کیا اسلام تلوارکے زور سے پھیلا ؟

مصنف : مولانا عبدالرحمان کیلانی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : جون 2006

اگرچہ اس موضوع پر بہت لکھا جاچکاہے تاہم مصنف کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس مضمون کو قند مکر ر کے طور شائع کر رہے ہیں مصنف کی بعض باتیں اگرچہ محل نظر ہیں تاہم بحثیت مجموعی تحریر میں بہت سے نکات قابل غور اور قابل ستائش ہیں۔

            مخالفین اسلام نے یہ پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ۔ ہمارے خیال میں یہ اعتراض نہ نقلی اعتبار سے درست ہے نہ عقلی اعتبار سے اور نہ تاریخی اعتبار سے ۔ ذیل میں ہم انہی باتوں کا مختصر سا جائزہ پیش کر رہے ہیں ۔

نقلی اعتبار سے یہ اعتراض درج ذیل آیات کی رو سے غلط ہے ۔

            ۱) لااکراہ فی الدین (۲:۲۵۶) دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں ۔

            ۲) افانت تکرہ الناس الا یکونوا مومنین (۱۰:۹۹) کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے ؟

            ۳) فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (۱۷:۲۹) جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔

            ایسی واضح آیات کی موجودگی میں کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہﷺ یا آپ کے صحابہ کرامؓ نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہوگی اور کسی شخص کو تلوار دکھا کر یا کسی دباؤ کے ذریعہ اسلام لانے پر مجبور کیا ہو گا ؟ ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ‘‘اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دو تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے ۔ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو۔’’ غور فرمائیے کہ دباؤ کا اس سے بہتر بھی کوئی موقع ہو سکتا ہے ۔ لیکن اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو کہ وہ اسلام لائے یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دو بلکہ یوں فرمایا کہ اسے اللہ کا کلام سنانے کے بعد اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ پھر اگر وہ اسلام لانے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس کے محفوظ علاقہ تک پہنچانا بھی پناہ دینے والے کے ذمہ ڈال دیا گیا ۔

کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ؟

            سیدنا عمرؓ جس شان وشوکت اور رعب ودبدبہ والے خلیفہ تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ آپ کا ایک غلام اسبق نامی عیسائی تھا ۔ وہ چونکہ سمجھدار اور ہوشیار آدمی تھا لہذا سیدنا عمرؓ نے اسے کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو ہم مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے ۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ اسے کوئی اچھا منصب دینا چاہتے ہیں ۔ لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکار کر دیتا اور آپ لا اکراہ فی الدین کہہ کر چپ ہو جاتے ۔ گویا تلوار یا دباؤ کے ذریعہ تو سیدنا عمرؓ اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ وسیع وعریض مفتوحہ علاقہ میں انہوں نے مفتوحین کو تلوار کے ذریعہ مسلمان بنالیا ہو گا؟

             عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لیے غلط ہے کہ تلوار کے ذریعہ کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی اور کوئی شخص وقتی طور پر دباؤ کے تحت بات مان بھی جائے تو اسے بات پر قائم ودائم نہیں رکھا جا سکتا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ دل و جان سے اسلام کے اس طرح فدائی وشیدائی بن گئے کہ کفار کے ظلم اور مصائب برداشت کرتے رہنے کے باوجود اس دین سے باز نہیں آتے تھے اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تلوار یا دباؤ سے بات منوائی نہیں جا سکتی ۔ کیونکہ اس وقت تلوار یا دباؤ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھا اور آج بھی اگر کوئی شخص یا کوئی حکومت دعوی کرتی ہے کہ دین کو تلوار کے ذریعے پھیلانا ممکن ہے تو اپنا دین پھیلا کر دکھا دے ۔

             تاریخی لحاظ سے یہ اس لیے غلط ہے کہ اگر اس نظریے کو تسلیم کر لیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں ابھر آتے ہیں ۔

            ۱) ابتدا جو لوگ مسلمان ہوئے اور ۱۳ سال تک ظلم وستم کی چکی میں پستے رہے ، انہیں کون سی تلوار نے مسلمان بنایا تھا ؟

