امریکہ کے پہلے مسلمان اور اولین مبلغ اسلام

مصنف : ڈاکٹر عبدالغنی فاروق

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مارچ 2006

            امریکہ میں تبلیغ اسلام کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی، ۱۸۸۸ء کا سال اس اعتبار سے بڑا ہی اہم شمار ہو گا کہ اس برس نیویارک کے ایک معروف عالم و محقق اور دانشور، صحافی اور ڈپلومیٹ الیگزینڈر رسل ویب نے اسلام قبول کر لیاتھا …… موصوف اس سرزمین پر پہلے فرد ہیں جن کا سینہ دین حق کی روشنی سے منور ہوا اور پھر انھوں نے اس متبرک روشنی کو اپنے اہل وطن تک منتقل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

            الیگزینڈر رسل ویب ۱۹ نومبر ۱۸۴۶ء کو نیویارک کی کولمبیا کاؤنٹی کے ایک قصبے ہڈسن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا تعلق پریسبائٹرین (Presbyterian) فرقے سے تھا اور بچپن میں وہ بھی اپنے قصبے کے پریسبائٹرین سنڈے اسکول میں پابندی سے حاضر ہوتے رہے …… لیکن جلد ہی ان کے دل و دماغ نے عیسائیت کی تعلیمات سے بغاوت کر دی۔ وہ اپنی کتاب ‘‘اسلام ان امریکہ’’ میں لکھتے ہیں کہ میں لڑکپن ہی سے غور و فکر کا عادی تھا۔ میرا ذہن ہر بات کے لیے دلیل کا تقاضا کرتا تھا، لیکن عیسائیت کے کسی ایک عقیدے میں بھی دلیل کا کوئی گزر نہ تھا۔ تثلیث، عشائے ربانی، کفارہ،غرض کوئی ایک عقیدہ بھی مجھے مطمئن نہ کر سکا۔ میں رسمی طور پر والدین کے ساتھ گرجے میں حاضر تو ہوتا تھا، لیکن جلد ہی شدید اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا اور منسٹر (پادری) جو مختلف حوالوں سے من گھڑت اور خلافِ عقل کہانیاں سناتا اور ماحول میں رقت اور گداز پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو میں ذرا بھی متاثر نہ ہوتا……میرا جی چاہتا کہ کاش ان لا یعنی باتوں میں میرا وقت ضائع نہ ہوتا اور میں اس وقت کسی خوش منظر مقام پر خدا کی قدرتوں سے مستفید ہوتا۔کسی ندی یا آبشار کی دلنواز موسیقی سے مسحور ہوتا، پھولوں کو لہکتے ہوئے دیکھتا اور خوش الحان پرندوں سے لطف اندوز ہوتا …… لیکن افسوس میں بڑے ہی اضطرار کے عالم میں گرجے کی گھٹن میں وقت کا خاصا بڑا حصہ برباد کرنے پر مجبور ہوتا۔ اس وقت اگرچرچ سے قطع تعلق کرتا تو لوگ طعنے دیتے کہ، تم یسوع مسیح کے باغی ہو گئے ہو، تم پر شیطان حاوی ہو گیا ہے۔

            مشکل یہ تھی کہ عیسائیت کے حوالے سے میرے ذہن میں جو سوال پیدا ہوتے تھے، کسی کے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ بڑوں سے بات کرتا تو وہ ڈانٹ کر چپ رہنے کی تاکید کرتے اور برملا کہتے کہ مذہب اور عقل کا کوئی جوڑ نہیں …… مذہب کی باتیں عقل کی گرفت میں آ ہی نہیں سکتیں، اس لیے ہمیں یہ عقائد بغیر سوچے سمجھے قبول کرنے ہیں …… پادریوں سے سوال کرتا تو وہ جواب دیتے کہ یہ خدا کے اسرار ہیں، ان پر غور و فکر کرنا گناہ ہے۔ چنانچہ جونہی میں بیس برس کی عمر کو پہنچا اور فکری اور عملی طور پر خود مختار ٹھہرا تو میں نے چرچ سے بغاوت کردی اور وہاں آنا جانا بالکل ترک کر دیا۔

