بیماریوں کی نئی سوغات

مصنف : محمد مشتاق طارق

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : نومبر 2006

پولیو ڈراپس کے پردے میں

‘‘پولیو خوراک’’ کا ہماری حکومت کس قدر اہتمام کرتی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ قدم قدم پہ ‘‘دوبوند زندگی کے’’ کے پوسٹر غریب اُردو زبان میں بھی نظر آجاتے ہیں۔ لیکن کیا ‘‘پولیو خوراک’’ سے پولیو کا مرض ختم ہو رہا ہے؟ مطالعہ نہ صرف کہ اس کی تردید کر رہا ہے بلکہ حقائق و واقعات سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ ‘‘پولیو خوراک’’ بہت سارے خطرناک اور سنگین امراض کے لیے نقطۂ آغاز بن رہی ہے یعنی نیکی برباد اور گناہ لازم والا حال۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے یہاں کافی پہلے اس کے اُوپر پابندی لگا چکا ہے اور اس کی جگہ انجکشن کا استعمال کر رہا ہے۔ ذیل کے مضمون میں ‘‘پولیو خوراک’’ کے حوالے سے قدرے تسلی بخش جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ عامۃ الناس کو ‘‘پولیو خوراک’’ کی اس حقیقت سے باخبر کیا جائے۔ علاوہ ازیں اس سلسلہ میں تحقیق و تفتیش کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ (محمد اخلاق ندوی)

 

دوا کے باوجود پھیل رہا ہے پولیو

  • …… ارریہ (بہار) شہر کے محلہ گوڈی چوک کے وارڈ نمبر۹ میں عرفان ‘‘پولیو خوراک’’ پلانے کے باوجود پولیو کا شکار ہوگیا حالانکہ وہ اس سے قبل جسمانی طور پر تندرست تھا۔ (دینک جاگرن’ ۷ جون ۲۰۰۵ء)
  • ……فتوحا (بہار) کے دریا پور کے دویندر کمار کا لڑکا سورج (عمر ۷ سال) ‘‘پولیو خوراک’’ پینے کے باوجود پولیو کا شکار ہوگیا۔ (دینک جاگرن’ ۳۰ مئی)
  • ……شانتی نگر بھیونڈی (مہاراشٹر) علاقہ کے توفیق محمد یٰسین انصاری (۵ سال) اور کاٹی ناکہ کھاڑی پار علاقہ کی بھاگیہ شری پجاری (۳سال) کو گذشتہ ۱۵ مئی کو آخری بار پولیو خوراک پلائی گئی تھی مگر ان دونوں کو پولیو ہوگیا اور دونوں بچوں کے پیر پوری طرح ناکارہ ہوگئے ہیں۔ (اُردو ٹائمز’ ۲۶ مئی)
  • ……‘‘دو بوند زندگی کے’’ پینے کے باوجود مہاراج گنج اعظم گڑھ (یوپی) کے گاؤں ‘چرنئی’ کی ۴سالہ خوشبو پولیو کا شکار ہوگئی۔ آج وہ دونوں پیروں سے معذور ہے۔ اس واقعہ کے بعد ‘‘پولیو مہم’’ سے گاؤں کے لوگوں کا اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ (ہندی روزنامہ آج’ ۱۷ مئی)
  • ……دو بوند دوا…… پولیو ہَوا کی قلعی اس وقت کھل گئی جب ‘‘پٹوآہا’’ سہرسہ (بہار) کے بچہ کو اس بیماری نے آلیا۔ معلوم کرنے پر اس کی ماں شانتا دیوی نے بتایا کہ ‘‘جب بھی بوند والی دوا پلانے لوگ آئے’ میں اپنے بچے کو ضرور پلاتی تھی۔ (دینک جاگرن’ ۱۸ مئی)
  • ……پٹنہ شہر (بہار) سے پولیو ختم کرنے کے لیے ۲۰۰۵ء کی میعاد متعین کی گئی تھی مگر اس مہم کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب پولیو کے دو نئے معاملوں کا انکشاف ہوا۔ بہار ملک کی واحد ریاست ہے جہاں ۲۰۰۳ء میں پولیو متاثرین کی تعداد ۱۸ تھی اور ۲۰۰۴ء میں بڑھ کر۴۱ ہوگئی۔ (ٹائمز آف انڈیا’ ۱۸ مارچ)
  • ……ایک عینی گواہ کے مطابق چمن گنج کانپور (یوپی) کے اویس (عمر ۳ سال) کو دو سال قبل پولیو خوراک کے انفکشن سے چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں میں دانے نکل آئے بڑے بڑے پھوڑوں کا ابھی تک علاج نہیں ہوپایا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اویس کو مکمل تندرست ہونے میں کم از کم دس سال بھی لگ سکتے ہیں۔

