تعلیم یا تربیت؟

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : اگست 2007

            راقم الحروف پچیس برس اس نظریے کی تبلیغ و ترویج کے لیے کوشاں رہا کہ کسی قوم کی قسمت تعلیم سے وابستہ ہوتی ہے اوریہ تعلیم اور کتابیں ہوتی ہیں جو نہ صرف حقیقی انقلاب بر پا کرتی ہیں بلکہ قوموں کو بام عروج تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔مگر تعلیمی شعبے کے ایک ہی برس کے عملی تجربے نے مجھے اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ میں اپنے پچیس سالہ نظریے سے رجوع کر لوں۔ چنانچہ مجھے بذریعہ تحریر ہذا یہ اعلان کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں پچیس برس غلط رخ پر سوچتا رہا۔اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض تعلیم نہیں بلکہ تربیت اورمحض کتاب نہیں بلکہ کتاب کو پڑھانے والایعنی استاد ہوتا ہے جو قوموں کی قسمت بدلتا ہے۔ جس تعلیم کے ساتھ تربیت نہیں وہ تعلیم نہیں محض معلومات ہیں ، جس کتاب کے پیچھے استاد کا درد موجود نہیں وہ کتاب نہیں محض لفظوں کا سیکولر اور بے اثر مجموعہ ہے اور جس تعلیمی نظام میں استاد کو مرکزی اور قابل قدر حیثیت حاصل نہیں وہ تعلیمی نظام نہیں بلکہ کمرشل ناٹک اور مہذب سوانگ ہے۔

            وہ بہت سے مناظر جنہوں نے مجھے اس رجوع پر مجبو ر کیا ،ان میں سے دو چار بطور نمونہ آپ کے لیے بھی حاضر ہیں ،انہیں دیکھیے اور مجھے بتائیے کہ کیا میرا رجوع درست ہے یا غلط؟

            محترم استاد نمبر ایک ،سکول ہوسٹل کے میس میں داخل ہوتا ہے ، اس کے ہاتھ میں بہت سی کتابیں ہیں جنہیں وہ زور سے میز پر پٹختا ہے او ر چلاتا ہے، ان کم بخت کتابوں نے آج تک میرا پیچھا نہ چھوڑا۔پھر وہ کتاب اور کتاب بینی کی ‘شناعت’ پر ایک طویل لیکچر دیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ حضرت یہ شعبہ تو کتابوں ہی سے عبارت ہے ، اگر آپ کو کتابوں سے اس قد ر چڑ ہے تو پھر آخر آپ نے اس شعبے کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ محترم استاد فرماتا ہے ، میں نے کیا؟ میرے بس میں ہوتا تو کبھی ادھر کا رخ نہ کرتا، کہیں ملازمت ملی ہی نہیں، ادھر نہ آتا تو کیا کرتا؟

            محترم استاد نمبر دو ،سکول کاریڈار میں خود کلامی کرتے ہوئے گامزن ہے۔پیچھے چلنے والے کے کان میں گالیوں کی آواز آتی ہے ۔وہ غور سے سنتا ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ محترم استاد سکول اور سکول انتظامیہ کو غلیظ گالیا ں دے رہا ہے۔یوں ہی چلتے چلتے محترم استاد کلاس روم میں داخل ہوتا ہے تو سنتا ہے کہ دو بچے ایک دوسرے کو غلیظ گالیا ں دے رہے ہیں۔ محترم استاد انہیں ڈانٹتا ہے اور بچے ہنستے ہوئے اپنی اپنی سیٹ پر جا بیٹھتے ہیں۔

