حساب

مصنف : زعفران قریشی

سلسلہ : مکافات عمل

شمارہ : نومبر 2007

            کہتے ہیں جب انسان پریشان ہو، تو اسے چاہیے کہ انا للہ وانا علیہ راجعون کا ورد کرنے لگے۔ یوں اللہ تعالیٰ اسے پریشانی سے نجات دے دیتے ہیں۔ اسی لیے آج میں بھی مذکورہ آیت کا وردکرنے لگا۔ مگر جو دل ہزار قسم کے وسوسوں میں گھرا ہو،شیطان نے اپنا مسکن بنا رکھا ہو اور یادِ الٰہی سے اسے کبھی سرو کار نہ رہا ہو، اسے عموماً یوں سکون میسر نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں خدا پر پختہ یقین رکھتے ہوئے ورد جاری رکھتا اور اسے اپنا مالک و رزاق گردانتے ہوئے سب کچھ اسی پر چھوڑ دیتا۔ مگر میں بے یقینی کی کیفیت میں رہا اور خدا پر تکیہ چھوڑ کر خود اپنی الجھن سلجھانے کے چکر میں پڑ گیا۔

            شہر میں جس جگہ میری سبزی کی چھوٹی سی دکان تھی، اس کے قریب ہی بس سٹاپ تھا۔ اس لیے وہاں کافی گہما گہمی رہتی تھی۔ پہلے دکان اچھی خاصی چل رہی تھی مگر پچھلے ایک ماہ سے میرا یہ چھوٹا سا کاروبار خسارے میں جارہا تھا۔ مہنگائی کے باعث لوگ منڈی سے سبزی لانے لگے تھے۔ اگر چہ میری کوشش ہوتی تھی کہ میں کم منافع پر سبزیاں فروخت کروں مگر پھر بھی لوگوں کی قوت خرید کم ہوچکی تھی۔دوسری طرف میرے اخراجات بڑھ گئے تھے... مثلاً سبزیاں لانے کا کرایہ،بچوں کی فیسیں، مکان کا کرایہ غرض سب خرچے بڑھ گئے ۔ اب دکان سے جو تھوڑی بہت بچت ہوتی، اس سے بمشکل گھر کا چولہا جلتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دو ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں ہوا تھا۔ بچوں کی فیسیں بھی جمع نہ کروائی جا سکیں۔ ہر طرف سے مجھے پریشانیاں گھیرے ہوئی تھیں۔ آخر کوئی تو ہوگا ان مسائل کا حل؟ میں پریشانی کے عالم میں انا للہ وانا علیہ راجعون کا ورد کرنے لگا۔ لیکن میری پریشانیاں خدا پر میرے یقین پر غالب آگئیں۔ یقینا یہ میرے کمزور ایمان کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

            میں سارا دن فارغ بیٹھا رہا۔ کبھی طبیعت زیادہ بوجھل ہوتی تو اٹھ کر سبزیوں پر پانی چھڑک دیتا۔ تمام دن اکا دکا گاہک ہی آئے۔ میرا خیال تھا کہ آج اتنی کمائی ضرور ہوجائے گی کہ ایک ماہ کا کرایہ مکان ادا کر سکوں مگر آہستہ آہستہ میری امیدوں پر اوس پڑنے لگی۔ آخر مغرب کا وقت آپہنچا اور بس سٹاپ پر مسافروں کا ہجوم قدرے کم ہوگیا۔میری نگاہیں مسافروں کا جائزہ لے رہی تھیں کہ شاید کوئی سبزی لینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ مگر یوں لگتا تھا کہ جیسے میری دکان کسی کو نظر نہیں آرہی۔ دفعتاً میری نظر ایک بڑھیا پر پڑی، وہ اکثر کچھ نہ کچھ سبزی خرید لیتی تھی۔ اسے دکان کی طرف آتا دیکھ مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ بڑھیا نے آتے ہی پانچ سو روپے کا نوٹ نکال لیا۔‘‘کاش بڑھیا پانچ سو روپے کی سبزی خریدلے۔’’ میں نے دل میں سوچا۔‘‘پتر! ایک کلو مٹر دے دے اور ایک کلو پیاز بھی۔’’ بڑھیا نے کہا اور پھر پوچھا:‘‘پیاز کا کیا بھاؤ ہے؟’’‘‘چالیس روپے کلو اماں جی۔’’ میں نے بتایا۔‘‘اچھا پھر آدھا کلو دے دو’’ اماں نے نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا۔‘‘کیا بات ہے اماں، آج تو بڑے نوٹ اٹھائے پھر رہی ہو۔’’ میں نے روپے لیتے ہوئے کہا۔‘‘بس پتر ،آج تنکھا(تنخواہ) ملی ہے۔’’ اماں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔‘‘تنخواہ؟’’ میں نے حیرت سے پوچھا۔‘‘پتر! وہ جو سامنے کوٹھیاں ہیں نا، میں ادھر صفائی کا کام کرتی ہوں۔’’بڑھیا میری بات سمجھ گئی تھی۔‘‘اماں! پھر تو زیادہ سبزی کیوں نہیں خرید لیتی۔ ہوسکتا ہے تیرے پاس پھر پیسے نہ ہوں۔’’ میں نے اپنا مطلب سیدھا کرنا چاہا۔‘‘بیٹا ! میں اتنی سبزی کا کیا کروں گی؟ میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ۔’’‘‘اوہ!’’ میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بڑھیا کو مٹر اور پیاز پکڑا دیے۔

