عینک، اپنی اپنی !

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اگست 2006

ہارون الرشید کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا جو کہ انتہائی ماہر نشانے باز تھا اور اپنے فن کا مظاہرہ کر کے لوگوں سے داد وصول کرنا اس کا پیشہ تھا ۔ خلیفہ کی اجازت کے بعد اس نے اپنے فن کا مظاہرہ اس خوبی سے کیا کہ خلیفہ اور اس کے درباری اس کے فن سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔جب وہ اپنا کرتب مکمل کر چکا تو خلیفہ نے اس کو دس دینار بطور انعام دیے اور ساتھ ہی یہ حکم بھی جاری کیا کہ اسے دس جوتے بھی مارے جائیں ۔جب جوتے مارنے کی وجہ دریافت کی گئی توخلیفہ نے کہا کہ اتنے قابل شخص کو اپنی ذہانت کا استعمال فوج کے لیے کرنا چاہیے تھا نہ کہ چند روپوں کی خاطر ۔

             اس مداری کی طرح اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں لیکن ہم ٹیلنٹ کا استعمال کس کس طریقے سے کر رہے ہیں اس کے چند‘‘ کرب ناک’’ مناظر پیش خدمت ہیں ۔

آڑوکے رنگ کاراز

            جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ میں دوپہر کے وقت ایک شخص بازار میں تیزی سے چلا جا رہا ہو تو آپ کا اس کے بارے کیا تاثر ہو گا ؟ یقینا یہی کہ وہ شخص کسی ضروری کام کی وجہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہواہے تو جنا ب میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ میں اور میرا دوست ہم دونوں کتابوں کی تلاش میں اردو بازار میں سرگرداں تھے ۔ جولائی کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اچانک ہماری توجہ ایک ریڑھی کی جانب مبذول ہو گئی جس پر انتہائی خوش رنگ آڑو سجے تھے اور لوگوں کا ایک ہجوم ریڑھی کے گرد جمع تھا ۔ ہم بھی اسی سمت چل دیے لیکن میں اچانک رک گیا کیونکہ اتنے ‘‘خوش رنگ ’’ آڑوؤں کا راز میں نے پالیا تھا ۔ ایک شخص اسی ریڑھی کے نیچے پڑے ‘‘سرخ رنگ’’ کے بھرے ٹب میں سے آڑو نکال نکال کر ریڑھی کے اوپر سجا رہا تھا ۔ آپ یقینا جانتے ہونگے کہ یہ پھل پیٹ کے لیے خاص طور سے بہت مفید ہے ۔ مگر کیا اس رنگ دار کیمیکل کے ساتھ بھی؟

پانی میں دودھ

            آج صبح جب ناشتے کے لیے پہنچا تو گاڑھا دہی دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔ جب میں نے امی جان سے وجہ دریافت کی توکہنے لگیں کہ آج گوالے نے غلطی سے ‘‘دودھ میں پانی’’ ملادیا ہو گا وگرنہ تو وہ ‘‘پانی میں دودھ ’’ ملاتا ہے اور میں کافی دیر تک امی جان کی یہ بات سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ۔

ہاتھ کی صفائی

             خریداری کے لیے میں لاہور کے مشہور بازار انارکلی جا پہنچا ۔ کافی تگ ودو کے بعد ایک پینٹ دل کو بھائی ۔ اس کا سائز وغیرہ چیک کر کے وہ پیک کروائی اور خوشی خوشی گھر کو لوٹا ۔ گھر آکر جب میں نے شاپر کھولا تو جو میری حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے ۔ شاپر میں پینٹ تو موجود تھی مگر بالکل مختلف اورانتہائی گھٹیا یعنی وہ نہیں جو میں نے پیک کروائی تھی۔ انتہائی غصے میں ہونے کے باوجود میں دوکاندار کے ہاتھ کی صفائی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔

خوشی کے انوکھے طریقے

            تفریح ایک ایسی شے ہے جو ہر انسان کو بھاتی ہے اور تفریح ہر انسان کا فطری حق بھی ہے، لیکن کیا گلے کاٹنا بھی تفریح ہے ؟وطن عزیرمیں اب بسنت جیسی تفریح لوگوں کے گلے کاٹنے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے جوش میں ڈور پر ایسے ایسے کیمیکل لگائے جاتے ہیں جو تلوار سے بھی تیز کام کرتے ہیں۔

