اردو اور ہمارے اخبارات

مصنف : ایک تحقیقی جائزہ

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : جون 2006

عصر حاضر کے اردو اخبارات کی صحافتی زبان کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ اردو اخبارات میں انگریزی،پنجابی ،سرائیکی اور دوسری مقامی زبانوں کے الفاظ کی غیر ضروری آمیزش نظر آتی ہے، جب کہ ان مقامی زبانوں کے اکثر الفاظ ایسے ہیں جن کے متعلق عامیانہ پن کا شائبہ گزرتا ہے۔ حالاں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں یہ گنجائش بالکل موجود ہے کہ مختلف علوم کے تصورات اور کیفیات کو آسانی کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اردو ایک گونگی زبان نہیں ہے بلکہ ایک متحرک اور زندہ زبان ہے۔ اس ساری صورت حال کا بنظر غائر جائزہ لینے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ قصور اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کا ہے جن کا ذخیرہ الفاظ محدود ہے۔ زیر نظر تحقیقی مضمون میں اردو اخبارات میں مستعمل انگریزی و علاقائی زبانوں کے لفظیات کے موزوں متبادل بیان کیے گئے ہیں تا کہ ان متبادل لفظیات کو استعمال کر کے اردو اخبارات کی صحافتی زبان کا معیار مزید بہتر بنایا جاسکے اور زبان کے حسن کو مزید داغ دار ہونے سے بچایا سکے۔

            ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت سات ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جب کہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں انگریزی، چینی اور اردو بالترتیب پہلے،دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں میں شاید ہی کوئی ایسی ہو جس میں غیر زبان کے الفاظ شامل نہ ہوں۔ اس کی وجہ فاتح اقوام کی زبان اور ثقافت کا مفتوحین پر اثر انداز ہونا ہے۔ اردو پر انگریزی کے اثرات کے متعلق ایک تحقیق کے مطابق انگریزی میں ایک سو بیس زبانوں کے الفاظ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ان میں سے عربی، فارسی ، اردو ، عبرانی ، اطالوی، پرتگالی اور روسی زبان کے الفاظ کے علاوہ ایسی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہیں جن کے انگریزی میں شمولیت کا امکان بعید از قیاس لگتا ہے۔ مثال کے طور پر جاپانی، پوش، سنہالی اور حتیٰ کہ تبتی زبان کے الفاظ بھی شامل ہیں۔

             اردو زبان کے متعلق ایک مستند رائے یہ ہے کہ یہ ایک لشکری زبان ہے۔ اردو زبان میں پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، براہوی، فارسی، عربی، ترکی ، ہندی ، سنسکرت اور انگریزی زبان کے الفاظ کی آمیزش موجود ہے۔

            عصر حاضر کے اردو اخبارات کی صحافتی زبان کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ حقائق معلوم ہوئے ہیں کہ اردو صحافتی زبان میں غیر ضروری طور پر انگریزی الفاظ کی آمیزش نظر آتی ہے حالاں کہ اردو اخبارات میں مستعمل انگریزی الفاظ کے اردو زبان میں آسان متبادل موجود ہیں۔ علاوہ ازیں تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ عوامی زبان کے غیر معیاری الفاظ کا استعمال غیرضروری طور پر اردو اخبارات میں بڑھ چکا ہے جب کہ ان الفاظ کے آسان متبادل موجود ہیں۔

            عصر حاضر کے پاکستانی اردو اخبارات کی صحافتی زبان کا تنقیدی جائزہ:

                        قیام پاکستان کے بعد لاہوراور کراچی اردو صحافت کے بڑے مراکز تھے۔ موجودہ دور میں راولپنڈی ، اسلام آباد اور ملتان بھی اس صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1958 ء تک پاکستان میں اخبارات و جرائد کی کل تعداد 1106 تھی جن میں روزنامہ اخبارات کی تعداد103 تھی۔ عصر حاضر تک اخبارات و جرائد کی کل تعداد 2204 تک تجاوز کر چکی ہے جس میں روزنامہ اخبارات کی تعداد 273 تک پہنچ چکی ہے۔ آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے مطابق پاکستان میں اخبارات کی کل اشاعت 15لاکھ روزانہ ہے جب کہ 14کاپیاں فی ہزار آبادی کے لیے موجود ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک اخبار کو 60افراد پڑھتے ہیں۔

            تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اردو اخبارات میں کام کرنے والے صحافی مغربی ذرائع ابلاغ سے موصول شدہ خبروں کا ترجمہ کرتے وقت بعض انگریزی الفاظ کو بعینہ اردو میں استعمال کرتے ہیں جب کہ ان اصطلاحات و الفاظ کے آسان اردو مترادف موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پبلک سیکٹر، کورٹ فیس، ایڈوانس جب کہ ان الفاظ کو سرکاری شعبہ، عدالتی فیس، اور پیشگی بھی لکھا جا سکتا ہے۔ بہر کیف ڈاکٹر مسکین علی حجازی کے مطابق ایسے انگریزی الفاظ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جن کے مترادف موجود نہیں ہیں یا جن کا چلن عام ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر فائل، اسٹیشن، کلاس وغیرہ۔ اردو اخبارات میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض تراکیب اردو میں اس طرح مستعمل ہوگئی ہیں جن میں ایک لفظ انگریزی کا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے الفاظ کو بھی درست طریقے سے لکھا جائے۔ مثال کے طورپر فزیکل معائنہ (طبی معائنہ) ،ووٹ شماری( رائے شماری)، ڈائریکٹر تعلیم(ناظم تعلیم) ، سپلائی مرکز (مرکز رسد) وغیرہ۔

            ڈاکٹر مسکین علی حجازی اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ ابتدائی اردو اخبارات کی زبان مسجع و مقفی ہوا کرتی تھی۔ انداز بیان شاعرانہ ہوتا تھا۔ زبان و بیان پر عبور رکھنے والے اشخاص ہی صحافت کے میدان میں داخل ہوسکتے تھے جب کہ موجودہ دور میں خبر نگاروں کے لیے زبان سے اس قدر واقفیت لازمی نہیں سمجھی جاتی۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ گرامر کے قواعد اور تراکیب اور اصطلاحات بنانے کے اصولوں کی پابندی ضروری تصور نہیں کی جاتی۔

            صحافتی زبان کو آسان بنانے کا مقصد یہ تھا کہ مطلب اور مفہوم کو واضح، آسان اور سادہ بنا کر پیش کیا جائے تا کہ کم پڑھے لکھے قارئین بھی خبر کو بغیر کسی دقت کے سمجھ سکیں لیکن اس مشق کا نتیجہ الٹ نکلا۔ صحافیوں نے آسان زبان کے چکر میں غیر معیاری الفاظ اور وقت بے وقت انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرنے شروع کر دیے جو کسی بھی صورت میں قابل ستائش عمل نہیں ہے۔

            اخبارات میں انگریزی زبان کے الفاظ بہت زیادہ استعمال ہونے کی وجہ گلوبلائزیشن یعنی عالم گیریت بھی ہے۔ انگریز دور کی مرتب شدہ سید احمد دہلوی کی فرہنگ میں انگریزی کے الفاظ500 تھے جب کہ فرہنگ کے الفاظ کی تعداد 54009 تھی ۔ جب کہ آج اکیسویں صدی میں ان انگریزی الفاظ کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے اور یہ اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان ہزاروں الفاظ میں سینکڑوں الفاظ اردو اخبارات میں استعمال ہورہے ہیں۔

            بہر کیف صحافتی اردو میں انگریزی الفاظ کے استعمال سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اردو اخبارات میں پنجابی اور سرائیکی کے بھی متعدد الفاظ استعمال ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر لاکھوں کا ٹیکا، نکا تھانیدار، پھڈا، تتلیا ں دارقص، جہاز/پائلٹ، وختہ ، رولا، عوام رل گئی، باں باں کرادی وغیرہ۔ بہ ظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بول چال کی عوامی زبان اردو اخبارات کی صحافتی زبان کو متاثر کرتی نظر آتی ہے۔

            عصر حاضر کے اردو اخبارات میں پنجابی اور دوسری علاقائی زبانوں کی آمیزش نظر آتی ہے۔ عوامی زبان کے استعمال کی وجہ سے بعض اوقات عامیانہ پن، پھکڑ بازی اور غیر معیاری زبان کا شائبہ گزرتا ہے۔ اس بات سے بالکل انکار نہیں ہے کہ اردو ایک لشکری زبان ہے۔ بہ قول حافظ ‘‘اردو پنجابی کی مرہون منت ہے اور پنجابی اردو کا رشتہ ماں بیٹی کا ہے۔’’ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر معیاری اور تہذیب سے عاری الفاظ کا استعمال کیا جائے۔

            سہیل وحید اپنی کتاب صحافتی زبان میں لکھتے ہیں کہ ہر خطے کے اردو اخبارات میں ایک الگ قسم کی زبان نظر آتی ہے۔ بعض اوقات تو اردو اردو نہیں لگتی، پنجاب کے اخباروں پر پنجابی اور پنجابیت حاوی نظر آئے گی۔ حیدر آباد کے اخباروں میں دکن کی تہذیب وہاں کی مقامی بولی اور علاقائی زبان کے اثرات کے ساتھ ساتھ دوسری مقامی زبانوں کے الفاظ نظر آئیں گے۔ یہ ہی صورت حال بر صغیر کے باقی علاقوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

            پنجاب کے اردو اخبارات میں جنگ، نوائے وقت، خبریں، دن ، اوصاف، ایکسپریس اور پاکستان نمایاں اخبارات ہیں۔ ان اخبارات میں کام کرنے والے بیشتر صحافی، پنجابی اور سرائیکی بولنے والے ہیں جب کہ ملتان سے شائع ہونے والے اخبارات جنگ، نوائے وقت اور خبریں کے مقامی مدیران کی زبان سرائیکی ہے۔ سروے کرنے سے پتا چلا ہے کہ صحافیوں کی مادری زبان نے بھی صحافتی زبان کو کچھ حد تک متاثر کیا ہے۔ ۴۸ فیصد پنجابی، ۱۲ فیصد سندھی، ۱۰ فیصد سرائیکی، اردو اور پشتو ۸،۸ فیصد بولی جاتی ہیں۔ ان اعدادو شمار سے پتا چلتا ہے پاکستان میں پنجابی زبان بولنے والے افراد اکثریت میں ہیں، اس لیے صحافتی زبان پر ، پنجابی کے اثرات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

            صحافتی اردو کے نقائص میں سے ایک نقص مشکل اور نامانوس الفاظ کا استعمال ہے، مثلاً ظلمت کدہ، چرخ، ببانگِ دہل، طاغوتی قوتیں، ازل و ابد وغیرہ۔ اگرچہ ان الفاظ کا استعمال کم ہوچکا ہے کیونکہ موجودہ دور کے اکثر صحافیوں کا تعلق شعبہ ادب سے نہیں جیسا کہ قیام پاکستان سے قبل تھا۔ بہر کیف ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافی بے شک آسان اور عام فہم الفاظ استعمال کریں لیکن غیر معیاری الفاظ اور انگریزی کا غیر ضروری استعمال ترک کر دیں۔

             روزنامہ جنگ کی صحافتی زبان باقی اخبارات کی نسبت قدرے بہتر اور معیاری ہے جب کہ روزنامہ نیا اخبار اور خبریں میں عوامی الفاظ والی خبروں کی تعداد دوسرے اخبار کی نسبت زیادہ ہے۔ جہاں تک روزنامہ نوائے وقت کی صحافتی زبان کا تعلق ہے تو اعداد و شمار کی رو سے اخبار کی صحافتی زبان میں عوامی اور انگریزی الفاظ کی آمیزش زیادہ ہے۔ بہر کیف نوائے وقت کی صحافتی زبان ، خبریں اور نیااخبار سے قدرے بہتر اورمعیاری ہے۔ معیاری زبان کے اعتبار سے جنگ، نوائے وقت، خبریں اور نیا اخبار بالترتیب:پہلے،دوسرے،تیسرے اور چوتھے درجے پر ہیں۔

مجوزہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی چند جھلکیاں اور ان کے موزوں متبادل:

