امام اوزاعیؒ

مصنف : عبدالصبور طارق

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جون 2007

            امام اوزاعی شام کے سب سے بڑے فقیہہ اور اہل شام کے امام تھے۔ ان کا شمار بہت بڑے ائمہ حدیث میں بھی ہوتا ہے۔۔ اہل شام ان کے مذہب کے پیرو تھے۔ بقول علامہ شبلی نعمانی امام اوزاعیؒ محدث اور مجتہدِ مستقل تھے اور بلاد ِ شام میں ان کا وہی اعزاز و اعتبار تھا جو عرب و عراق میں امام مالکؒ و شافعیؒ کا۔ اور مصر کے جلیل القدر عالم اور مصنف علامہ احمد امین کا کہنا ہے کہ :‘‘ان کا مرتبہ کسی طرح بھی امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ سے کم نہیں ہے۔’’ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ‘‘تاریخوں سے ثابت ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے فنِ حدیث میں امام اوزاعیؒ کی شاگردی کی اور ان سے‘‘حدیث کی سند بھی لی۔’ اس سے امام اوزاعی کے مرتبہ و مقام کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ امام اوزاعی ؒ کا مذہب مغرب اور اندلس میں پھیلا لیکن بالآخر امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے مذاہب نے ان کے مذہب کو شکست دے دی اور وہ جلد ہی فنا ہوگیا۔ امام اوزاعیؒ شام کے قاضی بھی تھے۔ مشہور مصری فاضل علامہ محمد خضریٰ امام اوزاعی کے متعلق رقمطراز ہیں:‘‘امام اوزاعیؒ ان محدثین میں تھے جو قیاس کو پسند نہیں کرتے تھے اور اہل شام کا عمل ان کے مذہب پر تھا اور وہ شام کے قاضی تھے۔ پھر بنو امیہ کی اولاد میں جو لوگ اندلس گئے۔ ان کے ساتھ امام اوزاعیؒ کا مذہب بھی اندلس چلاگیا۔ پھر تیسری صدی کے نصف حصہ میں امام شافعی ؒ کے مذہب کے مقابلہ میں شام میں اور امام مالک کے مذہب کے مقابلہ میں اندلس میں ان کے مذہب کا چراغ بجھ گیا۔ امام اوزاعیؒ نے ۱۵۷؁ھ میں وفات پائی۔’’

حق گوئی و بے باکی:

            امام اوزاعیؒ انتہا درجہ کے حق گو ، بے باک اور حوصلہ مند عالم تھے۔ ان کی حق گوئی اور بے باکی کا سب سے بڑا ثبوت ان کی وہ مشہور بے باکانہ گفتگو ہے۔ جو ان کے اور عباسی خلیفہ سفاح کے چچا عبداللہ بن علی کے ساتھ شام میں ہوئی۔ اس سلسلہ میں علامہ محمد خضری لکھتے ہیں:‘‘ ان کے استقلال کے مشہور مقامات میں وہ گفتگو ہے جو انہوں نے عبداللہ بن علی کے ساتھ اس وقت کی جب وہ شام میں آئے اور بنو امیہ کو قتل کیا۔ چنانچہ جب وہ اپنی فوج میں جن کی تلواریں کھنچی ہوئی تھیں، موجود تھے تو انہوں نے اوزاعیؒ کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ بنو امیہ کے خون کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہو ں نے کہا:‘‘تم میں اور ان میں معاہدے تھے اور تمہیں ان کو پورا کرنا چاہیے تھا۔’’ اس نے کہا کہ :‘‘یہ فرض کر لو کہ ہمارے درمیان معاہدہ نہیں ہے۔’’ وہ کہتے ہیں کہ میں گھبرایالیکن پھر یہ خیال کیا کہ میں خدا کے سامنے کھڑا ہوں ۔ اب میں نے اس سے کہا کہ:‘‘ان کا خون تجھ پر حرام ہے۔’’ وہ برہم ہُوا اور غصہ سے اس کی آنکھیں نکل آئیں اور گردن کی رگیں پھول گئیں۔ اور اس نے کہا:‘‘کیوں’’ میں نے کہا کہ:‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بجُز تین صورتوں کے مسلمانوں کا خون حلال نہیں ہے، ایک تو یہ کہ بیاہا(شادی شدہ) آدمی زنا کرے، دوسرے یہ کہ جان کے بدلے میں جان لی جائے، تیسرے یہ کہ ایک شخص دین کو چھوڑ دے۔’’اس نے کہا کہ :‘‘کیا ہماری حکومت دینی نہیں ہے؟’’ میں نے کہا:‘‘کیونکر۔’’ اس نے کہا:‘‘کیا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کے لیے وصیت نہیں کی تھی؟’’میں نے کہا:‘‘ اگر رسول اللہﷺ ان کے لیے وصیت کرتے تو وہ حکم مقرر نہ کرتے۔’’ اب وہ چپ ہوگیا اور غصہ میں بھر گیا۔ اس پر مجھے خیال ہوا کہ میرا سر میرے آگے گرے گا لیکن اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ:‘‘اس کو نکالو’’ اور میں نکل آیا۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہتے ہیں کہ ‘‘اس گفتگو کے بعد امام ہمام کو توقع تھی بلکہ یقین تھا کہ ان کی گردن اڑا دی جائے گی لیکن اس کے برعکس ہوا۔ یہ کہ عبداللہ بن علی نے اگر چہ اس وقت بگڑ کر امام اوزاعی کو دربار سے نکلوادیا۔ مگر بعد میں ان کے پاس دنانیر(دینار کی جمع) کی ایک تھیلی بہ طور نذرانہ ارسال کی جس کو امام نے اسی وقت مستحقین میں تقسیم کر دیا۔’’(ماہنامہ برہان، دھلی ، جون ۱۹۴۲ء، مضمون:‘‘اسباب عروج و زوالِ امت’’)

