ہیرے

مصنف : ندیم سبحان

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : ستمبر 2006

            ۲۰۰۰ء میں جب میں نے اپنی منگیتر کو منگنی میں پہنانے کے لیے ‘‘ڈی بیئرز’’ سے ہیرے کی انگوٹھی خریدی تھی، اس وقت دنیا کے پچھتر فیصد خام ہیروں کے کاروبار پر اس کمپنی کا کنٹرول تھا۔ میرے خیال میں اس ہیرے کا اصل وطن بوٹسوانا تھا۔ لیکن ممکنہ طور پر میری محبت کی اس نشانی کا تعلق سائبیریا، جنوبی افریقا میں ہیروں کی ‘‘پریمیئر کان’’ یا جنگ سے تباہ شدہ انگولا سے بھی ہو سکتا تھا۔اس کی تاریخ تلاش کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، سوائے لندن میں واقع ڈی بیئرز کے دفتر کے، جو ممکنہ طور پر اس کی امریکا منتقلی کا ذریعہ تھا۔ کان سے نکل کر مجھ تک پہنچنے کے مراحل کے بارے میں جان کر مجھ پر خوں ریز کاروباری مقابلوں اور ہیروں کے عالمی بازار کے نظام کے راز منکشف ہوئے۔

            یہ ۱۷ چارٹر ہاؤس سٹریٹ ہے۔ ہر سال دس بار مرکزی لندن میں سمتھ فیلڈ مارکیٹ کی کھلی فضا میں ہیروں کی دنیا کے ۸۰ طاقت ور ترین افراد ملاقات کرتے ہیں۔ ہر گاہک کو دوسری منزل پر کمرہ مہیا کیا جاتا ہے۔ چائے اور کافی پیش کی جاتی ہے۔ ایک خدمت گار زرد اور سیاہ پلاسٹک کے لنچ باکس نما ڈبے کے ساتھ واپس آتا ہے۔ اس ڈبے میں مختلف اقسام اور سائز کے تراشیدہ ہیرے ہوتے ہیں۔ یہاں قیمت پر کوئی بحث نہیں ہوتی۔ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ ‘‘خرید لو یا چھوڑ دو’’ بااثر افراد کا یہ اجتماع Sightکہلاتا ہے۔ اس اجتماع کا رکن بننے کا مطلب ہے کہ آپ نے DeBeersکو قائل کر لیا ہے کہ آپ بڑی تعداد میں ہیرے فروخت کریں گے، اور معیار پر اعتراضات کرکے کوئی ہلچل نہیں مچائیں گے۔ آپ کو اس بات کی ضمانت دی جاتی ہے کہ آپ اپنے بکس سے، جس کی قیمت دس لاکھ سے تین کروڑ ڈالر تک ہو سکتی ہے، بہت اچھا منافع حاصل کریں گے۔

            ڈی بیئرز نے سترھویں صدی کی منافع بخش تجارت کو اکیسویں صدی کی دنیا میں منظم اور رواں رکھنے کے کارنامہ انجام دیا ہے۔ طلب و رسد کے درمیان توازن قائم رکھا جاتا ہے۔ ہمارے نیچے تین منزلوں کے زمین دوز کمروں میں غیر پالش شدہ ہیروں کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے، جس کی قیمت کا تخمینہ پچاس کروڑ ڈالر ہے۔ ہیروں کی صنعت کاا ستحکام مصنوعی قلت پر انحصار کرتا ہے، اور مصنوعی قلت برقرار رکھنے کے لیے ڈی بیئرز نے سخت محنت کی ہے۔