            زیر نظر مجوزہ اخبارات میں عوامی اور انگریزی الفاظ والی خبروں کی چند سرخیاں پیش کی جارہی ہیں:

ؓ٭بڑے ناموں کے بجائے پرفارمنس پر یقین رکھتا ہوں۔ میاں داد

٭خلائی شٹل کی تباہی امریکا کو وارننگ ہے کہ وہ زمین پر خدا نہ بنے۔ قاضی

٭سیلز ٹیکس ملتان کے آڈیٹر کرپشن کے الزام میں گرفتار۔

٭کراس بارڈر ایکٹیویٹی پر بھارت کو اگر اقوام متحدہ کی نگرانی قبول نہیں تو امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس جس کے ذریعے چاہے جوائنٹ مانیٹرنگ کروائے۔

٭بس میں جیرا بلیڈوں کے ڈیرے۔

٭ انٹری پر پھڈا۔ پروڈیوسر کی شازیہ ملک پر تھپڑوں کی بارش۔

٭ تحصیل میونسپل اتھارٹی کو لاکھوں کا ٹیکا۔ فنڈز ہڑپ کر گئی۔

٭ سیال سسٹرز کے سیر سپاٹے پروڈیوسر کو وختہ۔

٭ CNNکو انٹرویو۔ اداکارہ اردو بولنے لگی۔ A-Apple،B-Ballاور مِیرا کی انگریزی ختم۔

٭سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر جہازوں کی لینڈنگ ۔

مندرجہ بالا سرخیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں استعمال کردہ غیر زبانوں کے الفاظ کے آسان متبادل الفاظ موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وارننگ کے بجائے خبردار، پرفارمنس کے بجائے کارکردگی ، کرپشن کے بجائے بدعنوانی، کراس بارڈر ایکٹیویٹی کے بجائے سرحد پار سرگرمی، جوائنٹ مانیٹرنگ کے بجائے مشترکہ نگرانی، جیرا بلیڈ کے بجائے جیب کترا، پھڈا کے بجائے لڑائی، پروڈیوسر کے بجائے پیشکار، ٹیکا کے بجائے نقصان، وختہ کے بجائے مصیبت جیسے آسان اور موزوں متبادل الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ جب کہ A-Apple، B-Ballجیسے الفاظ کی سرخی میں بالکل گنجائش نہیں ہے۔

            زیرنظر اردو اخبارات میں مستعمل انگریزی و علاقائی زبانوں کے لفظیات کے موزوں متبادل الفاظ پر مبنی گوشوارے پیش کیے جارہے ہیں تا کہ اخبارات میں کام کرنے والے صحافی، ابلاغیات و لسانیات میں کام کرنے والے صحافی اور ابلاغیات و لسانیات سے منسلک افراد اپنے روز مرہ علمی کاموں کے سلسلے میں ان الفاظ سے استفادہ کر سکیں۔

 

