پیٹ کے کیڑے زحمت یا رحمت؟

مصنف : حکیم محمد عبداللہ

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : مارچ 2006

            پیٹ کے کیڑے زحمت ہی نہیں باعث رحمت بھی ہوسکتے ہیں۔ امریکی محققین کا کہنا ہے کہ حفظان صحت کے شوق میں جوں جوں پیٹ کے کیڑے ختم کیے جارہے ہیں آنتوں کی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بظاہر یہ بڑی عجیب سی بات لگتی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ آنتوں کے کیڑے انسانی ارتقا کے تمام مراحل میں اس کے ساتھ رہتے ہیں اور ہماری آنتیں ان کی عادی ہوچکی ہیں البتہ ایسے طریقے موجود ہیں کہ ہم ان کیڑوں سے فوائد حاصل کر سکیں اور ان کے ضرر رساں اثرات سے بھی محفوظ رہیں۔ جریدے نیو سائنٹسٹ کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف آئیو امریکہ میں محققین نے اس امر کے واضح شواہد حاصل کر لیے ہیں کہ مغربی دنیا میں آنتوں کی بڑھتی ہوئی بیماریوں کی وجہ یہ ہے کہ پیٹ کے کیڑوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اگر آنتوں میں انہیں پھر سے پیدا کر دیا جائے تو آنتوں کی سوزش جیسی بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے اس طبی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جوئیل وائن سٹاک نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا میں لوگ ہر شے کو جراثیم سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور ان کے اس جنون نے کئی مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں انہوں نے اپنے تجربات کے دوران میں ایسے چھ مریضوں کا انتخاب کیا جن کی آنتوں میں سوزش تھی اور ہر طرح کے علاج اور مارکیٹ میں میسر تمام موثر دواؤں کے استعمال کے باوجود کامیابی کا حصول نا ممکن ہورہا تھا ۔ ان مریضوں کی آنتوں میں پیٹ کے عام کیڑوں کے انڈے ڈال دیے گیے جو چند دنوں بعد کیڑوں میں تبدیل ہوگئے۔ جوں ہی ان کیڑوں نے آنتوں میں بسیرا شروع کیا مریضوں کی آنتوں میں سوزش کم ہونے لگی اور چند ہی دنوں بعد ان کی یہ بیماری مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ ان تجربات کا حیرت انگیز اثر دیکھ کر ہی ماہرین نے فیصلہ کیا ہے کہ پیٹ کے کیڑوں کا استعمال پڑے پیمانے پر کیا جائے گا۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ آنتوں میں سوزش ہمارے خود کار مدافعتی نظام میں شدت آجانے سے پیدا ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کی علامتوں میں اسہال، پیٹ کا درد، قبض اور خون آنا شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج سے 70سال پہلے 40فیصد امریکی بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہوا کرتے تھے جن میں لمبے سائز کے وہ کیڑے بھی شامل تھے جنہیں عرف عام میں ملہپ کہا جاتا ہے۔ 1940 میں جو اعداد و شمار جمع کیے گئے تھے ان کے مطابق بڑے سائز کے کیڑوں کا امریکہ میں خاتمہ ہوچکا تھا البتہ چھوٹے سائز کے کیڑے بچوں کے پیٹ میں موجود تھے۔ پھر 1960 میں یہ خوشخبری شائع کی گئی کہ امریکہ میں اب بچوں کے پیٹ میں کسی طرح کے کیڑے نہیں ہیں ۔ ماہرین نے دیکھا کہ جوں جوں پیٹ کے کیڑے کم ہوتے گئے اسی تناسب سے آنتوں کی سوزش کی بیماری میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ کیڑے انسان کی آنتوں میں 30لاکھ سال سے موجود ہیں اور ہمارا جسمانی نظام ان کی موجودگی کا عادی ہوچکا ہے لہٰذا اتنے قدیم کیڑوں کو ہمارے نظام جسمانی سے الگ کردینا غالباً انسانی جسم نے قبول نہیں کیا اور رد عمل کے طور پر آنتوں میں سوزش کی بیماری شروع ہوگئی لیکن اس بیماری کے خاتمہ کے لیے پیٹ کے کیڑوں کا انسانی جسم میں دوبارہ داخل کرنا بھی تو عقل سے ماورا معلوم ہوتا ہے۔ جب کہ ایک بار کیڑے دوبارہ پیٹ میں پہنچ گئے تو پھر وہ انڈے اور بچے بھی دیں گے۔ اور ان کی افزائش نسل سے دیگر پیچیدگیاں بھی پیدا ہوں گی مگر اس مسئلے کا حل بھی ڈاکٹر وائن سٹاک نے ڈھونڈ لیا ہے اور ایسی قسم کے کیڑوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو صرف ایک ماہ زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بعد میں خود بہ خود تلف ہوجاتے ہیں۔

