حضرت منصور بن عمارؒ

مصنف : ڈاکٹر ابو اعجاز رستم

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : ستمبر 2006

             انسان کو یہ اعزاز و اکرام حاصل ہے کہ مخلوقات میں سب سے افضل ہے۔ اگر تخلیقی فضیلت کو قائم رکھے تو بندہ ہے ورنہ جانوروں سے بھی بدتر۔اپنی تخلیقی فضیلت کو برقرار رکھنے والے برگزیدہ بندوں میں ایک نام منصور بن عمار کابھی ہے۔ جو بصرہ کی ایک چھوٹی سی بستی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علم و فضیلت میں وہ نام پیدا کیا کہ اپنے گم نام خاندان کا نام بھی روشن کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے منصور بن عمار پر وہ انعامات فرمائے کہ ساری مخلوق رشک کرنے لگی۔ آپ کی زبان کو ایسی تاثیر عطا ہوئی کہ جو بات بھی زبان سے نکالتے وہ پوری ہو جاتی۔ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے تو اس کے مفاہیم کی گہرائی میں اتر جاتے۔

            ایک مرتبہ جب انھوں نے یہ آیت پڑھی، ‘‘جو لوگ برائیوں میں گم ہو جاتے ہیں، انھیں یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ انھیں ایمان والوں میں شمار کیا جائے گا کیونکہ دونوں کی زندگی اور موت کا انداز ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔’’ آیت پڑھتے ہی منصور بن عمار کی روح میں چنگاریاں سی اڑنے لگیں، اور انھوں نے وہ رات آنکھوں میں گزار دی۔ ان کے ذہن میں معروف کرخی کے یہ الفاظ گونجتے رہے کہ اللہ کے ولی کی صرف دو نشانیاں ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ اس کا خیال سرورِ کونین ﷺ میں گم رہتا ہے۔ دوم یہ کہ اس کا کاروبار اور رہن سہن سب اللہ کے ساتھ رہتا ہے۔

             آپ کی کبھی یہ خواہش ہوتی لوگوں کا مجمع آپ کے سامنے ہو، اور آپ اپنے اندرونی مشاہدات اور واردات ان کے سامنے بیان کریں۔ لیکن ایک عرصے تک آپ ایسا نہ کر سکے۔ ان کے ذہن میں اس کا کوئی معقول جواب نہ تھا۔ کبھی کبھی ان کا یہ جذبہ ماند پڑ جاتا۔ اور ان کا ذہن خالی رہ جاتا۔ ان کی یہ کیفیت کسی ماورائی قوت کے زیر اثر تھی۔ وہ ازخود اس پہ قادر نہ تھے۔

            ایک دن کسی مجلس میں ان پر یہ عقدہ کھلا کہ انسان کو کچھ تو اکتساب سے حاصل ہو جاتا ہے، اور کچھ وہبی ہوتا ہے۔ اس لیے جس مقام کے وہ متلاشی ہوتے ہیں، وہ انھیں اس وقت تک نہیں ملتا جب تک انھیں اللہ تعالیٰ عطا نہ کرے۔