            ‘‘بس بیٹا، بھلی بُری گزر رہی ہے۔’’ بڑھیا کچھ سوچتے ہوئے بولی اور سبزی لے کر چل دی۔ مگر چند قدم چلنے کے بعد پلٹ آئی۔ اسے یاد آگیا تھا کہ اس نے بقایا رقم تو لی ہی نہیں۔‘‘اوہو پتر، بقایا پیسے تو دے دے،مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ بڑھاپے میں تو میری مت ہی ماری گئی ہے۔’’ بوڑھی اماں خود کو کوستے ہوئے بولی لیکن میں چند لمحوں کے اس وقفے کے دوران بہت کچھ طے کر چکا تھا... میری نیت ہی بدل گئی تھی۔‘‘کون سا بقایا؟’’ میں انجان بن گیا۔بڑھیا حیران و پریشان مجھے دیکھنے لگی۔ شاید اسے مجھ سے یہ توقع نہیں تھی۔‘‘پتر! وہی بقایا جو میرا بنتا ہے۔ ابھی میں نے تجھے پانچ سو کا نوٹ پکڑایا ہے نا۔’’‘‘کون سا پانچ سو کا نوٹ؟ اماں تو نے تو مجھے پوری رقم ادا کی ہے، یہ دیکھ پچاس روپے۔’’‘‘دیکھ بیٹا ، ایسے مت کر، میں تیری ماں کی طرح ہوں اور بڑی مشکل سے گزارہ کرتی ہوں۔ مجھے پورے ڈیڑھ مہینے بعد تنکھا ملی ہے۔ پھر جانے کب ملے گی؟ پتر! مجھ پر تھوڑا ترس کھا لے تو میری مدد نہیں کرسکتا تو مجھے لوٹتا کیوں ہے؟’’‘‘اماں! لگتا ہے تیری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے۔ تو مجھے ذلیل کرنا چاہتی ہے۔ کیا میں اپنی دن بھر کی کمائی تجھے دے دوں؟ میری آوا ز تھوڑی سی بلند ہوگئی ۔ کچھ ہی دیر میں میری دکان کے قریب چند لوگ جمع ہوگئے۔‘‘بھائی کیا مسئلہ ہے؟’’ایک نے پوچھا۔‘‘مسئلہ کیا ہونا ہے بھائی، یہ بوڑھی دھوکے سے میرے پیسے ہتھیانا چاہتی ہے۔کہتی ہے میں نے اس سے پانچ سو کا نوٹ لیا ہے۔ حالانکہ پورے دن میں میرے پاس پانچ سو کا ایک نوٹ بھی نہیں آیا۔’’ میں نے الٹا بڑھیا پر الزام دھر دیا۔بڑھیا بھی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی مگر میں بھی اپنے بیان سے پیچھے نہیں ہٹا۔ میں نے اس طرح بڑھیا کو دھوکے باز ثابت کیا کہ خود بھی حیران رہ گیا۔لوگوں کو بھی یقین آنے لگا کہ بڑھیا ہی اصل میں جھوٹی ہے۔‘‘دیکھ پتر! تو نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے نا، میرا خدا، میرا سوہنا رب تجھ سے حساب لے گا۔ تجھ پر خدا کا قہر نازل ہوگا۔’’مگر میری آنکھوں پر لالچ اور خود غرضی کی پٹی بندھ گئی تھی اور میرا ضمیر مردہ ہوچکا تھا۔ میں نے چند روپوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دیا اور اپنے بچوں کا مستقبل روشن کرنے کے لیے بوڑھی عورت کی دنیا تاریک کر دی۔

            ‘‘جاؤ اماں جاؤ، اپنی مکاری اور فریب کے گُر کسی اور پر جا کر آزماؤ، میں پھنسنے والا نہیں۔’’بڑھیا روتی ہوئی چلی گئی۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ لگتا تھا وہ ابھی چکرا کر گِر پڑے گی۔ بعض لوگ افسوس کر رہے تھے، بعض بڑھیا کو قصور وار ٹھہرا رہے تھے۔ پھر اچانک وہ ہوا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بڑھیابے خیالی میں سڑک پر چلنے لگی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک تیز رفتار جیپ اسے ٹکر مار کر یہ جا وہ جا۔سب لوگ بھاگے بھاگے اس طرف گئے۔ دیکھا بڑھیا مر چکی ہے۔ اس کے سر پر شدید چوٹ آئی تھی۔ کچھ دیر میں ایمبولینس آئی اور بڑھیا کی لاش اسپتال لے گئی۔ اب اس کی موت پر تبصرے ہونے لگے۔ جو لوگ بڑھیا کے ساتھ میری تکرار کو جانتے تھے، وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ ‘‘توبہ ہے، بڑھیا کو اس عمر میں بھی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے شرم نہ آئی۔’’ ایک صاحب نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔

            ‘‘وہ تو زاہد صاحب کو مرنے کی بد دعائیں دے رہی تھی اور خود فوراً چل بسی۔’’ دوسرے صاحب نے اپنا نظریہ پیش کیا۔‘‘جناب! خدا تو سچ جانتا ہے۔ آپ کو تو اندازہ ہے کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودے، وہ خود اس میں جا گرتا ہے۔’’

            ‘‘زاہد صاحب! مبارک ہو، خدا نے بہت جلد آپ کی بے گناہی ثابت کر دی۔’’‘‘میں تو پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ زاہد صاحب جیسا انسان ایسی حرکت کیسے کر سکتا ہے۔’’

            غرض تمام لوگ اسی قسم کی گفتگو کرنے لگے۔ اس واقعے کے بعد لوگوں میں میرا مقام اور بھی بلند ہوگیا۔ ہر شخص بڑھیاکی مکاری کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا تھا۔ مگر چند لوگ خاموش بھی تھے، شاید انہیں ابھی تک بڑھیا کے مجرم ہونے میں شبہ تھا۔ مگر میری واردات کامیاب ہوچکی تھی۔ میں اپنا کام ختم کر کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ آج میری جیب معمول سے زیادہ بھاری تھی اور پھر لوگوں پر میری بزرگی کا سکہ بھی بیٹھ گیاتھا ۔ اب وہ میری دکان سے سبزی خریدنے کو باعث برکت سمجھنے لگے تھے۔یوں نہ صرف بچوں کی فیس ادا ہوئی اور کرایہ مکان بھی بلکہ میرے تمام مسائل بھی حل ہونے لگے۔ مجھے اپنی عقل مندی پر بڑا ناز آنے لگا۔ اس ایک واقعے نے میرے حالات بدل دیے۔ آہستہ آہستہ میں ایک جنرل سٹور کا مالک بن گیا اور میرا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ میں زاہد سبزی والے سے سیٹھ زاہد بن گیا۔میں نے دونوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے امریکا بھجوا دیا۔ بیٹی شہر کے بہترین کالج میں داخل ہوگئی۔ اس دوران میں مجھے ایک بار بھی بڑھیا کی یاد نہ آئی جسے میں نے ٹھگ لیا تھا اور جس کے قتل کا میں ذمے دار تھا... ہاں میں اس کا قاتل تھا۔

……٭……

            آخر کار وہ دن آ پہنچا جب میرے بیٹے، امریکا سے لوٹ رہے تھے۔ میرے خوابوں کی تعبیر بلا شبہ حسین و رنگین نکلی۔ میں اپنی قسمت پر رشک کرتا تھا۔ وقت مقررہ پر ہوائی اڈے جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ ایک جگہ سے گزرتے ہوئے میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اگلے ہی لمحے مجھے یاد آیا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں کبھی میری سبزی کی دکان تھی اور یہیں بڑھیاکے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا۔ مگر تشویش کی بات یہ تھی کہ میرا دل کیوں دھڑکا؟ بیس برس قبل جب بڑھیا قتل ہوئی تھی تو میرے دل نے ذرا بھی جنبش نہیں کی تھی۔

            اسی وقت مجھے موبائل فون پر یہ روح فرسا اطلاع ملی کہ وہ جہاز گر گیا ہے جس پر میرے بیٹے سوار تھے اور کوئی مسافر نہیں بچا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میری کار کسی اور گاڑی سے جا ٹکرائی۔ مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب آنکھ کھلی، تو خود کو ہسپتال میں پایا۔

            ‘‘آپ کی ٹانگ پر شدید چوٹیں آئی تھیں ، مجبوراً کاٹنا پڑی۔’’ ڈاکٹر نے اداس لہجے میں بتایا۔ میرا دماغ سن ہوگیا اور بڑھیا کا بھولا بسراچہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ اب احساس جرم مجھے کچوکے لگانے لگا۔ مگر بہت دیر ہو چکی تھی....میں لٹ چکا تھا۔‘‘میری بچی!’’ مجھے اپنی منی کی یاد ستانے لگی۔ میں نے پکار کر کہا:‘‘ ڈاکٹر صاحب ! براہِ کرم میری بیٹی کو بلوا دیں۔ یہی پتا کروادیں کہ وہ خیریت سے ہے۔ میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔’’ میں پاگلوں کی طرح بولے جارہا تھا۔ ڈاکٹر مجھے تسلیاں دینے لگا مگر میرا دل کہہ رہا تھا کہ میرا گناہ میری بچی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ آخر بیٹی اسپتال پہنچی تو میری کچھ تسلی ہوئی۔ مگر میں نے اسے کہہ دیا کہ جب تک میں ٹھیک نہ ہوجاؤں، وہ کالج نہ جائے۔

            جب انسان ڈوب رہا ہو تو وہ بچنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ میں بھی کسی ڈوبنے والے کی طرح ہاتھ پاؤں مار رہا تھا مگر میری سب تدبیریں الٹی ہوگئیں اور کوئی دوا کام نہ آئی۔ میرے گھر دن دیہاڑے ڈاکا پڑگیا۔ ڈاکوؤں نے جہاں میرے گھر سے نقدی اور زیورات ہتھیا لیے، وہاں مزاحمت کرنے پر میری بیٹی کو گولی مار دی۔ وہ جانبر نہ ہوسکی۔ اس طرح آناً فاناً میری دنیا اندھیر ہوگئی۔ میرا کاروبار ختم ہوگیا۔ میں لٹ گیا، برباد ہوگیا۔ میری اولاد میرے گناہ کی بھینٹ چڑھ گئی اور میں جیتے جی مر گیا۔ میرے دل ودماغ کے کرب کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ بوڑھی عورت میرے اعصاب پر عذاب بن کر سوار ہو گئی۔ اس کے الفاظ میرے کانوں میں سیسہ بن کر کھولنے لگے:‘‘تو نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے نا، میراخدامیرا سوہنا رب تجھ سے حساب لے گا۔ تجھ پر خدا کا قہر نازل ہوگا۔’’

            ‘‘ کاش میراضمیر پہلے جاگ جاتا اور میں تھوڑی سی تنگی سہ لیتا۔ کاش میں خدا کو پکار لیتا، اس پہ یقین کرکے دیکھ لیتا، تو آج میرے آنگن میں بھی خوشیاں بکھری ہوتیں۔ مگر میں شکر گزار نہ بن سکا، صبر نہ کر سکا۔ آج میں اسی بس اسٹاپ پر پڑا اس بات کا منتظررہتا ہوں کہ شاید کوئی ٹھگ لے یا شاید کوئی جیپ مجھے ٹکر مار دے مگر مجھے ابھی تک مجھ جیسا سفاک انسان نہیں مل سکا۔’’