دوا پلانے کے باوجود بچوں کا پولیو کے مرض میں مبتلا ہونا یہ واضح کرتا ہے کہ عالمی تنظیم برائے صحت (WHO) کے ذریعے پولیو کے خاتمے کا نعرہ حقیقت سے کافی دور ہے۔ ۲۰ جون ۲۰۰۵ء کو WHO کے ذریعے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں پولیو کے ۵۰۰ سے زیادہ نئے معاملے سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ یمن اور انڈونیشیا جنھیں ۱۹۹۶ء میں پولیو ویکسین کی مہم چلانے کے بعد اس بیماری سے آزاد خطہ قرار دیا گیا تھا’ وہاں پھر سے یہ وبا پھوٹ پڑی ہے اور پولیو کے بالترتیب ۲۴۳ اور ۵۳ نئے معاملے سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات کے بعد WHO کے افسران کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کی کیا توجیہہ کریں۔ تب انھوں نے اس کا الزام افریقی ملک نائیجیریا’ جہاں پولیو کی سخت مخالفت ہو رہی ہے…… کے ان تین حاجیوں کے سرمنڈھ دیا جنھوں نے امسال فریضۂ حج ادا کیا تھا۔ WHO کے مطابق انھی کے ذریعہ یہ وائرس یمن اور انڈونیشیا پہنچا ہوگا۔

واضح رہے کہ نائیجیریا کے علماء پولیو کے خلاف فتویٰ دے چکے ہیں اور وہاں کی شریعت قانون کی سپریم کونسل کے صدر ڈاکٹر ابراہیم دتّی جو ایک ماہر فزیشن بھی ہیں’ نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ پولیو ویکسین میں افزائش نسل (بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت) کو متاثر کرنے والے اجزاء ملے ہوئے ہیں۔

WHO کی جانب سے پولیو کے خاتمے کے لیے چلنے والے پروگرام کو اقوام متحدہ امریکی محکمۂ صحت CDC انٹرنیشنل ریڈ کراس’ ۱۶، امیر ممالک جو اپنے ناپاک مقاصد کے لیے غریب ملکوں کی امداد کرتے ہیں اور یورپی یونین کا مکمل تعاون حاصل ہے چنانچہ اس غیرملکی پروگرام پر شک کی وجہ سے نائیجیریا کی تین ریاستوں میں پولیو خوراک پلانے پر پابندی ہے۔ ان ہی میں سے ایک ریاست ‘کانو’ کے گورنر ‘ابراہیم شکاراؤ’ اپنے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصول یہ ہے کہ دو بلاؤں میں سے چھوٹی بلا کو اختیار کیا جائے۔ اس لیے لاکھوں بچوں (خصوصاً لڑکیوں) کو ویکسین دے کر ان کی افزائش نسل کی صلاحیت کو متاثر کرنے کے بجائے ہم نے یہ راستہ اختیار کیا ہے کہ بھلے ہی دو’ تین’چار’ پانچ’ دس بچے پولیو سے متاثر ہوجائیں لیکن یہ دوا نہیں پلائیں گے۔ پوری قوم بھی اس معاملہ میں ان کے ساتھ ہے’ نائیجیریا کے اخبار ‘بالٹی مورسن’ کے صحافی نے بتایا کہ ایک جوان خاتون کی بچی پولیو سے متاثر ہوگئی۔ میں نے اس خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو پولیو خوراک نہ لینے کے اپنے فیصلے پر افسوس نہیں ہے؟ تو اس نے بلاتردد جواب دیا کہ میں آگے بھی ایسا ہی کروں گی۔