            انھی خیالوں میں ڈوبے ہوئے آپ بازار سے گزر رہے تھے۔ اچانک کاغذ کا ایک پرزہ اڑتا ہو ان کے سینے سے چپک گیا۔ انھوں نے کاغذ پڑھا تو اس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا۔ انھیں لکھنے والے پر بڑا غصہ آیا کہ لکھاتھا تو حفاظت بھی کرتا۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ اللہ کے نام کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔ اسے پاؤں کے نیچے نہیں آنا چاہیے۔ یہ سوچ کر آپ نے اس کاغذ کو ایک درخت کے شگاف دار تنے میں رکھ دیا اور مطمئن ہو کر گھر کی طرف چل دیے۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ انھیں خیال آیا، اگر اس درخت کو کاٹ دیا گیا تو ایک بار پھر یہ کاغذ ہوا میں اڑتا پھرے گا ، اور نامعلوم کس کس کے پاؤں کے نیچے آئے۔ آپ واپس لوٹے اور درخت کے شگاف سے پرزہ نکال کر جیب میں رکھ لیا، اور فیصلہ کیا کہ دریائے دجلہ میں ڈال دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی خیال آیا کہ لوگ دریا میں نہاتے ہیں، اور وہاں اپنی نجاستیں چھوڑ آتے ہیں۔ اگر یہ پرزہ بھی انھی نجاستوں میں چلا گیا تو کتنا برا ہو گا۔ چنانچہ آپ اس خیال سے بھی باز آگئے۔ اور ایک بار پھر اس سوچ میں پڑ گئے کہ اس پرزے کی حفاظت کیسے کی جائے؟ مسئلہ جوں کا توں رہا۔ آخر آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے کہیں بھی نہ پھینکا جائے گا۔ بے حرمتی کا خدشہ ہر حال میں موجود رہے گا۔ آپ نے اس پرزے کو نگل لیا اور مطمئن ہو گئے کیونکہ اب بسم اللہ کا پرچہ ایسی جگہ پہنچ چکا تھا جہاں بے ادبی کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا تھا۔ رات کو آپ نے خواب میں کسی کی پکار سنی، ‘‘اے منصور! سنو، غور سے سنو۔’’ آپ نے دیکھا مگر پکارنے والا نظر نہ آیا۔ آپ نے اسے اپنا وہم سمجھا۔ کچھ دیر بعد پھر وہی آواز سنائی دی، ‘‘اے ابن عمار! ادھر آؤ، میں تمھیں خوشخبری سناؤں۔’’ یہ آواز ایک ٹیلے سے آ رہی تھی۔ آپ اس ٹیلے کے پیچھے چلے گئے۔ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ آپ کو پھر شبہ ہوا کہ یہ وہم ہے۔ لیکن اس دفعہ آواز بالکل قریب سے آئی، ‘‘اے ابن عمار! آج تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس کا انعام دیا جائے گا۔ تم ہمارے معتقدین میں شامل کر لیے گئے ہو اس لیے خوش ہو جاؤ۔’’ آپ نے آواز کی طرف منہ کرکے کہا، ‘‘میں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا، جس کے لیے میں انعام کا مستحق ٹھہرایا جاؤں۔’’جواب ملا، ‘‘تم نے اللہ کے نام کی جو حرمت کی ہے، اس کا یہ انعام دیا گیا ہے کہ آج سے تم پر حکمت اور دانائی کی راہیں کھول دی گئی ہیں۔ تم نے اللہ کے نام کی تعظیم کی، ہم تمھاری تعظیم کریں گے۔’’ آپ کی آنکھ کھل گئی اور پھر ایسا لگا گویا بستر آپ کو دھکے دے رہا ہے۔ اٹھے اور باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھا۔ تاروں بھرا آسمان دل پر دہشت طاری کرر ہا تھا۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور اوپر دیکھتے ہوئے کہا، ‘‘یا خدا! کیا میں اس خواب کو سچ تصور کروں؟ کیا مجھے مذکورہ مقام عطا کیا جا چکا ہے؟ کیا میں نے واقعی کوئی اتنا بڑا کام کیا ہے، جس کا مجھے اتنا بڑا انعام دیا گیا ہے؟’’ مگر ان باتوں کا آپ کو کوئی جواب نہیں ملا۔ لیکن آپ کے دل و دماغ معطر ضرور تھے۔