            محترم استاد نمبر تین ، دوسرے استاد سے کہتا ہے‘ اس بچے کو اچھی طرح سبق سکھاؤ آخر اسے کس طرح ہمت ہوئی کہ استاد کی غلطی پوائنٹ آؤٹ کرے ۔ اس کے نمبر مزید کم کردو تا کہ آئند ہ یہ اس طرح کہنے کی جرأت نہ کرے’ ۔(ہوا یوں تھا کہ امتحان میں بچے نے پیپر میں سو میں سے سو نمبر حاصل کیے تھے اور غلطی سے استاد نے رزلٹ شیٹ بناتے ہوئے اس میں اٹھانوے درج کر دیے تھے ۔بچے نے لسٹیں وغیر ہ بننے کے بعد استاد کی توجہ اس غلطی کی جانب مبذول کروائی ۔ استاد نے کہا بیٹے تم مجھے پیےپر لا کر دکھاؤ اگر واقعی سو ہوئے تو میں رزلٹ تبدیل کر دوں گا۔دوسرے دن بچہ پیپر لے آیا ۔ استاد نے اپنی غلطی تسلیم کی اور دوبارہ سے تمام رزلٹ شیٹیں تیار کیں۔) محترم استاد دوسرے استاد سے کہتا ہے کہ آپ نے اتنی محنت دوبار ہ کیوں کی آسا ن حل تھا کہ پیپر پر کاٹ کر نمبر اٹھانوے کردیتے ۔ دوسرااستاد کہتا ہے کہ محترم استاد یہی تو موقع تھا کہ طالب علم پر اپنے عمل سے ثابت کیاجاتا کہ اپنی غلطی کس طرح تسلیم کی جاتی ہے ،سو میں نے یہی کیا ۔ اگر اس کے بغیر میں کلاس روم میں اس موضوع پر لیکچر دتیا رہتا کہ اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے اور عملاً خود ایسانہ کرتا تو میرے لیکچر کا الٹ اثر ہوتا۔محترم استاد یہ کہتے ہوئے خاموش ہو جاتا ہے کہ تم جیسے لوگوں ہی نے طالب علموں کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔

             محترم استاد نمبر چار ، سکول ہوسٹل میں موجود اجتماعی واشنگ مشین میں کپڑے دھونے کے لیے ڈالتا ہے ۔ دن گزرتا ہے ، رات آتی ہے مگر کپڑ ے وہیں موجود رہتے ہیں اور محترم استاد وقتا ًفوقتاً تشریف لا کر مشین کا ٹائمر چلاتا رہتا ہے اور مشین مسلسل حرکت میں رہتی ہے۔ دوسرا دن آتا ہے شام ہوتی ہے، کپڑ ے وہیں موجود رہتے ہیں اور مشین چلتی رہتی ہے ۔کوئی ہمت کر کے محترم استاد سے کہتا ہے کہ حضرت آپ گھر میں بھی واشنگ مشین اسی‘ محبت’ سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سوال محترم استاد کی شان میں گستاخی تصور ہوتا ہے اور پھر دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ محتر م استاد سائل کی گوشمالی کا مقدس فریضہ اس طرح انجام دیتا ہے کہ لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔

            محترم استاد نمبر پانچ، قرآن مجید کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے سے بھی قاصر ہے مگر سارے شہر میں درس قرآن دیتاپھرتاہے۔ بات بات پہ احادیث اور قرآن مجید کے غلط سلط حوالے دینا اور ہر ہر قدم پر سبحان اللہ ،ماشاء اللہ ، الحمدللہ کہنا بھی اس کا تکیہ کلام ہے ۔اسے پورا یقین ہے کہ وہ دین پر ایک اتھارٹی ہے۔کچھ اندھے جب اس کی بات پر یقین کرلیتے ہیں تو یہ خود کو اندھوں میں کانا راجا سمجھنے لگتا ہے اور پھرسمجھتا ہی رہتا ہے ۔ یہ جس طرح بڑے خلوص سے خود کواسلام کا نمائند ہ سمجھتا ہے اسی طرح بڑی محبت اور جذبے کے ساتھ خود کو مصلح اور واعظ بھی جانتا ہے ۔ اسی لیے وہ سمجھتا ہے کہ اس کا فرض منصبی ہے کہ اپنے ساتھیوں کی خامیاں ڈھونڈتار ہے ، ان کے عیوب کی ٹوہ میں لگا رہے اور پھر انہیں بدنام بھی کرتا رہے ۔ آخر اصلاح کے لیے یہ عمل کرنا ہی پڑتا ہے ۔یہ رائی کا پہاڑ بنا نے میں بھی ماہر ہے اور ایسے ہی پہاڑ بنا کر یہ ان کے سائے میں آرام کرتا ہے۔ خود کومکمل اور دوسروں کو بڑے وثوق کے ساتھ نامکمل جانتا ہے اورپھر ان کو مکمل کرنے کے لیے ان کا ناک میں دم کیے رکھتا ہے ۔یہ سکول میں جس مضمون کا استاد ہے اس مضمون کی بنیادی باتوں سے بھی نابلد ہے مگر دوسرے مضامین کی اعلی باتوں کی بھی خبر رکھتا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ اعلی باتیں بھی اس کی خو د ساختہ ہوتی ہیں۔

