میں کیسے مسلمان ہوا

مصنف : رام دھن

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : جنوری2015

من الظلمت الی النور
میں کیسے مسلمان ہوا
محمد شاہد (رام دھن)

سوال :پہلے آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
جواب : میں الہ آباد کے دویدی برہمن خاندان میں ۴؍ نومبر ۱۹۵۷ء کو پیدا ہوا۔میرا نام رام دھن میرے والد صاحب نے رکھا تھا۔ پتاجی ایک اسکول کے ہیڈماسٹر تھے،میری دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔میں ان میں سب سے بڑا ہوں۔ہائی اسکول میں نے اپنے والد صاحب کے اسکول میں کیا اس کے بعد سائنس سے انٹر کیا،انٹر میں میری ڈویژن نہ بن سکی،جس کی وجہ سے مجھے لائن بدلنی پڑی اور پھر بی کام کیا،بی کام کے بعد میں نے ایک فیکٹری میں ملازمت کرلی،بعد میں پونا میں ایک کمپنی میں ملازم ہوگیا۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک چارکمپنیوں میں اچھے کام کی تلاش میں جاتا رہا اور اب ایک کمپنی میں پروڈکشن منیجر ہوں۔میری شادی بنارس کے ایک برہمن خاندان میں ہوئی۔ میری بیوی انٹر میڈیٹ پاس ہے،میں نے جان بوجھ کر گھریلو زندگی کے سکون کے لئے گھریلو خاتون سے شادی کی ہے ۔میرے تین بچے ہیں،بڑا بیٹا جس کا پہلا نام للت کمار تھا،اب الحمد للہ محمد جاوید ہے،بیٹیاں جن کے پہلے نام کملا اور گیتا تھے اب الحمد للہ عائشہ اور فاطمہ ہیں، میری بیوی کا نام اب الحمد للہ خدیجہ ہے۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے سلسلہ میں ذرا تفصیل سے بتائیے؟
جواب : اب سے پانچ سال پہلے جون ۲۰۰۳ء میں بچوں کی چھٹیوں میں گھر والوں نے گھومنے کا پروگرام بنایا۔پونا سے چند دن گھوم کر دہلی اور پھر شملہ کا پروگرام تھا۔اگست کرانتی میں ممبئی سے دہلی کا ٹکٹ تھا،جس کیبن میں ہم لوگ تھے میرے تین بچے اور ہم دونوں اور چھٹے آپ کے والد مولانامحمد کلیم صدیقی تھے۔ ان کو دیکھا تو ہمیں اچھا لگا کہ ایک دھارمک آدمی کی سنگتی ہمارے بچوں کو ملے گی۔تفریح کے ساتھ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔تفریح کا سفر تھا،میرے اللہ کا کرم ہے کہ میرے گھر میں بچوں میں پہلے سے بھی بہت پریم محبت ہے اور سفر میں تو اور بھی بے تکلفی ہوتی ہے اور مقصد تفریح تھا اس لئے بچے اور بھی مستی کر رہے تھے۔ رات ہونے لگی تو میں نے بچوں کو دھمکایا،انکل بھی ساتھ ہیں تم لوگ مستی کر رہے ہو،مگر مولانا صاحب نے کہا،یہ بچے ہیں،معصوم بچے خوش ہو رہے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں؟ مجھے اچھا لگ رہا ہے،رات کے دس بجے میں نے مولانا صاحب نے کہا آپ سونا چاہیں تو برتھ کھول لیں انھوں نے کہا بہت اچھا،برتھ کھول لی گئی،مولانا صاحب چادر وغیرہ بچھانے لگے تو میری بیوی نے بچیوں کو دھمکایا،تم لوگوں کو شرم نہیں آتی،دوبیٹیوں کے ہوتے ہوئے،انکل خود بستر بچھارہے ہیں،بچیاں دوڑیں اور بولیں انکل لائیے ہم بستر کردیتے ہیں۔ مولانا صاحب نے ان کو بہت منع کیا مگر انھوں نے زبردستی لے کر بستر بچھادیااوپر والی برتھ پر مولانا کا بستر ہوگیا،میری بیوی جو بہت خدمت گزار عورت ہے انھوں نے مولانا صاحب کے جوتے اٹھاکر حفاظت سے اندر رکھ دئیے اور مولانا صاحب کو بتابھی دیا کہ جوتے سامنے برتھ کے نیچے رکھ دئیے ہیں۔کبھی رات کو آپ اتریں اور تلاش کریں اور پریشان ہوں۔ مولانا صاحب نے کہا آپ نے بہت شرمندہ کیا،یہ سچی بات ہے، احمد بھائی انسانیت کے سچے ہمدرد ایک داعی کی ذرا سی خدمت نے کہ میری بچیوں نے مولانا صاحب کا بستر بچھادیا تھااور میری بیوی نے جوتے اٹھا کر رکھ دئیے تھے، ہماری قسمت بدل دی اور زندگی بھر کفر وشرک میں بھٹکتے ہم نکموں پر ہدایت کی بارش کا ذریعہ بن گئی بلکہ میرے بچوں اور میری بیوی کی خدمت ابھی تک ہمارے آدھے خاندان کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن چکی ہے۔
سوال :اس کی ذرا تفصیل بتائیے ؟ 
جواب : احمد بھائی، مولانا صاحب نے ہمیں بعد میں بتایا کہ بچیوں کے بستر بچھانے اور میری بیوی کے جوتا اٹھاکر رکھنے سے ان کا دل بھر آیا اور رات کو دیر تک وہ ہمارے لئے ہدایت کی دعا کرتے رہے۔ صبح سویرے تہجد کے لئے اٹھے اور مولانا صاحب کہتے ہیں کہ وہ ہمارے اور ہماری نسلوں کے لئے ہدایت کی دعا کرتے رہے،مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے اللہ سے فریاد کی کہ میرے مولیٰ ! نفرت کے اس ماحول میں ان بچیوں اور ان کی ماں نے آپ کے اس حقیر اور تہی داماں بندے کے ساتھ بھلائی کی ہے مولائے کریم یہ گندہ اس کا بدلہ نہیں دے سکتا،بس آپ ان کی نسلو ں کے لئے ہدایت کے فیصلے فرمادیجیے۔ مولانا صاحب کہتے ہیں میں نے دعا کی اور ارادہ کیا کہ ہم لوگوں سے دعوت کے سلسلہ میں بات کریں گے ۔صبح آٹھ بجے تک بچے سوتے رہے اور سو کر اٹھے تو ناشتہ وغیرہ میں لگ گئے۔اور پھر کھیلنے لگ گئے،مستی کرنے لگے مولانا صاحب کہتے ہیں مجھ پر حد درجہ بے چینی تھی کہ کس طرح میں انھیں اسلام کی دعوت دوں؟ مگر جیسے زبان پر کسی نے تالہ لگا دیا ہو،بار بار مولانا صاحب کچھ کہنے کو ہوتے مگر کہہ نہ پاتے۔۱۱؍ بجے ٹرین تھوڑی سی دیر سے نظام الدین اسٹیشن پہنچی،مولانا صاحب بتاتے ہیں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بے چینی بڑھتی گئی اور خیال تھا کہ اگر میں نے ان کو دعوت نہ دی تو پھر کون ان سے مسلمان ہونے کو کہے گا؟مگر زبان کھل نہیں پا رہی تھی۔ گاڑی سے ہم سب اترے میں نے مولانا صاحب کا بیگ زبر دستی اٹھا لیا کہ ایک سجن کی خدمت میں میں بھی شامل ہوجاؤں بہت ہمت کرکے مولانا نے اپنے بریف کیس سے ایک کتاب ’آپ کی امانت‘ نکالی ،مولانا صاحب کہتے ہیں،میں نے اپنے کو بہت ملامت کی اور ہمت کرکے بچوں کو اکھٹا کیا اور ہماری موجودگی میں بچوں سے کہا،تمھاری محبت اور آپس کی ہنسی سے دل بہت خوش ہوا،تم کتنے اچھے لگ رہے تھے بس تمھارے انکل کی ایک درخواست ہے اس کو یاد رکھنا،وہ یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی تم لوگ اسی محبت سے رہنا،صرف دو پیسوں اور بچوں اور اپنے شوہروں کے چکر میں اس مقدس رشتہ کو مت خراب کرنا۔سب بچوں نے مولانا کے پاؤں چھوئے۔ مولانا نے منع کیااور آخر میں مولانا نے آپ کی امانت آپ کی سیوا میں مجھے یہ کہتے ہوئے دی،یہ میرا پتہ ہے،میرے پاس ویزیٹنگ کارڈ اس وقت نہیں ہے۔
میں اپنے گھر والوں سے بار بار کہتا رہا کہ کس دیوتا کے ساتھ مالک نے ہمیں سفر کرایا کہ ہمارے بچوں سے کیسی ہمدردی اور محبت کی بات کہہ گئے اور میں باربار بچوں کو یاد دلاتارہا کہ دیکھو انکل کی بات یاد رکھنا،وہ کوئی دیوتاآدمی تھے۔
دوتین دن دہلی میں رہے،اس کے بعد ہم لوگ شملہ گئے۔راستہ میں ہماری چندی گڑھ کے سفر میں ایک آدمی سے ملاقات ہوئی وہ ٹرین میں مانگ رہا تھا، اس نے اپنی زندگی کی دکھ بھری کہانی بیٹھ کر سنائی کہ میرا دل بھر آیا،ہم لوگ شملہ پہنچے ،راستہ کی باتیں ہورہی تھیں تو مولانا صاحب کی بات بھی آئی میں نے پھر بچوں کو یاد دلایا انکل کی نصیحت یاد رکھنا۔کملا نے کہا پتاجی وہ کتاب بھی تو انکل نے دی تھی وہ کہاں گئی،میں نے کتاب نکالی اور ایک بیٹھک میں پڑھ ڈالی،میں نے اس کتاب کو دوبارہ سب بچوں کو سنایا۔ مولانا صاحب کی نظام الدین اسٹیشن کی باتوں سے میرے اور میرے بچوں کے دل میں یہ بات بالکل بس گئی تھی کہ وہ ہمارے ہمدرد اور بے لوث ہمدرد ہیں، ہم سبھی نے اس کتاب کو اپنے ہمدرد اور خیرخواہ کی بات سمجھ کر پڑھا اورسنا، احمد بھائی آپ جانتے ہیں آپ کی امانت تو ایک پھندہ ہے۔اگر کسی انسان کے سینہ میں پتھر نہیں ہے دل ہے تو پھر وہ دل اس کتاب کا ہو ہی جاتا ہے۔ شملہ سے واپس ہوئے کیونکہ اس کتاب میں اس کو دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی سونپی ہے اس لئے چندی گڑھ سے میں نے اس کتاب کی بیس فوٹو کاپیاں بنوائیں،اب یہ سفر ہماری زندگی کا انقلابی سفر تھا یوں تو ہمارے والد صاحب ایک سیکولر انسان تھے اس لئے عام لوگوں کی طرح مسلمانوں سے نفرت ہمارے گھرانے میں نہیں تھی،مگر اسلام اور مسلمان ہمارے لئے غیر تھے، مگر اب ایسا نہیں تھا۔ٹرین میں میں نے مسافروں کو وہ کاپیاں دیں اور سارے راستہ بچوں میں اسی کتاب کا ذکر ہوتا رہا۔ شاید اس کتاب کی اکثر باتیں ہمارے بچوں کو بھی زبانی یاد ہو گئیں۔