            ۲) مکہ میں مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے لیکن مدینہ میں دشمنوں کی تعداد ایک سے چار ہو گئی تھی۔ قریش مکہ ، یہود مدینہ ، منافقین اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور مسلمان ان کے مقابلہ میں انتہائی کمزور تھے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ بدر میں شامل ہونے والوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی جبکہ ایک سال کے بعد جنگ احد میں خالص مسلمانوں کی تعداد ۷۰۰ تھی یعنی دگنی سے بھی زیادہ ۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار تھی کہ اسلام اس تیز ی سے بڑھنے لگا تھا ؟

            ۳) مزید دو سال بعد جنگ خندق میں لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد ۳۰۰۰ یعنی چار گنا سے زیادہ ہو گئی تھی ۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار یا قوت تھی جو لوگوں کو مسلمان بنائے جار ہی تھی ؟

            ۴) صلح حدیبیہ میں کونسی تلوار چلائی گئی تھی جس کے نتیجہ میں لوگ دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے ؟

            ۵) فتح مکہ میں تلوار تو چلائی ہی نہیں گئی تاہم فتح کے بعد جب لوگوں کو عام معافی مل گئی تو انہیں اسلام لانے پر کون سی تلوار نے مجبور کیا تھا ؟

            ۶) یہود سے جو جنگیں ہوئیں تو ان کے نتیجہ میں کوئی یہودی مسلمان بنا تھا ؟

            ۷) طائف کا محاصرہ اٹھالینے کے بعد اہل طائف کو کونسی مجبوری پیش آگئی تھی کہ وہ از خود اسلام لے آئے تھے ؟

 اشاعت اسلام کے اصل اسباب

            مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلنے کا نظریہ غلط ہے لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ‘‘اسلام واقعی نہایت کثرت سے پھیلا تھا ۔’’ لہذا ہمیں وہ اسباب تلاش کرنے چاہیےں جو اس کثرت اشاعت اسلام کا سبب بنے ۔ ہمارے خیال میں یہ اسلام کی ذاتی خصوصیات ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔

معاشرتی مساوات

             کثرت اشاعت اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب معاشرتی مساوات ہے یعنی جب کوئی شخص یا قوم اسلام لاتی ہے تو اسے سابقہ مسلمانوں جیسا معاشرتی درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے اور سمجھے جاتے ہیں ۔ اگر چہ اس کی مثالیں قرون اولی میں بے شمار ہیں مگر ہم طوالت سے بچنے کی خاطر اپنے ہی ملک کی ایک دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں ۔

            الف : ۴ جولائی ۱۹۸۱ کے نوائے وقت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ‘‘جنوبی بھارت میں اونچی ذات ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آکر ۱۳۰۰ ہریجنوں نے اسلام قبول کر لیا ۔’’ غور فرمائیے کہ اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن بھی ہندو ہیں اور نیچی ذات کے ہریجن بھی ہندو ہی ہیں لیکن محض معاشرتی تفاوت کی بنا پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ، آخر انہیں کونسی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا ؟ پھر دوسرے دن یعنی ۵ جولائی کو اسی نوائے وقت میں ہندوستان کی وزیراعظم مسز اندراگاندھی کی طرف سے یہ خبر شائع ہوئی کہ ‘‘مجھے تکلیف ان لوگوں کے اسلام لانے پر نہیں بلکہ اسباب پر ہے ۔’’ اور یہ ‘‘اسباب’’ جن پر وزیراعظم صاحبہ کو تکلیف ہوئی وہ ان کے مذہب کا جزولاینفک ہیں ۔ ہندو مت ، برہمن کو تو بالاتر مخلوق سمجھتا ہے اور شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ شودر برہمن کا پیدائشی غلام ہے اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت میں اس کی گردن سے اتر نہیں سکتا ۔ انہیں ‘‘اسباب’’ کو اسلام نے ختم کیا اور انہیں اسباب کے خاتمے کی وجہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندستان میں بھی پھیلا ۔

