کمر اور گردن کا درد

مصنف : ڈاکٹرمحمد الیاس رفیع

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : فروری 2006

ایف آر سی ایس۔ایم سی ایچ آرتھو

             کمر درد موجودہ دور کے انسان کا ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اس کی وجہ طرززندگی میں تبدیلی ہے ۔ بنیادی طور پر انسان کو اللہ تعالی نے ایسا بنایا ہے کہ وہ پیدل بھی چلے اور جسمانی مشقت بھی کرے ۔ کچھ سال پہلے تک ایسا ہی تھا ۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے کے لیے لوگ علی الصبح پیدل چل پڑتے تھے اور اپنا کام ختم کر کے شام تک واپس بھی آجاتے تھے ۔اسی چلت پھرت اورمشقت کی وجہ سے وہ موٹاپے اور درد سے محفوظ رہتے تھے ۔ اب ایسا نہیں ہے ۔ آج کا انسان زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتا ہے گھر میں ، دفتر میں یاسواری میں ۔ اس وجہ سے آج کل سب سے زیادہ ریسرچ کرسی اور اس کی ساخت پر ہورہی ہے کیونکہ اسی وجہ سے Poor posture جنم لیتا ہے جو کمر درد کی ایک بڑی وجہ ہے ۔

            ہمارے ملک میں اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن جن ممالک میں ایسا ہے وہاں نمایاں طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کمر درد کا مرض بڑھ رہا ہے ۔مثلاً امریکہ میں 1970اور 1980 کی دہائی میں آبادی میں اضافہ 12.5 فیصد لیکن کمر درد میں اضافہ 68% ہوا ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کمر درد میں اضافہ طرز زندگی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ بڑھ رہاہے ۔

کمر کی ساخت :

 کمر ایک انتہائی پیچیدہ Structure ہے ۔ بنیادی طور پر ریڑھ کی ہڈی کے 33 مہرے ہوتے ہیں جوکمرچھاتی اورپسلیوں وغیرہ سے جڑے ہوتے ہیں ۔ یہ مہرے ایک دوسر ے سے جوڑ بناتے ہیں جن میں Disc ہوتی ہے ۔ چھاتی کے علاقہ میں پسلیوں سے Pelvis کے علاقہ میں یہ آپس میں Fuse ہوتے ہیں ۔ جبکہ گردن اور کمر کے علاقہ میں ایسی بندشیں نہیں ہوتیں اور یہاں کمر سب سے زیادہ Mobile ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے ان جگہوں پر درد زیادہ ہوتی ہے اور Disc کے مسائل بھی ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ مہرے Ligaments کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور ان سب کے اوپر عضلات کمر کو غلاف کرتے ہیں ۔ جب بھی کمر پر زور پڑتا ہے تو عضلات اس زور کو لیتے ہیں ۔ عضلات کی کمزوری کی صورت میں یہ بوجھ Ligaments پر اور پھر ڈسکوں پر اور پھر مہروں پر پڑتا ہے جس سے بتدریج کمر درد کی شدت بڑھتی جاتی ہے ۔ آخرکار یہ تبدیلیاں ان Nerves پر پڑتی ہے جو حرام مغز سے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے درمیان سے نکلتی ہیں اور یوں یہ مرض اور بڑھتارہتا ہے ۔

کمر درد ،علامات :

 کمر درد کا آغاز عموماً دو صورتوں سے ہوتا ہے ۔ درمیانی عمر کے لوگ جن میں یہ درد آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے اور مہینوں سالوں میں جاکر شدت اختیار کرجاتا ہے ۔ دوسرے وہ لوگ جو کسی عمر سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور غیر متحرک زندگی گزارتے ہوئے ایک دن اپنے روزمرہ معمول کے برخلاف کوئی زور آور کام کر ڈالتے ہیں جس سے اچانک اور شدید دردشروع ہو تا ہے ۔ جسے عام زبان میں ‘‘چک’’ کہا جاتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں یہ درد کافی شدیدہوتاہے اور حرکت سے زیادہ ہوتا ہے اور مریض لیٹنے پر اور کم سے کم حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے بعض حالات میں Wash room جانا بھی ممکن نہیں رہتا ۔ یہ درد مسلسل ہوتا ہے اور Hip اور ران تک Radiate کرتا ہے ۔ اگر یہ درد پاؤں تک جائے یعنی پوری ٹانگ میں چلا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مہروں کے درمیان موجود کری ہڈی یعنی Disc سلپ ہو گئی ہے ۔ اس کو Sciatica کہتے ہیں ۔ اگر اس کے ساتھ ٹانگ سن ہونا ، چیونٹیاں رینگناوغیرہ یا کمزوری کی علامات بھی ہوں تو Sciatica یقینی ہے ۔ ایسی صورت میں اکثر ٹانگ کا درد کمر درد سے بھی زیادہ شدت اختیار کر جاتا ہے ۔