            صبح آپ نے ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھا۔ دروازے پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ اور لوگ آپ سے وعظ کی درخواست کر رہے تھے۔ آپ نے انھیں جواب دیا، ‘‘دوستو! میں واعظ نہیں ہوں۔ میں نے کبھی وعظ کہا بھی نہیں۔ پھر میں کس طرح تقریر کروں گا؟’’چند آدمیوں نے کہا، ‘‘ہم آپ کی بات یوں نہیں مانیں گے، کیونکہ ہمیں خواب میں بتایا گیا ہے کہ تم منصور بن عمار کے پاس جاؤ۔ وہ تمھیں اسرارو رموزکی باتیں بتائیں گے، اور اس دور میں ان سے بہتر کوئی اور واعظ نہیں۔’’آپ نے فرمایا، ‘‘تب پھر آپ لوگ ایسا کریں کہ مجھ سے وعظ نہ سنیں بلکہ مجھ سے سوال کریں۔ میں آپ کو ان کے جواب دوں گا۔ اگر میں معقول جوابات نہ دے پاؤں تو آپ لوگ سمجھ لیجیے گا کہ میں اس کا اہل نہیں۔ آپ لوگوں کو میرے بارے میں کسی قسم کی غلط فہمی ہو گئی ہے۔’’لوگوں نے کہا، ‘‘چلیں یہی سہی۔ ہم آپ سے سوال ہی کیے لیتے ہیں۔’’

            آپ نے اپنے دل میں دعا کی، ‘‘اے میرے رب! پتا نہیں انھیں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی کیسے ہو گئی ہے کہ میں انتہائی لائق انسان ہوں۔ اب تو میری آبرو رکھ یا ذلیل کر، میں تیری رضا چاہتا ہوں۔ ہاں اگر میں نے انھیں مطمئن کر دیا تو ہزار رکعت شکرانے کی ادا کروں گا۔’’ایک شخص نے آپ سے پوچھا، ‘‘اے ابن عمار! دل میں گزرنے والے خیال کتنی قسم کے ہوتے ہیں؟’’

            فرمایا، ‘‘چار قسم کے۔’’سائل نے ان قسموں کی وضاحت چاہی ۔ آپ نے کہا، ‘‘ایک اللہ جل و اعلیٰ کی طرف سے ، دوسرا فرشتے کی طرف سے ، تیسرا نفس کی طرف سے، چوتھا شیطان کی طرف سے۔’’آپ سے ان چاروں کی وضاحت چاہی گئی کہ وہ کس طرح ؟ اس کی بھی وضاحت فرما دی۔آپ نے فرمایا، ‘‘میں جو کچھ کہوں اسے پتھر پر لکیر سمجھ۔’’آپ جس انداز میں گفتگو فرما رہے تھے، سامعین اس سے بہت مرعوب تھے۔ ہر کوئی گوش برآواز تھا۔ آپ نے جو کچھ کہا تھا، اس کی وضاحت کرنا شروع کر دی۔ ‘‘وہ خیال جو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، وہ انسان کو مقامِ انسانیت یاد دلاتا ہے۔ جو فرشتے کی طرف سے ہوتا ہے،وہ اطاعت و فرمانبرداری پر راغب کرتا ہے۔ جو نفس کی طرف سے ہوتا ہے، وہ نفسانی خواہشات کی پیروی پر اکساتا ہے۔ چوتھااللہ کی نافرمانی پر ابھارتا ہے۔ وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔’’ آپ کے بصیرت افروز جواب نے ہلچل سی مچا دی۔ ہر کوئی وجد میں آگیا۔ ابن عمار خود بھی حیران ہو رہے تھے کہ انھیں یہ علم کہاں سے عطا ہو گیا۔ اب کیا تھا آپ سے سوالات کیے جانے لگے۔ پوچھا گیا، ‘‘حضرت دنیا کیا ہے؟’’آپ نے جواب دیا،‘‘ جتنی گزر چکی ہے، وہ تو ایک خواب تھا۔ اور جتنی باقی رہ گئی ہے، وہ محض آرزو اور دھوکا ہے۔’’آپ سے پوچھا گیا، ‘‘شیطان کیا چیز ہے؟’’فرمایا، ‘‘ایک ایسی ہستی جس سے ڈرنا چاہیے۔ ڈر سے مراد یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے۔ اس کی اطاعت سے کوئی فائدہ اور اس کی نافرمانی سے کوئی نقصان نہ ہو۔’’ لوگ سوال جواب سے بہت لطف اندوز ہو رہے تھے۔