            اب یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ان ہریجنوں نے ہندو مذہب کی اس انسانیت کش ذات پات کی تقسیم سے تنگ آکر آخر اسلام ہی کیوں قبول کیا، کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کر لیا اس بات کا جواب آپ کو درج ذیل واقعہ سے مل جائے گا ۔

            ب: ۳۱ جولائی ۱۹۸۱ نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ‘‘پانڈی چری میں ڈیڑھ ہزار ہریجن مسلمان ہو گئے ’’ اور ۳۰ جولائی یعنی ایک دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ ہریجنوں کے لیڈر مسٹر کرشنا مورتی نے اسلام لانے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے ان کی سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی لیکن اسلام لانے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے ۔ ہمارا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں …… واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع منبا کشی پور میں ہریجنوں نے اجتماعی طور پر مذہب اسلام قبول کر لیا ہے ۔’’ (نوائے وقت حوالہ مذکورہ صفحہ ۵)

 تہذیب و معاشرت کی مساوات

            اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج کے جمہوری اور مہذب ترین ممالک میں گورے او رکالے کے جھگڑے ، امیر اور غریب کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ عیسائیوں کے ہاں امرا کے گرجے ہی الگ ہوتے ہیں اور بعض گرجوں میں امرا کے لیے کرسیاں اور غریبوں کوفرش پر بیٹھنا پڑتا ہے ۔ لیکن اسلام ہر طرح کے امتیازات کو ختم کر کے سب کوا یک صف میں لا کھڑا کر تا ہے ۔ یہاں بلال حبشیؓ جیسے پست قد ، کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے آزاد شدہ غلام کو رسول اللہﷺ فرمایا کرتے کہ ارحنا یا بلال اور سیدنا عمرؓ جیسے رعب ودبدبہ والے خلیفہ آپ کو سیدنا بلال کہہ کر پکارا کرتے تھے اور یہ خوبی غالباً اسلام کے علاوہ دوسرے کسی دین میں نہیں پائی جاتی ۔

 قانونی مساوات

            اشاعت اسلام کا دوسرا سبب قانونی مساوات ہے ۔ قانونی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز سے ممتاز فرد حتی کہ امیر یا صدر یا بادشاہ بھی قانون کی دسترس سے بالاتر نہیں ہوتا اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اسلامی ریاست کے علاوہ کہیں پایا جانا ممکن نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی ریاست کا اقتدار اعلی خود اللہ کی ذات ہوتی ہے ۔ کوئی ایک ادارہ یا فرد یا پارلیمنٹ نہیں ہوتی ۔ باقی سب لوگ اللہ کے ایک جیسے محکوم اور اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں ۔ اور جمہوریت کا دعوی کرنے والے ممالک حتی کہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ صدر مملکت ، وزیر اعظم ، گورنر اور وزرائے اعلی پر نہ تو کوئی فوجداری مقدمہ قائم ہو سکتا ہے اور نہ انہیں عدالت کسی فوجداری مقدمے میں ملوث قرار دے سکتی ہے۔ اور ملک کی کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی انہیں طلب نہیں کر سکتی ۔ جبکہ اسلامی ریاست کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ خود رسول اللہﷺ نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کر دیا کہ ‘‘جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے ’’ پھر جب آپﷺ کے قبیلہ قریش کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ سے حد موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپﷺ نے فرمایا ‘‘پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب یہی تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتا تو اس کی سزا موقوف کر دی جاتی ۔ یہ فاطمہ مخزومی کی بات ہے اللہ کی قسم ! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کا ٹ دیتا ۔’’

            پھر آپﷺ کے بعد آپ کے خلفا نے ایسا نظام عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلاتاخیر انصاف حاصل ہو تا تھا ۔ خلافت راشدہ کے دوران میں کئی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر مقدموں کا فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا:

