امریکہ میں انسانی حقوق؟

مصنف : ملیحہ ہاشمی

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : جون 2006

 اعداد وشمار پر مبنی خوفناک حقائق

 چین کی جاری کردہ رپورٹ

            امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے امریکہ بھارت سول نیو کلیائی تعاون کے منصوبے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘‘یہ دو جمہوریتوں کے مابین طے پانے والا منصوبہ ہے ’’ ، مس رائس کے اس بیان میں کس قدر سچائی ہے اس کی وضاحت کے لیے تو آئے روز ابو غریب جیل کے بارے میں منظر عام پر آنے والی تصاویر اور امریکی فوجی یا سول حکام میں سے کسی کے ضمیر کے دباؤ میں ‘‘اعتراف جرم’’ جیسے واقعات ہی کافی ہیں ۔ تاہم حال ہی میں چین کی جانب سے مرتب کی جانے والی انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹ نے تو امریکی ایوان بالا میں کھلبلی مچا دی ہے ۔

            تیزی سے زوال پذیر ہوتے ہوئے امریکی معاشرے کے بارے میں مذکورہ رپورٹ میں اعداد وشمار کے ساتھ جو حقائق شامل کیے گئے ہیں اس کے بعد امریکہ سے بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ پہلے اپنے یہاں جمہوریت لے آؤ پھر دنیا کو اس پھل کے ذائقے سے آشنا کرنے کی سعی کرنا ۔ اس رپورٹ میں خصوصی اہمیت کے حامل نکات کی تفصیل میں جانے سے قبل ایک نظر عراق میں امریکی جمہوریت پر ڈالتے ہیں :

امریکہ کا دعوی تھا کہ عراق پر حملے کا مقصد عراقی عوام کو صدام حسین سے آزادی دلوانا اور وہاں پر جمہوریت کا قیام ہے ۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے عراق پر حملہ کیا ، صدام حسین کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا ( جو تاحال جاری ہے ) سب سے بڑھ کر عراق میں انتخابات کروائے ۔

            اس نام نہاد امریکی جمہوریت میں غیر جمہوری عنصر کس قدر شامل تھے اس کا اندازہ تو عراق حملے کے دوران کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال ، ابو غریب جیل میں انسانیت سوز مظالم سے ہی ہو جاتا ہے تاہم اس جنگ میں مارے جانے والے بے گناہ عراقیوں کی تعداد کا تعین خود ایک امریکی اخبار نے ہی کیا ہے ۔ یوایس اے ٹوڈے کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق امریکی حملوں کے بعد سے کم وبیش ایک لاکھ عراقی خواتین بچے مارے جا چکے ہیں جبکہ 16 نومبر 2005 کو اے پی نے امریکی نام نہاد جمہوریت کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گیارہ ستمبر کے حادثے کے بعد سے لے کر اب تک امریکہ 83 ہزار کو مشتبہ قرار دے کر گرفتار کر چکا ہے ۔ جبکہ ان میں سے 108 قید وبند کی صعوبتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے دوران حراست ہی ہلاک ہو گئے ۔

            عراق جنگ کے حوالے سے یہ امر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ صدر بش نے کس طرح حقائق کو مسخ کیا اور بعض صورتوں میں حقائق کی سرے سے عدم دستیابی کے سبب انہیں از خود گھڑا ۔ اس کے بعد کہیں جاکر عراق پر حملہ کرنے کا وقت آیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس امریکی جھوٹ کا پردہ کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکی اعلی حکام ہی چاک کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا کہ امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے 2003 میں عراق پر حملہ امریکہ کی غلطی تھی جسے وہ سدھارنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

