میں کیسے مسلمان ہوا؟

مصنف : کمل سکسینہ

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : ستمبر 2017

سوال   : آپ خیریت سے ہیں آج کل آپ کہاں رہ رہے ہیں؟
 جواب  : الحمد للہ خیریت سے ہوں، آج کل میں پونہ مہاراشٹر میں رہ رہاہوں الہ آباد جارہاہوں وہاں یونیورسٹی میں سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ میں ایک پوسٹ نکلی ہے اسکے انٹرویو کے لئے وہاں جانا ہے ، راستے میں مولانا صاحب(مولانا محمد کلیم صاحب) سے ملنے کے لئے دہلی آیا ہوں۔
  سوال  : بہت اچھا ہو اآپ تشریف لائے ہمارے یہاں پھلت کے میگزین ارمغان میں کچھ داعیوں اور اسلام میں نئے آنے والے خوش قسمت بھائیوں کے انٹرویو کا سلسلہ چل رہا ہے اس سلسلہ میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔
  جواب  : ضرور ضرور یہ بڑا اچھا سلسلہ ہے اس سے پڑھنے والوں کو بہت فائدہ ہوگا، انشاء اللہ 
  سوال   : اپنا مختصر تعارف کرائیے؟
جواب  : میرا نام اب الحمدللہ عبدالرحمٰن ہے جو ۹؍جون ۱۹۹۵؁ء سے قبل کمل سار سکسینہ(کے سی سکسینہ) تھا ہندو کا یستھ فیملی سے میرا تعلق ہے۔ پرتاپ گڑھ کا قصبہ رانی گنج ہمارا آبائی وطن ہے میرے والد آئی پی ایس آفیسر ہیںاور آج کل مغل سرائے میں ڈی آئی جی ہیں ۔کایستھ ہونے کی وجہ سے اردو ہماری گھر یلوتہذیب کا لازمی جز ہوتی ہے ۔ ہمارے والد بہت اچھے شاعر ہیں اور ساحرؔ تخلص ہے۔ میں نے سائیکالوجی میں ایم اے کیا اور علم نفسیات میں الہ آباد سے ۱۹۹۴؁ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی  میری تاریخ پیدائش ۹؍جون ۱۹۶۵؁ء کی ہے  میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں، میری ایک چھوٹی بہن اور ان سے چھوٹا ایک بھائی ہے جو انجینئرہیں انہوں نے روڑ کی آئی ٹی آئی سے الیکٹرونکس میں انجینئرنگ کی ہے پچھلے سال بی ایچ ایل میں ملازم ہوگئے ہیں میں آج کل پونہ میں ایک ڈگری کالج میں نفسیات پڑھارہا ہوں۔
  سوال  : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟
 جواب  : اصل میں آج دنیا میں مغرب کی حکمرانی ہے، تہذیب، کلچر،ثقافت سبھی میں لوگ ان کی ڈَگر پر چلتے ہیں۔ آج کل مغربی ممالک میں ایک علم بڑا عروج پر ہے اس کا نام انہوں نے پیراسائیکالوجی رکھا ہے اس میں ماورائے عقل باتوں اور چیزوں پر ریسرچ ہوتی ہے۔ اس میں ایک جز علم الہیات کا بھی انہوں نے رکھا ہے آپ آج کل یورپ کے ناولوں کو دیکھیں تو اس میں ڈائن چڑیل وغیرہ کی بڑی اہمیت دکھائی دے گی بلکہ بعض بڑے پڑھے لکھے اور چاندتاروں پر کمندڈالنے والے سائنس دانوں کی ذاتی زندگی میں جناّت اور آسیب وغیرہ کی داستانیں دکھائی دیں گی۔ دراصل ہمارے مولانا محمد کلیم صاحب صحیح کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں اوراس کی روح کی سرشت میں اللہ نے یہ جذبہ رکھاہے کہ وہ کسی ایسی ذات کے آگے جھکے اور اس کے سامنے اپنے دل اور اپنے دماغ اور عقل کو جھکائے جو عقل و تصور سے ماورا ہو۔ اس لئے آدمی جب کہیں کچھ ماورائے عقل شعبدہ دیکھتا ہے فوراََ متاثر، مرعوب بلکہ معتقد ہوجاتا ہے، اصل میں یہ عالم ازل میں میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے سبق کا کرشمہ ہے اسی جذبے کی تسکین کے لئے مغرب کی مادی دنیا نے پیراسائیکالوجی کا سہارا لیاہے۔