            آپ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ لوگوں کے اذہان و قلوب میں نقش ہوتا جا رہا تھا اور انھیں بڑی حیرت تھی کہ آج سے پہلے منصور بن عمار کو کیوں نہیں سمجھا گیا۔ اتنے لائق فائق انسان کا دنیا کی نظروں سے اوجھل رہنا بڑی عجیب سی بات تھی۔

            کسی نے پوچھا، ‘‘حضرت آج سے پہلے آپ کی علمیت اور کمال کا راز دوسروں پر کیوں نہ کھلا؟’’آپ نے فرمایا، ‘‘ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے، ہم مختار نہیں مجبور ہیں۔جب کسی مجبور کو آزادی ملتی ہے تو وہ حد درجہ جری اور دلیر ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا ہے۔’’لوگوں نے پوچھا، ‘‘آپ وعظ کا سلسلہ کب سے شروع کر رہے ہیں؟’’ آپ نے جواب دیا، ‘‘اللہ نے چاہا تو کل سے شروع کروں گا۔’’ اس کے بعد واقعی وعظ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

            جب آپ وعظ کے لیے کھڑے ہوتے تو سامعین بت بن کر رہ جاتے۔ بہت پراثر وعظ فرماتے ۔ اس وقت کے اکابرین تک آپ کے وعظ سنتے اور جی بھر کر داد دیتے۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ اس سے پر اثر وعظ انھوں نے کبھی نہیں سنا۔

            آپ وعظ فرما رہے تھے۔ سامعین کا ہجوم تھا۔ اور ہر کوئی ہمہ تن گوش تھا۔ کسی رئیس کا غلام ہاتھ میں چار درہم لیے بازار سے کچھ خریدنے جا رہا تھا ، اس نے یہ ہجوم دیکھا تو ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ کسی سے پوچھا، ‘‘یہ کون صاحب وعظ فرما رہے ہیں؟’’ مگر شاید لوگ اس کا سوال سن ہی نہ سکے تھے۔ کچھ دیر بعد غلام نے پھر اپنا سوال دہرایا۔ پھر بھی کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ غلام نے ایک شخص کو شانے سے پکڑ کر ہلایا اور اپنا سوال تیسری مرتبہ دہرایا۔ اس شخص نے کہا، ‘‘تیرا برا ہو، کم بخت تو نے سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ مجھے جھنجھوڑ کر میری توجہ وعظ سے ہٹا دی۔’’غلام نے کہا، ‘‘مگر مجھے بھی تو کچھ بتاؤ کہ یہ بزرگ کون ہیں؟’’اس شخص نے کہا ‘‘یہ منصور ابن عمار ہیں۔’’غلام بھی وہاں کھڑا ہو کر وعظ سننے لگا۔ آپ کا موضوع غیبت اور چغل خوری تھا۔ آپ فرما رہے تھے، ‘‘لوگو! جب شیطان کسی کو برباد کرنا چاہتا ہے تو اسے غیبت اور چغل خوری کا عادی بنا دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ لوگوں کی نظروں سے اور خود اپنی نظروں سے بھی گر جاتا ہے۔’’غلام آخر تک وہاں کھڑا وعظ سنتا رہا۔ جب وعظ ختم ہو گیا تو منصور بن عمار نے فرمایا، ‘‘کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے، جو مجھے چار درہم دے اور مجھ سے چار دعائیں لے۔’’غلام نے فوراً آگے بڑھ کر چار درہم دے دیے۔ وہاں ایک سائل کھڑا تھا۔ آپ نے فرمایا، ‘‘یہ چار درہم اس سائل کو دے دو۔’’ غلام نے تعمیل کی۔آپ نے سائل سے کہا، ‘‘تمھارا کام ہو گیا تم جاؤ۔’’ اور غلام سے پوچھا، ‘‘وہ چار دعائیں بتاؤ جو تم چار درہم کے بدلے لینا چاہتے ہو۔’’

            غلام نے کہا، ‘‘آپ پہلی دعا تو یہ کریں کہ میں آزاد کر دیا جاؤں۔’’ آپ نے آنکھیں بند کرکے دعا مانگی، ‘‘اے مالک کائنات اس نے مجھ پر اعتماد کیا اور میں نے تجھ پر بھروسا کیا کہ جو دعا مانگوں گا، مایوس نہیں کیا جاؤں گا۔ اب تو میری لاج رکھ لے اور اسے آزادی دلا دے۔’’