            ۱۹۵۶ء میں سوویت یونین میں جب ماہرین ارضیات نے سائبیریا میں ہیروں کی موجودگی کا وسیع و عریض علاقہ دریافت کیا تو ڈی بیئرز نے انھیں انوکھی پیشکش کی کہ وہ یہاں سے ہونے والی تمام برآمد اچھی قیمت پر خریدیں گے۔ اس پیشکش سے ہونے والے منافع ، جس کا تخمینہ ڈھائی کروڑ ڈالر سالانہ لگایا گیا تھا، نے کریملین کے مالی معاملات کو سہارا دیا، اور ایٹمی ہتھیاروں کے لیے سرمائے کی فراہمی میں مدد کی۔ نا تراشیدہ روسی پتھر چارٹر ہاوس سٹریٹ کے زمین دوز کمروں میں پہنچا دیے گئے تھے۔ ۱۹۹۰ء میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو ڈی بیئرز کے عہدے دار ماسکو پہنچے، اور عبوری حکومت کو سائبیریا کے ہیروں کے ذخیرے کے عوض ایک ارب ڈالر کی پیشکش کی۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ان ہیروں کی مارکیٹ میں حقیقی مالیت چالیس ارب ڈالر تھی۔ پتھروں کی اتنی بڑی مالیت کے پیش نظر لندن کے بجائے آسٹریلیا کے غیر آباد علاقے میں ان کی سپلائی دی گئی۔

            آسٹریلیا میں ایک سرنگ کی تہہ میں چٹانوں سے گرم پانی رس رہا تھا۔ یہاں وہ کان دریافت ہوئی، جہاں سے اب روزانہ ایک لاکھ قیراط کے ہلکے بھورے رنگ کے قیمتی پتھر نکالے جاتے ہیں، اور ایک اندازے کے مطابق یہاں مزید ایک ٹریلین قیراط کے ہیرے موجود ہیں۔ Argyle Diamond Mineمیں دنیا کی دیگر کانوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قیمتی پتھر موجود ہیں، لیکن یہ حجم میں چھوٹے ہیں، اور ان میں سے اکثر چائے کے رنگ کے حامل ہیں۔ یہ چاقو کے بلیڈ، دانتوں کے آلات اور سوراخ کرنے والے اوزاروں کی اشکال سے مماثلت رکھتے ہیں۔

            اہمیت کے حامل ہیرے کی دیگر کانوں کی مانند ڈی بیئرز نے اسے بھی اپنی غیر رسمی تنظیم میں شامل کر لیا۔ لیکن بہت جلد مشکلات پیدا ہونے لگیں۔ کارٹیل کے ڈائریکٹر نے Argyleسے یہ کہنا شروع کیا کہ وہ انگولا کی خانہ جنگی کے نتیجے میں بڑی مقدار میں سمگل ہو کر آنے والے قیمتی پتھروں کے مارکیٹ پر اثرات زائل کرنے کے لیے اپنے ہیروں کا بڑا حصہ ذخیرہ کر لے۔ ان کی شراکت کے پہلے ہی سال بارہ ڈالر فی قیراط کی طے شدہ قیمت کو کم کرکے نوڈالر کر دیا گیا۔ ۱۹۹۶ء میں آسٹریلویوں کی قوت برداشت جواب دے گئی، اور انھوں نے ہندوستانی مینوفیکچرز کو اپنے ممبئی آفس سے براہ راست ترسیل شروع کر دی۔ اس وقت کارٹیل نے Argyleکے خلاف حکمت عملی اپنائی۔ انھوں نے ہندوستان میں Argylesکے ہیروں کی قیمتیں کم کروانے کے لیے چالیس کروڑ ڈالر کے کم معیار کے ناتراشیدہ پتھر ہندوستانی مارکیٹ میں پھیلا دیے، لیکن ڈی بیئرز کی منفی حکمت علمی ناکام ہو گئی۔ آسٹریلین اپنے بھورے پتھروں کو ایک نئی شناخت دینے میں کامیاب ہو گئے۔ غیر متاثر کن اشیاء کے لیے پرکشش فقرے وضع کیے گئے، مثلاً"Cognac Diamonds" "Champagne diamonds"وغیرہ۔ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں ڈی بیئرز نے بھی ایسی ہی ایک ناکام مہم شروع کی تھی، جس میں انھوں نے امریکا میں بھورے رنگ کے ہیروں کو پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ Argyleکی حکمت عملی کے تحت لاکھوں کی تعداد میں آسٹریلوی پتھر ہندوستانی کارخانوں میں انگوٹھیوں میں جڑے گئے، اور انھیں امریکا ، جاپان اور دیگر ممالک کو برآمد کیا گیا۔