            امریکہ کی عراق میں نام نہاد جمہوریت کے بعد اگر امریکہ کے اندر جمہوریت کی اصل صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی انتخابات میں کامیابی کے لیے بالعموم وہی ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں ، جن کی بنا پر وہ خود تیسری دنیا کو نکتہ چینی کا نشانہ بناتا ہے ، اس حوالے سے مذکورہ چینی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2005 میں نیویارک میں مئیر شپ کے انتخابات میں مائیکل بلوم نامی ارب پتی امیدوار نے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ۔ دھونس دھمکی جیسے دباؤ کے سستے طریقے تو تیسری دنیا کے غریب ملکوں کا خاصا ہیں اس لیے مئیر بلوم نے انتخابات میں حسب منشا نتائج کے لیے جدید طریقہ استعمال کیا اور ووٹوں کی قیمت لگا دی ۔ کہاجاتا ہے کہ مئیر بلوم نے فی ووٹ 100 ڈالر کی بولی لگائی ۔ پیسہ خرچ کرکے حسب منشا نتائج کا حصول امریکی سیاست میں اس قدر رواج پا چکا ہے کہ اب ‘‘لابنگ’’ باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق لابنگ سے وابستہ گروہوں کو سالانہ 2 ارب ڈالر کی خطیر رقم ادا کی جاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پیشہ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تقریبا 22 سو سرکاری ملازمین سمیت کانگریس کے اسٹاف ممبران اور ایگزیگٹو برانچ کے سابق سربراہ تک اس پیشے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی عوام کا اپنے لیڈروں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔ اکتوبر 2005 میں منعقدہ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 64 فیصد امریکیوں کو بھرپور یقین ہے کہ ان کے رہنما کرپٹ ہیں ۔ جبکہ 62 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں ۔

            گیلوپ اور یو ایس اے ٹو ڈے کے اشتراک سے ہونے والے ایک سروے میں 49 فیصد امریکیوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے امریکی کانگریس کے اراکین کو رشوت خور قرار دیا ۔ امریکیوں کی اپنے سیاست دانوں سے مایوسی کا تو یہ عالم ہے کہ سابق امریکی اٹارنی جنرل کے بقول امریکہ کو جمہوری ملک قرار دینا جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے ۔ دوسری جانب امریکی سیاست میں خواتین کو بھی آبادی کے لحاظ سے مناسب نمائندگی حاصل نہیں ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے امریکی خواتین آبادی کا 51 فیصد ہیں ، جبکہ ان کی امریکی کانگریس میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ امریکی کانگریس 535 ارکان پر مشتمل ہے۔ جبکہ اس ایوان میں خواتین محض 81 ہیں ۔ جو کل تعداد کا 15 فیصد بنتا ہے ، دوسری جانب ایوان نمائندگان میں بھی خواتین کی شرح فیصد 15.4 ہے ۔

            امریکہ میں خواتین کے استحصال کا سلسلہ محض سیاسی میدان تک محدود نہیں ہے بلکہ معاشی میدان میں بھی انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ محکمہ مردم شماری کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق امریکی مردوں کی 40798 ڈالر آمدنی کے مقابلے میں خواتین کی آمدنی محض 31223 ڈالر ہے ان اعدادوشمار کو اس تناسب میں بھی بیان کیا جاسکتاہے کہ مردوں کے 100 ڈالر کے مقابلے میں خواتین محض 77 ڈالر کماتی ہیں ۔ امریکہ میں خواتین کے معاشی استحصال کے بعد اگر معاشرہ میں ان کے مقام پر روشنی ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2005 میں ریاست کیلی فورنیا کے محض ایک شہر میں بے گھر خواتین کی تعداد میں 71 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ، ان اعداد وشمار کو اگر ضرب کر کے پورے امریکی معاشرے کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یقینا ایک خطرناک صورتحال سامنے آئی گی ۔ امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے ڈومیسٹک وائلنس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں ہر سال 1232 خواتین کو ان کے شوہر یا قریبی رشتہ داروں یا بالعموم دوست کی جانب سے قتل کیا جاتا ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق ہر تین میں سے ایک امریکی عورت کو گھر میں یا گھر سے باہر دفاتر اور سڑکوں پر مارا پیٹا جاتا ہے ۔ جبکہ اکتوبر 2005 میں ایف بی آئی نے ملک بھر میں رجسٹرڈ زیادتی کیسز کے حوالے سے بتایا کہ سال 2004 میں ان کی تعداد 94 ہزار 6سو 55 تھی ۔ رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس قسم کے کیسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ امریکی خواتین کی دگرگوں حالت سے قطع نظر امریکہ میں 1.35 ملین بچے بے گھر ہیں نتیجتاً وہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر رہنے کے لیے مجبور ہیں جبکہ نیویارک سٹی میں اس صورتحال کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہاں 20 فیصد ویلفیئر گھروں میں رہتے ہیں ، جہاں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے نیز 40 لاکھ امریکی بچوں کے ماں باپ بے روزگار ہوتے ہیں جہاں مناسب ماحول کی عدم دستیابی انہیں مجرم بنا دیتی ہے۔        