            پھر پوچھا، ‘‘دوسری دعا کیا ہے؟’’غلام نے عرض کیا، ‘‘میں نے جو چار درہم دیے ہیں، وہ مجھے مل جائیں تاکہ مجھے اپنے آقا کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔’’آپ نے پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی، ‘‘اے اللہ! تیری ذات بابرکات شرمندگی سے بچانے والی پردہ پوش ہے۔ اپنے اس بندے کو بھی شرمندگی سے بچالے۔’’پھر پوچھا، ‘‘بتا تیری تیسری دعا کیا ہے؟’’غلام نے عرض کیا، ‘‘حضور! دعا کریں، اللہ تعالیٰ میرے آقا کو توبہ کی توفیق عطا فرمادے۔’’آپ نے رقت آمیز لہجے میں عرض کیا، ‘‘اے غفور الرحیم! یہ بڑی پر خلوص دعا ہے، اس کو بھی اپنی رحمت سے شرف قبولیت عطا فرما اور اس کے آقا کو توبہ کی توفیق عطا فرما۔’’اب چوتھی دعا کے متعلق پوچھا تو غلام نے کہا، ‘‘میری چوتھی دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اور سب کی بخشش فرمائے۔’’آپ نے چوتھی دعا مانگ کر غلام سے کہا، ‘‘اب تو جا، اللہ نے چاہا تو ہم دونوں شرمندہ نہیں ہوں گے۔’’غلام وہاں سے سیدھا گھر پہنچا۔ آقا غصے میں بھرا بیٹھا تھا۔ غلام اتنا وقت ضائع کرکے آیا بھی تو خالی ہاتھ۔ اب تو مالک بھڑک اٹھا۔ پوچھا، ‘‘اتنی دیر سے کہاں غائب تھے۔ سودا کہاں ہے؟’’غلام سر جھکا کر آقا کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ آقا نے کہا، ‘‘میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟’’غلام نے ساری بات سنا دی ۔ اور کہا، ‘‘میں نے چار درہم کے بدلے جو چار دعائیں کروائی ہیں، امید ہے ہم سب کے لیے مفید ہوں گی۔’’آقا پر ان باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے غلام سے کہا، ‘‘میں نے تجھے آزاد کر دیا، مگر ٹھہرو ابھی جانا نہیں میں تمھیں گواہ بنا کر توبہ استغفار کرلوں۔’’ مالک خدا کے حضور سر بہ سجود ہو کر دیر تک روتا رہا، پھر اندر گیا اور تھیلی میں سے چار سو درہم لا کر غلام کے حوالے کر دیے اور کہا، ‘‘یہاں سے جا کر تو پریشانی اٹھائے گا۔ اس رقم سے کوئی کاروبار کر لینا۔’’رات کو آقا نے خواب میں آواز سنی، ‘‘تیری بدخصلتی کے باوجود تیری توبہ قبول ہو گئی۔ اور تجھ پر، تیرے غلام پر ، ابن عمار پر اور اس کی مجلس میں شریک ہونے والوں پر رحمتوں کا نزول ہو گیا۔’’غلام نے دریائے دجلہ کے کنارے مسافروں کے لیے کھانے پینے کا سامان کی دکان کھول لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ اس نے اس جیسی کئی اور دکانیں کھول لیں۔ اب اس کے ملازم کام کرتے تھے، اور وہ صرف حساب کتاب دیکھتا تھا۔ اس کے نوکر چاکر بھی بہت خوش تھے۔ مگر ایک کام چور نوکر چغل خوری سے کام چلانا چاہتا تھا۔ مگر مالک پر اثر انداز نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ اتنا ڈھیٹ تھا کہ اپنی عادت سے باز نہ آیا۔ ایک دن اس نے مالک سے کہا، ‘‘جناب ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ ہے آپ کے فائدے کی، اگر آپ سننا پسند کریں؟’’