تشخیصی ٹیسٹ:

 یہ ٹیسٹ بہت اہم ہوتے ہیں تاکہ کمر درد کو دوسری وجوہات مثلا انفیکشن ، کینسر ، آرتھرائٹس کی مختلف اقسام سے ممیز کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ایکسرے اور خون کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور کسی ایسے مرض کی نشاندہی کی صورت میں اس کا علاج کیا جاتا ہے ۔

کمر کا وہ درد جس میں یہ امراض نہ ہوں، اور جو کہ ہمارا موضوع ہے ،کی صورت میں ایکسرے میں Degenerative تبدیلیاں نظر آتی ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے عمر کے ساتھ ساتھ بال سفید ہوتے ہیں ایسے ہی جسم کی ہڈیوں جوڑوں خصوصاً مہروں میں تبدیلیاں ہوتی ہیں جو ایکسرے میں نظر آتی ہیں اگرچہ تمام لوگوں میں کمر درد کی علامات نہیں ہوتیں ۔

Sciatica کے لیے MRI کروانے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ایک جدید قسم کا Scan ہے ۔ اس میں Disc کی ساخت اور اس کے Slip ہونے کی صورت میں Nerves پر اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔ یاد رہے ایکسرے میں صرف مہرے ہی نظر آتے ہیں اور Disc کاmaterial اس میں نظر نہیں آتا ۔

علاج :

 کمر درد اور Sciatica کے attack کے بعد صحتیابی کے لیے عام طور پر ایک سے تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔نوے فیصد لوگ تو دواؤں سے صحتیاب ہوجاتے ہیں جبکہ باقی کے دس 10% میں MRI اور پھر سرجری کی ضرورت پڑتی ہے ۔ابتدائی علاج ہمیشہ Non surgical ہوتا ہے جس کی نمایاں بات آرام اور ادویات ہے ۔ جیسے جیسے بہتری ہوتی ہے مریض کو بتدریج حرکت کی طرف مائل کیا جاتا ہے اور ورزش کروائی جاتی ہے ۔ اصل میں تو یہ ورزش ہمیشہ ہی قائم رہنی چاہیے۔ سرجری کے نتائج عام طور پر سو فیصد نہیں ہوتے۔ اس بات میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہی کہ کس مریض کو سرجری کی ضرورت ہے اور کس کو نہیں جب تک مریض کاگزارہ اسکے بغیر ہو سکے، کرنا چاہیے اور جب مریض کہے یا تو مجھے ذبح کر ڈالیں اور یاپھرمجھے ٹھیک کریں تو عام طور پر یہ مرحلہ سرجری کا ہوتا ہے۔

احتیاطی تدابیر :

 اپنے Life style کو بہتربنانے سے اس مرض سے بچا جاسکتا ہے یا کم کیا جا سکتا ہے ۔احتیاطی تدابیر یہ ہیں ۔

1 ۔ Posture ٹھیک کریں :

 نارمل کمر کی ساخت انگریزی کے حرف S کی صورت میں ہے ۔ لیکن اپنے Poor postute کی وجہ سے ہم اسے انگریزی کا C بنا ڈالتے ہیں جس سے تمام مسائل جنم لیتے ہیں ۔

اس کو ٹھیک کرنے کے لیے

1 ۔ تصور کریں کہ آپ کے سر پر ایک کیل ہے جس سے ایک دھاگہ بندھا ہوا ہے جسے آسمان کی طرف مسلسل کھینچا جارہا ہے ۔ اس طرح کمر سیدھی اور اپنے Natural curve میں رہے گی ۔

