گدڑی کا لعل ، نو ر خاں

مصنف : مولوی عبدالحق

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : اگست 2007

            لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں، نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں اور امیروں اور بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہو سکتی ہے ۔ انسا ن کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہے ۔

            پھول میں اگر آن ہے، کانٹے میں بھی اک شان ہے ۔نور خان انگریزی فوج میں ڈرل انسٹرکٹر تھے یعنی گوروں کو جو نئے بھرتی ہو کر آتے تھے انہیں ڈرل سکھاتے تھے اس لیے اکثرگورے افسر ان سے واقف تھے ۔ یہ جب تک فوج میں رہے بڑی آن بان سے رہے۔ سچائی اور فرض شناسی میں مشہور تھے ۔بڑ ے شہسوار تھے گھوڑے کو خوب پہچانتے تھے ۔ بڑ ے بڑے سرکش گھوڑے جو پٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دیتے تھے انہوں نے درست کر دیے۔گھوڑے کو سدھانے اور پھیرنے میں انہیں کما ل حاصل تھا۔ چونکہ بدن کے چھریرے اور ہلکے پھلکے تھے اس لیے گھڑ دوڑوں میں گھوڑ ے دوڑاتے تھے اور اکثر جیت جاتے تھے۔ ان کے افسر،ان کی مستعدی ’ خوش تدبیری اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر اوقات ناراض ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کمانڈنگ افسر نے کسی بات پر خفا ہو کر جیسا کہ انگریزوں کا عام قاعدہ ہے انہیں ‘ڈیم ’کہہ دیا ۔ یہ تو گالی تھی اور خاں صاحب کسی کی ترچھی نظر کے روادار نہ تھے ۔انہوں نے فوراً رپورٹ کر دی۔ لوگوں نے چاہا کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے مگر خاں صاحب نے ایک نہ سنی ۔ معاملے نے طول کھینچا اور جنرل صاحب کو لکھا گیا۔ کمانڈر کا کورٹ مارشل ہوا اور اس سے کہا گیا کہ وہ خاں صاحب سے معافی مانگے۔ ہر چند کہ اس نے بچنا چاہا مگر پیش نہ گئی اور مجبورا ً اسے معافی مانگنی پڑی۔ ایسی خود داری اور نازک مزاجی پر ترقی کی توقع رکھنا عبث ہے نتیجہ یہ ہوا کہ دفعداری سے آگے نہ بڑھے۔

            اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں شریف افسر خاں صاحب کی سچائی دیانت اور جفا کشی کی بہت قدر کرتے تھے اور ان کو اپنی اردلی میں رکھتے تھے مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا انہیں خاں صاحب کے یہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے در پے رہتے تھے ۔ ایسے لوگ اپنی اور اپنی قوم والوں کی خود داری کو تو جوہر شرافت سمجھتے ہیں لیکن اگر یہی جوہر کسی دیسی میں ہوتا تو اسے غرور اور گستاخی پر محمول کرتے ہیں تا ہم ان کے بعض انگریز افسرا ن ان پر بہت مہربا ن تھے خاص کر کرنل فرن ٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تھا کہ شاید ہی کسی اورپر ہو۔ جب کرنل صاحب نے اپنی خدمت سے استعفا دیا تو اپنا تمام مال و اسباب اور سامان جو ہزارہا روپے کا تھا خاں صاحب کے سپرد کر گئے یہ امر انگریز افسروں کو بہت ناگوار گزرا اس وقت کے کمانڈر افسر سے نہ رہا گیا اور اس نے کرنل موصوف کو خط لکھا کہ آپ نے ہم پر اعتماد نہ کیا اور ایک دیسی دفعدار کو اپنا تمام قیمتی سامان حوالے کر گئے اگر آپ یہ سامان ہمارے سپرد کر جاتے تو اسے اچھے داموں میں فروخت کر کے قیمت آپ کے پاس بھیج دیتے ۔ اب بھی اگر آپ لکھیں تو اس کا انتظام ہو سکتا ہے کرنل نے جواب دیا کہ مجھے نو ر خاں پر تمام انگریز افسروں سے زیا دہ اعتماد ہے آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس پر یہ لوگ اور زیاد ہ برہم ہوئے ۔ ایک بار کمانڈنگ افسر یہ سامان دیکھنے آیا اور کہنے لگا کہ فلاں چیز میم صاحب نے ہمارے ہا ں سے منگائی تھی چلتے وقت واپس کرنی بھول گئی اب تم یہ چیز یں ہمارے بنگلے پر بھیج دو۔ خاں صاحب نے کہا میں ایک چیز بھی نہیں دوں گا آپ کرنل صاحب کو لکھیے وہ اگر مجھے لکھیں گے تو مجھے دینے میں کچھ عذر نہ ہو گا ۔وہ اس بات پر بہت بگڑا او رکہنے لگا کہ تم ہمیں جھوٹا سمجھتے ہو۔ خاں صاحب نے کہا میں آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتا ،یہ سامان میرے پاس امانت ہے اور میں کسی کو اس میں سے ایک تنکا بھی دینے کا مجاز نہیں۔ غرض وہ بڑ بڑ اتا ہوا کھسیانا ہو کر چلا گیا۔خاں صاحب نے ایک انگریزی محرر سے اس سامان کی مکمل فہرست تیار کرائی اور کچھ تو خوش خرید پر اور کچھ نیلام کے ذریعے بیچ کر ساری رقم کرنل صاحب کو بھیج دی۔