            مالک نے کہا، ‘‘بتاؤ کیا بات ہے۔’’اس نے کہا، ‘‘جناب عالی! آپ کے ملازم گاہکوں سے مل گئے ہیں۔ ان سے سامان کی کم قیمت لیتے ہیں اور اپنا حصہ ان سے گھروں پر جا کر وصول کرلیتے ہیں۔’’مالک نے غصے سے کہا، ‘‘تم اپنی غیبت کی عادت کو ترک کر دو۔ کیوں ہلاکت میں پڑتے ہو۔’’اس نے کہا، ‘‘اگر آپ مجھے مہلت دیں تو میں پکڑوا بھی سکتا ہوں۔’’مالک نے کہا‘‘ٹھیک ہے پکڑوا دو۔’’ایک دن ایک گاہک آیا۔ اس نے کچھ سامان لیا اور قیمت ادا کرکے جانے لگا۔ چغل خور ملازم نے مالک کو اشارہ کیا۔ مالک نے گاہک کو روک کر سامان کو اچھی طرح دیکھا مگر رقم کے مطابق پایا۔ اس نے ان دونوں سے معافی مانگی۔ وہ دونوں معاف کرنے پہ آمادہ نہ ہوئے۔ ان پر اتنا بڑا الزام جو لگایا گیا تھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ معافی مانگنے سے ہماری دیانتداری پر لگنے والا داغ تو نہیں دھلے گا۔ مالک چغل خور ملازم پر برس پڑا۔ کہنے لگا، ‘‘میں نے تمھارے کہنے سے ان دونوں پر اور اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ اب تم میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جاؤ۔’’چغل خورمیں غیرت تو ہوتی نہیں۔ ڈھٹائی سے بولا، ‘‘جناب ! آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ اب کی بار اگر چوک ہو گئی ہے تو آیندہ سہی۔’’مالک نے کہا، ‘‘اب مجھے تیری کسی بات کا اعتبار نہیں۔ تو خود تو ذلیل ہو گا ہی۔ میں تیرے ساتھ حصہ دار کیوں بنوں۔’’اسی تکرار کے دوران گاہک تو چلا گیا اور دیانتدار ملازم بھی اپنی رسوائی برداشت نہ کر سکا، اور اس نے ملازمت چھوڑ دی۔ مالک بہت پچھتایا مگر مارے شرم کے کچھ کہہ بھی نہ پایا۔ اب چغل خور ملازم کا رستہ صاف ہو گیا۔ اس نے گاہکوں سے ساز باز کرکے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کر دیا اور ایک دن خود اسی جال میں پھنس گیا، جو اس نے دوسروں کے لیے بچھایا تھا۔ایک دن سورج اس کی ذلت و رسوائی کا پیغام لیے طلوع ہوا۔ ایک گاہک نے مالک سے یہ شکایت کی، ‘‘جناب! آپ کا یہ ملازم خود تو بد دیانت ہے ہی۔ مگر مجھے بھی اس نے اپنے ساتھ بد دیانتی میں ملوث کر لیا ہے۔ یہ مجھ سے سامان کی قیمت کم وصول کرتا ہے اور اپنا حصہ میرے گھر پر آ کر وصول کر لیتا ہے۔’’اب چغل خور کے لیے فرار کی کوئی راہ نہ تھی۔ اتنے میں ایمان دار ملازم اور جس گاہک پر چغل خور نے الزام لگایا تھا، دونوں دکان میں داخل ہوئے۔ چغل خور ان کے سامنے مالک سے اپنے جرم کی معافی مانگ رہا تھا۔

            مالک نے کہا، ‘‘میں تو تمھیں معاف کرہی دوں گا۔ پہلے ان دو شریف آدمیوں سے تو معافی مانگ، جن کا تو نے دل دکھایا ہے۔’’چغل خور نے ان دونوں سے معافی مانگی مگر وہ معاف کرنے کو تیار نہ تھے۔مالک نے کہا، ‘‘اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں کو سرخرو کیا ہے۔ اس لیے میں آپ دونوں سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ہم دونوں کو دل سے معاف کر دیں۔’’