            اور آئندہ کئی برس تک میں ایک لا دین، دہریے کی حیثیت سے زندگی گزارتا رہا …… لیکن میری یہ زندگی اطمینان اور سکون سے عاری تھی …… میں اکثر سوچتا کہ آخر انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اسے کس لیے پیدا کیا گیا، موت کیوں آتی ہے؟ اور انسان جیسی ذہین ترین مخلوق کا بس یہی انجام ہے کہ وہ چند برس جئے اور پھر مر کر مٹی ہو جائے …… دنیا کی بوقلمونیوں پر غور کرتا، کائنات کے حیرت انگیز نظاموں پر تدبر کرتا تو میری حیرانیاں اور پریشانیاں بڑھتی چلی جاتیں ……

            تنگ آ کر میں دوبارہ مذہب کی طرف پلٹا، لیکن ظاہر ہے عیسائیت نے مجھے آخری حد تک مایوس کر دیا تھا، اس لیے دیگر مشرقی مذاہب کا مطالعہ شروع کیا اور سب سے پہلے بدھ مت کا انتخاب کیا کہ یورپ میں حقیقت کے متلاشی سب سے پہلے اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں میں نے غیر معمولی تگ و دو کی۔ اس زمانے میں مطلوبہ لٹریچر امریکہ میں دستیاب نہ تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور روزانہ چار چار ، پانچ پانچ گھنٹے اس مقصد کی خاطر صرف کرتا رہا۔ لیکن بدھ مت نے میری تسکین کا کوئی ساماں نہ کیا۔ میرے ذہن میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ روح کیا ہے؟ اور موت کے بعد یہ کس انجام سے دوچار ہوتی ہے، لیکن لمبے عرصے تک مطالعہ کرنے کے باوجود مجھے اس سوال کا جواب بدھ مت نے فراہم نہ کیا۔

            تب میں نے مختلف نامور فلسفیوں کا مطالعہ بھی کیا۔ مل، لاک، کانٹ، ہیگل، نشٹے، ہکسلے کے علاوہ متعدد محققین کی کتب چھان ماریں …… مادیت کے حوالے سے خاصی معلومات حاصل ہوئیں ، لیکن میرے ذہن کی تشفی نہ ہوئی اور کسی فلسفی کی کسی تحریر سے میرے سوالوں کا جواب نہ ملا۔ اور لمبے عرصے تک خلاؤں میں بھٹکنے کے سوا مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔

            گریجوایشن کے بعد کالج سے فارغ ہوکر الیگزینڈر رسل ویب نے ۱۸۷۳ء میں ایک اخبار ‘‘میسوری ریپبلکن’’ خرید لیا اور ساتھ ہی ‘‘سینٹ جوزف گزٹ’’ کے سٹی ایڈیٹر بن گئے۔ وہ بڑے ہی متحرک اور فعال صحافی تھے۔ چنانچہ سینٹ لوئیس اور شکاگو کے بھی بعض اخبارات سے وابستگی اختیار کر لی …… لیکن ستمبر ۱۸۸۷ء میں جب کہ ایک صحافی کی حیثیت سے انھوں نے خاص عزت اور شہرت حاصل کر لی تھی، امریکی صدر کلولینڈ(Cleveland)نے انھیں فلپائن میں امریکہ کا سفیر مقرر کر دیا اور وہ اس اہم منصب پر فائز ہو کر منیلا چلے گئے …… اور ان کی زندگی کا یہ نیا باب ایمان اور اعتقاد کے اعتبار سے بھی مبارک بن گیا۔