اب امریکہ میں پولیو کی دوبوند پر پابندی

یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ امریکی محکمہ برائے حفظانِ صحت Center for Desease Control and Prevention (CDC) نے یکم جنوری ۲۰۰۰ء کو جاری ایک حکم نامے کے ذریعے پولیو کے خاتمے کے لیے پلائی جانے والی ‘‘اورل پولیو ویکسین’’ پر پابندی لگا دی ہے۔ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۹۹ء تک ۶۰۰ ملین پولیو کی خوراک فروخت کرنے والی کمپنی Lederleکو اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ CDC نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ پولیو کی ان بوندوں میں زندہ پولیو کے وائرس ہوتے ہیں’ جس سے دوسرے صحت مند لوگوں یا جن لوگوں نے پولیو کی خوراک نہیں پی ہے’انھیں بھی یہ مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے تب سے امریکہ میں پولیو کی خوراکوں کے بجائے انجکشن لگایا جانے لگاہے ۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان غیر متحرک اور مردہ پولیو کے ٹیکوں (Inactivated and Killed Polio Caccines) IPV سے پولیو کے پھیلنے کا خطرہ کافی کم ہوگیا ہے۔ نئے انجکشن کی قیمت ۵ہزار روپے فی بچہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے قیمتی انجکشن تیسری دنیا کے بچوں کو ملنے سے رہے۔ اس لیے WHO کے ذریعے امریکی گوداموں میں بیکار پڑی پولیو کی خطرناک بوندوں (OPV) کو ایشیائی ملکوں میں انڈیلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ایلن کینٹویل (MD) جنھوں نے انسانوں کی ایجاد کردہ خطرناک بیماری ‘‘ایڈز’’ پر دو کتابیں [ایڈز اینڈ دی ڈاکٹر آف ڈیتھ اور کویربلڈ] لکھی ہیں ’ کا یہاں تک کہنا ہے کہ ‘‘پولیو کی ان بوندوں سے مستقبل میں نئی نسل کے پولیو زدہ ہونے حتیٰ کہ خطرناک قسم کے پولیو Paralytic Polio ہونے کا بھی خطرہ بڑھ گیا ہے۔ شاید کہ انڈونیشیا’ یمن’ ہندوستان’ پاکستان’ افغانستان’ مصر’ نائیجیریا میں خوراک پینے کے باوجود صحت مند بچوں کے پولیو سے متاثر ہوجانے کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔

قوتِ تمیز اور قوتِ دفاع کا انہدام

گذشتہ سال مارچ میں نائیجیریا کے ذراریہ شہر میں واقع احمد وبیلو یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر ہارون قتیا جو خود ایک مشہور فارماسیوٹکل سائنس دان ہیں’ نے ہندوستان میں پلائی جانے والی ‘‘اورل پولیو ویکسین’’ کے نمونے کی جانچ کی تو انھوں نے بھی ویکسین میں خطرناک حد تک ملاوٹ کی بات قبول کی ہے۔ ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کی لائف سائٹ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ‘‘جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ٹیکہ بنانے والے اس سے چھیڑ چھاڑ کیوں کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے اس کی تین وجوہات بتائیں:

۱- ٹیکے بنانے والے اور ان خطرناک چیزوں کو پھیلانے والوں کے کچھ خفیہ ایجنڈے ہیں اور بڑی ریسرچ کے بعد ہی اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

۲- ان کو یقین ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کے پاس ریسرچ کرنے کی ایسی مہارت’ علم اور سہولت نہیں ہے جس سے وہ آسانی سے حقیقت کا پتا لگا سکیں۔

۳- اس کے علاوہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کے حمایتی ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں جو ان زیادتیوں کی حمایت کرتے ہیں۔

یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اس میں ہمارے پیشے (طب) سے جڑے ہوئے لوگ بھی ہیں جن پر ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ ہمارے فائدے اور نقصان کے محافظ ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر ابراہیم قتیا مطالبہ کرتے ہیں کہ ‘‘جن لوگوں نے پولیو ویکسین کے نام پر ان نقلی دواؤں کو منگوایا ہے’ انھیں ایک مجرم کی طرح سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔

طبی ماہرین کے ایک گروپ کا ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ماننا ہے کہ جنیٹیکلی (Geneti- cally) بنائے گئے وائرسوں کے ذریعہ امراض پھیلائے جاسکتے ہیں۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دور اقتدار ہی میں امریکی فوج نے اپنے دشمنوں کے خلاف جراثیمی جنگ چھیڑنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں میری لینڈ میں واقع فوج کے جراثیمی جنگ کے شعبے نے نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ سے اس سلسلہ میں ایک خفیہ معاہدہ بھی کیا تھا۔ اسی لیے ماہرین کے ایک طبقہ کا دعویٰ ہے کہ ایڈز کی وبا بھی باقاعدہ پھیلائی گئی ہے جس کے نتیجے میں بالآخر مریض کینسر کا شکار ہوجاتا ہے۔