2 ۔ جب کھڑ ے ہوں دونوں پاؤں پر برابر وزن رکھیں

3 ۔ صبح شام 3-5 منٹ کے لیے دیوار کے ساتھ سر پشت اور ایڑیاں لگا کر کھڑے ہوں تاکہ Correct posture کے لیے وجود کو Educate کریں اور پھر باقی دن اس کو Maintain رکھیں ۔

 4 ۔ صحیح بستر استعمال کریں ۔ فوم اور چارپائی جو درمیان سے جھکتے ہوں ٹھیک نہیں ۔ اسی طرح بہت زیادہ آرام دہ اور نرم بستر بھی ٹھیک نہیں ۔

بوجھ اٹھانا :

 بوجھ اٹھاتے ہوئے گھٹنوں کو موڑیں اور کمر سیدھی رکھیں ۔

کھڑے ہو کر کام کرنا :

 کمر بالکل سیدھی رکھیں اگر میز یا استری سٹینڈ وغیرہ نیچا ہو تو اسے اوپر کروائیں ۔

بیٹھتے ہوئے :

 کمر سیدھی رکھیں اور ضرورت محسوس کریں تو کمر نچلے حصے میں گدی رکھیں تاکہ S کا Curve ٹھیک رہے ۔ یہ احتیاط لمبے سفر میں، گاڑی میں بیٹھتے ہوئے یا ڈرائیو کرتے ہوئے بھی کریں ۔

ورزش:

 ورزش شروع کرنے سے پہلے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے ضروری ہیں تاکہ ان بیماریوں کو خارج ازامکان کیا جاسکے جن میں ورزش سے مرض بڑھ سکتا ہے ۔ ورزش کامقصد کمر اور پیٹ کے عضلات کو طاقتور بنانا ہے تاکہ یہ خود اپنا وزن برداشت کرسکیں اور کمر کو آرام ملے ۔ یہ ورزشیں مختلف لوگوں کے لیے مختلف بھی ہو سکتی ہیں ، چند مثالیں یہ ہیں ۔

1 ۔ پیٹ کے بل لیٹ کر اوپر کو اٹھنا ۔

2 ۔ Situps سیدھے لیٹ کر ایسے اٹھنا کہ سیدھے بیٹھ سکیں ۔

( یاد رہے کہ کمر درد ایک مشکل / پیچیدہ مسئلہ ہے کئی دفعہ مثانہ ، بچہ دانی ، گردہ یا Pelvis کے امراض کی وجہ سے بھی کمر درد ہوتی ہے ۔ اسی طرح نفسیاتی Factor بھی بہت اہم ہے ۔ مناسب تشخیص کرنا اور علاج کروانا ضروری ہے)

گردن درد

             کمردرد کی طرح گردن دردکی شکایت بھی عام ہے۔ یہ دردبھی تیز رفتاراور Tension سے بھرپور میکانکی زندگی ، ورزش کی کمی، Poor posture ، موٹے تکیوں اور نرم بستروں کی پیداوا ر ہے۔ کبھی کبھار چوٹ کی ہسٹری بھی ہوتی ہے لیکن اکثر کوئی خاص وجہ اس کے شروع ہونے کی مریض کے ذہن میں نہیں ہوتی ۔ جن مریضوں میں اچانک گردن درد شروع ہوتا ہے پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ انہوں نے Posture سے ہٹ کر کوئی وزنی کام کیا ہے یا بستر یا تکیہ میں حال ہی میں کوئی تبدیلی کی ہے ۔ کئی دفعہ تکیوں کو دہرا کر کے سونا ہی اس کا باعث بن جاتاہے۔آج کل کمپیوٹر پر کام کرنے والے اس مرض کا نوے فیصد شکار ہورہے ہیں ۔ اس لیے انہیں سب سے زیادہ احتیاط اورورزش کی ضرورت ہوتی ہے ۔جوانی کے شروع سالوں میں تو یہ حضرات اتنامحسوس بھی نہیں کرتے اور نہ ہی احتیاط کرتے ہیں جس کے نتائج تا دیر بھگتنے پڑتے ہیں۔

علامات :