             جس دن چغل خور ملازم نے ایمان دار ملازم اور گاہک پر بد دیانتی کا الزام لگایا تھا، اس دن غلام مالک اتنا دل برداشتہ ہوا کہ اسی رات منصور بن عمار کی مجلس میں چلا گیا۔ آپ اس وقت وعظ فرمارہے تھے، ‘‘لوگو! سوئے ظن سے بچو۔ اس لیے کہ اس سے سوائے ندامت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔’’غلام نے رونا شروع کر دیا۔ جب وعظ ختم ہوا تو ابن عمار نے کہا، ‘‘اسے میرے پاس لاؤ۔’’جب وہ قریب آیا تو آپ نے اسے پہچان لیا۔ پوچھا، ‘‘کیا ہوا؟ کیوں روتے ہو؟’’اس نے کہا، ‘‘میں ہلاک ہو گیا ۔’’

            آپ نے کہا، ‘‘کچھ بتاؤ تو سہی۔’’اس نے سارا واقعہ آپ کے سامنے دہرادیا۔ آپ نے فرمایا، ‘‘قبل از وقت اتنی ندامت اچھی نہیں۔ دونوں متاثرہ افراد سے کہو کہ جب اللہ تعالیٰ تمھیں سرخرو کردے تو اس وقت مجھے معاف کر دینا۔ اپنا کام جاری رکھو اور دو دن بعد میرے پاس آنا۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور سرخرو کرے گا۔’’پھر ایسا ہی ہوا ۔ چغل خور ملازم اور اس کا ساتھی گاہک ایسے غائب ہوئے کہ پھر کبھی ادھر کا رخ نہ کیا۔ مالک نے ایک موقع پر لوگوں کو بتایا، ‘‘حضرت ابن عمار سچ ہی فرمایا کرتے تھے کہ شیطان جب کسی کو انگلیوں پر نچاتا ہے تو اسے چغل خوری کی لعنت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پھر وہ ذلت کی ایسی دلدل میں اتر جاتا ہے کہ اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتا ہے۔‘‘دوسری دفعہ میں گیا تو سوئے ظن سے بچنے کی تلقین فرما رہے تھے۔ یہ بھی بالکل درست فرما رہے تھے۔’’

            ایک دفعہ آپ وعظ فرما رہے تھے کہ کسی نے کاغذ پر کچھ لکھ کر آپ کو پہنچا دیا۔ اس نے لکھا تھا، ‘‘اے ابن عمار! مجھے آپ کے وعظ بہت پسند ہیں۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ ایسے وعظ کروں۔’’آپ نے وعظ جاری رکھا اور کسی کو کچھ نہ بتایا کہ کاغذ پہ کیا لکھا ہوا ہے۔ دوران وعظ ہی آپ نے فرمایا، ‘‘لوگو! وعظ و نصیحت اچھی بات ہے۔ مگر عمل کے بغیر وعظ ایسی بات ہے، جیسے کوئی طبیب خود مریض ہو، اور دوسرے مریضوں کا علاج کرتا پھرے۔’’آپ باتوں ہی باتوں میں بڑے کام کی باتیں کر جایا کرتے تھے۔ کسی نے پوچھا، ‘‘عارفین کے قلب کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟’’آپ نے فرمایا، ‘‘عارفین کا قلب ذکر الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔’’اس شخص نے کہا، ‘‘اور دنیا داروں کا؟’’

            آپ نے جواب دیا، ‘‘حرص و ہوس طمع کا مخزن۔’’آپ نے فرمایا، ‘‘لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ قلب انسانی مجسم نور ہوتا ہے، مگر جب اس میں دنیاوی حرص و طمع گھر کر لیتی ہے تو وہ تاریک ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو! اطاعت انسانی انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتی ہے اور مصیبتوں پر صبر نہ کرنے والے آخرت کی مصیبتوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سکوت اختیار کرنے والے معذرت خواہی سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔’’اس کے بعد آپ نے حاضرین سے پوچھا، ‘‘جو کوئی مصیبت سے بچ سکتا ہو اور نہ بچے تو ہم اسے کیا کہتے ہیں؟’’ خود ہی جواب دیا، ‘‘ایسا شخص بہت بڑا مصیبت کا ر ہوتا ہے۔’’