    نوجوانوں میں اس علم میں ریسرچ کا بہت شوق بڑھ رہا ہے میں اور میرے تین ساتھی سائیکالوجی پر ریسرچ کررہے تھے ہم لوگوں کو شوق ہوا کہ ہم جرمنی جاکر پیراسائیکالوجی میں ریسرچ   کریں میں نے اپنے لئے جنوں پر ریسرچ کرنا طے کیا، مجھے خیال ہوا کہ اس کی بنیادی معلومات کے لئے ہندوستان سب سے بہتر جگہ ہے۔ نوجوانی کی عمر میں مجھے اپنے مشن کی دھن تھی اس سلسلے میں بہت سے لوگوں سے ملا، بہت سے سیانے اور تانترک لوگوں سے ملنا ہوا، بہت سے عالموں سے ملاقاتیں کیں۔ بنگال کے سفر کئے، دیوبند گیا، میں نے بہت سے عمل کئے چلّے کئے جلالی اور جمالی پرہیز کے ساتھ بہت سے وظیفے پڑھے بہت سے تعویذ مجھے آگئے اور آسیب وغیرہ کا علاج کرنے لگا۔ الہ آباد کے بڑے عالموں سے ملا،ندوہ بار بار آتا رہا، میری خواہش تھی کہ کوئی جن میرے تابع ہوجائے یا کسی جن سے میری ملاقات ہوجائے مگر کوئی عامل کوئی تانترک میری خواہش پوری نہ کرسکا۔ کئی بار عملیات کے دوران مجھے کچھ ڈرائونی آوازیں بھی آئیں مگر کوئی جن مجھے نظر نہ آیا کچھ مریضوں کے منہ سے جن بولامیں نے علاج بھی کیا۔ایک روز میں ندوہ گیا وہاں مولانا عبداللہ حسنی نے مجھے بتایا کہ ہمارے ایک دوست ایک دو روز میں پھلت سے آنے والے ہیں، وہ آپ کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میںاتوار کے روز تکیہ رائے بریلی آجائوں۔ جون کا مہینہ تھا میں تین بجے کے قریب تکیہ پہنچا سب لوگ کھانے کے بعد آرام کررہے تھے میں باہر تخت پر بیٹھا ہوا تھا ایک مولانا ضرورت کے لئے استنجا خانہ گئے واپس آئے مجھے بیٹھا دیکھ کر کہنے لگے : آپ ڈاکٹر کے سی سکسینہ ہیں؟میں حیرت میں آگیا اور تعجب سے جواب دیا : جی ہاں ، مگر آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ہنستے ہوئے اندرلے گئے اور ٹھنڈا پانی پلایا پھر بولے میں ایک انسان ہوں مالک کا بندہ ہوں، مجھے غیب کا علم نہیں ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اصل میں مولانا عبداللہ حسنی نے مجھ سے کہا تھا کہ ڈاکٹر کے سی سکسینہ نام کے ایک نوجوان آپ سے ملنا چاہتے ہیںوہ اتوار کے روز تکیہ آئیں گے میںصبح سے انتظار میں تھا میں نے آپ کو دیکھا تو حلیہ دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ آپ ہی ڈاکٹر سکسینہ ہیں اس لئے میں نے سوال کرلیا۔میں اس صاف گوئی سے بہت متاثر ہوا۔ میں نے جن عاملوں اور تانترکوں سے ملاقات کی تھی ان میں سے ہر آدمی اپنے کمال کا معتقد بنانا چاہتا تھا، مولانا کلیم صاحب کی اس بات نے مجھ کو بہت متاثر کیا۔ مجھے خیال ہوا کہ ضرورمجھے یہاں مدد ملے گی یا کم از کم حقیقت معلوم ہوجائے گی۔ مولانا نے مجھ سے کہا آپ خدمت بتائیے، میرے لائق کیا خدمت ہے جو اتنی شدید گرمی میںآپ نے زحمت کی۔ میں نے جو اب میں اپنا پورا مدعابتادیا کہ میں پیرا سائیکالوجی میں ریسرچ کرنا چاہتا ہوں مجھے اس کے لئے جرمنی جانا ہے، میں وہاں جانے سے قبل کسی جن کو تابع یا کم از کم چند روز کے لئے اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا عبداللہ نے بتایا تھا کہ آپ میری اس سلسلے میں ضرور مدد کریں گے میں نے اپنی پوری کار گزاری بھی سنائی، جو چلّے اور عملیات کئے اور نقش و تعویذ سیکھے وہ بتائے جس پر مولانا نے بڑی حیرت کا اظہار کیامولانانے ہنستے ہوئے جواب دیا آپ بہت بہادر آدمی ہیں میں توبہت بزدل ہوں مجھے تو جن کے نام سے ڈرلگتا ہے ہمارے گائوں میں چند ویران مکانا ت اور کھنڈر پڑے تھے مشہور تھا کہ وہاںجن رہتے ہیں، ہم لوگ بچپن میں پاس سے دوڑ کرنکلتے تھے، ڈرتے ڈرتے پیچھے دیکھتے رہتے تھے کہ کوئی جن آکر دبوچ نہ لے ایسا بزدل آدمی آپ کے کس کام آسکتا ہے ۔میں نے کہا آپ کو میری مدد کرنی ہوگی کئی سال مجھے مارے مارے پھرتے ہوگئے ہیں مجھے یقین ہے کہ آپ ضرور میری خواہش پوری کرسکتے ہیں۔ میرے بہت اصرار پر مولانا نے کہا اول تو جس مخلوق کو اللہ نے آزاد بنایا ہے اس کو تابع کرنا جائز نہیں یہ ظلم ہے، جس طرح شیرکی سواری ہمارے مذہب میں جائز نہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ جن عملیات کے ذریعہ لوگ جنوں کو تابع کرتے ہیں ان میں اثر کے لئے ایمان لانا ضروری ہے ایمان کے بغیر ان میں تاثیر نہیں ہوسکتی اس لئے اس کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے مجھے جن تابع کر نے کی دھن سوار تھی اس لئے میں مذہب کو بھی قربان کرسکتا تھا میں نے فوراََ مولانا سے کہا میں اس کے لئے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہوں۔
    مولانا نے جواب دیا جلدی مت کیجئے بات یہ ہے کہ میری غیرت اس کو گوارہ نہیں کرتی کہ محض جن تابع کرنے لئے میں آپ کو کلمہ پڑھائوں اور مسلمان کروں پھر آپ جو اسلام، جن تابع کرنے کے لئے قبول کریں گے وہ اسلام اللہ کے یہاں کہاںقبول ہوگا۔ میری بات سنئے اور اطمینان سے فیصلہ کر لیجئے، میں اس وقت کچھ دیر آپ کو اسلام کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں اس کا مختصر تعارف کراتاہوں مجھے امید ہے کہ اگر آپ نے غورسے سن لیا اور اسلام کی حقیقت کو جان لیا تو آپ کو جن تابع کرنے یا اس سے ملاقات کرنے سے زیادہ، اسلام کی دھن لگ جائے گی۔ کچھ کتابیں آپ کو بتاتاہوں آپ اسلام کو اچھی طرح پڑھ لیں اگر آپ مطمئن ہوگئے اور آپ نے جان لیا کہ اسلام کے بغیر نجات نہیں ہوگی تو آپ کلمہ پڑھ کر سچے دل سے مسلمان ہوجائیں۔ مسلمان ہونے کے بعد میرا وعدہ ہے کہ آپ پھلت آجائیں میں ایک یا چند جنوں سے ملاقات کرادوں گا جو آپ کے ساتھ اس وقت تک رہیں گے جب تک آپ پوری معلومات حاصل نہ کرلیں اس کے لئے نہ کسی عمل کی ضرور ت ہوگی نہ وظیفے کی ۔ 
  سوال  : اس کے بعد کیا ہوا؟
