سوچ کا پنچھی

مصنف : پروفیسر مسعود احمد ، اسلام آباد

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اگست 2006

            رات کے پچھلے پہر اکثر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔چاروں طرف گہری خاموشی چھائی ہوتی ہے اوراندھیرے کی دبیز تہوں کے نیچے ہر چیز موت کا سکوت لیے دبکی اور سہمی سہمی سی معلوم ہوتی ہے۔ ان راتوں میں جب چاند کے زوال کی انتہا ہوتی ہے اندھیرا کچھ زیادہ گہرا ہوتا ہے ۔ دور بہت دور خلاؤں میں جگمگاتے ستاروں کے ننھے ننھے دیے بھی اس تاریکی کو دور نہیں کرسکتے اوربے بس ہوکر ٹمٹمانے لگتے ہیں۔ میری رہائش گاہ چونکہ شہر سے باہر واقع ہے اس لیے چھوٹی سی بستی کا یہ حصہ سنسان خاموشی کی آماجگاہ ہے ۔ شہر میں اس وقت کتنے ہنگامے بپا ہوتے ہیں کوئی کیا جانے! تاریکی اورگناہ ساتھ ساتھ پھیلتے ہیں۔رات کی سیاہ دیوی ظلم و جبر کے گرز اٹھائے شیطانوں کے خبیث گروہ کے ساتھ جب تاریکی کی چادر دنیا پر تانتی ہے تو نہ جانے کتنے گناہ سائیں سائیں کرتی ہوا کے ساتھ آتے اوراپنی حکمرانی کا سکہ جماتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی جیسے فضاؤں میں دہشت سی پھیل جاتی ہے جیسے کچھ ہونے والا ہو۔ وہ سڑکیں جن کا سینہ دن بھر گاڑیاں اور انسان کوٹتے رہتے ہیں اس خاموشی میں سکون کا سانس لیتی ہیں۔

            ہاں تو جاڑوں کی ان بھیانک راتوں میں جب میری آنکھ کھلتی ہے تو میں اس خاموشی سے لطف اٹھانے لگتا ہوں ۔ سائیں سائیں کرتی ہوا اور درختوں کا مدھم شور جو اس وقت کچھ زیادہ ہی معلوم ہوتا ہے مجھے لیٹ جانے اور دوبار سو جانے سے جیسے روک رہا ہوتا ہے۔میں اٹھ بیٹھتا ہوں اور کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھتا ہوں جہاں سناٹا ہی سناٹا ہوتا ہے میں سوچتا ہوں اس وقت شہر کے چوراہے پر جہاں دن کے وقت میں اکثر گزرتا ہوں بجلی کے بڑے بڑے بلبوں والا کھمبا خاموشی سے کھڑا ہو گا۔ بلبوں کی تیز تیز روشنی سے تا رکول کی سڑک چمک رہی ہو گی۔ فٹ پاتھ پر دن کے وقت مانگنے والا بوڑھا فقیر بھی ٹھٹھر ا ہوا اپنی گدڑیمیں لپٹا پڑاہو گا۔ساتھ ہی نانبائی کے تنور کے پاس جس میں ابھی تک کچھ نہ کچھ گرمی ہو گی چند آوارہ کتے اپنے منہ ٹانگوں میں دیے سردی سے بچنے کی کوشش کر رہے ھوں گے ۔

