کیسا انعام دینے آئے ہو

مصنف : عامر سلیم

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جنوری2015

سچی کہانی
کیسا انعام دینے آئے ہو
عامرسلیم

اس نے کلاشنکوف پر اپنی گرفت مضبوط کی، پھر چہرے پر بندھے ڈھاٹے کو مزید کسا۔ اس کے ساتھ بیٹھے دیگر تین ساتھیوں نے بھی اس کی تقلید کی۔ وہ سب پوری طرح تیار تھے۔ ان کی ہائی روف گلی کی نکڑ پر نسبتاً ایک اندھیرے حصے میں کھڑی تھی۔ ہائی روف کا رنگ بھی سیاہ تھا اور شیشے بھی کالے تھے۔ اس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو باہر سے دیکھنا تقریباً ناممکن تھا لیکن وہ سب اندر سے باہر کے مناظر بخوبی دیکھ رہے تھے۔ ان کی عقابی نگاہیں سامنے والے مکان پر ٹکی ہوئی تھیں۔ وہ مکان دو منزلہ تھا۔ اس کے باہر ایک سفید رنگ کی فوکسی کھڑی تھی۔ تبھی دروازہ کھلا اور ایک خوبرو نوجوان باہر نکلا اور اس فوکسی میں بیٹھ کر کہیں چلا گیا۔ جیسے ہی وہ فوکسی گلی کے نکڑ پر مڑ کر نظروں سے اوجھل ہوئی۔ ہائی روف اپنی جگہ سے رینگنے لگی۔ دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہوئے وہ اسی مکان کے سامنے جا رْکی۔ پھر دروازہ کھلا اور ایک شخص چادر اوڑھے نیچے اترا اور سیدھا جاکر دروازے کے سامنے کھڑا ہوگیا، اس کی انگلی کال بیل کے سوئچ پر تھی۔ مگر آنکھیں آس پاس کا جائزہ لے رہی تھیں ۔اندر کہیں دور گھنٹی بجی تھی اور پھر ذرا سی دیر بعد دروازے کے پیچھے آہٹ سنائی دی تھی۔ دروازہ ایک نوعمر سی لڑکی نے کھولا تھا۔ اپنے سامنے ڈھاٹا باندھے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ بری طرح چونک اْٹھی۔ اس نے چیخنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اسے موقع نہیں ملا۔ اس کے منہ پر اسی شخص نے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ لڑکی کے پہلو سے کلاشنکوف کی نال لگا کراس نے غرا کرکہا ’’اگر آواز نکالی تو گولی مار دوں گا۔‘‘لڑکی کی آنکھوں میں بے بسی اْترآئی ۔اس شخص نے گردن موڑ کر اشارہ کیا اور ہائی روف سے اتر کر دو بندے اور آگئے۔ وہ تینوں لڑکی کو نشانے پر لیے آگے بڑھنے لگے۔ دو مختلف کمروں سے دو عورتوں کو انھوں نے باہر نکالا۔ پھر ان تینوں کو ڈرائنگ روم میں لاکر ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا۔’’اے بڑھیا!نکال چابی!‘‘ ان میں سے ایک نے سب سے بڑی عمر کی عورت کے سر پر کلاشنکوف کی نال رکھ کر کہا۔’’وہ رہی چابی!‘‘ بڑی بی نے دروازے کے برابر لٹکتے’’کی بورڈ‘‘ کی طرف اشارہ کیا۔ وہی شخص ’’کی بورڈ’’کی طرف بڑھا، تو بڑی بی نے بارعب لہجے میں کہا’’ٹھہرو‘‘وہ رک گیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ باقی دونوں نقاب پوشوں نے بھی حیرت سے بڑی بی کو دیکھا تھا۔’’بیٹے!جانتے ہو یہ گھر کس کا ہے؟‘‘’’کسی کا بھی ہو۔ ہمیں کیا؟ ہمیں تو رقم سے مطلب ہے‘‘ نقاب پوش نے جواب دیا۔’’سامنے لگی تصویروں کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ بڑی بی نے دیوار پہ ٹنگے فریم کی طرف اشارہ کیا۔ان تینوں کی نظریں ادھر ہی اٹھ گئیں۔’’کسی فوجی کی ہیں‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’وہ اسکوارڈن لیڈر نجیب احمد خان ہے اور وہ نذیر لطیف ہے۔‘‘ بڑی بی نے کہا۔’’تو کیا ہوا133133ہم ڈاکو ہیں۔ ڈاکا ڈالیں گے اور اپنی راہ لیں گے!!’’ڈاکو133133ڈاکا ڈالنے سے پہلے مکین کے بارے میں پوری معلومات حاصل کرتے ہیں۔ لگتا ہے تم نے اس گھر کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کی ہیں ۔میں بتائے دیتی ہوں پہلے اس تصویر والے شخص کے بارے میں سن لو۔‘‘بڑی بی نے تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ پھر آنکھوں پر ہاتھ پھیر کر بولی۔