 جواب  : جی میں بتارہا ہوں، میں نے ان کی بات سے اتفاق کیا وہ تقریباََ ایک گھنٹے تک اسلام کے بارے میں بتلاتے رہے حضوراقدس ﷺ کی سیرت پاک کی مختصر طور پر رہنمائی کی اور مجھے اس بات پر زور دیتے رہے کہ پیراسائیکالوجی میں ریسرچ اور جن سے ملاقات سے پہلے ضروری یہ ہے کہ اول وقت میں کلمہ پڑھ کر مسلمان بن جائوں اس لئے کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ مولانا صاحب نے مجھے کتابوں کی ایک فہرست تیار کردی مجھے پھلت کا پتہ بتایا مجھ سے فون اور ایڈریس مانگامیں نے جواب دیا کہ میرے والد کا پر موشن ہورہا ہے نیاپتہ اور فون نمبر میں ڈاک سے بھیج دوں گا اور جولائی کے شروع میں اپنے تینوں ساتھیوں کے ساتھ پھلت آئوں گا۔ پونے پانچ بجے حضرت مولانا صاحب اٹھ گئے۔ مولانا کلیم صاحب مجھے بڑے حضرت مولانا علی میاں صاحب سے ملوانے لے گئے اور ان سے میرے مقصد میں کامیابی اور ہدایت کے لئے دعا کو کہا،مجھے لکھنئوجانا تھا اتنی دیر کی ملاقات کے بعد میرا دل اسلام کے لئے کافی مطمئن ہوگیاتھا میں نے لکھنئو آکر ’’ اسلام کیا ہے‘‘ اور ’’ خطبات مدراس‘‘ دو کتابیں خرید یں جن کو سب سے پہلے پڑھنے کا مشورہ دیا تھا ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد مجھے کسی طرح کوئی شبہ نہیں رہا کہ اسلام ہی اللہ کے یہاں مقبول مذہب ہے اور میں ایک ہفتہ کے بعد حضرت مولانا کے پاس تکیہ جاکر مشرف بااسلام ہوا یہ ۹؍جون ۱۹۹۵؁ء گیارہ بجے دن کی بات ہے حضرت نے میرانام عبدالرحمٰن رکھا۔
  سوال  : اس کے بعد آپ جولائی میں پھلت آئے تھے ؟
 جواب  : اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے اسلام کے مطالعہ کی دھن لگ گئی اور اسلام کی حقانیت اور اس کی لذت، میرے وجود پر چھاگئی۔ مجھے خیال ہوا کہ مجھے جنوں کی نہیں جنوں کے مالک کی تلاش تھی، جو قرآن حکیم کی زبان میں شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تھا اسلام کا مطالعہ کرنے اور تھوڑی تھوڑی نماز و ذکر وغیرہ سے مجھے یہ لگا کہ مجھ کو جنوں کے تابع کرنے اور ان سے ملاقت کے لئے نہیں بلکہ جنوں کے مالک کا تابع وفرماں بردار بننے کے لئے اوراس کی لقاکا شوق پیدا کرنے کے لئے پیدا کیاگیا ہے۔
  سوال  : پیراسائیکالوجی کی ریسرچ کا کیا ہوا؟
 جواب  : اسلام قبول کرنے اور اس کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد میرے دل ودماغ کے پردے اٹھ گئے مجھے احساس ہوا کہ مالک کائنات کی دی ہوئی یہ چھوٹی سی زندگی مجھے اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے کے لئے دی گئی ہے۔ میں نے رحمت اللعالمین کا مطالعہ کیا اس کتاب کے مطالعہ سے مجھ میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں رحمت اللعالمین نبی کا امتی اور ان کا پیرو سارے عالم کے لئے نہیں تو کم از کم پوری انسانیت کے لئے خیر خواہ اور داعی بنے بغیر ہرگزنہیں کہلاسکتا ، میں نے ارادہ کیا کہ مجھے زندگی اسلام کی دعوت کے لئے وقف کرنی ہے اور الحمد للہ میرے اللہ نے مجھ سے کام لیا، میں نے ریسرچ کا ارادہ ترک کردیا۔