            مذکورہ چینی رپورٹ نے امریکی محکمہ انصاف کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 2004 کے آخر تک امریکی جیلوں میں قید بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ Human rights watch کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق 26 فیصد امریکی بچے کھیل ہی کھیل میں دوستوں کا اقدام قتل کرتے ہیں دریں اثنا اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے ایک لاکھ بچوں میں 97000 بچے 18 سال سے کم عمری ہی میں مجرم ثابت ہو جاتے ہیں

            امریکی معاشرہ جس قدر انحطاط پذیر ہے اس لحاظ سے مذکورہ حقائق تو نہایت مختصر جائزہ ہیں تاہم مذکورہ رپورٹ میں حقائق کو اعداد وشمار کے ساتھ بحسن وخوبی بیان کیا گیا ہے ، تاہم طوالت کے باعث ان کو مذکورہ سطور میں قلم بند کرنا ممکن نہیں ۔ البتہ اس رپورٹ میں امریکی ذرائع ابلاغ او رصحافت کے حوالے سے جو منظر کشی کی گئی ہے وہ امریکی جمہوریت اور اظہار رائے کے فلسفے پر طمانچہ رسید کرنے کے مترادف ہے۔ عراق جنگ میں امریکہ نے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے جہاں دیگر ہتھکنڈے استعمال کیے وہیں اس مقصد کے لیے صحافیوں کو مارا پیٹا گیا، ان کے کیمرے بھی چھینے گئے اور بس نہ چلاتو انہیں بھی گوانتانامو بے جیل کی ہوا کھلا دی گئی ۔ اس حوالے سے پیش آنے والے ایک واقعہ میں امریکی فوجیوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے وابستہ صحافیوں اور اے پی کے لیے فوٹو گرافی کرنے والے فوٹو گرافروں کو بری طرح مارا پیٹا ان کو شدید زدوکوب کرنے کے بعد انہیں گولیاں مار دی گئیں ۔ اس موقع پر دو عراقی رپورٹربھی صحافیوں کے ہمراہ تھے جنہوں نے بمشکل بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں ، بعد ازاں انہوں نے اس واقعے کو پریس تک پہنچایا ۔ اسی طرح ایک دوسرے واقعے میں امریکی فوجیوں نے 9 مقامی صحافیوں کو جن میں سے ایک الجزیرہ کے لیے کام کرتا تھا گرفتار کر کے گوانتانامو بے بھیج دیا ۔ جبکہ ایک اور واقعے میں ایک خاتون صحافی کو محض اس لیے جیل بھیج دیا گیا کہ اس نے اپنی خبر کا ذریعہ بتانے سے انکار کر دیا تھا ۔

عراق سے ہٹ کر اگر امریکہ کے اندر ذرائع ابلاغ اور آزادی صحافت کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے آزادی صحافت کے تمام تر ڈھنڈورے پیٹنے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اپنے ذرائع ابلاغ کو پوری طرح سے کنٹرول کرنے کی سعی میں ہے ۔اس حوالے سے 13 مارچ 2005 کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکام ٹی وی چینلوں کو ، پری پیکج نیوز رپورٹ فراہم کرتے ہیں جس کامطلب میڈیا کو اپنے مطلب کی خبریں فراہم کرنا ہے اخبار کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ گزشتہ چار سال سے جاری ہے ، دریں اثنا قطر میں الجزیرہ ٹی وی پر امریکی حملے کے منصوبے کے منظر عام پر آنے کے بعد تو امریکی آزادی صحافت کے دعوے کی قلعی خوب ہی کھل گئی ہے ۔

             اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ میں ایک بھونچال سا آگیا ہے اور یہ امریکی رد عمل اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ امریکہ کے لیے نہ تو حقائق کو جھٹلانا ممکن ہے اور نہ ہی یہ تلخ حقیقت امریکی حکام سے ڈھکی چھپی تھی ۔

بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ دنیا کو ڈکٹیٹ کرنے کے بجائے حقیقت کے آئینے میں کڑوے سچ کا سامنا کرنا سیکھے اور دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے پہلے اپنے اندرونی معاملات درست کرے !! (بشکریہ: : ہفت روزہ ایشیا ، لاہور )