امریکی فوجی جب وحشی بن گئے

مصنف : سید عاصم محمود

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : ستمبر 2006

            یہ محمودیہ ہے، عراق کا قصبہ جو بغداد سے بیس میل دور جانب جنوب واقع ہے۔ ۱۰ مارچ ۲۰۰۶ء کو قصبے کی رہائشی چونتیس سالہ فخریہ طحہ محسن اپنے پڑوسی عمر جنبی کے گھر پہنچی۔ وہ گھبرائی ہوئی اور پریشان لگتی تھی۔ اس نے جو باتیں بتائیں انھیں سن کر عمر جنبی بھی پریشان ہو گیا۔ فخریہ کی پندرہ سالہ بیٹی عبیر قاسم حمزہ بہت خوبصورت تھی۔ اتنی چھوٹی سی عمر ہی میں مقامی اسکول پڑھانے لگی تھی۔ جب وہ اسکول جاتی، تو راہ میں امریکی فوجیوں کی چوکی آتی تھی۔ روزانہ آنے جانے سے وہ کچھ امریکیوں کی نظروں میں آگئی اور ان پر ہوس کا دیو سوار ہو گیا۔

            عبیر قاسم نے اپنی ماں کو بتایا کہ آتے جاتے کچھ امریکی فوجی اس کی طرف ہوس بھری نظروں سے دیکھتے اور گندے اشارے کرتے ہیں۔ یہ سن کر فخریہ پریشان ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت امریکی اس کے وطن پر قابض ہیں اور طاقت کے نشے میں آ کر کوئی بھی گھناؤنا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں فوجی رات کے اندھیرے میں اس کے گھر دھاوا نہ بول دیں۔ اسی لیے وہ اپنے پڑوسی عمر کے گھر گئی، اسے سارا ماجرا بتایا اور پوچھا کہ کیا عبیر اس کے گھر کی خواتین کے ساتھ سو سکتی ہے؟

            عمر جنبی بتاتا ہے ‘‘میں نے حامی بھر لی۔ تاہم میں نے اسے تسلی دی اور اس کا خوف دور کرنا چاہا۔ فخریہ کو بتایا کہ امریکی ایسی ذلیل حرکت نہیں کر سکتے، وہ ایک مہذب قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن وہ گھبرائی ہوئی رہی تاہم اس نے عبیر کو میرے گھر سلانے پر اصرار نہ کیا۔ مجھے کیا علم تھا کہ امریکی فوجیوں کے درمیان کیسی گندی کھچڑی پک رہی ہے۔’’

            محمودیہ عراق کے اس علاقے میں واقع ہے جو ‘‘موت کا مثلث ’’ کہلاتا ہے کیونکہ یہ امریکی فوج سے نبردآزما تنظیموں کا گڑھ ہے …… وہ تنظیمیں جن کے حمایتی انھیں ‘‘آزادی پسند’’ اور مخالف ‘‘دہشت پسند’’ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موت کے مثلث میں امریکی فوج نے جا بجا اپنی چوکیاں قائم کر رکھی ہیں تاکہ ‘‘دہشت گردوں’’ کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک ایسی ہی چوکی محمودیہ کے نواح میں واقع تھی جس پر متعین امریکی فوجیوں نے ایسی وحشیانہ کارروائی کی کہ اسے دیکھ کر شیطان بھی لرز گیا ہو گا۔

            امریکی فوجیوں نے پتا چلا لیا کہ لڑکی کے گھر صرف اس کے ماں باپ رہتے ہیں اور کوئی بڑا مقیم نہیں۔ تب ان کے اندر کا ابلیس جاگ اٹھا اور وہ اس کی بے حرمتی کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ اس ابلیسی ٹولے میں پانچ امریکی فوجی شامل تھے اور سٹیون گرین ان کا سربراہ تھا۔ ۱۲ مارچ کی شام ‘‘حملہ’’ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ فوجیوں نے ام الخبائث جی بھر کراپنے اندر انڈیل لی، یوں ان کا رہا سہا ہوش بھی جاتا رہا۔