 گردن میں بے بہا لچک ہوتی ہے ۔ سر کو اٹھا کر ہر سمت میں حرکت کرنا ہوتی ہے ۔ عضلات مضبوط نہ ہوں تو ان کی کمزوری کی سارا بوجھ مہروں اور ڈسکوں پر پڑتا ہے۔ جس سے درد ہوتی ہے ۔با لآخراعصاب پر پریشرپڑتاہے اور درد بازو میں بھی آجاتا ہے ۔ اور بازو میں کمزوری ، سن ہونا جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

تشخیصی ٹیسٹ:

 بلڈ ٹیسٹ ، ایکسرے جن میں Degenerative تبدیلیاں نظر آتی ہیں اور آخرکار MRI تاکہ Disc ، Nervesاور دوسرے سوفٹ ٹشوز کو بھی دیکھا جا سکے۔

 علاج :

 شروع میں کالراستعمال کیا جاتا ہے اور ادویات بھی ۔ درد بہتر ہونے کی صورت میں ورزشیں شروع کروائی جاتی ہیں اور یہ ہی اس کا مستقل حل ہے تا کہ اعصاب مضبوط رہیں۔۔ سرجری کی ضرورت گردن درد میں کم ہوتی ہے اور کمر کی نسبت گردن کے آپریشن کم ہوتے ہیں عموما نان سرجیکل علاج سے ہی آفاقہ ہوتا ہے ۔ تاہم بعض اوقات اس کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔یہ عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں بازو کی علامات نمایاں ہوتی ہیں اور MRI میں ایسی تبدیلیاں نظر آتی ہیں جو سرجری سے قابل علاج ہوں ۔

احتیاط :

 1 ۔ Posture ٹھیک کریں جیسے کہ کمر درد کے حوالے سے بتایا گیا ہے ۔

2 ۔ بیٹھنے کا طریقہ ٹھیک کریں ۔ دفتر اور گھرمیں کرسی میز کا درمیانی فیصلہ اور میز کرسی کی اونچائی ایسی رکھیں کہ کام یا چڑھائی کے دوران گردن سیدھی اور آرام دہ رہے اور اس پر بوجھ نہ آئے۔

3 ۔ اگر آپ طالب علم ہیں یا دفتر میں گھنٹوں بیٹھنے کی ضرورت پڑتی ہے تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد کرسی چھوڑ دیں اور کمرہ میں تھوڑی چہل قدمی کریں ۔ اسی طرح گردن کو تمام زاویوں پر تھوڑی تھوڑی دیر بعد گھماتے رہیں ۔

4 ۔ سیدھا بستر استعمال کریں ۔ تکیہ نہ بہت موٹا ہو نہ پتلا ہو تاکہ سوتے ہوئے گردن سیدھی رہے ۔ اسی طرح تکیہ دھرا نہ کریں ۔

            آخر میں چند باتیں اپنے مذہب اور سنت نبوی کے حوالے سے جو مندرجہ بالا امراض میں مددگار ہیں ۔

1 ۔ رکوع میں کہنی اور گھٹنے اور کمر بالکل سیدھا رکھیں۔ یعنی کمر اور گردن بالکل فرش کے متوازی ہو اور Bend صرف Hips پر ہو ، گھٹنے بالکل سیدھے ہوں۔ اس سے کمر اور گردن دونوں کو بہت سکون ملتا ہے اور اگر درد ہو تو اس میں کمی ہوتی ہے ۔

2 ۔ وضو کے دوران میں گردن پر مسح پورے اہتمام سے کریں۔اس سے گردن درد میں کا فی افاقہ ہوتا ہے ۔

3 ۔ سخت بستر یا فرش پر کروٹ سے سونا او رہاتھوں یا بازو کا تکیہ بنانا گردن اور کمر دونوں کے لیے سود مند ہے ۔

4 ۔ کھانا چبا چبا کر اور آہستہ کھانا اور بھوک رکھنا اس سے وزن نہیں بڑھتا ۔ وزن بڑھنے سے اس طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں ۔

5 ۔ کمر اور خصوصا گردن درد کے اکثر مریض نفسیاتی پریشر کا شکار ہوتے ہیں اس لیے رضا اور توکل پر رہنا۔ یہ مومن کے وہ ہتھیار ہیں جو اس قسم کے مسائل سے بچاتے ہیں ۔