’’رات ایک بجے کا وقت تھا۔ ہمارے دو B۔57بمبار طیارے دشمن کی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کا ہواباز نجیب احمد خان اور دوسرے کا ونگ کمانڈر نذیر لطیف تھا۔ یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ ان کے ساتھ ان کا ایک ایک نیوی گیٹربھی تھا۔ نجیب احمد خان کا نیوی گیٹر فلائٹ لفٹنٹ وسیم اور نذیر لطیف کا اورنگ زیب تھا۔ وہ کم بلندی پر پرواز کررہے تھے۔ ان کا رْخ انبالہ چھاؤنی کی طرف تھا۔
یہ کوئی معمولی چھاؤنی نہیں تھی۔ اس کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی۔ وہاں کا ہوائی اڈا بھارت کے مضبوط ترین اڈوں میں سے ایک تھا۔ اسے اس وجہ سے بھی اہمیت دی جاتی تھی کہ یہاں بھارت کا سب سے بڑا ریڈار سسٹم نصب تھا۔ جو ایسا جدید نظام تھا کہ پرندہ بھی اِن کی نظروں میں آئے بغیر نہ رہتا۔ اور رینج! ہمارے ہوائی اڈے سے جہاز اْوپر اٹھتے ہی انھیں خبر ہوجاتی تھی۔ پھر وہاں میزائلوں کا بھی بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ یہ اڈا ہمارے شاہینوں کے لیے چیلنج بنا ہوا تھا۔ اْس کی تباہی آدھی جنگ کی فتح تھی۔ یہ دونوں بھائی اسی مشن پر نکلے تھے۔ بھارت کی فضا میں جنگ کی بوباس رچی ہوئی تھی۔ ہوا باز اور نیوی گیٹر آپس میں باتیں نہیں کررہے تھے۔وائرلیس سیٹ بھی بند پڑے تھے۔ صرف انجن کی گونج کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ان کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ زندہ لوٹ کر آئیں گے۔ وہ زندگی کی بازی لگا کر موت کے منہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ جس مشن اور جس جگہ پر جارہے ہیں۔ وہاں دشمن نے ان کو فضا کے اندر ہی فنا کردینے کا انتظام کررکھا ہے۔ جب انھیں اندازہ ہوا کہ وہ انبالہ کے قریب آگئے ہیں،تو انھوں نے پرواز اور بھی نیچی کرلی۔ دھند کی وجہ سے انھیں مشکل پیش آرہی تھی۔ وہ بمشکل دو سو فٹ کی بلندی پر اْڑ رہے تھے۔ تاریکی کی وجہ سے اس قدر کم بلندی سے بھی زمین پر کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اسکوارڈان لیڈر نجیب احمد خان پر ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ اس کی رگ رگ بیدار ہوگئی تھی کہ اتنے میں اس کے نیوی گیٹر کی وائرلیس پر آواز سنائی دی ’’ہم ٹارگٹ کے نزدیک پہنچنے والے ہیں۔‘‘نجیب احمد خان پوری طرح چوکس ہوگیا۔ اس نے بمباری کے تمام سوئچ، بٹن اور دیگر آلات کا جائزہ لیا اور بموں کو گرانے کے لیے پوری طرح تیار ہوگیا۔ اسے انبالے کے ہوائی اڈے کی اہمیت کا علم تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اب اسے ایک ہلکی سی جنبش سے بٹن کو دبانا ہے جو پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ بن جائے گی۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دشمن فضائیہ کا کوئی توپچی بھی ایسی ہی جنبش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ زمین پر کوئی ایسا ہی لمحہ اسے اور اس کے طیارے کو فضا میں بکھیر کر رکھ دے گا۔ لیکن وہ وقت ڈرنے کا نہیں تھا۔ وہ لمحات اسے اپنی ہر شے حتیٰ کہ جان سے بھی بڑھ کر عزیز تھے۔ اس وقت پاکستان کی آن اور آبرو کا مسئلہ تھا۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اس کے اِرد گرد دشمن کی طیارہ شکن توپوں کے گولے نظر آنے لگے اور ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ واقعی دشمن انبالہ کی حفاظت کے لیے چوکنا تھا۔ ایک گولے نے اس کے طیار ے کے پروں میں روزن بنا دیا۔ طیارہ لرزنے لگا تھا۔ دشمن کی طیارہ شکن توپوں کے دو گولے طیارے کے قریب سے گزر گئے۔ مگر نجیب احمد خان کے ارادوں میں لغزش نہ آئی۔ اس کے اندر جوش اور بہادری کا سمندر امڈ آیا۔ اس کے لبوں پر’’اللہ اکبر‘‘ کا وِرد جاری ہوگیا۔ وہ جودھ پور، جام نگر، ہلواڑہ اور آدم پور کے ہوائی اڈوں پر کامیاب بمباری کر چکا تھا۔ لیکن یہاں توپیں کچھ زیادہ ہی چوکس تھیں۔ طیارہ شکن توپیں اس کے طیارے کو نوالہ بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کررہی تھیں۔ فضا گولیوں اورتوپوں کی آوازوں سے گونج رہی تھی۔ نجیب احمد خان تو یہاں بم گرانے آیا تھا۔ لیکن انبالے کی زمین اور آسمان اس کے لیے جال بنتا جارہا تھا۔ اس نے اس پرواز کو اپنی زندگی کی آخری پرواز سمجھ کر حقیقت تسلیم کرلیا۔ وہ اب بھی ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب ٹارگٹ قریب آیا،تو اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پھر دوسرے ہی لمحے اسے دشمن کے طیارے ہینگروں میں کھڑے نظر آگئے۔ وہاں بھی دشمن نے توپوں کے منہ کھول رکھے تھے۔ آگے بڑھنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔ لیکن یہی تو اس کی زندگی کا مشن تھا۔ زبان پر اللہ تعالیٰ کا نام اور انگوٹھا بمباری کے بٹن پر133133 وہ خطرناک ترین علاقے میں داخل ہوگیا اور پھر اس نے بٹن دبا دیا۔اس نے ایک ہزار پونڈ کے چار بم گرائے اور پھر دشمن کے اس جہنم سے بخیر و خوبی نکل آیا۔ لیکن نجانے کتنی گولیاں طیارے کے ڈھانچے میں سوراخ کر گئیں۔ اس کے باوجود طیارہ بے کار نہ ہوا اور وہ طیارے سمیت باہر نکل آیا۔ مگر ابھی اس کے طیارے میں اور بم باقی تھے۔ اس لیے وہ پھر مڑا اور اس جہنم کا رْخ کرلیا۔ جہاں سے وہ صحیح سلامت نکل آیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے پھینکے ہوئے بموں نے انبالے کے ہوائی اڈے پر تباہی مچا دی ہے۔ ہر طرف آگ لگی تھی۔ آگ کی روشنی میں اسے دشمن کے وہ طیارے نظر آئے جو ابھی اڈے پر کھڑے تھے۔ اس نے زندگی اور موت کی پروا نہ کی اور طیارے کی رفتار بڑھا دی اور دشمن کی فائرنگ کو چیرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا جہاں انڈین ائیر فورس کے بمبار لڑاکا طیارے کھڑے تھے۔ اس کے ان بموں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اس کے بم صحیح نشانے پر گرے تھے۔ اب تو کئی جگہوں سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ اس نے طیارے کا پٹرول میٹر دیکھا، تو وہ کم ہوتا جارہا تھا۔ اسے واپس بھی آنا تھا۔ لیکن ابھی اس کے طیارے میں دو بم باقی تھے۔ اس لیے وہ تیسرے حملے کے لیے تیار ہوگیا۔ وہ پھر اس مقام کی طرف بڑھا۔ جہاں اس نے انڈین ائیر فورس کے چند اور طیارے کھڑے دیکھے تھے۔ دشمن کی طیارہ شکن توپوں کا فائر بھی ہولناک تھا لیکن اس نے اطمینان سے بم گرائے اور جب اس کا رْخ ارضِ پاک کی طرف ہوا۔ انبالے کا ہوائی اڈا راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔ جگہ جگہ سے شعلے اور دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ونگ کمانڈر نذیر لطیف نے بھی دشمن کے اس فائر کے آتشیں جال میں جھکی پرواز سے بم گرا دیا تھا۔ اس کی بے خوفی کابھی وہی عالم تھاجو نجیب احمد خان کا تھا۔ دشمن نے اسے بھی مار گرانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بھی بے خوف و خطر اس آتشِ نمرود میں کود گیا تھا۔ ان دونوں نے انڈین ائیر فورس کا سب سے بڑا ہوائی اڈا برباد کر ڈالا تھا۔ انبالے کے دفاع سے متعلق جو بھی سنسنی خیز کہانیاں منسوب تھیں۔ ان کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ دونوں نے اتنی بہادری اور جرات دکھائی تھی کہ دشمن بھی حیران اور پریشان تھا۔انبالے کے ہوائی اڈے کی گنیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی تھیں۔ اس بہادری پر میرے بیٹوں کو ستارہ جرات سے نوازا گیا تھا۔‘‘ ’’بیٹے! انھیں حکومت نے ستارہ جرات کیوں دیا تھا؟‘‘
بڑی بی نے نجیب احمد اور نذیر لطیف کی کہانی روک کر پوچھا۔
وہ سب جو ڈاکا ڈالنے آئے تھے لیکن بڑی بی کی بارعب شخصیت اور بولنے کے انداز سے مسحْور ہوکر بت بن گئے تھے۔
چونک کر بولے۔’’جی انھوں نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان لڑا دی تھی۔ دشمن کے اہم ہوائی اڈے کو تباہ کردیا تھا۔ اس لیے انھیں یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔‘‘’’بیٹے! میں بھی ایک اسکول کی ہیڈ مسٹریس ہوں، میں وطن کے جیالوں کو تیار کرتی ہوں۔ میرے دو بیٹے تھے۔ لیکن میں اپنے ہر شاگرد کو اپنا بچہ سمجھتی ہوں۔ تو کیا مجھے کوئی ایوارڈ نہیں ملنا چاہیے؟ میں نے تو زندگی بھر دوسروں کے بچوں کی زندگیاں سنواری ہیں۔ نجانے کتنے بچے مجھ سے پڑھ کر ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔‘‘بڑی بی نے رْک کر ڈاکوؤں کی طرف دیکھا133وہ سب خاموش کھڑے تھے۔ بڑی بی نے سلسلہء کلام دوبارہ جوڑا۔’’لیکن تم مجھے کیسا انعام دینے آئے ہو؟ ایک استاد کا گھر لوٹو گے؟ اس کا گھر جس نے زندگی بھر دوسروں کی زندگی سنواری ہے؟‘‘بڑی بی کے الفاظ تھے یا نشتر133 ان تینوں ڈاکوؤں کو اپناجگر چھلنی ہوتا محسوس ہوا۔ان میں جو سب سے آگے تھا۔اس نے آگے بڑھ کر بڑی بی کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’اماں! آپ واقعی استانی ہیں 133ہم دولت پانے کا آسان
رستہ سمجھ کر بھٹک گئے تھے۔ مگر آپ نے آج ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہمیں معاف کردیں۔‘‘’’یہ کہہ کر وہ پلٹا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا۔ باقی دونوں نے بھی اس کی پیروی کی۔
بڑی بی نے قدرے بلند آواز میں کہا۔
’’بیٹے! زندگی کی جنگ سے منہ موڑنا بزدلی ہے۔ بڑے لوگوں کی داستانِ حیات پڑھتے رہا کرو۔ کامیابی کے راستے خود بخود ملتے جائیں گے۔‘‘***





ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رْسوا نہیں ہونے دیتے
کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لئے
ہم کسی گھر میں اْجالا نہیں ہونے دیتے
آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے
ذکر کرتے ہیں ترا نام نہیں لیتے ہیں
ہم سمندر کو جزیرہ نہیں ہونے دیتے
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
معراج فیض آبادی