سائیلنسر تفریح ‘‘زندہ دلان لاہور’’ ہر سال 14 اگست کو تفریح کے نام پر لاہور کے مال روڈ پر تہذیب کا جو ‘‘بے مثال’’ مظاہر ہ کرتے ہیں، اس سے لاہور میں رہنے والا ہر شخص بخوبی واقف ہے ۔موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر بے ہنگم شور کا جو طوفان بد تمیزی برپا کیا جاتاہے اس سے شیطان بھی پنا ہ مانگتاہو گا۔ہیں نا یہ خوشی منانے کے انوکھے اور جدید انداز

 خدمت گار ڈاکٹر

            دودن سے میں شدید بخار کی زد میں تھا ۔ دوا لینے کی غرض سے کلینک کی جانب چل دیا ۔ میں کلینک میں داخل ہوا ہی تھا کہ اچانک ایک شور سا برپا ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ چند مریضوں نے ‘‘عبادت گزار’’ ڈاکٹر کے ‘‘خدمت گار’’ ڈسپنسر کو ایک ہی سرنج سے تمام مریضوں کو ٹیکہ لگاتے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا ۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ اصل میں پاکستان میں ہیپا ٹائٹس پھیلانے والے یہ ڈاکٹر خود ہیں جو ہر مریض کی سرنج دوسرے کو لگا دیتے ہیں ۔ہے نا جراثیم منتقل کرنے کا پاکیزہ ذریعہ! ایک دوست کہتے ہیں کہ ان کے والد صاحب کے ایک ڈاکٹر صاحب سے اچھے خاصے مراسم ہیں اور وہ ڈاکٹر صاحب بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں ۔ ایک روز وہ ان کے پاس کلینک پر موجود تھے کہ ایک مریضہ آئی جسے دمے کے دورے میں ایمر جنسی انجکشن لگوانا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے انجکشن لکھ کر دیا کہ یہ میڈیکل سٹور سے پانچ سو میں مل جائے گا ، لے آئیے میں لگادوں گا۔مریضہ نے کہا کہ آپ کے پاس ہے تو لگا دیں میں اب کہاں میڈیکل سٹور سے ڈھونڈتی پھروں ۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایاچلیے ٹھیک ہے میں لگوائے دیتا ہوں۔اور ڈاکٹرصاحب نے اپنے ڈسپنسر کو کچھ ہدایات دیں جس میں دوتین انجکشنوں کو ملانے کے بارے میں ارشاد فرمایا اور کہا کہ دیکھنا رنگ وہی ہونا چاہیے ورنہ فلاں انجکشن بھی ڈال دینا اس سے وہی رنگ بن جائے گا۔ رنگ وہ نہ ہوا تو مریضہ پہچان جائے گی۔یہ ساری بات مریضہ تو نہ سمجھ سکی مگر یہ دوست سمجھ گئے۔ مریضہ کو انجکشن لگا یا گیا اور پانچ سو روپے لے لیے گئے ۔ان دوست نے پوچھا کہ یہ سارے انجکشن تو مل ملا کے بھی دس روپے سے زیاد ہ کے نہیں بنتے ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا ٹھیک ہے ہمارے پاس وہ اصلی والا تونہیں تھا مگر اس کمبینیشن کا رنگ بھی وہی ہے اوریہ کام بھی تقریبا ًوہی کرتا ہے اس لیے یہ لگا دیا۔ تم دیکھنا یہ مریضہ ٹھیک ہو جائے گی۔ہے نا کامل توکل!

عظیم اساتذہ

             انگریزی کے پرفیسر اکثر ہم سے نالاں رہتے کہ تم میں سے کوئی بھی کلاس کے بعد میرے پاس اپنی مشکلات لے کر نہیں آتا ، معلوم ہوتا ہے کہ تم سب کے سب انگریز ہو ۔ میرا ایک دوست ان کی ترغیب پر ایک دن دل بڑا کر کے کلاس کے بعد ان کے پاس جا پہنچا ۔ واپس آیا تو منہ لٹکا ہوا تھا اور ان کی شان میں ‘‘قصیدے ’’ کہہ رہا تھا ۔ پوچھنے پر پھٹ پڑا کہ ان کے پاس گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا کہ انگریزی میں کافی کمزور واقع ہوا ہوں ، کچھ راہنمائی فرمادیجیے یہ سن کر استاد محترم کہنے لگے کہ میں نے تم جیسے نکموں کو نہیں کہا تھا آنے کے لیے ۔ ان کی اس ہمدردی پر وہ کہنے لگا کہ ‘‘ خوبصورت چہروں کے پیچھے بھیانک چہرے کیوں ہوتے ہیں’’۔ اور میرے پاس اس کی اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا ۔