عوامی الفاظ

-01-19-00-00-00موزوں متبادل

-01-17-00-00-00عوامی الفاظ

-01-19-00-00-00عوامی متبادل

-01-0B-00-00-00کھابے

-01-0B-00-00-00کھانے

-01-13-00-00-00چھتر پریڈ

-01-1F-00-00-00تشدد، مار پٹائی

-01-0F-00-00-00ڈبہ پیر

-01-11-00-00-00جعلی پیر

-01-07-00-00-00ٹُن

-01-0B-00-00-00مدہوش

-01     -00-00-00وڈّا

-01-07-00-00-00بڑا

-01     -00-00-00جہاز

-01     -00-00-00نشئی

-01-0B-00-00-00میکوں

-01     -00-00-00مجھے

-01-11-00-00-00بندے مار

-01-17-00-00-00لڑاکا، قاتل

-01-0F-00-00-00پُلسئیے

-01-15-00-00-00پولیس والے

-01-15-00-00-00جِیرا بلیڈ

-01-11-00-00-00جیب کترا

-01-13-00-00-00پیٹی بھرا

-01-0F-00-00-00ہم پیشہ

-01-0B-00-00-00کھڑاک

-01-17-00-00-00دھماکہ کرنا

-01-0B-00-00-00پھڈا

-01

-9Eڑائی

-01-13-00-00-00عیاش مکڑے

-01-11-00-00-00تماش بین

-01     -00-00-00وختہ

-01-0B-00-00-00مصیبت

-01-11-00-00-00ڈکار لیے

-01-15-00-00-00ہضم کر لیے

-01-17-00-00-00گورکھ دھندا

-01-17-00-00-00عجیب معاملہ

-01-11-00-00-00اُڑن چھو

-01-17-00-00-00غائب ہوجانا

-01-07-00-00-00جگا

-01

-82دمعاش

-01-07-00-00-00ٹھپ

-01-11-00-00-00ختم ہونا

-01-13-00-00-00کھڈے لائن

-01-13-00-00-00بے اختیار

-01

-82ھنورے

-01-13-00-00-00عاشق مزاج

-01-17-00-00-00سُوٹے لگانا

-01#-00-00-00سگریٹ کے کش لگانا

-01-0B-00-00-00بھونڈ

-01'-00-00-00آوارہ ؍ رنگین مزاج

-01-0B-00-00-00لش پش

-01-0F-00-00-00چمک دمک

-01

-88ھترول

-01-07-00-00-00مار

-01-19-00-00-00لنگوٹ کس لیے

-01-11-00-00-00کمر بستہ

-01-15-00-00-00وکھری ٹائپ

-01-13-00-00-00منفرد شخص

-01-11-00-00-00مال پانی

-01     -00-00-00رشوت

-01

-87پھیاں

-01-11-00-00-00گلے ملنا

-01-0F-00-00-00تتلیاں

-01-0F-00-00-00طوائفیں

-01-0F-00-00-00تھرتھلی

-01     -00-00-00ہلچل

-01

-9Fک مکا

-01%-00-00-00سمجھوتہ، سودے بازی

-01-0B-00-00-00کھڑاک

-01-17-00-00-00شور، دھماکا

-01-19-00-00-00جی آیاں نوں

-01-15-00-00-00خوش آمدید

-01     -00-00-00ٹھاہ

-01

-8Bھماکہ

-01-0F-00-00-00کلے کلے

-01-19-00-00-00اکیلے اکیلے

-01-1F-00-00-00لاکھوں کی ویلیں

-01/-00-00-00پیسے لٹانا؍ نچھاور کرنا

-01-19-00-00-00نکا تھانیدار

-01-15-00-00-00سب انسپکٹر

-01-15-00-00-00ٹوپی ڈرامہ

-01-1B-00-00-00خود ساختہ چکر

-01     -00-00-00لوٹے

-01!-00-00-00بے ضمیر، بے اصول

-01-15-00-00-00منتیں ترلے

-01-13-00-00-00منت سماجت

-01-1B-00-00-00باں باں کرادی

-01-17-00-00-00پریشان کرنا

-01-11-00-00-00نئے گوڈے

-01-0F-00-00-00تازہ دم

-01-01-00-00-00

-01-01-00-00-00

-01-01-00-00-00

-01-01-00-00-00

-01-01-00-00-00

-01-01-00-00-00

-01-01-00-00-00

-01-01-00-00-00

-01-17-00-00-00حاصلِ بحث:

            اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ایک لشکری زبان ہے ۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صحافتی زبان میں ایسے الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کیا جائے جن میں عامیانہ پن کی جھلک نظر آتی ہو۔

            مختصریہ کہ معیاری زبان کے اعتبار سے روزنامہ جنگ، نوائے وقت اور خبریں اخبار کو بالترتیب پہلا ، دوسرا اور تیسرا نمبر دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اخبارات کی صحافتی زبان کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت اس عنصر کا خیال ضرور رکھا جائے کہ آیا یہ اخبار کس طرح کی صحافت کے علم بردار ہیں۔ مثلاً عوام پر صحافت، خواص پر صحافت یا زرد صحافت وغیرہ۔

             ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافی آسان ، عام فہم اور سادہ انداز تحریر کو اختیار کریں اور عامیانہ و بازاری پن سے احتراز کریں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ زبان کا بگاڑ قوموں کے بگاڑ پر منتج ہوتا ہے۔