            اسوقت مجھے ایک چیز کا شدت سے انتظارہوتا ہے ۔ ایک آوازجسے سننے کے اشتیاق میں دوبارہ نہیں سوتا۔وہ آوازاس بستی سے دور آٹا پیسنے والی مشین کی ہوتی ہے ۔ تک ، تک، تک، تک، ۔ ٹھیک اس وقت جب کہ گہری خاموشی ہر چیز پررین بسیرا کیے ہوتی ہے اس مشین کی یہ آواز سناٹوں کو چیرتی ہوئی فضاؤں میں گونجتی ہے ۔کبھی کبھی یہ آواز ہوا کے دوش پر کسی اور سمت بھی چلی جاتی ہے ۔میں آواز کے اس اتار چڑھاؤ سے کافی محظوظ ہوتا ہوں ۔کتنی آزاد ہے یہ آواز! جدھر چاہے ، جہاں چاہے چلی جاتی ہے پھر میں تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ اس ٹھٹھرتی ہوئی رات میں مشین چلانے والا آدمی ان تختوں پر بیٹھا مشین میں گرتے ہوئے گندم کے دانوں کو دیکھ رہاہو گا۔لالٹین کی گہری پیلی پیلی ڈراؤنی روشنی میں پھر جب آواز کچھ دیر کے لیے دب جاتی ہے تو میں اداس ہو جاتا ہوں اس لمحے دوربہت دور بستی سے باہر کسی گیدڑ کے بولنے کی آواز آتی ہے ۔ پھر دو تین اور اکٹھے ہو کر چیختے ہیں حتی کہ خاموش رات کی تاریک فضا ان کی کرخت آوازوں سے گونج اٹھتی ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں اندھیروں میں چلتا جاؤں اور اس آدمی کو جا کر دیکھوں جو ساری رات جاگ کر گندم پیستاہے ۔ پھر ان تنہائیوں کی طرف نکل جاؤں جہاں اس مشین کی آواز بھٹکتی ہوئی فضاؤں میں تحلیل ہو جاتی ہے ۔میں لکڑی کی سیڑ ھی کے سہارے چھت پر چڑھ جاتا ہوں۔ گہرے خلا میں ٹمٹماتے ستارے جیسے میرے ہمجولی ہوں۔چند لمحوں کے لیے اس مشین کی آواز فراموش کر کے بلندیوں پر چمکنے والے ان ستاروں کی ضیا میں کھو جاتا ہوں کہ دفعتاً کوئی ستارہ روشنی کی ایک لمبی سی لکیر بناتا ٹوٹ جاتا ہے ۔اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتا ہے۔میں پھر خلامیں دیکھتاہوں وہاں ان گنت ستارے ٹمٹمار ہے ہوتے ہیں اور اس ٹوٹے ہوئے ستارے کااحساس تک نہیں ہوتا۔پھر چھت پر سے میں نیچے گلی کنارے لگے ہوئے مٹی کے تیل والے لیمپ کو دیکھتا ہوں جس کاشعلہ سرد ہوا میں لرز رہا ہوتا ہے ۔ مجھے اپنی رگوں میں خون منجمد ہوتا محسوس ہوتا ہے اس وقت سردی پورے شباب پر ہوتی ہے۔ اوردور مجھے نظر آتا ہے کہ شہر کے پبلک پارک کے پاس لگے ٹیلیفون ایکسچینج کے اونچے کھمبے پرلگی سرخ بتی ٹمٹما ٹمٹما کر ماحول کو اور پر اسرار بنا رہی ہے ۔اس سناٹے میں جیسے کائنات تھم سی جاتی ہے۔میں چھت سے سٹیشن ماسٹر کے کمرے میں جلتی ہوئی لالٹین کو بھی صاف دیکھتا ہوں۔میں نے دیکھا کہ سخت سرد ی میں بھی سٹیشن ماسٹر صاحب کھڑکی کھولے سور ہے تھے ۔شہر کے گھڑیا ل نے تین بجائے میں بدستور چھت پر بیٹھا ہوتاہون کہ اسی وقت ایک ریل گاڑی کی تیز سیٹی کی آواز سنائی دیتی ہے اور روشنی کی ایک ننھی سی قطار دور اندھیروں میں رواں دواں نظر آتی ہے ۔اتنے میں بستی کی چھوٹی سی مسجد کی کھڑکی سے بھی لالٹین کی مدھم روشنی چھن چھن کر باہر آنے لگتی ہے ۔یہ مسجد میرے گھر سے کچھ زیادہ دور نہیں۔بستی میں ویسے تو سارے گھرکچے ہیں لیکن مسجد پکی اینٹوں سے بنائی گئی ہے ۔میں چھت کی کچی منڈیر پر بیٹھ جاتاہوں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا کہ اذان کا وقت بھی ہوجاتا ہے اور مسجد سے اذان کی دل کش آواز سنائی دینے لگتی ہے ۔اس آواز کے ساتھ ہی ہر گھر سے لالٹین کی روشنی آنے لگتی ہے ۔مشین کی مانوس آواز بند ہوجاتی ہے ۔اندھیرا چھٹنے لگتا ہے اور شہر اور اس بستی کافاصلہ مٹنے لگتا ہے ۔ گوالوں کی ٹولیاں دودھ کے مٹکے سروں پر رکھے شہر کی طرف جانے لگتی ہیں اس وقت بستی کی چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کی جانے لگتی ہے اورساتھ ہی شہر کے تاریک ھنگامے جانے کس پناہ گاہ میں چلے جاتے ہیں اور میں افق پر نمودار ہوتی ہوئی ہلکی سی ملگجی روشنی پر آخری نگاہ ڈالتاہوا چھت سے نیچے اتر آتا ہوں۔