            جب تاریکی اچھی طرح پھیل گئی، تو چار ملزم دبے پاؤں فخریہ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہ سویلین لباس میں ملبوس تھے تاکہ ان پر کوئی توجہ نہ دے۔ ویسے بھی رات ہوتے ہی محمودیہ کے عام مکین اپنے گھروں میں دبک جاتے تھے۔ پانچواں ملزم چوکی پر رہ گیا تھا تاکہ ریڈیوسنبھال سکے۔ سٹیون گرین نے چہرہ ایک گندی قمیص سے ڈھانپا ہوا تھا۔

            دروازے پر دستک سن کر جب قاسم حمزہ نے دروازہ کھولا، تو تربیت یافتہ فوجیوں نے فوراً اسے قابو کر لیا تاکہ وہ چیخ پکار کر کے پڑوسیوں کو خبردار نہ کر دے۔ ان کے پاس فوجی خنجر تھے جن کی چمک دمک دیکھ کر گھر کے معصوم باسی خوفزدہ ہو گئے اور ویسے بھی کبھی ان کا واسطہ قتل و غارت سے نہیں پڑا تھا۔

            حملہ آوروں نے اگلا قدم یہ کیا کہ فخریہ قاسم، حمزہ اور ان کی چھوٹی بیٹی، سات سالہ ہدیل کو علیحدہ کمرے میں لے گئے اور انھیں گولیاں ماردیں۔ بیچارے آہ کیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ گولیاں گرین نے چلائیں، باقی امریکی فوجی اس کی معاونت کر رہے تھے۔ بعدازاں گرین سمیت ایک اور فوجی نے مل کر عبیر کو بے عزت کیا۔

            وحشیوں نے اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد عبیر کے سر پر گولیاں مار کر اسے بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ جب اس بربریت سے بھی ان کی تسکین نہ ہوئی، تو فوجیوں نے عبیر کی لاش پر پٹرول قسم کی کوئی شے چھڑکی اور اسے آگ لگا دی۔ یہ کارروائی کرنے کے بعد فوجی واپس اپنی چوکی پہنچ گئے۔ وہاں ریڈیو پر متعین فوجی نے دیکھا کہ اس کے ساتھیوں کے کپڑوں پر خون کے دھبے ہیں۔ بعد ازاں یہ کپڑے جلا دیے گئے تاکہ گھناؤنے جرم کا کوئی ثبوت نہ رہے۔ مزید براں فوجیوں نے آپس میں طے کیا کہ کوئی اس واقعے پر کبھی گفتگو نہیں کرے گا۔

            صبح ہوئی تو فوجیوں نے مشہور کر دیا کہ رات گئے دہشت گردوں نے قاسم حمزہ کے گھرانے پر حملہ کیا اور انھیں جان سے مار ڈالا۔ چونکہ جرم کا ہر ثبوت مٹا یا جا چکا تھا، اس لیے مقامی لوگوں کو ان کے کہے پر اعتبار کرنا پڑا۔ قارئین، اندازہ لگائیے کہ درندہ صفت امریکی فوجیوں سے کتنے جرائم سرزد ہوئے:

(۱) انھوں نے اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے معصوم لڑکی کے پورے گھرانے کو قتل کر دیا حتیٰ کہ ایک سات سالہ بچی کو بھی نہ چھوڑا۔ اس موقع پر پتھر دل بھی رحم کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر وہ فوجی نجانے کیسے شقی القلب تھے کہ ان کے دل ذرا نہ پسیجے۔

(۲) عصمت دری کے بعد انھوں نے نہ صرف عبیر کو ہلاک کر دیا بلکہ اسے جلا کر اپنی نفسانی خواہش کو تسکین پہنچائی۔

(۳) امریکی فوجیوں نے اپنا جرم چھپانے کے لیے قتل و غارت کی کارروائی ‘‘دہشت گردوں’’ کے سر پر ڈال دی۔

٭٭٭

            ملزم چاہے اپنے جرم سات پردوں کے پیچھے بھی چھپالے، تو وہ ایک نہ ایک دن منظر عام پر آ کر رہتا ہے۔ اکثر خدا تعالیٰ بھی یہ بندوبست فرماتا ہے۔ ملزمان گرین وغیرہ کا تعلق جس پلاٹون سے تھا، ۱۶ جون ۲۰۰۶ کو اس سے تعلق رکھنے والے دوامریکی فوجی نا معلوم افراد نے اغوا کر لیے۔ بعدازاں ان کی کٹی پھٹی لاشیں ملیں۔ اس واقعے نے پلاٹون کے باقی ماندہ فوجیوں پر گہرا نفسیاتی اثر ڈالا۔