            منیلا میں امریکی قونصل کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے ہوئے انھیں ایک سال گزرا ہو گا۔ جب خوبئ قسمت سے مسلمان علماء اور مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں ان کے مطالعے میں آئیں جس سے ان میں اسلام کے بارے میں گہری دلچسپی پیدا ہوگئی اور سرکاری فرائض سے جتنا وقت بھی بچتا، وہ اسلام کے مطالعے کے سوا کوئی کام بھی نہ کرتے۔ انھوں نے بمبئی (ہندوستان) کے ایک معروف مسلمان رہنما بدر الدین عبداللہ سے مراسلت شروع کی اور ان کی وساطت سے مختلف مسلم ممالک کے علماء سے روابط قائم کیے۔ انہی میں مدینہ منورہ کے ایک امیر تاجر حاجی عبداللہ عرب بھی شامل تھے جو الیگزینڈر رسل ویب سے ملاقات کی خاطر دور دراز کا سفر طے کرکے منیلا پہنچے اور ان کی گفتگوؤں سے اور اخلاص فی الدین سے بہت متاثر ہوئے۔ واپسی پر حاجی عبداللہ عرب نے رنگون، کلکتہ، حیدرآباد اور بمبئی میں مختلف علماء اور صاحب ثروت مسلمان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انھیں امریکہ میں تبلیغ دین کے لیے ایک ادارہ قائم کرنے کی ترغیب دی۔

            ۱۸۸۸ء میں ویب نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنے نام سے پہلے لفظ ‘‘محمد’’ کا اضافہ کر لیا۔ جون ۱۸۹۲ء میں انھوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور محض تبلیغی نقطۂ نظر سے ہندوستان اور برما کا دورہ کیا، وہاں کے علماء اور مسلمان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، مشورے کیے اور پھر لندن سے ہوتے ہوئے ۱۶ فروری ۱۸۹۳ء کو وہ اس عزمِ راسخ کے ساتھ امریکہ پہنچے کہ اپنی ساری صلاحیتوں کو اس ملک میں اسلام کے فروغ و اشاعت کے لیے وقف کر دیں گے۔

            ہندوستان اور عرب کے مخیر مسلمانوں کے مالی تعاون سے محمد الیگزینڈر رسل ویب نے امریکہ میں بڑی تندہی سے تبلیغی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ انھوں نے ملک بھر کا دورہ کیا اور اسلام اور تقابلِ ادیان پر جگہ جگہ لیکچر دیے۔ ان کی وسیع معلومات اور سنجیدہ علمی اسلوب نے امریکہ کے اعلیٰ ترین ذہین طبقے کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ انھوں نے بڑی جرات مندی کے ساتھ اس پروپیگنڈے کی نفی کی جو علمی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے اسلام کے خلاف کیا جا رہا تھا …… دین حق کی تبلیغ و اشاعت کے لیے محمد رسل ویب نے اپنی تمام صلاحیتوں سے کام لیا۔ چنانچہ ۱۸۹۲ء میں ‘‘اسلام’’ (Islam) کے عنوان سے ان کی پہلی کتاب منظر عام پر آگئی جبکہ دوسرے ہی برس یعنی ۱۸۹۳ء میں ان کی ایک اور کتاب ‘‘اسلام ان امریکہ’’ شائع ہو گئی۔ اس کتاب میں انھوں نے جدید ترین فلسفیانہ اور علمی اسلوب کے ساتھ اسلام کا تعارف پیش کیا، اسلام کے خلاف اعتراضات کا جواب دیا اور عیسائیت کے توہم پرستانہ عقائد کا جائزہ لیا۔ موصوف محترم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور جملہ کارناموں پر بھی ایک کتاب تالیف کی۔ اس کا عنوان ہے: ‘‘محمدؐ، دی پرافٹ’’ یعنی محمد پیغمبر اسلام۔

            نیویارک میں اسلامی مشن قائم کرنے کے جلد بعد ہی محمد رسل ویب نے ‘‘دی مسلم ورلڈ’’ کے نام سے ایک ماہانہ رسالے کا اجراء کیا۔ اس رسالے میں مختلف دینی و اسلامی موضوعات پر ہندوستان، مصر اور ترکی کے جید علماء اور محققین کے مضامین شائع ہوتے۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں امریکہ کے سنجیدہ علمی حلقے اسے خاص اہمیت دینے لگے۔ بعد میں ‘‘دی مسلم ورلڈ’’ کی اشاعت ہفت روزہ ہو گئی۔