            محترم اساتذہ کاگروپ سٹاف روم میں براجمان ہے ۔ یہ سب اپنے اپنے سبجیکٹ میں پوسٹ گریجوایٹ ، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہیں مگر مجال ہے کہ ان کی مبارک زبان سے کوئی علمی بات سننے کو مل جائے البتہ یہ سب فحش لطائف سنانے اورمسجع و مقفع گالیاں دینے میں ماہر ہیں۔آج کی محفل کا رنگ ہی کچھ اور ہے ۔ ایک محترم استاد لطیفے کی ‘علمیت ’سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ اپنا زیر جامہ بھی اتار پھینکتے ہیں اور دوسرے حضرات دوڑ کر دروازہ بند کرتے ہیں کہ طلبا علم کی یہ بہار نہ دیکھ لیں۔

             ظہرکی نماز کا وقت ہے۔ سکول انتظامیہ کی طرف سے محترم اساتذہ کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ بچوں کو ظہر کی نماز باجماعت پڑھائیں اور اس مقصد کے لیے انہیں نماز کے ہال میں لے کر جائیں۔ اساتذہ یہ فریضہ بخوبی انجام دیتے ہیں اس لیے کہ سکول انتظامیہ اس امر پر خاص نگاہ رکھتی ہے البتہ بچوں کونماز کے ہال میں داخل کر کے محترم اساتذہ کا ایک گروپ دائیں بائیں ہو جاتا ہے اور بچے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہوئے نماز پوری کرتے ہیں اور ہنستے ہنستے کلاس رومز میں واپس چلے جاتے ہیں۔

            محترم اساتذہ کے ایک گروپ نے شہر بھر میں ٹیوشن کا جال پھیلا رکھا ہے۔بچوں کو ٹیوشن کی طرف مائل کرنے کے لیے بھی ان کے مخصوص حربے ہیں جو الگ سے پوری ایک داستان ہے۔خیر ٹیوشن پڑھانا بھی کوئی گنا ہ نہیں بشرطیکہ محترم اساتذہ وہاں دیانتداری کامظاہرہ کریں مگر المیہ یہ ہے کہ جس طرح کلاس میں یہ بچوں کو پڑھانے میں کم اورممکنہ پیپروں کو دہرائی کے نام پر بورڈ پر حل کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں بعینہ یہ ٹیوشن میں بھی بچوں کو ممکنہ پیپر حل کروا دیتے ہیں۔بچہ امتحان میں سو فیصد نمبر حاصل کر لیتا ہے بچہ بھی خوش اور ا س کے والدین بھی خوش۔محترم اساتذہ کا یہ گروپ سکول کے ماہانہ ، سہ ماہی ، ششماہی اور سالانہ پیپرو ں کا آپس میں تبادلہ کرتارہتا ہے تا کہ سب کا روزگار چلتا رہے۔

             قارئین محترم: یقین جانئے کہ مناظر کے ڈھیر میں سے ایک محتاط انتخاب آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے ورنہ بہت سے مناظر تو ایسے ہیں کہ قلم ان کو مہذب الفاظ کا روپ دینے سے قاصر ہے۔

            یہ سب مناظر دیکھنے کے بعد ،اور ان میں آپ کے تجربے میں آنے والے بہت سے مناظرجمع کرنے کے بعد ،ہو سکتا ہے کہ آپ بھی یہی فیصلہ کریں کہ میرا رجوع درست تھا۔ لیکن اس کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ آپ اپنے ذہن سے سوچیے ،آپ کا میرے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ، البتہ مجھے اب اسی پر اصرار ہے کہ یہ تعلیم نہیں بلکہ تربیت اور کتاب نہیں بلکہ استاد ہوتا ہے جو قوموں کی قسمت بدلتا ہے ،لیکن استاد ، استاد ہونا چاہیے‘ ‘محترم استاد’’ نہیں ہونا چاہیے ۔یہ مناظر دکھانے کا مقصد یہی تھا کہ استاد کا اصل ہونا کس قدر ضروری ہے ورنہ استاد توہیں لیکن سارے ہی محترم اور ‘‘محترم اساتذہ ’’قوم کی قسمت بدلتے نہیں بلکہ اس سے کھیلتے ہیں ہاں البتہ اپنی قسمت ضرور بدل لیتے ہیں۔