            اعلیٰ قیادت نے ۲۲ جون کو پلاٹون کے فوجی ایک پادری کے پاس بھیجے تاکہ انھیں روحانی طور پر سہارا مل سکے۔ پادری انھیں بائبل کے حوالے دینے لگا، تو ایک فوجی کو خدا یاد آگیا۔ وہ اپنے ضمیر پرگناہ کا بوجھ مزید برداشت نہ کر سکا اور اس نے درج بالا واقعے کا انکشاف کر ڈالا۔ ان پانچوں ملزموں کا تعلق ۵۰۲ انفنٹری رجمنٹ سے تھا۔ عراق میں یہ رجمنٹ ۴ انفنٹری ڈویژن سے وابستہ ہے۔ ہوتے ہوتے یہ خبر ڈویژن کے کمانڈر، میجر جنرل جیمزتھرمان تک پہنچی اور اس نے معاملے کی چھان بین کرنے کا حکم دے دیا۔

            ۳۰ جون کو امریکی ملٹری پولیس نے اعلان کیا کہ ایک فوجی نے عصمت دری اور قتال کے واقعے میں حصہ لینے کا اقرار کر لیا ہے۔ دیگر ملزم فوجیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور پھر ان پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔

سٹیون گرین کی گرفتاری

            اس دل خراش واقعے کا بنیادی ملزم سٹیون ڈیل گرین ۱۹۸۵ء کو پیدا ہوا۔ ستمبر ۲۰۰۵ء میں پرائیویٹ فرسٹ کلاس کی حیثیت سے عراق پہنچا۔ اپریل ۲۰۰۶ میں اسے ناروا رویہ رکھنے پر فوج سے نکال دیا گیا۔ گرین واپس امریکہ جا پہنچا۔ جب اس کے ساتھی ملزمان نے گرین کی نشان دہی کی، تو ایف بی آئی امریکا میں اسے تلاش کرنے لگی اور آخر اسے گرفتار کر لیا گیا۔

            ۳ جولائی ۲۰۰۶ کو امریکا کی وفاقی عدالت میں اس پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے عبیر کی بے حرمتی کی اور اس کے ماں باپ اور بہن کو قتل کر دیا۔ گرین تمام الزامات سے انکاری ہے۔

            بدنصیب گھر میں داخل ہونے والا پہلا فرد ان کا پڑوسی عمر جنبی تھا۔ وہ بتاتا ہے ‘‘جب میں اندر پہنچا تو عبیر ایک کونے میں مردہ پڑی تھی۔ اس کے بال جل چکے تھے اور وہ نیم برہنہ تھی۔ میں نے اسے دیکھتے ہی پہچان گیا کہ اس کی عصمت دری کی گئی ہے۔ کاش میں اسے اپنے گھر سلا لیتا لیکن کون جانے کہ یہ آفت میرے گھر پر بھی ٹوٹ پڑتی۔ بہرحال اس کی ماں کے شکوک سچ ثابت ہوئے۔’’

            اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی عدالتیں ملزمان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں۔اورکیا انہیں پھانسی کی سزا ملتی ہے؟

امریکی فوج کا کردار

            عرصہ دراز سے عراقی امریکیوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ انھوں نے عراق میں فرقہ وارانہ فسادات شروع کروائے ہیں۔ مثلاً حادثہ محمودیہ ہی کو لیجیے، ملزمان نے جرم کرکے علاقے بھر میں مشہور کر دیا کہ انھیں شیعہ دہشت گردوں نے مارا ہے۔ یہ سن کر دیہاتی شش و پنج میں پڑ گئے کیونکہ قتل ہونے والا خاندان سنی تھا۔ بہرحال یہی سمجھا گیا کہ شیعہ حملہ آوروں نے انھیں ہلاک کر دیا ہے۔ اس بات سے علاقے میں سنیوں اور شیعوں کے مابین کشیدگی پھیل گئی۔ اس واقعے سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ امریکی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے میں مصروف ہیں۔

