تلخ حقائق

مصنف : سید تاثیر مصطفی

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : جون 2006

بیرون ملک اہم خدمات انجام دینے والے، اعلی تعلیم یافتہ پاکستانی ،جذبہ حب الوطنی کے تحت جب

 پاکستا ن واپس آتے ہیں تو ان کا کیا حشر ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک

            پاکستان کی ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی اقتدار سنبھالا تھا تو اس کے بقول ہر شعبے میں تباہی اپنے عروج پر تھی ۔ بلکہ اسی سیاسی ، سماجی ، اخلاقی ، تعلیمی ، صنعتی ، زرعی ، معاشی اور مالی تباہی کو روکنے کے لیے توجناب صدر کو اقتدار میں آنا پڑا تھا ۔ یہ حکومت پہلے چند ماہ تو سابقہ حکومت کی غلطیوں ، کوتاہیوں اور تباہیوں کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ۔ ہر روز سرکاری سرپرستی میں پلنے والے کسی قلم کار کے ذریعے کسی شعبے کی تباہی کی داستان سامنے آتی رہی۔یہ داستانیں اہتمام کے ساتھ اخبارات میں نمایاں انداز میں شائع کروائی جاتی رہیں ۔ پھر ان پر تبصروں اور تجزیوں کے سلسلے شروع ہو گئے ۔ اس طرح جب کئی ماہ گزر گئے تو ہر حکومت کی طرح اس حکومت کو بھی فکر ہوئی کہ محض سابقہ حکومت کی برائیوں سے تو کام نہیں چلے گا کچھ خود بھی کر کے دکھانا پڑے گا ۔ چنانچہ نام نہاد دانشوروں سے مشورے کے بعد حکومت نے مخصوص طور پر دو شعبوں کا انتخاب کیا کہ وہ ان شعبوں میں آسمان سے تارے توڑ لائے گی ۔ ان میں سے ایک معاشی شعبہ تھا اور دوسرا تعلیمی خصوصاً انفارمیشن ٹیکنالوجی ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے جناب شوکت عزیز او رڈاکٹر عطا ء الرحمان کا انتخاب کیا گیا اور ان دونوں حضرات نے آتے ہی طوفان اٹھا دیا کہ یہ کریں گے اور وہ کریں گے ۔ یہ حضرات اپنی ہر تقریر ، بیان اور انٹرویو میں کوئی نئی ، مشکل اور پیچیدہ سی اصطلاح استعمال کر کے لوگوں کو متاثر کرنے لگے ۔ ایسے ایسے منصوبے پیش کیے گئے کہ لگتا تھا کہ اگلے دو تین برس میں پاکستان معاشی میدان میں جاپان سے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ سے آگے نکل جائے گا ۔ اس پراپیگنڈہ مہم کے دوران خاص طور پر یہ بات بار بار کہی گئی کہ غیر ممالک میں بڑی تعداد میں پاکستانی ماہرین موجود ہیں جنہیں ہم پاکستان واپس لائیں گے تاکہ ان کی صلاحیتوں سے اس ملک کو فائدہ پہنچے ۔ نیز مختلف شعبوں میں نئے ماہرین پیدا کریں گے اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا وطالبات کو خصوصی وظائف دیں گے ۔ یہ واقعی ایک مسئلہ تھا کہ اس کے عالی دماغ ڈالروں کے لالچ میں اپنی صلاحیتوں سے دوسرے ممالک کو فائدہ پہنچائیں۔ ان افراد کی جہاں ملک کو ضرورت تھی وہاں یہ لوگ خود بھی جذبہ حب الوطنی اور خدمت خلق کے تحت وطن واپس آنا چاہتے تھے چنانچہ عمومی سطح پر اس حکومتی پالیسی کی تعریف ہوئی مگر عملاً کیا ہوا اس کا بھانڈا ایک قومی اخبار کے معروف کالم نگار کے نام چھپنے والے ایک خط میں حال ہی میں پھوٹ گیا

            یہ خط ایک ممتاز ماہر تعلیم کی بیوی کا خط ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ ان کے تین بچے امریکہ کی اعلی ترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور امریکی یونیورسٹیوں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے اس پالیسی کے بعد وہ باری باری پاکستان آئے ، ایک کو تو پاکستان میں کسی نے منہ ہی نہیں لگایا ۔ جن دو کو تھوڑی پذیرائی ملی انہیں تین تین ماہ کا کنٹریکٹ بمشکل دیا گیا۔ اس عرصہ میں ان سے ان کے مخصوص شعبہ میں کوئی کام نہیں لیا گیا اور مدت کنٹریکٹ ختم ہونے پر اس کنٹریکٹ میں کوئی توسیع نہ کی گئی ۔ اس طرح عملاً یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ کوئی زیادہ باصلاحیت اور اہل افراد نہیں ہیں ۔ چنانچہ یہ تینوں افراد واپس چلے گئے لیکن تماشہ دیکھیے کہ ان تینوں افراد کو فوراً ہی امریکی یونیورسٹیوں میں کام مل گیا اور یہ آج بھی وہاں اپنے اپنے شعبے میں خدمت انجام دے رہے ہیں ۔