            ۲۰۰۴ء کے اواخر میں مشہور و معروف ‘‘سنگل چینل’’ جو برطانوی سامراج کا قائم کردہ ہے، متعدد مرتبہ یہ انکشاف کر چکا تھا کہ دنیا میں ناتراشیدہ ہیروں کی تجارت کا نصف کے قریب کنٹرول، جو ڈی بیئرز کے ہاتھ میں تھا، چند سال پیشتر اسی فیصد نیچے آ چکاتھا، اور اب ڈی بیئرز دوبارہ اپنی مارکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے پاس پچاس کروڑ ڈالر کے ناتراشیدہ پتھر، ایک بہترین اشتہاری ٹیم اور اپنے باقی ماندہ اراکین سے اپنی مرضی کے مطابق ڈیل کرنے کی طاقت تھی۔

            انگولا:Jonas Savimbiجس طریقے سے ہلاک ہوا تھا، اس طریقے نے شاید اسے خوشی پہنچائی ہو۔ اس کی ہلاکت سترہ گولیوں کا نتیجہ تھی۔ اشتراکی نظریات کا حامل گوریلا رہنما، جس نے اپنی فوج کے لیے لاکھوں غیر قانونی ہیروں سے مالی مدد حاصل کی تھی، ہلاک ہو چکا تھا۔ انگولا کی حکومت نے دو ماہ بعد اس کی باغی فوج سے امن معاہدہ کیا۔ نیویارک کے ہیروں کی تجارت کے حلقوں میں یہ خبر خوش دلی سے سنی گئی۔ انگولا نے ایسے ‘‘خونی ہیرے’’ پیدا کیے تھے ، جو افریقا میں خانہ جنگی جاری رکھنے کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔Savimbiاور اس کی فوج سالانہ تقریباً پانچ لاکھ ہیرے کلاشنکوف اور راکٹ لانچروں کے حصول کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ۲۰۰۲ء کے موسم بہار میں Savimbiکی موت نے انگولا کے لیے Gem Certification کے اس منصوبے میں داخلے کی راہ ہموار کر دی جو ‘‘لمبرے پروسس’’ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جس کے لیے ہیروں کی صنعت پر زور دیا جا رہا تھا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دباؤ سے پہلے اسے تخلیق کر لیا جائے۔

            ہیروں کے کسی بھی برآمد کنندہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ قیمتی پتھروں کو ایک محفوظ کنٹینر کے اندر سیل کر دے، اور اس کے پاس اس دستاویز کا ہونا بھی ناگزیر ہے، جس میں یہ تصدیق کی گئی ہو کہ مذکورہ ہیرے کسی جنگ کے دوران کان سے نہیں نکالے گئے۔ انگولا کو Savimbiکی موت کے گیارہ ماہ بعد اس نظام میں شامل کیا گیا۔ لیکن اس کی موت سے ہیرے کی کانوں کے علاقے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بلکہ کچھ صورتوں میں صورت حال مزید خراب ہو گئی۔ ناکافی تنخواہیں پانے والے سرکاری فوجی اور شکست خوردہ باغی اپنے ہتھیاروں کے ساتھ غائب ہو گئے۔ دریائے کوانگو سے چار افراد کی لاشیں نکالی گئی تھیں۔ ان سب کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے۔ غالب امکان یہی تھا کہ قاتل ان کے نظام انہضام میں چھپے ہوئے ہیرے تلاش کر رہے تھے۔

            ‘‘یقینی طور پر یہ ‘‘خونی ہیرے’’ ہیں۔ ’’ رافیل مارکس کا کہنا تھا، جو Open Society Initiative for Africaکا محقق ہے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد جمع کر رہا ہے۔ ‘‘کئی وجوہات کی بنا پر یہ ہیروں کی جنگ سے زیادہ خوں ریز ہے۔ پہلے ایک ہی دشمن اپنے دوسرے دشمن سے نبردآزما ہوتا تھا، لیکن اب نجی سیکورٹی ادارے اور سرکاری فوجی لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔’’