پونا آیا تو مجھے اسلام کو مزید جاننے کا شوق پیدا ہوا،کسی نے مجھے پروفیسرانیس چشتی صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا میں ان سے ملا بھی،مگر نہ جانے کیوں وہ کچھ مسائل میں گھرے تھے وہ مجھے خاطر خواہ وقت نہیں دے سکے۔ایک جگہ سے ’’اسلام کیا ہے؟ ‘‘ کتاب میں نے حاصل کی ،اس کو پڑھا اس کے بعد قرآن مجید کا ہندی ترجمہ پڑھا۔مہینوں کے سوچ وچار کے بعد ایک بار پھر آپ کی امانت ہم نے پڑھی اور مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا، مسلمان ہونے کے لئے میں بہت سے پڑھے لکھے مسلمانوں سے ملا،مگر کوئی اس بات کے لئے تیار نہیں ہوا۔مسجدوں میں اماموں کے پاس بھی گیا،میرے بیٹے نے مجھے مشورہ دیاکہ میں پھلت میں مولانا صاحب کو خط لکھوں مولانا صاحب کا خط ہمیں عید کے چار روزپہلے ملاجس میں لکھا تھا:
(یہ خط ہمیشہ میرے جیب میں رہتاہے،نکالتے ہوئے)
پریہ دویدی صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ ایک دن کے سفر میں مجھے اپنا کرلیا،آپ اور بچے مجھے بہت یاد آتے ہیں،آپ پڑھے لکھے ہوکر مسلمان ہو نے کے لئے کیوں ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ اسلام ایک سچائی ہے بس آپ نے آپ کی امانت کتاب پڑھ کر سچے دل سے کلمہ پڑھ لیا تو مسلمان ہوگئے۔اسلام رسم و رواج کا دھرم نہیں ہے،ہاں اپنے اطمینان کے لئے آپ پھلت آئیں تو آپ کا سواگت (استقبال)ہے، کاش آپ کا خط پہلے مل جاتا تو عید آپ ساتھ کر سکتے،اگر بھابی اور بچے بھی آجائیں تو ہمارے گھروالوں کی بھی عید ہوجائے،جب آپ آئیں خوشی ہوگی۔والسلام آپ کا اپنا کلیم 
میں نے تتکال میں رزرویشن بنوایا راجدھانی سے دہلی پہنچے اور پھر ڈھائی بجے عید کے دن ، پھلت پہنچے،مولانا صاحب خوشی سے چمٹ گئے اور دیر تک گلے لگایا بچوں کو پیار کیا اور ہماری تسلی کے لئے کلمہ پڑھوایا،میرا نام شاہد رکھا،میری بیوی کا خدیجہ بڑی بچی کا آمنہ چھوٹی کا فاطمہ اور بچے کا نام محمد جاوید رکھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ عید تو ہماری ہوئی اور ہر عید کو ہم خوشی مناتے ہیں کہ عید کا دن تو ہمارے لئے ہے کہ بغیر روزوں کے عید کی خوشی ہمیں نصیب ہوئی ۔مولانا صاحب نے بتایا کہ اس سفرمیں مجھے اپنی ذات سے بہت مایوسی ہوئی میں اللہ کے سامنے بہت فریاد کرتا رہا کہ الٰہی میری نااہلی کا یہ حال ہے کہ اتنا چاہنے کے بعد ایسے پیارے لوگوں کو دین کی ایک بات نہ کہہ سکا،بعدمیں مجھے خوشی بھی ہوئی کہ اللہ تعالی اپنے دین کی دعوت دینے والوں کی حفاظت فرماتے ہیں اور اس کی اپنی ذات سے نگاہ ہٹاکر اپنی ذات عالی سے ہونے کا یقین بناتے ہیں۔اس لئے زبان کوتالہ لگا دیا۔
مولانا صاحب بتارہے تھے،میں نے بہت دعا کی ،یا اللہ کوئی بات تو ایسی کہلادیجئے کہ یہ مجھے اپنا ہمدرد سمجھ کرآپ کی امانت پڑھ لیں،اللہ نے ایک بات ذہن میں ڈال دی اور سچی بات یہ ہے کہ آپ کی امانت ہم لوگوں نے اس محبت بھرے جملے کے سایہ میں پڑھی اس لئے اور بھی اس کے ہو رہے۔
