سے پکا ہوا کھانا دیا جاتا تھا۔ ہمیں جو کمبل دیئے گئے تھے وہ گندگی اور غلاظت سے اٹے ہوئے تھے اور ان سے بدبو کے بھبھکے آتے تھے اور اس پورے عرصے میں ہمارے پیروں میں زنجیریں پڑی رہتی تھیں۔ میں جب بھی اٹھنا چاہتا تھا بھوک اور کمزوری سے گر پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں غلیظ ماحول کے باعث بیمار پڑ گیا۔

اچانک انھوں نے ہمیں بتایا کہ انسانی حقوق کی تنظیم کے بعض لوگ ہم سے مل کر بات کرنا چاہتے ہیں’ پھر اس کے بعد ہم اپنے گھروں کو جانے کے لیے آزاد ہوں گے مگر انھوں نے ہمیں امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا۔ سی آئی اے نے ہم سے پوچھ گچھ کی اور ہماری تصویریں بنائیں۔ پھر اسی جیل کے ایک مخصوص حصے میں ہمارے فنگر پرنٹس لیے گئے۔ بعض تفتیش کاروں نے نظربندوں کی توہین کی’ اسلام اور مسلم علماء کے بارے میں اہانت آمیز کلمات کہے۔ دو دنوں کے بعد انھوں نے ہمیں کویت میں بنائی گئی نیلی وردیاں فراہم کیں۔ انھوں نے بھی ہمیں زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ اس روز کے بعد امریکی جہاں بھی منتقل کرتے تھے وہ ہمیں رات کو سفر کراتے تھے’ پھر ہمیں امریکی فوجی طیارے کے اندر لے جایا گیا جہاں امریکی فوجی اور ان کے ساتھ ایک عرب مترجم ہمارے منتظر تھے۔ پاکستانی حکام نے چند ڈالروں کے عوض ہمیں امریکہ کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ میں نے مجموعی طور پر ۱۶ دن پاکستانی جیلوں میں گزارے۔

ہماری حقیقی آزمائش اب شروع ہوئی تھی۔ طیارے میں سوار کروانے کے بعد ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی۔ ایک مترجم نے میرے پاس آکر کہا کہ مجھے صرف احکامات کی پیروی کرنی ہے’ میرے پیروں میں زنجیر ڈال دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے میرے سر کو ایک تھیلے سے ڈھانپ دیا’ ہمارے پیٹ اور پیٹھوں پر زنجیروں کی جھنکار سنائی دیتی تھی۔ جب جہاز میں لادے جانے والوں کی تعداد ۳۰ ہوگئی تب جہاز کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ سفر شروع ہوا تو سپاہیوں نے سیٹیاں بجا کر’ گالیاں دے کر اور مارپیٹ کر ہمیں قیدی ہونے کا احساس دلایا۔ جب وہ مجھے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے تو اس کے ساتھ ساتھ وہ میری تصویریں بھی بنا رہے تھے۔ پچھلے دنوں میرے پیٹ کا آپریشن ہوا تھا۔ ان کے تشدد سے میرے پیٹ میں بری طرح درد شروع ہوا۔ پھر اس کے بعد ایک امریکی فوجی میرے پاس آیا اور میرے معدے پر بوٹوں کی بارش کردی’ یہاں تک کہ مجھے قے ہونے لگیں۔