  سوال  : اس کے بعد مولانا کلیم صاحب سے ملاقات ہوئی ؟
 جواب  : کئی ماہ کے بعد ایک بار میں تکیہ حضرت مولانا کی خدمت میں چندروز رہنے کے لئے گیا مغرب کی نماز کے بعد مولانا صاحب سے میری ملاقات ہوگئی میں نے ہلکی سی داڑھی رکھ لی تھی کرتا پاجامہ پہنے ہوا تھا مجھے اچانک ان کو دیکھ کر خوشی ہوئی، میں ان سے چمٹ گیا وہ مجھے نہیں پہچان سکے جب میں نے بتایا کہ میں ڈاکٹر سکسینہ اب عبدالرحمٰن ہوں وہ بہت خوش ہوئے مجھے بار بار مبارک باددی کئی روز ہم ساتھ رہے وہ سوچ رہے تھے کہ میں اب ان سے اپنی ریسرچ کے لئے جن سے ملاقات کے لئے کہوں گا۔ جب کئی روز تک میں نے اپنا مطالبہ نہیں رکھا تو انہوں نے ایفائے وعدہ کے خیال سے مجھ سے کہا کہ اب اگر آپ کسی جن سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو دہلی یا پھلت چند روز کے لئے آجانا میں ایک یا چند جنوں سے آپ کی ملاقت کرادوں گا آپ ان سے اطمینان کی حد تک معلومات حاصل کر لیں میں نے جواب دیا کہ مجھے اب کسی جن سے نہیں ملنا ہے میرے اللہ نے میرے لئے میری راہ مجھ پر کھول دی ہے۔
  سوال  : اس کے بعد آپ نے اپنے گھروالوںسے اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتادیا؟
 جواب  : ہمارا گھر انہ بڑا پڑھا لکھا گھرانہ ہے میں نے چند روز کے بعد گھر کے لوگوں سے بتادیا شروع شروع میں انہوں نے مجھے سمجھایا اور خاندانی اور مذہبی روایات کی لاج رکھنے کو کہا بعد میں انہوں نے کہنا چھوڑدیا بعض دوسرے رشتہ داروں اور جونپور کے بعض مذہبی لوگوں نے مجھ پر بہت دبائودیا چند مرتبہ مجھے دھمکیا ں بھی دی گئیں، مگر وہ سب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے الحمد للہ زیادہ مخالفتوں کی وجہ سے میرے والد نے مجھے دور چلے جانے کا حکم دیا میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ممبئی چلا گیا اس کے بعد کچھ روز تمل ناڈو میں پھر چد مبرم کے علاقہ میں رہا وہاںپر عیسائیوں اور دلتوں میںاللہ نے خوب دعوت کا کام لیا۔ ہماری ایک فعال جماعت بن گئی ایک بہت بڑے پادری فادر پیٹر جیمس نے اسلام قبول کیا ایک بڑے بدھ رہنما اس حقیر کے واسطے سے مشرف باسلام ہوئے، پانچ سال کے بعد میں پونے آگیا اور آج کل وہیں رہ رہا ہوں ۔ 
  سوال  : آپ کی شادی ہوگئی؟
 جواب  : میرا ارادہ پہلے شادی کا نہیں تھا مجھے خیال تھا کہ خاندان کے ساتھ مشغولی میرے لئے دعوتی مشن میں رکاوٹ ہوگی کم از کم وقت اور صلاحیت تقسیم ہوگی مگر مولانا کلیم صاحب نے مجھے زور دیا اور کہا کہ ہمارے نبی ﷺ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے اگر شادی دعوت میں رکاوٹ ہوتی تو آپ ﷺ ہر گز شادی نہ کرتے شادی کے بغیر آدمی کی زندگی ادھوری ہے اور ایمان بھی مکمل نہیں، ہر وقت یوں بھی آدمی کے ساتھ نفس کا خطرہ لگا رہتاہے ۔