۱۱ مئی ۱۹۹۷ء کو لندن ٹائمز میں چھپی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘‘افریقی ممالک میں ایڈ کی وبا پھیلنے کی وجہ ۱۹۷۲ء میں لگائے گئے چیچک (small pox)کے ٹیکے ہیں۔ ڈاکٹر ولیم کیمبل ڈگلس (MD) جیسے ماہرین WHO کے ذریعہ افریقی بندروں کو ایڈز کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کو ایک ہوائی بات سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بندروں کے جین کی بناوٹ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بندروں کے ذریعہ قدرتی طور پر ایڈز کے وائرس کا انسانی جسم میں داخل ہوجانا’ ناممکن ہے۔

ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایڈز ایک انسان سے دوسرے انسان میں تب تک منتقل نہیں ہوتا جب تک لگاتا ر ایک ہی انجکشن کا استعمال’ خون کی تبدیلی اور متعدد جنسی تعلقات کے ذریعہ جسم سے نکلنے والا مادہ (body fluid) ایک سے دوسرے انسان میں داخل نہ ہو۔ چنانچہ اعداد و شمار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ڈاکٹر تھیوڈر اسٹریکر کہتے ہیں: ‘‘اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ بندر اس کے لیے ذمہ دار ہیں تب بھی ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۷ء تک صرف اس ایک ذریعہ سے افریقہ میں محض آٹھ ہزار ہی لوگوں کو ایڈز ہونا چاہیے تھا نہ کہ ساڑھے سات کروڑ لوگوں کو۔ آخر امریکہ میں ایڈز کی وبا کس طرح پھیل گئی؟ کیا ہرے بندر وہاں بھی اڑ کر پہنچ گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے ۱۹۷۹ء میں مختلف امریکی شہروں میں ہم جنس پرست مردوں کو دیئے گئے ہیپاٹائٹس بی کے ٹیکے ذمہ دار ہیں’’۔

لانسیٹ پبلشر میں شائع مضمون میں ڈاکٹر آرجے بگر نے صاف طور پر الزام لگایا ہے کہ ‘‘ایڈز کے وائرس تجربہ گاہوں میں تیار کیے گئے ہیں’’۔ ڈاکٹر کیمپ بیل WHO کے ایک بلیٹین (جلد ۴۷ صفحہ ۲۵۹’ ۱۹۷۲ء) کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘ٹیکوں کے ذریعہ بیماریوں سے لڑنے کے نام پر WHO ہمارے جسم کی قوت مدافعت (immune system) کو ہی برباد کر رہا ہے۔ کیا وہ زمین سے انسانوں کو ہی ختم کردینا چاہتا ہے۔

پولیو خاتمہ کا احسان کیوں؟

دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے یہودیوں نے مسلمانوں کو اعتقادی’ روحانی’ عملی اور اخلاقی اعتبار سے کمزور کرنے اور ان کے جسموں کو فاسد بنانے کے لیے منصوبہ بند طریقہ سے مختلف قسم کے ٹیکے’ انجکشن اور دوائیں ایجاد کی ہیں۔ پولیو ڈراپس کی مہم ایک سازش کے تحت پوری دنیا میں سوائے صہیونی ممالک کو چھوڑ کر چلائی جارہی ہے۔ اس کی پوری توجہ اب جنوبی ایشیاء میں ہندوستان’ پاکستان اور بنگلہ دیش پر ہے۔ اس علاقے کی شناخت امریکہ نے انتہائی اہم اسٹرٹیجک علاقے کے طور پر پہلے ہی سے کر رکھی ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ مال کے حریص یہودی و عیسائی اس مہم پر اپنے کروڑوں ڈالر کیوں خرچ کر رہے ہیں؟

۱- پینٹاگون جو امریکہ کا دفاعی ادارہ ہے ہر سال تقریباً ایک لاکھ ملین ڈالر اس مہم کے لیے مہیا کرتا ہے۔

۲- ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہر سال ڈیڑھ لاکھ بلین ڈالر اس مہم پر صرف کرتا ہے۔

۳- روٹری انٹرنیشنل بھی اچھی خاصی رقم اس مہم کے لیے مہیا کرتی ہے’ ہزاروں غیر سرکاری اداروں (NGO's)کی طرح اکیلے مائیکروسافٹ کے چیئرمین بل گیٹس کی این جی او Bill and Melinda Gaes Foundation نے غریب ممالک میں بچوں کو ٹیکہ لگانے کے لیے سات سو پچاس ملین ڈالر دیے ہیں جو امریکہ کے ذریعہ سونامی متاثرین کو دی گئی امدادی رقم کے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔ اس رقم کے ذریعہ ۲۰۱۵ تک WHO کے ذریعے دنیا بھر کے نوے فی صد بچوں کو ٹیکہ لگائے جانے کی مہم میں مدد ملے گی۔

