اس مرض کی کوئی دوا نہیں

مصنف : زہرہ بی بی ، کراچی

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جون 2007

            میر ی شادی بہت چھوٹی عمر میں کر دی گئی تھی۔میرے میاں اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے فرد تھے۔ ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا۔ مرحومہ سے دو سال کا ایک بچہ تھا۔میں فطری طور پر بڑ ی رحمد ل خاتو ن ہوں۔میں نے اپنے رشتے کا کبھی ناجائز فائد ہ نہ اٹھایا۔مجھے یہ بچہ پہلے ہی دن سے بہت اچھا لگا۔گو میرے شوہر کوئی روک ٹوک نہ کرتے تھے پھر بھی میں نے بچے کو کبھی پھول کی چھڑ ی سے بھی چھوا تک نہ تھا۔کچھ دن وہ سہما سہما رہامگر میرے بھر پور پیار نے اسے جیت لیا۔پھر تو وہ میرے گلے کا ہار ہو گیا۔ہروقت میرے دوپٹے کا پلو پکڑے میرے پیچھے امی امی کرتے پھرتا۔ایمان کی بات ہے کہ مجھے بھی اس سے سگی اولاد کی طرح محبت تھی۔ شادی کے بعد مجھے ہر طرح کا سکھ رہا ۔ ایک اولاد ہی نہ ہو سکی تھی اس کمی کو فرید نے پورا کر دیا تھا۔اس کی اچھی پرورش کے لیے میں نے دن رات ایک کر دیا تھا۔کبھی کبھی تو فرید کے لیے میری مصروفیت دیکھ کر میرے شوہر بھی چڑ جاتے تھے۔

            یہ داستان میری نہیں اسی بچے کی ہے جسے میں نے پھولوں پر سلایا اور سونے کا نوالہ کھلایا۔ وہ برسوں میرے سینے پر سر رکھ کر سویااور اسے کبھی یہ خیال نہ آیاکہ میں اس کی سگی ماں نہیں ہوں۔ سکول اور کالج کے زمانے میں بھی میں اسکی دوست بنی رہی۔اپنی ذرا ذرا سی بات وہ میرے گلے میں بانہیں ڈال کے بتاتا تھا۔میں نے اس کی ہر اچھی بات اپنے شوہرکو بتائی اور بری بات پر خود ہی سرزنش کر دی۔وہ میری بات پر کبھی نہ بگڑا۔سعادت مند انداز سے میری بات سنتااور پھر مجھے شکایت کاموقع نہ دیتا۔فرید نے مجھے واقعتا ایسا سکھ دیا تھاجو شاید میری اپنی اولاد بھی نہ دے سکتی۔

            میں سچ مچ اس کی ماں تھی۔میں اس کے دل کی بات پہلے ہی سے جان گئی تھی۔میرے بھانجے کی شادی تھی او ر میں اس میں شرکت کے لیے کافی دن پہلے ہی چلی گئی تھی۔فرید بھی میرے ساتھ ہی تھا۔ا س نے یہاں ہر تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔میں تو پہلے دن ہی سے اس کی دلچسپی کی وجہ سمجھ گئی تھی۔میری چھوٹی بھانجی نیما بہت نیک اور پیاری سی تھی۔فرید اس میں دلچسپی لیتاتھا۔ میں نے اپنے شوہر سے بھی اس بات کا تذکرہ کیا ۔ فرید سے میں نے اس کی رائے پوچھی تو وہ تو میرے گلے کا ہا ر ہو گیا اورکہنے لگا کہ میری امی آپ کتنی اچھی ہیں۔میرے شوہر اس رشتے کے مخالف تھے میں نے ان کی رضا مندی کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور بالآ خر کامیاب ہو گئی۔جس دن فرید نیماکو دلہن بناکر گھر لایا تو اس دن میں چین کی نیند سوئی۔