            دور فاروقی میں شام کے گورنر سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے سیدنا معاذ بن جبلؓ کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا ۔ شہنشاہ کا دربار اور اس کی شان وشوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا : ‘‘تم لوگوں کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان ومال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جسے اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا ۔ اگر وہ زنا کرے تو اسے درے لگائے جائیں، چوری کرے تو ہاتھ کا ٹ ڈالے جائیں۔ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا ، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا اور مال ودولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں ۔’’

            سیدنا علیؓ کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہو گئی جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو سیدنا علیؓ نے یہ نہیں کیا کہ اس یہودی سے اپنی زرہ چھین کر اسے کیفرکردار تک پہنچا دیا بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس پر دعوی دائر کر دیا اور اپنے بیٹے حسن اور غلام کو گواہ کے طور پر پیش کیا ۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کر دیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں قبول نہیں اور عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوتے حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل او رثقہ ہیں ۔ عدل کی یہ صورت دیکھ کر اس یہودی نے زرہ بھی واپس کر دی اور خود بھی مسلمان ہو گیا ۔

            غور فرمائیے کہ اس یہودی کو اسلام لانے پر کس نے مجبور کیا تھا اور کیا وہ اکیلا ہی مسلمان ہوا ہو گا یا اس کاخاندان اور قبیلہ بھی ۔ ایسے واقعات دراصل انفرادی نتائج کے حامل نہیں ہوتے بلکہ ایک جہان کے افکار ونظریات میں تلاطم برپا کر دیتے ہیں ۔

 کردار کی پاکیزگی

            اشاعت اسلام کی تیسری وجہ مسلمانوں کے اپنے کردار کی پاکیزگی ہے ۔ صدر اول کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ ان کا اپنا عمل اور کردار تھا ۔ ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے پاک تھی حتی کہ دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا ۔ چنانچہ حمص اور دمشق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ عیسائی انطاکیہ پہنچے اور ہرقل شہنشاہ روم سے فریا د کی کہ اہل عرب نے تو تمام شام کو پامال کر دیا ۔ ہرقل نے ان میں سے چند تجربہ کار اور معزز آدمیوں کو دربار میں بلا کر پوچھا کہ عرب تم سے نہ جمعیت میں زیادہ ہیں نہ سروسامان اور قوت میں۔ پھر تم ان کے مقابلہ میں ٹھہر کیوں نہیں سکتے ؟ اس سوال پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا البتہ ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ : ‘‘بات یہ ہے کہ اہل عرب کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں اور وہ رات کو عبادت کرتے او ردن کو روزے رکھتے ہیں ۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے او رایک دوسرے کے ساتھ برابری سے ملتے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں ، بدکاریاں کرتے ہیں ۔ عہد کی پابندی نہیں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو بھی کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے ۔ ’’

            محمد بن قاسم سندھ اور ملتا ن کے علاقہ میں تھوڑی ہی مدت رہا ۔ وہ عظیم جرنیل ہونے کے علاوہ صفات جہاں بانی سے بھی مالا مال تھا ، رعایا ، حکومت اور سندھی بت پرستوں سے مذہبی رواداری نے سندھیوں کے دلوں کو کچھ اس طرح سے موہ لیا تھا کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس گیاتو سندھی اس کی تصویریں بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے وہ اسے رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے ۔ پھر جب انہیں محمد بن قاسم کی دردناک موت کا علم ہوا تو سارے ملک نے سوگ منایا ۔ یہ سندھی لوگ مسلمان نہیں تھے ۔ پھر آخر وہ کیا چیز تھی جس نے انہیں محمد بن قاسم کا اتنا گرویدہ بنا دیا تھا ، محمد بن قاسم نے بھی انہیں مسلمان بنانے کی ہر گز کوشش نہیں کی تھی لیکن ان باتوں کے باوجود وہ از خود اسلام کے قریب تر آرہے تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان بھی ہو گئے تھے ۔ کیا یہ بھی تلوار کا کرشمہ تھا ؟