یہ تمام ادارے دنیا بھر میں صہیونیت کے مفاد کے لیے کھل کر کام کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

۴- Center for Disease Control, ICIIC, World Bank جیسے ادارے بھی اس مہم پر وافر رقم لگا رہے ہیں۔

۵- اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسیف ہندوستان میں پولیو کے ٹیکہ لگانے کی مہم کی نگرانی کر رہا ہے۔ وہ کروڑوں ڈالر اس مہم پر خرچ کرچکا ہے۔ وہیں UNO نے عراق میں ضروری ادویات کو پہنچنے نہ دینے سے ۱۹۹۱ء سے پابندی لگا رکھی ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں اب تک پانچ لاکھ بچے مارے جاچکے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے جب سوڈان میں دوا بنانے کی فیکٹری بنائی گئی تاکہ مرنے والے بچوں کو بچایا جا سکے تو امریکہ نے اسے بم برسا کر تباہ کردیا’ لیکن اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنا رہا۔

ناپاک جانوروں سے تیار پولیو

بندر’ چیمپنزی’ کتے’ چوہے اور سور جیسے حرام اور ناپاک جانوروں کے وائرس کس طرح ہمارے جسم میں داخل کیے جا رہے ہیں اس کے لیے صرف پولیو کے ٹیکے بنانے کے لیے کی گئی کوششوں کا جائزہ لینا ہی کافی ہوگا۔ ۱۹۵۵ء میں ہندوستان اور فلپائن سے منگوائے گئے چار بندروں پر جنوبی کیلیفورنیا کے بلفٹن کے علاقے میں ندی کے کنارے سنسان جگہ پر واقع تجربہ گاہ میں کئی مرحلوں میں تجربہ کیا گیا اور اس کے بعد ان کی کڈنی سے پولیو کے ٹیکے تیار کیے گئے۔ یہ کارنامہ انجام دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ جونس ایڈورڈ سالک (۹۵-۱۹۱۴ء) تھاجو مشہور بیکٹریالوجسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا یہودی روحانی پیشوا بھی تھا۔ جس کا نام آج بھی یہودی علماء اور ربی بڑے احترام سے لیتے ہیں۔ ۱۹۶۳ء میں اس نے کیلیفورنیا کے لازولا علاقہ میں سالک انسٹی ٹیوٹ فاربایولوجک اسٹڈیز کی بنیاد ڈالی۔ دنیا میں سب سے بڑی بایولوجیکل تجربہ گاہوں میں شمار ہونے والی اس تجربہ گاہ کا سالانہ خرچ ۲۰ لاکھ ڈالر یعنی ساڑھے پانچ ارب روپیہ ہے اور اس میں ۴۰۰ سائنس دان شب و روز کام کرتے ہیں۔ اسی تجربہ گاہ سے بنائے گئے پولیو کے ٹیکوں کو امریکی حکومت نے پولیو کے خاتمے کے لیے چلنے والی مہمات (sweeping drives) کے لیے لمبے عرصہ تک استعمال کیا۔

آج بھی پولیو کی دوا بنانے والی کمپنی لیڈرلے rhesus monkyes کی کڈنی سے ٹیکے تیار کرتی ہے۔ ایک امریکی صحافی مائیکل ڈورمن کے مطابق: ‘‘امریکہ میں ۱۹۶۲ء سے ۲۰۰۰ء تک ڈاکٹر سالک کے ذریعہ بنائے گئے پولیو کے ٹیکے صرف عیسائیوں کو دیئے گئے جب کہ وہاں کے ڈیڑھ فیصد سے بھی کم یہودیوں نے مذہبی وجوہات سے ویکسین پینے سے انکار کیا ہے۔ WHO کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں پچاس کروڑ لوگوں کو دیا جاچکا ہیپاٹائٹس بی کا ٹیکہ صرف اسرائیل میں نہیں لگایا جاتا۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا نے اس پر کوئی ہنگامہ نہیں کیا۔ جب کہ نائیجیریا کے تین حاجیوں سے پولیو کے پھیل جانے کا ہوا کھڑا کر کے سعودی حکومت کو ۸۰ لاکھ بچوں کو ٹیکہ لگانے پر مجبور کردیا گیا ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ نوائے ہادی’انڈیا، جون ۲۰۰۶ء)