            بھارت: یہ شمالی بھارت کے سورت شہر میں سنگھوی ڈائمنڈ کمپنی کے پلانٹ میں دوپہر کا وقت تھا۔ اس وقت درجہ حرارت ۷۰ ڈگری تھا، اور سیکڑوں کاریگر گھومتے ہوئے دھاتی پہیوں پر قیمتی پتھروں کو گھس رہے تھے۔ ہر آہنی پہیے کے گرد چارکاریگر موجود تھے۔ میں نے ایک کاریگر ، جس کا نام منیش امولین تھا، کو دیکھا، جو ایک چھوٹے سے پتھر کو تراش رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پسینے سے تر تھے۔ وہ اس روز پچیس ہیرے تراش چکا تھا، اور ہر ہیرے کے عوض اسے دس امریکی سینٹ کے مساوی رقم دی جاتی تھی۔ ‘‘اگر آپ میں صبر اور مستقل مزاجی ہے تو یہ کام آسان ہے۔’’ امولین نے مجھے بتایا۔ اس فیکٹری میں چار ہزار سے زائد کاریگر ہیں، جو سورت کی سب سے بڑی فیکٹری اور دنیا میں ہیروں کی پالش کی سب سے بڑی سہولت کی دعویدار ہے۔ اس کے مالک چندر سنگھوی نے مجھے بتایا کہ ہر سال اس کی فیکٹری میں ایک کروڑ سے زائد ہیرے پالش کیے جاتے ہیں۔ اس کے مطابق ہیرے اس انقلاب کا باعث تھے،جس کی بھارت کو ضرورت تھی۔ یہ ان لوگوں کو کام اور رہائش فراہم کر رہے تھے، جن کے پاس پہلے کچھ نہیں تھا۔ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں ان پتھروں نے گجرات کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ یعنی گجرات میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد دس سینٹ فی پتھر کے عوض ہیرے تراشنے کے کام سے منسلک ہے۔ ‘‘ہم یہاں بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔’’ سنگھوی نے کہا، ‘‘یہ کام بھارت میں تبدیلی لائے گا۔’’

            ہیروں کے استعمال سے بنائی جانے والی چھوٹی چھوٹی چیزیں ایک ایسے ملک کی پانچویں اہم ترین برآمدات بن چکی ہیں، جس کی اپنی سرزمین میں ہیرے کی کانیں موجود نہیں ہیں۔ بھارت کی فیکٹریوں نے ، جن میں حیرت انگیز طور پر دنیا کے بانوے فیصد ہیرے پالش اور انگوٹھیوں وغیرہ میں جڑے جاتے ہیں، نیویارک، بلجیم اور اسرائیل کے پرانے کاریگروں کو بھی بے روزگار کر دیا ہے۔

            جاپان: جاپانیوں کو ہیروں کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے پرانے رومانوی تصورات میں منگنی کی انگوٹھی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، اور نہ ہی کبھی انگوٹھیوں کا تبادلہ کیا گیا تھا، لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ڈی بیئرز نے جاپان میں ہیروں کی کھپت کا اندازہ لگایا۔ والٹر تھامپسن ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی اس سلسلے میں خدمات حاصل کی گئیں، اور جاپانی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہیرے کی انگوٹھیوں کو مغربی معاشرے کی محبت اور خوش حالی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ ۱۸۶۶ء میں ایک فیصد سے کم جاپانی خواتین نے اپنی شادی کے موقع پر ہیرے کی انگوٹھی وصول کی۔ ۱۹۸۱ء تک یہ تعداد انتہائی تیزی سے ساٹھ فیصد تک پہنچ چکی تھی، اور مزید ایک دہائی کی مسلسل تشہیر کے بعد نوے فیصد کے قریب جاپانی خواتین نے اپنی شادی کے موقع پر ہیرے کی انگوٹھی وصول کی۔ جاپان اب ہیروں کا دوسرا سب سے بڑا صارف بن چکا تھا۔