مہذب طلبا

            لاہور کے ایک مشہور کالج میں ایک پروفیسر صاحب کی ‘‘یونین طلبا ’’ کے ساتھ گرما گرمی ہو گئی ۔ جب وہ کلاس کے بعد باہر آئے تو چند طلبہ چائے پلانے کی ضد کر کے انہیں ہوسٹل میں لے گئے وہ بیچارے گئے تو اپنے قدموں پر تھے لیکن واپس اپنے قدموں پر نہیں بلکہ کسی کے کندھوں پر آئے کیونکہ وہ مہذب ‘‘یونین’’ کی ‘‘مہذب بربریت’’ کا شکار ہو چکے تھے ۔

دیندارلوگ

            ایک عالم صاحب نے پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا ، انہوں نے اپنی سوسائٹی میں گورنمنٹ کی بھی بہت سی زمین شامل کر کے لوگوں کو فروخت کر دی لوگ ان کی ‘‘داڑھی کا سائز’’ دیکھ کر ان کو ایماندار سمجھ بیٹھے اور تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ کچھ عرصہ بعد گورنمنٹ کے کارندے آدھمکے اور لوگوں کو مکان خالی کرنے کے نوٹس جاری کر دیے کیونکہ یہ زمین گورنمنٹ کی تھی اور گورنمنٹ کو وہاں سڑک بنانا تھی ۔ یہی لوگ جب عالم صاحب کی تلاش میں نکلے تو معلوم ہوا کہ وہ تو کب کے روپوش ہو چکے ہیں اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، چند دنوں بعد گورنمنٹ نے ان کے مکان گرا دیے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب مولوی چگ گئے کھیت ۔ اس طرح کے رویوں کی وجہ سے مسلمانوں کی دنیا میں جو عزت ہے اس کا بھی ایک منظر ملاحظہ کیجیے ۔ ایک پاکستانی امریکہ میں کسی عیسائی کے ہاں ملازم تھا۔ کافی عرصہ بیت جانے کے بعدجب اسے گھر والوں کی یاد ستائی تو اس نے اپنے مالک سے چھٹی لی اور اس سے اپنا معاوضہ مانگا تو مالک نے معاوضہ ادا کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس نے بہت منت سماجت کی لیکن سب بے سود ۔ آخرکار وہ چرچ کے پادری کے پاس جا پہنچا اور اس سے سارا معاملہ بیان کر کے اس سے مدد کی درخواست کی ۔ پادری نے ایک کاغذ پر اس کے مالک کے نام ایک تحریر لکھ کر دی اور کہا کہ یہ جا کر اپنے مالک کو دے دینا وہ تمہیں تمہارا معاوضہ ادا کر دے گا اور یونہی ہوا ۔ وہ حیران تھا کہ آخر پادری نے کیا کہا ، اس نے اپنے مالک سے دریافت کیا تو عیسائی نے وہ کاغذ اس کے حوالے کر دیا جس پر لکھا تھا ‘‘کیا تم بھی مسلمان ہو چکے ہو ’’ ۔

باوفا سیاستدان

            الیکشن کے دنوں میں بہت سے امیدوار تشریف لاتے ،بلند وبانگ دعوے کرتے اور پچھلی حکومت کے کارناموں کا رونا روتے اور چلے جاتے ۔

ہمارے موجودہ ایم این اے تقریبا روز ہی کسی نہ کسی گلی کی نکڑ پر جلسہ کرتے پا ئے جاتے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد اب وہ ‘‘چودھویں کا چاند’’ نہیں بلکہ ‘‘پانچ سالہ چاند’’ ہو چکے ہیں ۔

 منصف وکیل

            لاہور کے ایک پوش علاقے میں ایک وکیل صاحب نے کرائے پر مکان لیا ۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے مالک مکان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے ۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد مالک مکان ایک بھکاری کی حیثیت سے وہاں سے رخصت ہو رہے تھے اور وکیل صاحب نئے مالک مکان بن چکے تھے ۔

 ٭٭٭

کہتے ہیں کہ ہر شخص ‘‘اپنی اپنی عینک’’ سے دیکھتا ہے ۔ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرنے والے یہ وہ مناظر ہیں جو مجھے‘‘ میری عینک ’’نے دکھائے ہیں۔ امید ہے کہ ‘‘آپ کی عینک’’ بھی ایسے بہت سے مناظر دکھاتی ہو گی ،اگر نہیں توقصور نہ آپ کا ہے نہ میرا ،بلکہ عینک کاہے۔ کیونکہ عینک ، اپنی اپنی۔