 معاملات کی صفائی

            اشاعت اسلام کا چوتھا سبب مسلمان کے معاملات کی صفائی ہے ۔ اسلام میں اکل حلال کو بہت اہمیت حاصل ہے وہ جائز وناجائز مال کی بڑی تفصیل سے وضاحت کرتا ہے اور ناجائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو حرام قرار دیتا ہے ۔ لین دین اور معاملات کی صفائی ایسے حالات میں ایک امتحان بن جاتی ہے جب کسی محنت یا حق کا معاوضہ تو پیشگی لیا جائے اور اس حق یا محنت کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اختیار بھی کلیتاً معاوضہ وصول کرنے والے کے ہاتھ میں ہو۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص یا ادارہ جائز وناجائز حلال وحرام میں تمیز کرتا ہے تو وہ فی الواقع قابل تعریف ہے اور دوسرے لوگ اس کے کردار کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ شام کی فتوحات کے سلسلے میں کچھ جنگی مصلحتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو حمص سے واپس دمشق جانا پڑا ، مسلمانوں کے سپہ سالار عبیدہ بن جراحؓ اہل حمص سے جزیہ وصول کر چکے تھے اور ان کی دفاعی حفاظت کی ذمہ داری قبول کر چکے تھے ۔ آپ نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا ‘‘ہمیں جو تعلق تمہارے ساتھ تھا وہ اب بھی ہے مگر چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے لہذا تمہارا جزیہ جو اس خدمت کا معاوضہ تھا تمہیں واپس کیا جاتا ہے ۔’’ چنانچہ آپؓ نے کئی لاکھ وصول شدہ رقم واپس کر دی ۔ عیسائیوں پر اس واقعے کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے خدا تمہیں واپس لائے اور یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا ۔ انہوں نے کہا ‘‘ تورات کی قسم! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا ، یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیے گئے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا ۔

 عفوو درگزر

            اشاعت اسلام کا پانچواں سبب عفو ودرگزر ہے ۔ جب کسی جانی دشمن پر پوری طرح قابو پالیا جائے اس وقت اس کے جرائم سے چشم پوشی کر کے اسے معاف کر دینا بڑے دل گردہ کا کام ہے ۔ فتح مکہ ایسی جنگ ہے جس میں دشمن پر پوری طرح تسلط حاصل ہوا اگر اس وقت رسول اللہﷺ ان سے بھرپور بدلہ لے لیتے تب بھی ان کی طرف سے کسی انتقامی کارروائی کا اسلام کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا تھا اور یہی لوگ اسلا م کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے جانی دشمن تھے اس کے باوجود آپﷺ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام اس تیزی اور کثرت سے پھیلا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔

            صلح حدیبیہ کے دوران میں ابتدا ۲۰۰ نوجوان مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے مگر شکست کھا کر گرفتار ہو گئے ، آپﷺ نے ان سب کو خیر سگالی کے طور پر چھوڑ دیا اور اس وقت چونکہ حضور عمرہ کی نیت سے آئے تھے لہذا بیعت رضوان مکمل ہونے کے بعد آپ نے توہین آمیز شرائط پر صلح کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان فطرتاً جنگجو نہیں بلکہ صلح پسند ہیں ۔ اس صلح کے بعد بھی اسلام کی خوب اشاعت ہوئی اور اس میں تلوار یا جبر کا کچھ عمل دخل نہ تھا بلکہ بظاہر مسلمانوں کی خفت تھی ۔ لیکن نتیجہ اشاعت اسلام کی صورت میں سامنے آیا۔