            ۲۷ ستمبر ۱۸۹۳ء کو شکاگو میں مذاہب کی پہلی عالمی کانگرس منعقد ہوئی۔ محمد رسل ویب نے اس میں مکمل اسلامی لباس یعنی پگڑی اور عمامے کے ساتھ شرکت کی اور بڑے ہی اعتماد کے ساتھ دو موضوعات پر لیکچر دیے۔(۱) ‘‘سپرٹ آف اسلام’’ اور (۲) ‘‘سماجی اور تہذیبی دنیا پر اسلام کے اثرات……’’ انھوں نے فرمایا:

            ‘‘میں آج کے روز، آپ حضرات کے سامنے حاضر ہوتے ہوئے، بے پایاں مسرت اور اطمینان محسوس کر رہا ہوں۔ میں آج دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے جذبات و احساسات آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔اور آپ کو بتانا چاہوں گا کہ ہر مسلمان مذاہب کی اس پارلیمنٹ سے گہری دلچسپی رکھتا ہے اور اسے امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔

            حضرات، میں کسی بھی امریکی سے بڑھ کر امریکی ہوں، لیکن مجھے اس امر کا قلق ہے کہ میں بھی برسوں تک ہزاروں لاکھوں امریکیوں کی طرح عقیدے اور فکر کی ان خرابیوں میں مبتلا رہا جو اسلام کے بارے میں یورپ کے مورخین نے ایجاد کی ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ میں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں انگریزی زبان میں چھپنے والی ہر کتاب کا مطالعہ کیا لیکن مجھے اس حوالے سے انصاف یا توازن کی کہیں کوئی مثال نظر نہ آئی۔ ظاہر ہے ان دروغ گو مورخین نے اسلام کے بارے میں آپ کے ذہن کو بھی مسموم کر رکھا ہے۔ چنانچہ تاریخ کے اسی زہر آلود پروپیگنڈے کا اثر ہے کہ دس سال پہلے جب میں نے مشرقی مذاہب کے مطالعے کا آغاز کیا تو میں نے اسلام کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں دی، اسے میں نے نفرت و حقارت کے ساتھ ایک طرف رکھ دیا۔

            لیکن جب کسی بھی دوسرے مذہب نے مجھے متاثر نہ کیا اور میں نے مجبور ہو کر محض تجسس کی خاطر صرف یہ جاننے کے لیے اسلام کا مطالعہ شروع کیا کہ آخر یہ مذہب ہے کیا اور پیغمبر عربی کا صحیح تعارف کیا ہے؟ تو میری حیرتوں کی انتہا نہ رہی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ان خامیوں سے بالکل مبریٰ ہیں جن کا یورپ کے مورخ اور مذہبی حلقے پروپیگنڈا کرتے ہیں …… چنانچہ میرے پاس آخر کار مسلمان ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور آج میں فخر و تشکر سے اظہار کر رہا ہوں کہ میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے یقین کامل ہے کہ مستقبل میں اسلام ساری دنیا کا مذہب بن جائے گا …… مجھے یہ یقین اس لیے حاصل ہے کہ میں امریکیوں کی ذہانت، فراست اور انصاف پسندی پر گہرا اعتماد رکھتا ہوں ……اور میرا ایمان ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ذہین آدمی نہیں ہے جو اسلام کو سمجھ لے اور پھر اسے قبول نہ کرے۔

            آئیے اب میں آپ کو بتاؤں کہ اسلام کے معنی کیا ہیں؟ سادہ زبان میں یہ خدا کی رضا اور منشا کے سامنے مکمل طور پر جھک جانے کا نام ہے۔ یہ خدا کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور کسی بھی مذہب کی تعریف متعین کرنے کے لیے موزوں ترین لفظ ہے۔ جہاں تک اسلامی نظام کا تعلق ہے اس میں وہ ساری خوبیاں اپنی بہترین، اعلیٰ ترین اور خوب صورت ترین صورت میں پائی جاتی ہیں جو انسانی اعمال و کردار میں ممکن ہو سکتی ہیں اور جن سے نیکی، پارسائی، شرافت، ایثار، اخلاص اور انسانی احترام کا بھرم قائم ہے۔

