زوال سے نکلنے کاراستہ

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : مئی 2006

ابھی میں مسجد کی سیڑھیوں پر تھا جب میری سماعت سے مولوی صاحب کی زوردار آواز ٹکرائی

 وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

وہ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر روشنی ڈال رہے تھے اور یہ شعر بتا رہا تھا کہ وہ اصل میں کیا کہنا چاہتے ہیں ۔

 ٭٭٭

            ہمارے کالج میں فزکس کے ایک استاد تھے جو کہ اکثر وبیشتر مسلمانوں کی ترقی کا راز بتایا کرتے تھے اور وہ راز تھا دنیاوی علم کا حصول ۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کے بجائے صرف سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کا حصول ہی دنیا میں مسلمانوں کی بقا کا ضامن ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ مسلمان اپنے مذہب کو ساتھ لے کر ترقی نہیں کر سکتے اس لیے مذہب سے صرف نظرکر کے مسلمانوں کی ساری تگ و دو صرف اور صرف سائنسی علوم کے حصول کے لیے ہونی چاہیے۔

 ٭٭٭

            ہمارے معاشرے میں پوری شدت کے ساتھ یہ دونوں رویے موجود ہیں۔ کچھ کے خیال میں صرف مذہب اور باقی سب کے خیال میں صرف سائنس اور دنیاوی علوم ہی مسلمانوں کو ذلت کی پستیوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ۔جب کہ حقیقت میں یہ دونوں رویے درست نہیں بلکہ درست رویہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہے ۔ نہ صرف لمحہ موجود کی عظمت اس میں پوشید ہ ہے بلکہ عظمت رفتہ کی بحالی کے خواب کی تعبیر بھی اسی رویے اورکوشش کے پرد ے میں پنہاں ہے۔

٭٭٭

            پہلے دین اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ اس کائنات میں دیرپا عروج کے حصول میں مادی ترقی کے سنگ جو چیز سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے اسے ‘‘اخلاقیات ’’ کہتے ہیں ۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ اخلاقیات سے عاری قوم کے لیے زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنا کم ہی ممکن ہوا ہے ۔ ٭٭٭

            ہمارے ہاں ہر سال رمضان میں مہنگائی کا ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے ۔ ہر چیز اور خاص طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ‘‘کرسمس’’ سے پہلے ہر چیز کی قیمتیں بہت کم کر دی جاتی ہیں تاکہ غریب لوگ بھی کر سمس کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ لیکن یہاں پر جو مہنگائی کا طوفان برپا ہوتا ہے اس کی وجہ سے غریب لوگ عید کی خوشیوں میں شریک تو کیا شریک ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ یہ کیا ہے……؟ یہ ‘‘اخلاقیات’’ ہیں ۔ہمیں بھی عروج کے لیے ایسی ہی اعلی اخلاقیات کاحامل ہونا ہے مگر ان اخلاقیات کو مذہب سے لینا ہے تا کہ ہماری آخرت سنور سکے اگر اخلاقیات کو صرف اخلاقیات کی خاطر لے لیا تو وہ بھی بے کار کیونکہ اللہ کے ہاں تو محرکات اہم ہوتے ہیں۔

٭٭٭

            ایک صاحب جاپان کی کسی فرم میں ملازمت کرتے تھے۔ اور کافی عرصہ سے جاپان میں قیام پذیر تھے ۔ اسی واسطے کچھ جاپانیوں سے ان کے تعلقات بھی تھے۔ پاکستان آنے سے قبل انہوں نے Duty free shop سے ایک تحفہ خرید کر اپنے ایک جاپانی دوست کو دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ جب واپس جاپان گئے تو وہی جاپانی دوست ان ملنے آیا ۔ اس نے وہی تحفہ نکال کر ان کے سامنے رکھا اور ساتھ ہی ایک رسید بھی ان کے ہاتھ میں تھما دی ۔ انہوں نے پوچھا کیا معاملہ ہے تو اس نے کہا کہ آپ نے تحفہ خریدتے وقت ٹیکس ادا نہیں کیا تھا بعد میں اس دکان پر گیا اور ان کو یہ تحفہ دکھا کر اس پر عائد ٹیکس ادا کیا۔ جاپان میں Duty free shop سے کوئی بھی چیز خریدیں، اگر تو وہ جاپان سے باہر جانی ہو تو اس پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا لیکن اگر جاپان سے باہر نہ جائے تو اس پر ٹیکس ادا کیا جاتا ہے ۔

یہ کیا ہے قوم کی اخلا قیات۔

٭٭٭

            اخلاقیات کے بعد عروج حاصل کرنے کے لیے دوسری شرط دنیوی علوم میں دسترس کا حاصل کرناہے ۔کیونکہ ہم نے زندگی تو اسی دنیا میں گزارنی ہے نہ کہ کہیں اور لہذا جہاں آپ رہتے ہیں وہاں عزت سے زندگی بتانے کے لیے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔ اس دنیا میں وقار سے زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی دسترس حاصل کریں ۔

اگر کسی شخص کو کچھ دن کے لیے کسی ایسی جگہ چھوڑ دیا جائے اور اس کو معلوم ہو کہ یہاں اسے کچھ دستیاب نہیں ہو گا حتی کہ کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہیں ملے گاتو کیا وہ اُتنے دن بھوکا پیاسا اپنی واپسی کا انتظار کرے گا یا پہلے سے کچھ تیاری کر کے رکھے گا ……؟ جس طرح وہ شخص اتنے دنوں کے لیے تیاری کر کے رکھے گا بالکل اسی طرح اس دنیا میں رہتے ہوئے مسلمان دنیوی علوم سے منہ پھیر کر صرف قیامت کا انتظار نہیں کر سکتے بلکہ دین کے ساتھ ساتھ ان کو اس دنیا کے لیے بھی کچھ کرنا ہو گا اور وہ یہ ہے کہ مسلمان دنیاوی علوم میں اور خاص طور سے سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کریں۔ وٹیکنالوجی میں مہارت ہی سے عبارت ہے ۔ اور اگر مسلمان ایسا نہیں کرتے تو پھر ان کے لیے اس دنیا میں ان حالات میں Survive کرنا بہت مشکل ہو گا ۔ عروج حاصل کرنے کے لیے اور دنیا پر راج کرنے کے لیے ‘‘اخلاقیات’’ کے ساتھ دنیاوی علوم کو جاننا بھی بے حد ضروری ہے ۔

            مسلمانوں کے دور عروج میں ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں مسلم امہ کی بھاگ دوڑ تھی جو کہ دین او ردنیا دونوں میں ماہر تھے ۔

            یقینا اب آپ سمجھ چکے ہونگے کہ مسلمان اللہ کے دین اور دنیاوی علوم دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے عروج کی منازل طے نہیں کر سکتے ۔ عروج حاصل کرنے کے لیے دین اخلاقیات مہیا کرتا ہے تو اخلاقیات کے ساتھ ساتھ دنیا پر راج کرنے کے لیے مسلمانوں کو سائنس و ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت ہے جو کہ دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کیے بنا صرف اور صرف ایک خواب ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔

            جس دن مسلمان اس راز کو پالیں گے اسی دن سے ان کے خاتمہ زوال کا آغاز ہو جائے گا۔ ٭