 قول فیصل

            یہ اور اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جو اشاعت اسلام کا سبب بنیں ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کو بھی ایک گونہ تعلق ضرور ہے خواہ یہ دسواں حصہ ہی کیوں نہ ہو ۔ معاندین اسلام اپنا سارا زور اس بات پر صرف کر دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔ یہ لوگ بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں ۔ دوسرا گروہ یعنی مسلمان اپنا سارا زور اس الزام کی مدافعت میں صرف کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت محض اس کی خوبیوں کی بنا پر ہوئی ۔ ہمارے خیال میں یہ گروہ بھی دوسری انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ مانا کہ اسلام میں یہ خوبیاں موجود ہیں لیکن ان خوبیوں کو آشکار کرنے اور ‘‘حق’’ کو بروئے کار لانے کے لیے بھی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ قوت اسلام کو تلوار کے ذریعہ مہیا ہوئی ۔ اگر اشاعت اسلام میں تلوار کا کچھ بھی حصہ نہ تھا تو جہاد کی ترغیب کیوں دی گئی ؟ اور کیا مکہ میں رہ کر اسلام باور آور نہ ہو سکتا تھا ؟

 اشاعت اسلام میں تلوار کا حصہ

            حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے دو حصے ہیں (۱) امر بالمعروف (۲) نہی عن المنکر ۔ امر بالمعروف کو ماننا یا نہ ماننا مخاطب کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ایک شخص اگر کسی دوسرے کو عقیدہ توحید یا آخرت یا اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے اور وہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اس پر نہ جبر کیا جا سکتا ہے اور نہ تلوار سے ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے اور جہاں تک نہی عن المنکر کا تعلق ہے تو یہ فریضہ قوت یا تلوار کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ اسلام محض عقائد ونظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید قانون ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور اس قانون کے نفاذ کے لیے قوت چاہتاہے ۔ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو ، چوری ، ڈاکہ ، قتل وغارت کی وارداتیں ہو رہی ہوں ، لوگوں کا امن وچین غارت ہو رہا ہو تو اسلام کا قانون حرکت میں آئے گا اور تلوار ہاتھ میں لے کر اس کی اصلاح کرے گا ۔ خواہ یہ علاقہ مشرکین کا یا اہل کتاب کا ہو اور خواہ اس میں مسلمان بھی رہتے ہوں مکی زندگی میں رسول اللہﷺ کے پاس قوت نہیں تھی لہذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر دونوں طرح کے کام زبانی تبلیغ سے سرانجام دیے جاتے رہے ۔ قرآن جیسا معجزانہ کلام ، آپﷺ سا بلند کردار ، آپﷺ کے جانثاروں کی قربانیاں ، آپﷺ کا تبلیغ میں اپنی جان تک کھپا دینا اور بہترین طریقہ تبلیغ ، ان سب طرح کی کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہو سکا کہ قریش ایمان لے آتے ۔ بے شک وہ اسلام کی حقانیت کے دل سے معترف ہو چکے تھے لیکن اسلام اپنا ضابطہ اور پابندیاں بھی عائد کرتا ہے جو انہیں گوارا نہ تھیں نیز انہیں عرب بھر میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے جو مقام حاصل تھا اسلام لا کر وہ اس سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہ تھے ۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگ ڈنڈے کے بغیر کبھی سیدھے نہیں ہو سکتے ، لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی نہیں مانتے ۔ تلوار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی بگڑی ہوئی طبیعتوں کو راہ راست کی طرف لاتی اور راستہ کی ایسی رکاوٹوں کو دور کر دیتی ہے ۔ کیونکہ جب تک تعصب اور ہٹ دھرمی کا علاج نہ کیا جائے تبلیغ خواہ کتنی ہی دلنشین انداز میں ہو غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اگر تلوار کا اشاعت اسلام میں کچھ حصہ نہ ہوتا تو رسول اللہﷺکو مکہ سے ہجرت کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی ۔ تلوار کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ تبلیغ کے بیج کے لیے زمین کو نرم کر دیتی ہے ۔ اسلام کی تلوار نے حق کے دشمن ، معاند اور ہٹ دھرم قوتوں کا قلع قمع کر کے اسلام کے بیج کے لیے زمین کو ہموار اور نرم بنا دیا ۔ اسلام کے بیج میں اتنی اہلیت اور قوت ہے کہ اگر اسے سازگار فضا میسر آجائے تو پھل پھول کر تناور اور سدا بہار درخت بن سکتا ہے ۔

 (بشکریہ : ماہنامہ نداء الاسلام ، پشاور )