            ایک کرنل صاحب جب ملازمت سے قطع تعلق کر کے جانے لگے تو اس نے ایک سونے کی گھڑی ایک عمدہ بندوق اور پانچ سو روپے خاں صاحب کو بطو ر انعام کے دیے ۔ خاں صاحب نے لینے سے انکارکر دیا کرنل اور اس کی بیوی نے بہتیرا اصرار کیا مگر انہوں نے سوائے ایک بندوق کے دوسری چیز نہ لی۔ اور باقی سب چیزیں واپس کر دیں۔

            رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد انگریز افسر تم کو بہت نقصان پہنچائیں گے ،وہ ان کی روش سے خوش نہ تھے اور خوش کیوں کر ہوتے خوشامد سے انہیں چڑ تھی اورغلامانہ اطاعت انہیں آتی ہی نہ تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ اپنے کرنل کے ہاں کھڑے تھے کہ ایک انگریز افسر گھوڑے پر سوار آیا ۔ گھوڑ ے سے اتر کر اس نے خاں صاحب سے کہا کہ گھوڑا پکڑو۔ انہوں نے کہا میں سائیس نہیں ہوں۔ اس نے ایسا جواب کاہے کو سنا تھا ۔ بہت چیں بچیں ہوا مگر کیا کرتا ۔ آخر باگ ایک درخت سے اٹکا کر اندر چلا گیا۔ اتفاق سے باگ شاخ سے نکل گئی اور گھوڑا بھاگ گیا ،اب جو صاحب باہر آئے تو گھوڑ ا ندارد۔ بہت جھنجھلایا بڑی مشکل سے تلاش کر کے پکڑوایا تو جگہ جگہ سے زخمی پایا۔ اس نے کرنل صاحب سے خاں صاحب کی بہت شکایت کی معلوم نہیں کرنل صاحب نے اس کو کیا جواب دیا لیکن وہ خاں صاحب سے بہت خوش ہوا اور کہا تم نے خوب کیا۔

            خاں صاحب نے یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں وہ بیما ر بن گئے اور ڈاکٹر کی رپورٹ پر وظیفہ لے کر ملازمت سے سبکدوش ہوگئے ۔سچ ہے انسان کی برائیاں ہی اس کی تباہی کا باعث نہیں ہوتیں بعض وقت اس کی خوبیاں بھی اسے لے ڈوبتی ہیں۔کرنل اسٹوارٹ نے بہت چاہا کہ مسٹر ہنکن ناظم پولیس سے کہہ کر پولیس میں انہیں کوئی اچھا عہد ہ دلا دیں مگر خاں صاحب نے قبول نہ کیااور اپنے وطن دولت آباد چلے گئے۔                       وائسرائے لارڈ کرزن دولت آباد دورے کے لیے آئے تو قلعہ کے اوپر بالا حصار پر گئے۔ وہاں سستانے کے لیے کرسی پر بیٹھ گئے اورجیب سے سگریٹ نکال کر پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگرٹ سلگا یا ہی تھا کہ خاں صاحب آگے بڑھے اور کہا یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے ۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگریٹ نیچے پھینک دیا او رجوتے سے رگڑ دیا۔یہ حرکت دیکھ کر دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا مگر لہو کے گھونٹ پی کر رہ گئے بعد میں کچھ لے دے کی مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ خاں صاحب نے قاعدے کی پوری پابندی کی تھی اس میں چون و چرا کی گنجایش نہ تھی۔

            یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے ہیں لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑ ے بڑ ے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ سچائی بات کی اور معاملے کی ان کی سرشت میں تھی خواہ جان پر ہی کیوں نہ بن جائے وہ سچ کہنے سے کبھی نہ چوکتے تھے ۔اس میں انہیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب گوارا کر لیتے تھے۔ مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ دن ہو رات ہو ہر وقت کام کے لیے تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے کسی کام کو کہیے تو ایسی خوشی خوشی کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔ دوستی کے بڑے پکے اور وضع دار تھے چونکہ ادنا اور اعلا سب کی عزت کر تے تھے اس لیے ان سے غریب دوستوں کے بہت سے کام نکلتے تھے ۔ ان کا گھر مہمان سرائے تھا۔ اورنگ آباد کے آنے جانے والے کھانے کے وقت بے تکلف ان کے گھر پہنچ جاتے تھے اور وہ اس سے بہت خوش ہوتے تھے ۔ بعض لوگ جو مسافر بنگلے میں آکر ٹھہر جاتے تھے ان کی بھی دعوت کر تے تھے ۔ بعض اوقات تو ٹولیا ں کی ٹولیاں پہنچ جاتی تھیں۔ اور وہ ان کی دعوتیں بڑی فیاضی سے کرتے تھے ۔ اس قدر قلیل معاش ہونے پر ان کی مہمان نوازی دیکھ کر حیرت ہوتی تھی ان کی بیوی بھی ایسی نیک بخت تھی کہ دفعتاً مہمانوں کے پہنچ جانے سے کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی بلکہ خوشی خوشی کام کرتی اورکھلاتی تھی۔ خودا دار ایسے تھے کہ کسی سے ایک پیسے کے روادار نہ ہوتے تھے ۔ ڈاکٹر سراج الحسن (ناظم تعلیمات) ہر چند طرح طرح سے ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہتے تھے مگر وہ ٹال جاتے تھے۔ مجھ سے انہیں خاص انس تھا میں کوئی چیز دیتا تو کبھی انکار نہ کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی خود فرمایش کرتے تھے ۔ مٹھاس کے بے حد شائق تھے ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا تو مجبوری سے کھاتا ہوں مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ بھی نہ لگاؤں۔انہیں مٹھاس کھاتے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اکثر جیب میں گڑ رکھتے تھے ۔

            خاں صاحب بہت زندہ دل تھے ، چہرے پرمسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ وہ بچوں میں بچے ، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔ غم او ر فکر کو پاس نہ آنے دیتے تھے اور ہمیشہ خوش رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے ۔ ان سے ملنے اور باتیں کرنے میں غم غلط ہوتا تھا۔ آخر دم تک ان کی زند ہ دلی ویسی ہی رہی۔ڈاکٹر سراج الحسن صاحب جب کبھی اورنگ آباد آتے تو اسٹیشن سے اترتے ہی اپنا رپیہ پیسہ سب ان کے حوالے کر دیتے اور سب خرچ انہیں کے ہاتھ سے ہوتا تھا۔ جانے سے پہلے ایک روز قبل وہ حساب لے کے بیٹھتے۔ بعض وقت جب حساب نہ ملتا تو آدھی آدھی رات تک لیے بیٹھے رہتے تھے ، ہر چند ڈاکٹر صاحب کہتے کہ خاں صاحب یہ تم کیا کرتے ہو، جو خرچ ہوا، ہوا باقی جو بچا وہ دے دیا زیادہ خرچ ہوا ہو تو لے لیا مگر وہ کہاں مانتے تھے ۔ جب تک حساب ٹھیک نہ بیٹھتا انہیں اطمینا ن نہ ہوتا۔چلتے وقت کہتے کہ لیجیے صاحب یہ آپ کا حساب ہے ، اتنا خرچ ہوا اوراتنا بچا ۔ یا کچھ زیادہ خرچ ہو جاتا تو کہتے کہ اتنے پیسے ہمارے خرچ ہوئے ہیں یہ ہمیں دلوائیے۔ کبھی ایسا ہوا کہ انہیں کچھ شبہ ہوا تو جانے کے بعد پھر حساب لے کے بیٹھتے اور خط لکھ کر بھیجتے کہ اتنے آنے آپ کے رہ گئے تھے وہ بھیجے جاتے ہیں یا اتنے پیسے زیادہ خرچ ہو گئے تھے وہ بھیج دیجیے گا۔ ڈاکٹر صاحب ان باتوں پر بہت جھنجھلاتے تھے مگر وہ اپنی وضع نہ چھوڑتے تھے۔

            وہ حساب کے کھرے ، بات کے کھرے اور دل کے کھرے تھے۔ وہ مہر و وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے ۔ ایسے نیک نفس ، ہم درد، مرنجان و مرنج اوروضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا۔ اور ان کی مستعدی کو دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کاہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا مجھے اکثر وہ یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے ۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے ۔

( ۱۹۳۰ء میں لکھا گیا)