یہ فروری ۲۰۰۲ء تھا’ موسم شدید سرد تھا مگر انھوں نے ہمیں ایئرپورٹ کے ٹھنڈے فرش پر لٹا دیا۔ ہمارے پاس کوئی کپڑے نہیں تھے۔ پاکستان میں ہمارے سارے کپڑے چرا لیے گئے تھے۔ پھر ہمیں اوندھے منہ لٹا دیا گیا اور ہمیں مارنے پیٹنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس تشدد کے دوران امریکی فوجی ہماری پیٹھوں پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ اس دوران ہمیں ایک ساتھی کے منہ پر چڑھا ہوا تھیلا کسی طرح اتر گیا۔ اس نے چلانا شروع کردیا کہ ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ اس پر اسے انتہائی بے دردی اور سفاکی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ’ یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوگیا۔بے رحمانہ تشدد کے بعد انھوں نے ہمیں کھڑے ہونے کا حکم دیا اور پھر مضبوط تاروں سے ہمیں ایک دوسرے سے باندھ دیا گیا۔ بعدازاں وہ کھینچتے ہوئے ہمیں ایک خیمے کی طرف لے گئے’ کئی نظربندوں نے درد کی شدت سے کراہنا اور چیخنا شروع کردیا۔ اس کراہنے اور چیخنے نے سپاہیوں کو زیادہ سنگدل بنا دیا۔ میں تشدد اور مظالم کے اس دور سے گزرتا رہا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے سر پر بوٹوں کے زوردار ضربیں لگائی جارہی ہیں۔ پھر انھوں نے گردن پر، سر پر اور میری پیٹھ پر پیشاب کرنا شروع کردیا اور زورزور سے قہقہے مارنے لگے۔ پھر نہ جانے ایک کو کیا سوجھی کہ اس نے اپنا بوٹ میرے منہ میں ڈال کر زور لگانا شروع کردیا’ یہاں تک کہ میرے ہونٹ کٹ گئے اور میرے منہ سے خون بہنے لگا۔ میرے منہ سے بوٹ نکال کر اس نے میرے چہرے پر ٹھوکریں مارنا شروع کردیں’ جس کی وجہ سے میری بینائی بری طرح متاثر ہوگئی۔ ہمیں طویل عرصے تک اسی حالت میں رکھا گیا اور ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف لے جایا جاتا رہا۔ اس دوران ایک سپاہی میرے پاس آیا’ اس نے بجلی کی ایک آری کے ذریعے میرے ہاتھ میں لگی پاکستانی ہتھکڑی اور پیروں کی بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان کی جگہ امریکی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ وہاں پر ایک مصری مترجم بھی تھا جس کا منہ بہت بھدا تھا۔ اس نے ہماری اور ہمارے خاندان والوں کی توہین کی اور نازیبا و گستاخانہ کلمات کہے۔ اس دوران ہم نے قرآن مجید کی بے حرمتی ہوتے دیکھی۔

الدوسری کی یہ دلدوز داستان یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ہے بلکہ آگے اس میں’ امریکیوں کی ان بیہودہ حرکتوں کا بیان ہے جو انھوں نے کھلم کھلا قرآن مجید کے ساتھ کیں۔شاید آپ کے علم میں ہو کہ ادھر امریکیوں نے جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو ٹارچر کیا ہے’ وہاں ان کے سامنے قرآن کی بے حرمتی بھی کی ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکیوں کی یہ حرکت باقاعدہ ایک سوچی سمجھی ہوئی اسکیم کے تحت ہے۔ اپنی اس حرکت سے امریکی جہاں ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں وہیں ان کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ یہ قرآن جو تمھیں دل و جان سے بھی زیادہ عزیز ہے’ تمھاری کوئی حفاظت نہیں کرسکتا۔اگر ہمارے ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں امریکیوں کی اس حرکت کا مثبت اور نتیجہ خیز جواب یہ دینا چاہیے کہ ہم قرآن سے حقیقی رشتہ قائم کرکے صرف امریکا ہی کو نہیں’ بلکہ تمام دنیا کو دکھا دیں کہ یہ قرآن ہماری کس طرح حفاظت کرسکتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے قرآن کی قوت کو مخملی جزدانوں میں سمیٹ کر اور ایصالِ ثواب کی حد تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔ اب ہم جس طرح گھر کے آنگن میں خوشبو کے لیے ‘‘رات کی رانی’’ لگاتے ہیں اسی طرح گھر میں ‘‘برکت’’ کے لیے قرآنِ مجید رکھتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ قرآن کا ہم پر حق کیا ہے؟ تواس کا ہمیں کوئی شعور نہیں۔

(بشکریہ ،ماہنامہ نوائے ہادی’ انڈیا،جون ۲۰۰۶ء)