            جدید طب کے فلسفہ علاج معالجہ کے تحت انسانی و حیوانی اجسام میں مہلک جراثیم جو عوارضات کا باعث بنتے ہیں کو اینٹی بایوٹک دواؤں سے تلف کیا جاتا ہے مریض وقتی طور پر تو ریلیف محسوس کرتا ہے مگر چند دنوں بعد وہی عارضہ یا ذیلی اثرات کی بدولت دیگر عوارضات پھر ظاہر ہو جاتے ہیں۔لہٰذا مریض انتہائی کمزورو لاچار ہوجاتا ہے۔ اینٹی بائیوٹک دواؤں کے استعمال سے بقول ان کے ظاہر ہے باعث زحمت جراثیم تو تلف ہوجاتے ہیں مگر باعث رحمت جراثیموں کے تلف نہ ہونے کی کیا گارنٹی ہے؟ عام مشاہدہ ہے کہ اینٹی بائیوٹک دوائیں پندرہ بیس یوم تک استعمال کرنے سے مریض خاصا کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس کی قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے اور انسانی جسم کا خود کار مدافعاتی نظام چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا۔ تو ڈاکٹر حضرات انہیں قوت کی بحالی کے لیے دوائیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ نزلہ، زکام، سر درد اور معمولی کھانسی کے لیے زیادہ طاقت کی اینٹی بائیوٹک دواؤں کا بے تحاشا استعمال یقینا مریض کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے لہٰذا ایسے مریض طب مشرق کا علاج کرائیں بصورت دیگر ہر بار پہلے سے زیادہ طاقت کی اینٹی بائیوٹک دوائیں استعمال کرنا پڑیں گی۔ فطری عمل ناگزیر ہے ۔ اس سے انحراف یا اس میں کسی قسم کی تبدیلی یا رکاوٹ پیدا کرنے پر پیچیدہ مسائل کا پیدا ہونا لازمی امر ہے جو قابو سے بھی باہر ہوجاتے ہیں۔مثال کے طور پر ملک چین کے مشہور انقلابی لیڈر آنجہانی ماؤزے تنگ نے ناقص العقل سائنسدانوں کے مشورہ پر اجناس کے ایک بڑے حصے کو کھا جانے پر چڑیوں کو تلف کرنے کا آمرانہ حکم جاری کر دیا۔ دو ہفتوں میں تمام چڑیوں کو ختم کر دیاگیا۔ مگر دوسرے سال ایسے کیڑے مکوڑے کثرت تعداد میں فصل پکنے پر کھیتوں میں نمودار ہوئے جو پیشتر ازیں نظر نہ آتے تھے۔ اور ان کیڑے مکوڑوں نے بیچاری چڑیوں سے زیادہ فصل خراب کی اور اجناس چٹ کر گئے۔سائنسدانوں اور عوام کو بہت پریشانی لاحق ہوئی۔ تحقیقات کرانے پر یہ راز افشا ہوا کہ یہ ہی کیڑے مکوڑے پہلے بھی کہیں کہیں نظر آتے تھے مگر چڑیاں ان کو اپنی خوراک کا حصہ بنا لیتی تھیں۔فطرتی عمل سے انحراف کا یہ ہی نتیجہ نکلنا تھا۔ فوری بعد غیرممالک سے چڑیوں کو درآمد کر کے ملک میں لایا گیا اور یہ حکم بھی جاری کیا گیا کہ چڑیوں کو مارنے پر سخت سزا دی جائے گی۔(بحوالہ حکمت جاوید)