            میں نے اتناپیار بہت کم میاں بیوی میں دیکھا ہے جتناان دونوں میں تھا۔دونوں ایک دوسرے کودیکھ کر جیتے تھے ۔انکی محبت دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوتا تھا کہ اگر یہ ملاپ نہ ہوتاتو بہت بڑا ظلم ہوتا۔میرے شوہر بھی یہ قابل رشک محبت دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ اور میں تو ہر وقت ان دونوں کے سکھی رہنے کی دعائیں کرتی رہتی۔پورے پانچ سال اس جوڑے نے مکمل وارفتگی میں گزار دیے۔نیما کے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو مجھے فکر ہوئی۔ایک دن فرید کو کریدا تو میرے سر ہو گیا کہ مجھے بس نیماکی ضرورت ہے اولاد ہو نہ ہو۔ اس کے بعد ہم میاں بیوی نے کبھی اس بات کا تذکرہ نہ کیا۔نہ جانے کیا ہوا کس کی نظر لگ گئ کہ نیما بیمار رہنے لگی اور دو ہی ماہ میں بستر سے لگ گئی۔فرید اسے ڈاکٹروں کے پاس لیے لیے پھرا مگر افاقہ نہ ہوا ۔ایک مہینے کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ نیما کی آنکھ میں ناسور ہوگیا ہے ۔ ایکسرے رپورٹ نے بالکل مایوس کر دیا۔ فرید بالکل دیوانہ ہو گیا۔ دفتر جاتا اور تھوڑی دیر بعد واپس پلٹ آتا۔ہر وقت نیما کی چارپائی سے لگارہتا۔نہ اسے اپنی فکر تھی اور نہ کسی اور کی پرواہ۔پھول سی نیما کو کسی کی دعائیں نہ لگ سکیں۔چاہ ما ہ میں وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی۔مرنے سے پہلے اس کا چہرہ آنکھ کے متعدد آپریشنوں سے بگڑ چکا تھا۔پھر بھی فرید اسے پہروں تکتا رہتا۔میں اسے آرام کا کہتی تو شیر کی طرح غراتا۔زندگی میں پہلی بار اس نے میرے ساتھ گستاخیا ں بھی کیں ۔ میں اس کا درد سمجھتی تھی۔اس لیے ایسے موقعوں پر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر چپ ہو رہتی۔اور وہ بچوں کی طرح مجھ سے لپٹ کر رونے لگتا۔

            نیما نے سترہ نومبر ۱۹۶۲ کو ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔میرے قلم میں وہ طاقت نہیں کہ میں فرید کی کیفیت کا احاطہ کر سکوں۔وہ پاگلوں کی طرح ہر ایک کا چہرہ تکتا رہتا۔پھر شدت کرب سے مٹھیاں بھینچتا رہتا۔سارا سارا دن اپنے کمرے سے باہر نہ نکلتا۔میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ عام مردوں کی طرح زندگی میں واپس آجائے ۔مگرایسا نہ ہو سکا۔مجھے خطرہ تھا کہ کہیں پاگل نہ ہو جائے ۔ ملازمت بھی چھوٹ گئی۔اس کے والد کو بیٹے کی جان عزیز تھی اس لیے ملازمت چھوڑنے کا انہوں نے ذرا اثر نہ لیا۔بلکہ خود اسے بہلانے کے لیے باہر لے جاتے ۔میں نے اس کے غم کا محور بدلنے کے لیے کیا کیاجتن نہ کیے ۔ اچھی سے اچھی لڑکی سے اس کی شادی کی کوشش کی پانچ چھ ماہ اپنی چچا زاد بہن کی نند کو لاکررکھاکہ شاید اس کی طرف مائل ہو مگر کچھ اثر نہ ہوا۔ادھر میں نے زندگی کی ہر ممکن خوشی اس کے قدموں میں ڈالنے کی سعی کی اور ادھر ڈاکٹروں نے رپورٹ دی کہ اسے ٹی بی ہو گئی ہے۔ میرے شوہر پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ہم دونوں نے اسے بچانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔چھ سات ماہ اسے کوئٹہ رکھا۔ پھر اس کی بے پناہ ضد پرمیں اسے گھر لے آئی۔اس کا کمرہ جس میں نیما کی چیزیں جوں کی توں رکھی تھیں اس کے واپس آنے کا سبب تھا۔وہ کہتا امی مجھے اسی کمرے میں مرنے دیں۔ میں جانتی تھی کہ اس مرض کی آج تک کوئی دوا نہیں بن سکی پھر اس کے بات کیسے نہ مانتی۔

            وہ نیما کے بعد دو سال اسی حالت میں زندہ رہا۔جب وہ مر گیا تومجھے لگا کہ میرے بیٹے کو اب ابدی سکون مل گیا ہوگا کہ ہو سکتاہے کہ اس کی وہاں نیما سے ملاقات ہو گئی ہو۔

            اب تو میرے شوہر کا بھی انتقال ہو چکا وہ بیچارے یہ غم برداشت نہ کرسکے۔ میں اب بالکل اکیلی ہوں، لیکن شاید نہیں، میرے پاس سنانے کے لیے فرید کی ہزاروں باتیں ہیں جنہیں سناتے وقت مجھے یوں ہی لگتا ہے کہ وہ یہیں کہیں بیٹھا ہے۔