            ایک نوجوان پر آپ کے وعظ کا بہت اثر ہوا۔ وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا، ‘‘حضرت! میں ایک گنہگار انسان ہوں اور آپ کے ہاتھ پر توبہ کرنا چاہتا ہوں۔’’آپ نے فرمایا، ‘‘توبہ کے لیے کسی ہاتھ کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ آنکھیں بند کرکے اللہ سے کہو کہ میں اپنے سابقہ گناہوں کی معافی چاہتا ہوں اور آیندہ کے لیے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں۔’’اس نوجوان نے کہا، ‘‘لیکن میں یہ تہیہ کرکے آیا ہوں کہ آپ کے ذریعے ہی تائب ہوں گا۔’’آپ نے فرمایا، ‘‘اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اگر تو بضد ہے تو ایسا ہی کرلے۔ میں اپنا ہاتھ بڑھائے دیتا ہوں۔’’نوجوان نے آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیا، توبہ کی اور چل دیا۔آپ نے فرمایا، ‘‘مجھے تو اس کی توبہ خطرے میں نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ توبہ کے بعد توبہ شکن ماحول کی طرف لوٹنا خطرے سے خالی نہیں ہو سکتا۔ توبہ کے بعد صحبت بدلنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔’’ایک سال بعد وہ نوجوان پھر آیا اور کہنے لگا، ‘‘کیا میں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ سکتاہوں؟’’آپ نے فرمایا، ‘‘کیوں نہیں۔ میں تو تیرا منتظر تھا۔’’نوجوان نے کہا، ‘‘میں دنیا کی بھیڑ میں اپنے جیسے تلاش کرتا رہا، مگر کوئی نہ ملا تو لوٹ آیا۔’’آپ نے فرمایا، ‘‘اب کیا ارادہ ہے؟’’اس نے کہا، ‘‘کیا وہی توبہ کافی نہیں۔’’آپ نے فرمایا، ‘‘اگر وہی توبہ کافی ہوتی تو تو دنیا میں واپس نہ جاتا۔’’ نوجوان کچھ دیر کھڑا رہا۔ پھر ایسا گیا کہ کبھی لوٹ کر نہ آیا۔آپ نے حاضرین سے فرمایا، ‘‘یہ مقام عبرت ہے ، اسے دیکھ کر عبرت پکڑو۔’’

            آپ کی شہرت سن کر خلیفہ ہارون الرشید نے آپ سے ملنے کی خواہش کی۔ آپ نے فرمایا، ‘‘میں دربار میں حاضری دینے سے معذور ہوں، اس لیے مجھے معاف رکھاجائے۔’’خلیفہ خود آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے بڑی عزت کی ، اور فرمایا، ‘‘خلافت کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے۔ خلافت دے کر اللہ تعالیٰ نے تجھے پل صراط پر کھڑا کر دیا ہے۔ اب بخیر و خوبی گزرنا تیرا کام ہے۔’’خلیفہ نے چلتے وقت پوچھا، ‘‘سب سے بڑاعالم کون ہے؟’’فرمایا، ‘‘فرماں بردار اور خدا کا خوف رکھنے والا۔’’ خلیفہ نے آپ کو کچھ دینا چاہا تو آپ نے قبول نہ کیا۔

            آپ نے طویل عمر پائی۔ وصال کے بعد صوفی ابوالحسن شعرانی نے خواب میں آپ کو دیکھا اور پوچھا، ‘‘شیخ کیا حال ہے؟’’

            آپ نے کہا، ‘‘میرے رب نے مجھ پر بڑی مہربانی فرمائی ، اور مجھے یہاں بھی وعظ دینے کا حکم دیا ہے!’’