            مزید برآں پچھلے ایک برس میں امریکی فوجیوں نے کئی بے گناہ عراقی ہلاک کر ڈالے اور اپنا جرم چھپانے کے لیے اپنے جرم ‘‘دہشت گردوں’’ کے سر تھونپ دیئے۔ اس قسم کا پہلا واقعہ ۱۹ مئی ۲۰۰۴ کو پیش آیا جب امریکی فوجی ہیلی کاپٹر نے مخرادیب نامی عراقی گاؤں پر حملہ کیا اور ۴۲ نہتے شہری مار ڈالے۔ مرحومین میں ۱۱ خواتین اور ۱۴ بچے شامل تھے۔ یہ امریکی فوج کا پہلا نمایاں جنگی جرم تھا۔

            ۱۹ نومبر ۲۰۰۵ کو حدیثہ قتل عام کا خوفناک واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ عراقی قصبے حدیثہ کے نزدیک ایک امریکی فوجی قافلے پر حملہ ہوا ، تو اس میں ایک فوجی مارا گیا۔ اس کے ساتھی پاگل ہو گئے اور دیوانگی کے عالم میں انھیں جو عراقی ملا، اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس حادثے میں چوبیس عراقی مارے گئے اور وہ سب کے سب عام شہری تھے۔

            شروع میں امریکی فوج نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردوں کے بم حملے سے پندرہ شہری مارے گئے، بعد ازاں فوجیوں اور حملہ آورں کے مابین مقابلہ ہواجس میں آٹھ دہشت گرد مارے گئے، مگر رفتہ رفتہ واقعے کی تفصیل سامنے آئی، تو وہ بالکل مختلف تھی اور امریکی فوجیوں کو گناہ گار قرار دیتی تھی۔ اس سانحے کی چھان بین جاری ہے۔ بین الاقوامی طور پر اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔

            امریکی فوجیوں کے پاگل پن سے وجود میں آنے والا تیسرا بڑا و اقعہ مارچ ۲۰۰۶ میں رونما ہوا۔ امریکی فوجیوں نے عراقی قصبے، عشقی میں ایک گھر کا محاصرہ کر لیا جہاں سے ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔ تلاشی لینے پر گھر سے دو مرد، چار خواتین اور پانچ بچے برآمد ہوئے۔ فوجیوں نے ان سب کو گولیوں سے اڑا دیا۔ بعد ازاں جب گھر سے اسلحہ برآمد نہیں ہوا، تو ان فوجیوں نے گھر پر طیارے کے ذریعے بم گرا دیا تاکہ ان کے جرم کے سارے ثبوت خاک میں مل جائیں۔ اس واقعے کے سلسلے میں بھی عراقی اور امریکی حکومتیں تفتیش کر رہی ہیں۔

            ۲۶ اپریل ۲۰۰۶ کو ہمدانیہ حادثہ پیش آیا۔ یہ بھی سفاکی میں اپنی مثال آپ ہے۔ امریکی فوجیوں نے عراقی قصبے، ہمدانیہ کے رہائشی ہاشم ابراہیم کو اغوا کرکے قتل کیا، اسے سڑک پر ڈالا اور اس کے سرہانے ایک رائفل اور پھاوڑا رکھ دیا تاکہ یہ لگے وہ سڑک کھود کربم چھپا رہا تھا۔ یہ لرزہ خیز اقدام کرنے والے آٹھ فوجیوں پر مقدمہ چل رہا ہے۔

            یہ محض چند بڑے واقعات تھے ، چھوٹے موٹے تو نجانے کتنے ہوئے ہوں گے۔ بے گناہ عراقی شہریوں پر یہ ظلم و ستم اس امر کو نمایاں کرتا ہے کہ امریکی فوجی دانستہ انھیں اپنا شکار بنا رہے ہیں یا پھر ان کا ذہنی توازن اتنا خراب ہو چکا ہے کہ معمولی سے خلاف طبع واقعے پر وہ حیوان بن جاتے ہیں۔ ان واقعات سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ عراق کو اپنی نو آبادی بنانے کے منصوبے میں امریکی فوج جھوٹ کی دلدل میں گھٹنوں تک پھنس چکی ہے۔ وہ اپنے آقاؤں کے اشاروں پر تمام حواس بند کرکے عمل کر رہی ہے تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں تیل کی دولت پر تادیر قابض رہیں۔

(بشکریہ: سنڈے ایکسپریس، ۱۶ جولائی ۲۰۰۶)