سوال :اس کے بعد کیاہوا؟ 
جواب : دوروز ہم پھلت میں رہے،وہاں دوسال پہلے مشرف باسلام ہونے والے بھائی عبد الرحمن نے ہمیں بتایا کہ ہمیں گھر کی یاد آتی ہے لوگ بھی دھتکارتے ہیں، دل دکھتا ہے اور بہت ٹوٹ جاتے ہیں،بس مولانا سفر سے آتے ہیں مصافحہ ملاتے ہیں کبھی گلے لگاتے ہیں،ایک آدھ مذاق کی بات کی ،بس ایسا لگتا ہے کہ مرجھایا دل ہرا ہوگیا۔میں نے دوروز پھلت گزار کر ان کی بات کی سچائی دیکھی، مولانا نے ٹیکسی کرکے ہمیں دہلی تک اپنے خرچ سے بھیجا اور گھر والوں کے لئے ہدایت کی دعا کرنے اورماں باپ اور رشتہ داروں پر کام کرنے کی تاکید کی۔بلکہ ہم پانچوں سے وعدہ لے کر رخصت کیا۔
سوال :آپ نے گھر والوں پر کام کیا ؟
جواب : میرے اللہ نے میرے وعدہ کی لاج رکھ لی،میری ایک بہن اور بھائی اپنے بچوں کے ساتھ مسلمان ہو گئے میرے والد اور والدہ دونوں مسلمان ہو گئے، والد صاحب کا انتقال ہوگیا،الحمد للہ الہ آباد میں ان کو دفن کیا گیا،میر ے دو دوست بھی مسلمان ہو گئے اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا نے بتایا، واپسی میں ہمارے ساتھ سفر کرنے والے ان لوگوں میں جن کو میں نے آپ کی امانت دی تھی دو ایک اندور کے تاجر اور ایک دہلی کے انجینئر مشرف بہ اسلام ہو گئے ہیں ان میں سے ہر ایک کے قبول اسلام کی کہانی بہت دل چسپ ہے اور اللہ کی شان ہادی کا کرشمہ ہے اور ہم گندوں پر اللہ کی رحمت کی کرشمہ سازی ہے۔میں آپ کو ضرور بتاتا مگر ٹرین کا ٹائم ہورہا ہے انشا ء اللہ اور کسی ملاقات میں تفصیلات سناؤں گا۔وہ واقعات بہت دلچسپ ہیں۔الحمد للہ ہم لوگ گذشتہ سال بچوں اور والدصاحب کے ساتھ حج کو گئے تھے۔میرے اللہ کا کرم ہے کہ اللہ نے ہم گندوں کو اپنا گھر دکھا دیا۔
سوال : بہت بہت شکریہ شاہد صاحب، قارئین ارمغان کو آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب :سچی بات یہ ہے کہ انسانیت آج پیاسی ہے،بس ضروری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو انسانیت کی خیر خواہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے،بس یہ ثابت کریں کہ وہ لوگوں کے بے لوث ہمدرد ہیں اورجو چاہیں لوگوں سے منوالیں۔خصوصاً ہندستان کے ہندؤں کی تو گھٹی میں یہ بات پڑی ہے کہ اس کو یہ یقین ہو جائے کہ یہ میرا ہمدرد ہے،بس اس کے غلام بن جاتے ہیں۔میرے لئے دعا بھی کریں اور سارے انسانوں کیلئے دعا کریں۔ اللہ تعالی ہمارے سب ہندو بھائیوں کو میری طرح عید نصیب کرے۔
سوال : آمین ثم آمین ۔السلام علیکم 
جواب : وعلیکم السلام احمد بھائی مولانا صاحب سے میرا ایک بارپھر بہت بہت سلام کہہ دینا۔
سوال : ضرور انشاء اللہ
مستفاداز ماہ نامہ ارمغان، اکتوبر ۲۰۰۷ ؁ء