            یہ ایک مثال ہے جو اتفاق سے سامنے آئی ہے ۔ اگرچہ اس طرح کی کئی دوسری مثالیں بھی ارباب بست وکشاد کے علم میں آتی رہی ہیں مگر عملاً اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ باہر کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا لوہا منوانے والے لوگ جب اپنے وطن کی خدمت کے لیے پہنچے تو یہاں اعلی عہدوں پر متمکن نااہل ، سازشی ، اقرباپرور اور پست ذہن لوگوں نے انہیں کا م ہی نہ کرنے دیا ۔ وہ مایوس ہو کر واپس امریکہ ، برطانیہ اور یورپ چلے گئے اور آج بھی مغربی دنیا میں ان کی صلاحیتوں کا طوطی بولتا ہے ، سینکڑوں پاکستانی ڈاکٹرز ، انجینئرز ، ماہرین معاشیات ، سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں کام کرنے والے افراد ، طبیعات نباتیات ، معدنیات ، اقتصادیات ، عمرانیات اور دوسرے علوم کے ماہرین غیر ممالک میں موجود ہیں ۔ مغربی دنیا ان کے علم و مہارت کی قدر دان بھی ہے مگر پاکستان میں کوئی انہیں گھاس ڈالنے کو تیار نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان افراد کی آمد سے یہاں بڑ ے بڑے علمی وعملی شعبوں پر قابض نااہل ، شازشی ، کام چور اور علم دشمن افراد ان کے راستے کی رکاوٹ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ باہر سے آنے والے لوگ کام کرنے لگے تو یہاں قابض افراد کی چھٹی ہو جائے گی ۔ یہی خوف قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ چند سال قبل واشنگٹن کے ایک ہسپتال کے معروف اور کامیاب ترین نیورو سرجن پاکستان آئے ۔ وہ 5 ماہ تک کراچی میں بیٹھے رہے ۔ حکومت نے انہیں چند ہزار روپے کی نوکر ی تو دے دی مگر نااہل افراد نے پانچ ماہ میں ان سے ایک آپریشن بھی نہ کروایا ۔ چنانچہ وہ یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ یہاں بیٹھے بیٹھے تو وہ اپنا کام ہی بھول جائیں گے ۔ وہ آج کل بھی واشنگٹن کے ایک ہسپتال کے سینئر سٹاف میں شامل ہیں اور اپنی مہارت کے باعث انہیں عزت واحترام سے دیکھا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رویہ پہلے دن سے موجود تھا اور اس کے تدارک کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ تباہ کن رویہ عملاً ‘‘ایک پالیسی’’کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔ 1948 میں پاکستان سے جس خاتون پروفیسر کو جوہری سائنس میں اعلی تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا گیا تھا اسے کام مکمل ہونے سے پہلے ہی واپس بلا لیا گیا ۔ برطانوی حکومت نے انہیں برطانوی شہریت لینے کی صورت میں اپنا کام جاری رکھنے کی پیش کش بھی کی مگر وہ حب الوطنی کے جذبے کے تحت واپس آگئیں ۔ مگرکئی سال تک اس میدان میں کوئی کام نہ ہو سکا ۔

            ڈاکٹر برہان احمد فاروقی معروف سکالر تھے ۔ صدر ضیا الحق کے کہنے پر ان کی خدمات پنجاب یونیورسٹی کے حوالے کی گئیں مگر چار ماہ تک انہیں چپڑاسیوں کے کمرے میں بٹھائے رکھا گیا اور کوئی کام نہ لیا گیا ۔ جس کے بعد وہ از خود مایوس ہو کر گھر آگئے ۔ صرف تعلیم ہی نہیں قانون ، بینکنگ ، انکم ٹیکس ، صنعت غرض ہر میدان میں ہم اس صورتحال سے دوچار ہیں ۔ گو یہ کام پہلے دن سے ہی جاری ہے مگر اب شاید اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے ، بدقسمتی سے اس سلسلے میں حکومتی دعوے بڑ ے خوش کن ہیں مگر زمینی حقائق بہت تلخ ہیں …… ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک اعلی اختیاراتی کمیٹی اس ساری صورتحال کا جائزہ لے ۔ اس طرح کے کیسوں کا تجزیہ کرے اور نہ صرف اس سلسلے میں اپنی سفارشات تیار کرے بلکہ ایسے افراد اور اداروں کی نشان دہی بھی کرے جو جو ہر قابل کی پاکستان واپسی میں رکاوٹ ہیں ۔ (بشکریہ : ہفت روزہ ایشیا ، لاہور )