             استاد اگر استاد ہو توکتاب کیسی ہی کیوں نہ ہو وہ اس سے اسلام برآمد کر لے گا اور اگر استاد سیکولرذہن کاہے تو وہ پھراسلامیات کی کتاب سے بھی سیکولر ازم برآمد کر ے گا ۔اسی طرح اگر استاد تربیت کرنے والا ہے تو وہ چھوٹی تعلیمی ڈگر ی کے ساتھ بھی بڑی تربیت کر لے گا اوراستاد اگر تربیت کرنے سے قاصر ہے تو وہ بڑی بڑی تعلیمی ڈگریوں کے ساتھ بھی چھوٹی سی تربیت کرنے سے قاصر رہے گا۔ تربیت کے بغیر تعلیم انسان کو ایک اچھی مشین یا ایک ‘مہذب شتر بے مہار’ تو بنا سکتی ہے ایک اچھا مسلمان اور اچھا انسان ہر گز نہیں ۔ اچھے استاد کے بغیر اچھی کتا ب بھی بری ہے اور اچھے استاد کے ساتھ بری کتاب بھی اچھی بن جاتی ہے۔

             مجھے ترس آتا ہے ان لوگوں پر جنہوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے بڑے بڑے خلوص سے قائم کیے اوران پر بڑی محنت بھی کی ۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ تعلیمی ادارہ قوم کی قسمت بدل کے رکھ دے گا مگر جب برسوں بعد بھی نتیجہ صفر رہا تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ۔اور وہ لوگ جو ما یوس نہیں ہوئے ان کی محنت کا رخ آج بھی اس طرف ہے کہ کس طرح تعلیمی ادارے کی عمارت پر شکوہ اور خوبصورت بنا دی جائے ،کمرے کشاد ہ ، ہوادار ، روشن اور ایر کنڈیشنڈ کر دیے جائیں،فرنیچراعلی پائے کا لایاجائے ، باغیچے پھولوں سے بھردیے جائیں ، گراؤنڈ وسیع و عریض بنا دیے جائیں، مارننگ اسمبلی ڈھول کی تھاپ پرمنعقد کی جائے ، بچوں کی یونیفارم سمارٹ بنا دی جائے ، ان کے بالوں کو ایک خاص ‘کٹ ’دیا جائے ،ان کو گفتگو کا خاص اندازسکھا دیا جائے ، مغربی تہذیب ظاہرکرنے والے چند جملے رٹا دیے جائیں،جمناسٹک اور پی ٹی شو ماڈرن کر دیے جائیں، کتابیں رنگین ہوں، سٹیشنری معیاری ہو ، اورتعلیم کا ہر زینہ نفسیات اور فلسفے کی تھیوریوں کے سائے میں طے ہوکہ اس سائے میں تعلیم حاصل کرنے والے باتیں اور فلسفہ بیان کرنے میں توخوب ماہر ہوں اور عمل کی باری آئے تو صفر ثابت ہوں۔

            کاش یہ لوگ تعلیمی اداروں سے قبل قوم کو اچھا استاد دینے کی سعی کرتے۔ جتنا پیسہ یہ لوگ ارد گرد کی چیزوں پر خرچ کر رہے ہیں اس سے نصف بھی استاد پر صرف کر دیتے توآج منظر کچھ اور ہوتامگر المیہ تو یہی ہے کہ ان لوگوں کی اکثریت یہ نقطہ سمجھنے سے قاصر ہے اور آج بھی ان کی محنت کا رخ عمارات کی تزئین و آرائش کی طرف ہے نہ کہ استاد کی طرف۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یہ لوگ میری طرح رجوع نہیں کریں گے، گنگا تو بہر حال بہتی رہے گی مگر الٹی۔