میں نے شادی کے بارے میں سوچنا شروع کیا حیدر آباد کے ایک چرچ میں ہم لوگوںکی ایک دعوتی سفر کے دوران ایک بہت مخلص عیسائی راہبہ سے ملاقات ہوئی جس نے یسوع کی رضا کے لئے اپنے جان گھلا رکھی تھی پہلے ان کی شادی ہوئی تھی ان کے شوہر ان کو دھوکہ دے کر بھاگ لئے ان کا دل ٹوٹا اور انہوں نے مذہبی زندگی اختیار کرلی۔ ۴۲؍سال ان کی عمر تھی مجھے ان کے خلوص نے بہت متاثر کیا میں نے ان پر کام کرنا شروع کیا اور میں اپنے ساتھیوں سے اجازت لے کر پندرہ روز حیدر آباد رہا الحمدللہ اللہ نے ان کو ہدایت دے دی مولانا عاقل حسامی نے ان کو کلمہ پڑھایا بعد میں، میں نے ان سے شادی کی پیشکش کی، انہوں نے معذرت کی، اپنے پہلے تجربے کی تلخی اور اپنی عمرکا عذر کیا میں نے ان کو شرعی تقاضے بتائے وہ راضی ہوگئی اور پونہ آکر ہم نے نکاح کر لیا۔ الحمد للہ وہ بڑی وفا دار رفیقہ حیات ہیں ان کے والد کی ساری جائیداد ان کو ملی تھی وہ وجے واڑہ کی رہنے والی تھی ان سے شادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے روز گار کے سلسلے میں مجھے فارغ کردیا ہمارے یہاں گزشتہ سال ایک بچی پیدا ہوئی ہے میں نے ان کا نام زینب رکھا ہے میری اہلیہ کا پہلا نام لوئیس رانی تھا مولانا عاقل حسامی اس کا اسلامی نام سمیّہ رکھا تھا میں نے شادی کے بعد بدل کر اس کا نام خدیجہ رکھ دیا۔
  سوال  : اب آپ کا مشغلہ کیا ہے؟
 جواب  : اپنی زندگی کو مولانا صاحب کے مشورہ سے گزارنا چاہتا ہوں انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ دعوتی مقاصد کے لئے کوئی مشغلہ ہونا چاہئے۔ میں نے پونہ کے ایک ڈگری کالج میں عارضی طور پر پڑھانا شروع کردیا ہے الہ آباد یونیورسٹی میں ایک ریڈر کی جگہ نکلی ہے اس کے لئے جارہا ہوں کہ اپنے اہل تعلق اور پریاگ پیٹھ میں دعوت کا کام کرنے کا موقع ملے گا۔
  سوال  : سنا ہے آپ ایک عرصے سے دعوتی مشن میں لگے ہیں اب تک آپ کے واسطے سے کتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہوگا؟
 جواب  : ہمارے مولانا صاحب کہتے ہیں جو چل لئے اس کو کیا دیکھنا جو راستہ طے کرنا ہے اس کو دیکھنا چاہئے، پانچ ارب لوگ اسلام سے محروم دوزخ کی راہ پر چل رہے ہیں ان کے مقابلے میں جو لوگ ہدایت یاب ہوئے  بالکل نہ کے برابر ہیں، کبھی کبھی حوصلے کے لئے مڑ کر دیکھ لینابھی برا نہیں ہے، الحمدللہ ثم الحمدللہ اس حقیر کے واسطے سے کم از کم دو سو لوگ تو ایسے مشرف باسلام ہوئے ہوں گے جو کم از کم گریجویٹ ہیں اس کے علاوہ بعض مقامات پراجتماعی طور پر بھی چند گھرانوں نے اسلام قبول کیا ہے ۔ الحمدللہ ثم ا لحمدللہ
  سوال  : آپ نے اپنے گھر والوں پر کا م نہیں کیا ؟
 جواب  : واقعی میں نے ان کا حق ادا نہیں کیا  ان پر سرسری طور پر کام کرتا رہا حا لانکہ سب سے زیادہ ان کا حق تھا چند ماہ سے اپنے والد سے رابطہ شروع کیا ہے پہلی چند ملاقاتوں میں تو ہنستے تھے اور کہا کرتے تھے’’ خودتو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ 
مستفاداز ماہ نامہ ارمغان جون ۲۰۰۴؁ئ