            اسلامی عقیدے کے مطابق جب رضائے الٰہی کاحصول انسان کے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے ، تو پھر اسے ایک ایک عمل کا ثواب ملتا ہے، اس کی ایک ایک بات عبادت بن جاتی ہے حتیٰ کہ اگر وہ کسی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے تب بھی اسے اس کا اجر ملتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ خدا تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے اسے کسی درمیانی واسطے کی ضرورت نہیں، کسی پادری یا پروہت کا احتیاج نہیں۔ وہ جب چاہے، جہاں چاہے خدا سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔

            بات کو سمیٹتے ہوئے آخر میں ،میں اس دکھ کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اس روئے زمین پر اسلام کے سوا اور کوئی نظریہ یا نظام نہیں ہے کہ جس کے خلاف باقاعدہ ایک پروگرام کے تحت، شعوری طور پر سفید جھوٹ کی مہم چلائی گئی ہو، غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہوں اور بہتان طرازی کی گئی ہو …… اور اس افسوس ناک مہم میں نام نہاد مورخ بھی شامل ہیں اور اخبارات سے وابستہ افراد بھی …… پوری تاریخ میں محمدﷺ کے سوا کوئی دوسری شخصیت نہیں ہے جس کی غیر معمولی انداز میں ، بے رحمی کے ساتھ کردار کشی کی گئی ہو …… لیکن اب حقیقت واشگاف ہو کر سامنے آگئی ہے، حق و صداقت کے چہرے پر بڑے ہوئے شکوک و شبہات کے پردے سب ایک ایک کرکے ہٹتے جا رہے ہیں، چنانچہ میرے خیال میں اب امریکیوں کے لیے لازم ہو گیا ہے کہ وہ حقائق کا اصل گہرائی تک ادراک کریں اور کامل سنجیدگی کے ساتھ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ محمدؐ دراصل کیا تھے اور وہ اپنے سامنے کیا مقاصد رکھتے تھے؟ امریکیوں کو اب یہ احساس بھی ہو جانا چاہیے کہ اگر وہ اب تک اسلام اور محمدؐ کو پہچاننے میں ناکام رہے ہیں تو اس بد نصیبی کی اصل وجہ کیا ہے؟ کاش وہ اپنی اس خامی اور محرومی کا اعتراف کر لیں اور ایک عالمگیر، فطری مذہب کو اختیار کرکے وہ حقیقت ِازلی سے ہمکنار ہو جائیں۔

            غرض محمد رسل ویب نے اپنی ساری صلاحیتیں اور اوقاتِ کار امریکہ میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کر دیے جس کے نتیجے میں بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ امریکی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ اسلام اور نبی اکرمؐ کے خلاف ان گنت لوگوں کے تعصبات نہ صرف ختم ہو گئے بلکہ اسلام کے لیے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا ہو گیا۔

            محمد رسل ویب کی وقیع اور غیر معمولی دینی خدمات کی قدر افزائی ترکی کے سلطان عبدالحمید دوم نے یوں کی کہ انھیں نیویارک میں ترکی کا اعزازی قونصل بنا دیا …… اور نہ صرف امریکہ میں پہلی مسجد کی تعمیر کرادی بلکہ ایک اسلامی مرکز کا قیام بھی عمل میں آگیا۔

            جنگ عظیم اول جاری تھی جب امریکہ کی سرزمین پر اسلام کی آواز پر لبیک کہنے والے یہ پہلے فرد اور اسلامی تبلیغ و اشاعت کے لیے ساری صلاحیتیں وقف کر دینے والے بے مثال جرات مند اور بلند حوصلہ داعی و مبلغ نے یکم اکتوبر ۱۹۱۶ء کو ۷۲ سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

            امریکہ میں جب تک اسلام کی شمع روشن رہے گی اور جب تک اس کی تابانیاں بڑھتی رہیں گی، محمد رسل ویب کا نامِ نامی زندہ رہے گا اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند تر ہوتے چلے جائیں گے کہ یہ شمع انہی کی جلائی ہوئی ہے ؂

ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما