مولانا وحید الزمان

مصنف : محمد وسیم اختر مفتی

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : اگست 2007

            لغت، حدیث ، تفسیر ، فقہ اور اصول فقہ کے جید عالم وحید الزمان فاروقی النسب تھے ۔ان کے آبا ؤاجداد افغانستان سے ہجرت کر کے ملتان آباد ہوگئے تھے ۔مولانا کے پردادا احمد علی ملتانی مشہور عالم تھے،ان کے دادا نور محمد بھی ایک جید عالم تھے۔نورمحمد کسی ضرورت سے لکھنو آئے تو ان کے احباب نے اصرار کر کے انہیں مسند تدریس پر لا بٹھایا ، معقولات پڑھاتے پڑھاتے لکھنو کے ہو کر رہ گئے ۔ ۱۸۰۶ء (۱۲۲۱ھ) میں لکھنو ہی میں مسیح الزمان کی ولادت ہوئی۔ اپنے والد سے درس نظامی کی تکمیل کے بعد مسیح الزمان نے پبلشنگ کا کاروبار شروع کیا ۔انہوں نے پہلے لکھنومیں ‘‘مطبع مسیحائی’’ قائم کیا پھر کان پور میں اس کی شاخ بنائی ۔جب کام بڑھ گیا تو ۱۸۵۰ء (۱۲۶۷ھ) میں لکھنو سے کام سمیٹ کرکان پور میں مستقل طور پر مقیم ہو گئے۔کئی گودام ،مکانات اور دکانیں ان کی ملکیت تھیں۔ مسیح الزمان کا کنبہ بدیع الزمان ،حسام الزمان ،وحید الزمان ،فرید الزمان اور سعید الزمان ،(پانچ بیٹوں) اور سعید النسا ء اور رشید النسا ء، (دو بیٹیوں) پر مشتمل تھا۔

            وحیدالزمان کی ولادت ۱۸۵۰ء (۱۷ رجب ۱۲۶۷ھ) کان پور میں ہوئی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دنوں مسیح الزمان نے اپنے اہل وعیال کو پنڈریا خیرآباد منتقل کر دیا جہا ں وہ ایک سال مقیم رہے ۔جنگ آزادی میں حصہ لینے کی وجہ سے ان کی تمام جائیداد،کاروباراور ہزاروں قلمی کتابیں انگریز حکومت نے ضبط کر لیں تووہ ریاست حیدرآباد چلے گئے اور سرکاری مطبع کے نگران مقرر ہوئے۔ شیخ مسیح الزمان نے ۱۸۶۵ء (۱۲۸۲ھ) میں فریضۂ حج ادا کیا۔۱۸۷۵ء (۱۲۹۲ھ) میں وہ مکہ ہجرت کر گئے ۔ انہوں نے ۱۸۷۸ء (۹ ذی قعد ۱۲۹۵ھ) کو مکہ ہی میں انتقال کیا۔ان کے دو جواں سال بیٹے سعید الزمان اور فرید الزمان ایک سال قبل ۱۸۷۷ء (۱۲۹۳ھ)میں راہی ملک عدم ہو چکے تھے۔

            زندگی کے پہلے پانچ برس وحید الزمان نے گھریلو تربیت پائی۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق اردو ،فارسی کی ابتدائی کتب اور قرآن مجید ناظرہ و ترجمہ کی تعلیم اپنے والد مولانا مسیح الزمان اور بڑے بھائی بدیع الزمان سے حاصل کی ۔آٹھ سال کی عمر میں انہیں درس نظامی کی تحصیل کے لیے مدرسۂ فیض عام کان پور میں داخل کیا گیا۔ یہاں انہیں اپنے وقت کے نامور علما کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا موقع ملا ۔ ابتدائی درجوں میں علم الصیغہ کے مصنف مفتی عنایت احمد کاکوروی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ان کے زمانۂ طالب علمی ہی میں مفتی صاحب سفر حج پر روانہ ہوئے۔ جدہ پہنچنے سے پہلے ان کا بحری جہاز ایک سمندری چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا ۔استاد کے انتقال کے بعدوحید الزمان نے ان کے شاگرد حسین شاہ بخار ی سے پڑھنا شروع کیا۔ شاہ عبدالعزیزکے شاگرد سلامت اﷲ بدایونی ،مسلم الثبوت کے شارح بشیرالدین قنوجی ، عبد الحی لکھنوی،شا ہ اسماعیل شہید اور امام شوکانی کے شاگرد عبدالحق نیوتنوی( بنارسی) بھی ان کے اساتذہ میں شامل تھے۔انہوں نے فقہ کے اسباق عبدالحی فرنگی محلی سے لیے۔ ۱۵ برس کی عمر میں مدرسۂ فیض عام کان پورسے فارغ ہونے کے بعد لطف اﷲ کوئلی (علی گڑھی ) سے منطق پڑھی ۱۸۶۶ء (۱۲۸۲ھ) میں بشیر الدین قنوجی سے درس حدیث لیا ،حدیث کے دوسرے اساتذہ میں عبدالعزیز لکھنوی اور بدر الدین مدنی شامل تھے ۱۸۷۶ء (۱۲۹۳ھ) میں وہ اپنے والد کے ساتھ دوسری بار حج کرنے گئے۔ ۱۸۷۸ء (۱۲۹۵ھ) میں مکہ میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تو وحید الزمان مدینہ منورہ چلے گئے اور وہاں پر مقیم علمائے حدیث عبد الغنی مجددی اور احمد بن عیسیٰ حنبلی سے بھی حدیث رسول ؐ کا علم حاصل کیا،علی بن یوسف صرصری سے ‘‘دلائل الخیرات ’’ کی سند لی۔ پھر وہ ہندوستان لوٹ آئے اور یہاں کے مشہور شیوخ حدیث نذیر حسین محدث دہلوی، حسین بن محسن یمنی اور فضل رحمان گنج مراد آبادی سے اجازت حدیث حاصل کی۔ مولانا نے طب کی تعلیم حکیم مرزا محمد علی سے حاصل کی۔انہوں نے قانون کا مطالعہ بھی کیا۔

            تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مولانا وحید الزمان نے اس زمانے کے رواج کے مطابق اپنے شیخ الحدیث فضل رحمان گنج مراد آبادی نقشبندی قادری سے بیعت کی۔شیخ نے ان کو سلسلۂ قادریہ کے اذکار و اشغال اپنانے کی تلقین کی۔ حیدرآباد منتقل ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنے شیخ سے خط و کتابت بھی جاری رکھی۔ کچھ عرصہ کے بعد مولانا مرادآبادی نے ان کو طریقۂ نقشبندیہ میں بھی داخل کر لیا۔انہوں نے اپنے ہاتھ سے یہ سند لکھ کر حیدرآباد بھیجی،شما را در طریقۂ نقشبندیہ ہم داخل نمودم مولانافضل رحمان نے ان کو وصیت کی، ہمیشہ دنیا داروں کے لباس میں رہ کر اچھا کھانا پینا ۔اپنی درویشی کی نمائش نہ کرنا۔۱۸۶۶ء (۱۲۸۳ھ) میں وحید الزمان کے والد نے ان کو ریاست حیدرآباد میں ملازم کرا دیا ،مختار الملک کے پاس ۲۵ روپے ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی۔وہاں پہنچے دو برس ہوئے تھے کہ ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی ۔وحید الزمان بھی اس میں مبتلا ہوئے لیکن جانبر ہو گئے۔ نواب وقار الامراء حیدر آباد کے وزیر اعظم مقرر ہوئے تو مولانا وحید الزمان ان کے معتمد پیشی تھے۔ ۱۸۹۷ء (۱۳۱۴ھ) میں سر محبوب علی شاہ دکن نے ان کو وقار نواز جنگ کا خطاب دیا۔مولانا مجلس مال گزاری کے رکن پھر ہائی کورٹ کے رکن بن گئے۔وحید الزمان نے دولت آصفیہ کی ملازمت میں ۳۴ برس گزارے ، اہم مناصب پر فائز ہوئے،محکمہ خزانہ کے اہم رکن رہے اور آخر میں جج مقرر ہوئے۔ان کی تنخواہ ۵۰، ۸۰،۱۵۰، ۲۰۰،۴۰۰ سے بڑھتی بڑھتی آخری تقرری کے وقت ۱۵۰۰روپے ماہوار ہوگئی۔۱۹۰۰ء (۱۳۱۸ھ) میں انہیں ریاست کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا گیا۔۱۸۷۲ء (۱۲۸۹ھ) میں مولانا وحید الزمان کی مراد اﷲ لکھنوی کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ ان کا پہلا بیٹامحمد اشرف ۱۸۷۸ء (۱۲۹۵ھ) میں ایام طفولت میں مکہ میں وفات پاگیا تو انہوں نے وہیں پیدا ہونے والے دوسرے بیٹے کا نام بھی محمد اشرف رکھا ،یہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بنے۔ ۱۸۸۱ء (۱۲۹۹ھ) میں محمد احسن پیدا ہوئے جو انجینئر بنے۔۱۸۸۳ء (۱۷ صفر ۱۳۰۱ھ) میں محمد محسن کی ولادت ہوئی۔ پھر متواتر تین لڑکیاں ہوئیں۔ مولانا کی پہلی بیٹی جوانی ہی میں فوت ہو گئیں،ان کی شادی کو ایک سال گزرا تھا۔

            مولانا وحید الزمان ایک علمی گھرانے کے فرزند تھے اس لیے علمی ذوق وراثت میں پایا۔قدرت نے حافظے اور ادراک کی نعمت سے مالا مال کیا تھا۔ ۱۸۵۷ء کے بے شمار واقعات ان کو یاد تھے حالانکہ تب وہ صرف ۷ برس کے تھے۔ ۱۸۷۴ء (۱۲۹۱ھ) میں جب وہ۲۳ سال سے کچھ اوپر تھے اور ملازمت کر رہے تھے ، قرآن پاک حفظ کرنے کا ارادہ کیا۔ ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں حفظ مکمل کر نے کے بعد مہینے میں دو بار قرآن کی دہرائی کرنااور رمضان میں تراویح کا مصلیٰ سنبھالنا زندگی بھر ان کا معمول رہا۔

             لغت، حدیث ، تفسیر ، فقہ اور اصول فقہ کے یہ جید عالم بے حد ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ مطالعہ کی پختہ عادت بھی رکھتے تھے۔ ان کا قلم خوب رواں تھااورترجمے میں ملکہ حاصل تھا اس لیے علمی مسائل جلد سمجھ لیتے اور سرعت سے کاغذ پر منتقل کر لیتے۔مولانا نے ۱۸۸۱ء میں انگریزی سیکھنا شروع کی ،۶ ماہ کے قلیل عرصے میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ انگریزی میں ضروری گفتگو کرنے لگے۔ انہی خدادادعلمی صلاحیتوں نے انہیں کثیر التصانیف بنایا۔

            مولانا اولاً فقہ حنفی پر عمل پیرا تھے۔کم سنی میں جب انہوں نے فقہ حنفی کی مشہور کتا ب ‘‘شرح وقایہ’’پڑھنا شروع کی تو ان کے والد نے انہیں ہر روز اپنے پڑھے ہوئے سبق کا اردو ترجمہ تحریر کرنے کا حکم دیا۔جب کتاب کی تعلیم ختم ہوئی تو ترجمہ مکمل تھا ۔درس نظامی سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اس کا دیباچہ لکھا۔ تقلید ائمہ کے حق میں دلائل دینے کے ساتھ ساتھ مولانانے مسلک اہل حدیث پرنقد و جرح بھی کی۔بعد ازاں ان کا اپنے بڑے بھائی بدیع الزمان سے تبادلہ ٔ خیالات ہواجو پکے اہل حدیث تھے اورجن کے شیریں مواعظ سے مدراس،بنگال ،حیدرآباد،پنجاب، دلی اور کلکتہ ہر جگہ کے لوگ متاثر تھے۔اپنے بھائی کے خیالات کاان پر بھی اثر ہوا ،انہوں نے تقلید شخصی چھوڑی ، خود تحقیق سے دلیل ڈھونڈنے اوراس پر عمل پیر اہونے لگے۔ مولانا عبدالحی لکھنوی فرماتے ہیں، دحید الزمان پھر بھی بعض مسائل میں مسلک اہل حدیث سے دور ہی رہے۔ مولاناوحید الزمان میں تعصب نہ تھا،بخاری کا ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا، ‘‘مذاہب مجتہدین بھی ہر مسئلہ میں بیان کر دیے گئے ہیں کہ کسی مذہب کے مقلد کو اپنا مذہب معلوم کرلینے میں شبہ نہ رہے۔ جیسے یہ ترجمہ حضرات اہل حدیث کے حق میں مفید ہے ویسا ہی حضرات مقلدین کے لیے ۔’’انہوں نے اﷲ سے دعاکی ،‘‘موضح القرآن (ترجمۂ قرآن ازشاہ عبد القادرؒ ) کی طرح اس ترجمہ ٔ بخاری کو بھی مقبول فرما دے’’۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دعا قبول ہوئی کیونکہ ترجمۂ حدیث میں انہیں ایسا بلند مقام ملا کہ حدیث کے ترجمے کا نام لیتے ہی مولانا وحید الزمان کا نام اسی طرح ذہن میں آ جاتا ہے جس طرح ترجمۂ قرآن کے ساتھ شاہ صاحب کا نام آتا ہے۔ ہمیں جب بھی ان کا ترجمہ دیکھنے کی ضرورت پڑی،یہی محسوس کیا ، اردو کا ایک اہل زبان اور عربی کاجید عالم حدیث کی ترجمانی کر رہا ہے ۔ مادری زبان پنجابی ہونے کی وجہ سے ترجمۂ حدیث کرتے ہوئے بعض اوقات ہمیں صحیح اردو لفظ نہیں سوجھتا ۔ ایسے موقعوں پر مولانا کے ترجمے سے رجوع کریں تو فصیح عربی الفاظ کے مقابل میں فصیح اردو لفظ نگینے کی طرح جڑے نظر آتے ہیں۔اگرچہ ان کے ترجمے پوری طرح بامحاورہ نہیں ہوتے تاہم ہمیں ان سے بہتر ترجمۂ حدیث دیکھنے کو نہیں ملا۔

            مولانا وحید الزمان نے ۳ بار حج ادا کیا ۱۸۷۰ء (۱۲۸۷ھ) میں وہ اپنے والد کے ساتھ عازم حج ہوئے اور۱۸۷۱ء (۱۲۸۸ھ) میں حیدرآباد لوٹے ۔۱۸۷۷ء (۱۲۹۴ھ) میں پھر انہی کے ساتھ گئے۔اسی سفر میں ان کے والد اور بڑے بیٹے محمد اشرف نے مکہ میں انتقال کیا۔ ریٹائر منٹ کے بعد وہ گوشہ نشین ہو کر مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔ ۱۲ برس اسی طرح گزرے تھے کہ ۱۹۱۳ء (۱۳۳۱ھ) میں انہوں نے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا ۔وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ دمشق اور بیت المقدس سے ہوتے ہوئے مدینہ پہنچے ۔ مدینہ میں اس وقت امن و امان کی کیفیت درست نہ تھی اوروہاں کوئی جید عالم دین بھی نہ تھا ۔بعض عورتیں مزار اقدس پر سجدہ کرتیں تو کوئی ٹوکنے والا بھی نہ تھا۔شہر میں صفائی کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔حرم نبویؐ کے آس پاس زیر زمین گٹروں کی بو پھیلی رہتی۔مدینہ کے شدید موسم سے کچھ ہی عرصے میں مولانا کی اہلیہ سخت بیمار پڑ گئیں۔ان کے اصرار پر وہ وطن لوٹ آئے۔ تیسرے سفر حج کے دوران میں مولانا وحید الزمان مدینہ میں تھے کہ ترک و عرب عمائدین نے مدینہ میں ایک یونیورسٹی بنانے کا پرو گرام بنایا۔سید جمال الدین افغانی کے ساتھ مولانا وحید الزمان کو بھی مجلس جامعہ کا ممبر مقرر کیا گیا۔

            مولانا بلند قامت اور کشادہ جبیں تھے۔ان کا ناک ستواں،ہونٹ باریک ،گردن پتلی ،بھنویں لمبی اور آنکھیں موٹی تھیں۔ دیکھنے میں پہلوان اور جری معلوم ہوتے۔ انہوں نے ایک منضبط (disciplened) زندگی گزاری، باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنا کر شب و رو زبسر کرتے۔ بچپن سے سحر خیز اور تہجد گزا رتھے ۔ محنت اور جفاکشی ان کی فطرت میں تھی۔ اپنی صحت کا خاص خیال کرتے ، مختلف جسمانی ورزشیں کرکے اپنے آپ کو چاق و چوبند رکھتے۔ان کا روزانہ کا معمول یوں تھا ۔فجر کی نماز ادا کرکے چائے پیتے ،کچھ دیر مگدر ہلاتے اور پھر غسل کرنے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتے ۔ دس بجے تک وہ تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ۔اس وقت ناشتہ کرتے اور پھر اپنے دفتر روانہ ہو جاتے ۔ ظہر عصر کی نمازیں وہیں ادا کرتے ،پانچ بجے گھر واپس آ جاتے۔اس وقت بھی کچھ ورزش کرتے ۔مغرب اور عشا سے فارغ ہونے کے بعد آٹھ بجے کھانا کھاتے۔پھر دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دس بجے سو جاتے۔سوتے وقت عطر لگاتے تاکہ نیند اچھی آئے ۔روزانہ گیارہ گھنٹے لکھنا ان کی روٹین تھی ۔دن بھر خاندانی اوراد کا ورد کرتے رہتے۔ اپنے مرشد فضل رحمن گنج مراد آباد ی کے بتائے ہوئے وظائف پڑھنا معمول تھا ۔ ہفتہ میں ایک دن مکمل آرام کرتے ۔یہ دن وہ گھر سے دور کسی مسجد یا مکان میں گزار تے ۔

            مولانا سفید لباس پہننا پسند کرتے۔بالعموم دال روٹی کھاتے۔ دستی یا گردن کا گوشت پسند تھا لیکن عام طور پرصرف شوربا پیتے۔پھل ترکاری بھی کم استعمال کرتے۔دن میں دو وقت کھانا کھانے کی عادت تھی۔اگرچہ انہیں ہر سال پھوڑے پھنسیاں نکلتے پھر بھی آم بہت پسند کرتے۔پانی ہمیشہ جوش دے کر اور چھان کر پیتے ۔ان کو بواسیر کا عارضہ تھا۔ ریاح اور بواسیر کی وجہ سے اکثر ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کو جمع کرتے اور کہتے اہل شیعہ کی طرح جمع بین الصلاتین کو معمول نہیں بنانا چاہیے اسی بیماری کی وجہ سے خوشبو دار تمباکو کا حقہ پینا شروع کیا ۔جب حرمین شریفین جانے کا ارادہ ہوا تو یک لخت یہ پچیس سالہ پرانی عادت چھوڑدی۔مولانارمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت تہجد پڑھتے ۔انہیں اپنی تنخواہ مشتبہ معلوم ہوتی تھی،اس وجہ سے ہمیشہ استغفار کرتے رہتے۔ جس مال کو حلال سمجھتے اپنے کھانے پینے میں استعمال کرتے اور جس مد کو مشتبہ سمجھتے، ملازموں کی تنخواہوں، ٹیکس اور بلوں میں لگا دیتے۔ دوران ملازمت میں خلاف شرح کاموں پراپنے سکوت کو گناہ سمجھتے رہے۔

            مولانا اوائل عمر میں بہت مطالعہ کرتے تھے ۔رات کو ہمیشہ آرام کرتے۔ ان کے استاد بشیر الدین قنوجی کی نصیحت تھی، مطالعہ دن ہی کے وقت کرنا چاہیے اور رات تفریح اور احباب سے گفتگو کے لیے فارغ رکھنی چاہیے ۔ہر کتاب شروع سے آخر تک پڑھتے۔ ایک وقت میں مختلف علوم وفنون کا مطالعہ کرتے تاکہ طبیعت نہ گھبرائے۔اوراق پر سے جلدی اور سرسری گزر جاتے ۔منکسر المزاج اور وضع دار تھے ،لیکن ان کاانکسار حق اور سچ بات کرنے میں رکاوٹ نہ بنتا۔مولانا وحیدالزمان رقیق القلب تھے۔حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے مصائب یاد کرتے یا حدیث افک پڑھتے تو زاروقطار رونا شروع کر دیتے ۔ ان کے مزاج میں کچھ عجلت بھی تھی۔مزاح کرتے ہوئے ناگوار بات کہہ گزرتے ۔مہمان نواز تھے ،مہمانوں کو پان کھلاتے، چائے پلاتے۔ عمر بھر اپنے والد کے تابع فرمان رہے ،انہی کے کہنے پر حیدر آبادگئے پھر تر ک وطن کرکے حجاز چل پڑے۔انہیں اپنی والدہ سے بہت محبت تھی ، بھائیوں سے بھی پیار تھا۔کہتے ہیں مجھ کو دنیا میں کسی مولوی پر رشک نہیں ہوا۔ ایک نواب صدیق حسن خان پر رشک ہواجنہوں نے اپنے دھن دولت کو خدمت دین کے کاموں پر نچھاور کر دیا۔ وحید الزمان نے اپنی تالیفات سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا، تبلیغ و اشاعت ہی ان کا مقصد ہوتا ۔انہوں نے کسی بھی کتاب کے حقوق محفوظ نہ رکھے۔ کتابیں خود طبع کرا کر مفت تقسیم بھی کیں۔مطبع نظامی کے مالک کو بلا معاوضہ ‘‘نور الہدایہ’’ چھاپنے کی اجازت دے دی۔مولانا کو جلد جلد تلاوت کرنے کی عادت تھی،وہ لکھتے بھی تیز تھے۔قیام مکہ کے دوران میں ابن تیمیہ کی سات کتابیں اور دیگر مصنفین کی پانچ کتابیں اپنے ہاتھ سے نقل کیں ۔اس قدر سرعت سے لکھنے کے باوجود ان کی تحریر صاف پڑھی جاتی تھی۔ آخری عمر میں۲۸ جلدوں پر مشتمل ‘‘وحید اللغات’’ اپنے ہاتھ سے کتابت کی ،اسی لیے اس میں بہت کم غلطیاں ہیں۔وحید الزمان شعر و سخن کااچھا ذوق رکھتے تھے ۔انہوں نے اردو و عربی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ان کاایک عربی شعر نقل کیا جاتا ہے۔

ووفقتنی علی تیسیر علم

دقائقہ علی رغم زمان

            (اﷲ تعالیٰ نے زمانہ بھر کی مشکلات پیش آنے کے باوجود میرے لیے حصول علم کی آسانی فراہم کی، اس کے غوامض سمجھنے کی توفیق دی)

            اردو کے کچھ اشعار

ہوئی کامل یہ جب شرح بخاری

 تو حالت ذوق کی تھی مجھ پہ طاری

ادھر تھی فکر تاریخ تمامی

 ادھر تھا فیض ربانی بھی جاری

            مولانا خیر و صلاح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔انہوں نے منشی محب حسین کو فروغ اخلاق کے لیے ایک انجمن قائم کرنے کی ترغیب دی جسے‘‘ جلسۂ خیر خواہ ہند’’ کا نام دیا گیا ۔ خودانہوں نے اس انجمن کے جلسوں میں ۲۰ لیکچرز دیے۔۱۸۷۹ ء (۱۲۹۶ھ) میں وہ مولوی یوسف الدین کی ‘‘انجمن اخوان الصفا ’’میں شامل ہوئے ۔انہیں ندوۃالعلما لکھنو، مسلم کالج علی گڑھ (بعد میں مسلم یونیورسٹی)،مدرسۂ فیض عام کان پور،اور ‘‘انجمن مدارس اہل حدیث’’ کے جلسوں میں بھی بلایا جاتا۔وہ وعظ و تقریر کرتے لیکن کسی مناظر ے میں حصہ نہ لیتے۔مولانا نے اپنے زمانے کے اہل علم کو مروجہ عربی طریقۂ تعلیم کی خامیوں سے مطلع کیا،انہوں نے اس وقت پڑھائے جانے والے نصاب پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا ، میں نے اکثر طلبہ کو دیکھا ہے ،‘‘صدرا’’ اور‘‘ شمس بازغہ’’ (عربی زبان میں کلام وحکمت کی دقیق کتابیں)چاٹ گئے لیکن عربی کی ایک سطر لکھنے سے بھی عاجز رہے۔مولانا عبدالحی فرنگی محلی نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا لیکن دوسرے علما آمادہ نہ ہوئے ۔جب نئے نصاب تعلیم کے ساتھ ندوۃ العلما قائم ہوا تو وحید الزمان نے نواب وقارالامرا سے کہہ کر خاص اس کے لیے ۱۰۰ روپیہ ماہانہ کی امداد جاری کرا ئی۔حیدرآباد کی ملازمت کے دوران میں مولانا وحید الزمان نے چند طلبا کو تدریس بھی کی ، ان میں سے ایک انوار اﷲ خاں فضیلت یار جنگ بہادر تھے۔مہدی حسن نے تمام درسی کتابیں مولانا سے پڑھیں۔عبد الحفیظ حیدرآبادی ،حافظ لطف اﷲ ، میر افضل حسین اور مرزا محمد حسن لکھنوی نے کچھ اسباق پڑھے۔

            عربی کی کہاوت ہے ،لکل جواد کبوہ،ہر برق رفتار گھوڑ ے کو پھسلنا ہوتا ہے ۔ مولانا وحید الزمان اپنی سلامت طبع اور حدیث رسول ؐ سے وابستگی کے باوجود لغزش کھا گئے۔وہ آخری عمر میں اہل بیت رسولؐ سے غالی محبت کرنے لگے ۔ شیخین ابو بکرؓ و عمرؓ کو حضرت علیؓ سے افضل نہ سمجھتے ۔انہوں نے حضرت معاویہ ؓکی عیب جوئی بھی کی ۔ وحید الزمان فرط حب اہل بیت سے محرم کو مستقل ماتم کا مہینا سمجھتے۔مولانا کے خیالات میں یہ تبدیلی امرائے حیدرآباد کی صحبت اورطویجی کی ‘‘مجمع البحرین ’’کے مطالعے سے آئی۔

            ۱۹۰۰ء (۱۳۱۸ھ) میں ریاست حیدرآباد کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعدمولانا کی صحت بہتر ہو گئی۔وہ سارا وقت تصنیف و تالیف اوریاد الٰہی میں بسر کرتے ۔ ۱۹۱۰ء (۱۳۲۸ھ) میں انہوں نے اپنی تمام جائیداد و مال اولاد میں تقسیم کرکے خلوت نشینی اختیار کر لی۔ انہوں نے ۴ سال بنگلور میں قیام کیا وفات سے ایک برس قبل۱۹۱۹ء (۱۳۳۷ھ) میں اپنی جائے مالوف وقار آباد لوٹ آئے۔ آخری زمانہ ۲۳جون ۱۹۱۸ء (۳ رمضان ۱۳۳۶ھ) تا ۱۴ فروری ۱۹۱۹ء (۱۲ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۷ھ) یہیں گزرا۔اسی سال انہوں نے اپنی خودنوشت سر گزشت ‘‘تذکرۃ الوحید ’’پر نظرثانی کی۔ صحت کی کم زوری کی وجہ سے روزے البتہ نہ رکھ سکے اسی برس ایک سفر کے دوران میں وہ ریل میں جھٹکا کھا کر گرے تو کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ۲۶ اپریل ۱۹۲۰ء (۶ شعبان ۱۳۳۸ھ) کو ان کے جوان سال بیٹے محمد محسن نے انتقال کیا۔ ۱۹ دن کے بعد اس صدمے کی تاب نہ لا کر مولانا وحید الزمان بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ آصف نگر سے ان کی میت وقارآباد لائی گئی اوروہ اپنے باغ کے احاطے میں اپنی بنائی ہوئی لحد ہی میں مدفون ہوئے ۔ان کی عمر۷۰ برس تھی، تاریخ وفات ۱۵مئی ۱۹۲۰ء (۲۵ شعبان ۱۳۳۸ھ) ہے۔

مولانا نے سو کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سے اہم حسب ذیل ہیں۔

            موضحۃ الفرقان: یہ قرآن مجیدکے بامحاورہ اردو ترجمہ کا نام ہے۔ابتدا میں اردو میں مضامین قرآن کی ایک فہرست (انڈیکس) منسلک ہے۔جسے ‘‘تبویب القرآن لضبط مضامین الفرقان’’کا نام دیا گیا۔

             ‘‘لغات لقرآن’’ کے عنوان سے قرآن مجید کے مشکل الفاظ کے معانی بیان کیے گئے۔ترجمہ کے حاشیہ پر لکھی جانے والی مختصرتفسیر نے ‘‘تفسیر وحیدی’’ کا نام پایا۔مولانانے اپنے حواشی میں مسلک اہل حدیث کی بھر پور تائید کی۔

            کتب احادیث کا اردو ترجمہ اور مختصر تشریح کرنا مولانا وحید الزمان کا بڑا کارنامہ ہے۔ ۱۸۸۳ء (۱۳۰۰ھ) تک وحید الزماں موطا امام مالک ،جامع ترمذی،سنن ابو داؤداور سنن نسائی کا ترجمہ کر چکے تھے ۔۱۸۸۴ء (محرم ۱۳۰۱ھ) میں میں انہوں نے صحیحین کے ترجمے کی طرف توجہ کی۔ ان تراجم کو مختلف نام دیے گئے چنانچہ صحیح بخاری کے ترجمے اور تشریح کا نام ‘‘تیسیر الباری’’ ،ترجمہ وشرح صحیح مسلم کا ‘‘المعلم’’،ترجمہ وشرح موطا امام مالک کا‘‘کشف المغطاء علی الموطأ’’،سنن ابو داؤد کے ترجمے اور تشریح کا نام ‘‘الہدی المحمود’’ ، ترجمہ و تشریح سنن نسائی کا ‘‘روض الربی من ترجمۃ المجتبی’’ اورترجمہ و شرح سنن ابن ماجہ کا نام ‘‘رفع العجاجہ’’ رکھے گئے۔مولانا نے اردو میں بخاری کی مفصل شرح بھی لکھنا شروع کی جو مکمل نہ ہو سکی۔‘‘تیسیر الباری’’تومکمل ہو گئی لیکن بخاری کی مفصل اردو شرح ‘‘تسہیل القاری’’ لکھنے کی نوبت نہ آئی اور مولانا اللہ کو پیارے ہو گئے۔

دیگر تصانیف:

             نور الہدایہ: دور طالب علمی میں کیا گیا ترجمہ‘‘ شرح وقایہ’’درس نظامی مکمل کرنے کے بعد مولانا وحید الزمان نے اس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں فقہ حنفی کے حق میں دلائل کا اضافہ کیا۔

             تشریح الحج و لزیارۃ : وحید الزمان نے اپنے والد کی فرمائش پر اردو زبان میں حج و عمرہ کے مسائل تحریر کیے۔کتاب طویل ہو گئی تو والد کے حکم پر اختصار کرکے دوبارہ لکھی۔

             اشراق الابصار فی تخریج احادیث نورالانوار: ۱۸۶۸ء (۱۲۸۵ھ) میں مطبع مصطفائی لکھنو سے چھپی ۔ مولانا وحید الزمان نے حنفی اصول فقہ کی کتاب ‘‘ نورالانوار’’ کی احادیث کی تخریج کر کے ان کا معتبر ہونا ثابت کیا۔انہوں نے کہا ، اصول فقہ کے علما نے اپنے فقہی اصول کی بنیاد مستند احادیث پر رکھی ہے۔ان کاقیاس محض پر مبنی ہونا ایک غلط الزام ہے۔

             احسن الفوائد فی تحریج احادیث شرح العقائد: ۱۸۶۵ء (۱۲۸۲ھ) میں کان پور میں تالیف کی گئی ۔اس میں احناف کی مشہور کتاب ‘‘عقائدنسفی’’ میں پائی جانے والی احادیث کی بزبان عربی تحریج کی گئی ۔ مولانا وحید الزمان نے کئی ایسی احادیث کی نشان دہی کی جن کی ملا علی قاری نے اپنی شرح فرائد القلائد وعزیز الفوائد علی شرح العقائد میں تخریج نہ کی تھی

             تنقید الہدایہ و تسدید الروایہ و اصلاح الہدایہ : اس کتاب میں مولانا وحید الزمان نے فقہ حنفی کی اہم کتاب ‘‘الہدایہ’’ کے متن میں حدیث کی روشنی میں کچھ اضافے کیے۔

             کنز الحقائق فی فقہ خیر الخلائق : فقہ حنفی کی مشہور کتاب ‘‘کنز الدقائق ’’ کی طرز پر لکھی گئی اس کتاب میں فقہی مسائل مسلک اہل حدیث کے مطابق مستنبط کیے گئے ہیں ۔

             نزل الابرار من فقہ النبی المختارمیں بھی سلفی مسلک کے مطابق فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں۔

             ہدیۃ الہدی من الفقہ المحمدی : اہل حدیث حضرات کے شرک بدعت میں غلو کومد نظر رکھ کر مولانا وحید الزمان نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مشرکانہ عقائد کی توضیح کی۔ انہوں نے وہ اصول بیان کیے جن کی روشنی میں شرکیہ عقائد کوسمجھاجاسکتا ہے۔‘ہدیہ الہدی’’ چھپنے کے بعد اہل حدیث حضرات نے مولاناکی مخالفت کی کیونکہ انہوں نے ان کو ان کے اپنے مسلک ہی کے مطابق امام ابن تیمیہؒ ، حافظ ابن قیمؒ ، امام شوکانیؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تقلید سے روکا تھا۔

             الحاشیۃ الوحیدیہ علی الحاشیۃ الزاہدیہ : ‘‘میر زاہد ’’درس نظامی میں پڑھائی جانے والی عقائد کی کتاب ‘‘شرح مواقف’’ کاحاشیہ ہے۔مولانا وحید الزمان نے اپنے شاگرد مہدی کو یہ کتاب پڑھائی تو ان کے اصرار پر یہ حواشی لکھے۔

             الانتہاء فی الاستواء: اس کتابچے میں اﷲ تعالیٰ کے مستوئ عرش ہونے کا بیان ہے۔۱۸۷۶ء (۱۲۹۳ھ) میں مولانا کے بھائی فرید الزمان نے اصرارکر کے ان سے لکھائی۔

             عقیدہ اہل بیت: یہ رسالہ بنگلور کے احباب کی فرمائش پر محض ۲ گھنٹوں کے اندر لکھا۔

              وظیفہ نبی بااوراد و حیدی: اس کتابچے میں مولانا وحید الزمان نے ہفتہ کے سات دنوں کے الگ الگ وظائف لکھے۔

              قواعد محمدیؐ: بچوں کا ابتدائی قاعدہ ہے۔مولانا وحید الزمان نے مفرد و مرکب الفاظ میں بنیادی اسلامی تعلیمات سمو دی ہیں ۔

              علامات الموت : بقراط کے رسالہ قبریہ کا اردو ترجمہ ہے۔

             مولانا وحید الزمان نے حدیث کی مشہور کتاب ‘‘کنز العمال ’’ کی تصحیح بھی کی۔

              تذکرۃ الوحید: (خود نوشت سوانح)، مولانا وحید الزمان کی زندگی میں ان کے شاگرد مرزا محمد حسن لکھنوی ‘‘لائف سی سالہ’’ کے عنوان سے ان کی سوانح حیات لکھ چکے تھے۔ احباب کے اصرار پر خود مولانا نے۱۹۰۹ء ( ۱۳۲۷ھ) میں‘‘ املاء تذکرۃ الوحید ’’کے نام سے اپنی خود نوشت لکھی۔ ۱۹۱۵ء (۱۳۳۳ھ) میں انہوں نے اس تذکرے پر نظر ثانی کی۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق سب سے زیادہ زوررؤیا (خوابوں) کے بیان پر صرف کیا گیا ہے حالات زندگی کا بیان بہت مختصر ہے ۔

             وحید اللغات : مولانا وحیدالزمان کی مرتبہ کتب احادیث کی لغت ‘‘انوار اللغہ و اسرار اللغہ ’’کا مختصر نام ہے۔انہوں نے اسے پانچ سال کے عرصے میں مکمل کیا۔ عربی لغت بیان کرنے کے لیے بطرس بستانی کی مشہورلغت ‘‘ محیط المحیط’’پیش نظر رکھی گئی جب کہ خاص الفاظ حدیث کی وضاحت کے لیے ابن اثیر کی ‘‘النہایہ’’، زمخشری کی‘‘الفائق’’ اور مجلسی کی ‘‘بحار الانوار’’ سے مدد لی گئی۔وحید الزمان اہل لغت کی غلطیاں بھی بیان کر تے ہیں جو عام طور پر درست نہیں ہوتیں۔چونکہ ان کو اس کتاب پر نظرثانی کرنے کا کافی وقت مل گیا اس لیے اس کی خوبیوں میں اضافہ ہو گیا۔

             ‘‘راہ نجات’’ ،‘‘تقریر دل پذیر،ہندو و مسلمان’’،‘‘معلم نسواں’’،‘‘ فتاوی بے نظیر در نفی مثل آنحضور بشیر ونذیر’’ ان کے لکھے ہوئے چند اور کتابچے ہیں۔

             مآخذ: دیباچہکشف المغطاء ترجمہ و شرح موطا امام مالک(وحید الزمان)،دیباچہ ترجمہ صحیح بخاری (وحید الزمان)،انوار اللغہ (وحیدالزمان)، دیباچہ ترجمہ سنن ابو داؤد(عطاء اﷲ حنیف)،نزہۃ الخواطر(عبد الحی لکھنوی)، حیات وحید الزمان (عبد الحلیم چشتی)