عبداللہ بن علی:

            عبداللہ بن علی جس سے امام اوزاعیؒ کی مندرجہ بالا گفتگو ہوئی۔ تاریخ اسلام کا ایک بڑا ظالم انسان تھا اس نے بنو امیہ کے ساتھ جو خوفناک ظلم کیا۔اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور انسانیت اپنا سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ جب عباسیوں نے ۳۲ا ھ مطابق ۷۵۰عیسوی میں بنو امیہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تو انہوں نے اس خاندان کے تمام افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنا شروع کیا۔ ابو مسلم خراسانی نے خراسان وغیرہ میں اور عباسیوں کے پہلے خلیفہ ابو العباس سفاح کے چچاؤں نے دوسرے علاقوں میں اپنی دانست میں ان کا نام و نشان تک مٹا ڈالا۔ ایک چچا داؤد بن علی نے مکہ اور مدینہ میں بنو امیہ کا قتل عام کیا۔ دوسرے چچا سلیمان بن علی نے بصرہ میں بہت سے امویوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور مورخ ابنِ اثیر کے بیان کے مطابق ان کے پیروں میں رسیاں بندھوا کر ان کی بے گورو کفن لاشوں کو شاہراہِ عام پر ڈال دیا۔ جہاں ان کے جسم آوارہ کتوں کے لیے سامانِ ضیافت بنے رہے ۔ اور تیسرے چچا عبداللہ بن علی نے تو دغا بازی اور ظلم کا ایسا عجیب و غریب نمونہ پیش کیا جو عباسیوں کی شہرت و عظمت کے دامن پر ہمیشہ ایک انتہائی بدنما داغ کی صورت میں نظر آتا رہے گا۔عبداللہ بن علی( جو مشہور صحابی اور مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا پوتا تھا ) نے کیسا گھناؤنا کارنامہ انجام دیا۔ اس کے متعلق مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی اپنی مشہور و معروف‘‘تاریخ اسلام’’ میں لکھتے ہیں کہ ‘‘عبداللہ بن علی جن دنوں میں فلسطین کی طرف تھا وہاں نہرابی فطرس کے کنارے دستر خوان پر بیٹھا کھانا کھارہا تھا اور ۸۰؍۹۰ بنو امیہ اس کے ساتھ کھانے میں شریک تھے۔ اسی اثنا میں شبل بن عبداللہ آگیا۔ اس نے فوراً اپنے اشعار پڑھنے شروع کیے۔ جن میں بنو امیہ کی مذمت اور امام ابراہیم کے قید ہونے کا ذکر کر کے بنو امیہ کے قتل کی ترغیب دی گئی تھی۔ عبداللہ بن علی( عبداللہ سفاح کے چچا) نے اسی وقت حکم دیا کہ ان سب کو قتل کر دو۔ اس کے خادموں نے فوراً قتل کرنا شروع کیا۔ ان میں بہت سے ایسے تھے جو بالکل مر گئے تھے۔ بعض ایسے بھی تھے کہ وہ زخمی ہو کر گر پڑے تھے مگر ان میں ابھی دم باقی تھا۔ عبداللہ بن علی نے ان سب مقتولوں اور زخمیوں کی لاشوں کو برابر لٹا کر ان کے اوپر دستر خوان بچھوایا۔اس دستر خوان پر کھانا چُنا گیا اور عبداللہ بن علی مع ہمراہیوں کے پھر اسی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں مصروف ہوا۔ یہ لوگ کھانا کھارہے تھے اور ان کے نیچے وہ زخمی جو ابھی مرے نہیں تھے۔ کراہ رہے تھے حتی کہ یہ کھانا کھاچکے اور وہ سب کے سب مرگئے۔

            یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنو امیہ کو (جن میں اس خاندان کی بعض سر کردہ شخصیتیں بھی شامل تھیں) عبداللہ بن علی نے امان کا وعدہ دے کر دعوت میں مدعو کیا تھا۔ جس میں ان کو حلف اطاعت و وفاداری اٹھانا تھا۔ ایک انگریز مصنف لیفٹیننٹ جنرل سر جان گلب اپنی گراں قدر تصنیف ‘‘عربوں کی عظیم سلطنت’’(The Empire of Arabs) میں عباسیوں کے اس طرز عمل یعنی دغا بازی اور فریب دہی پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہے:‘‘بنو امیہ نے بے شک اپنے زمانہ میں خون بہایا تھا لیکن وہ فریبی اور دغاباز نہیں تھے۔ عام طور پر وہ مہمان نوازی اور مہمان کی تقدیس و حرمت کی پرانی عرب روایات کو مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے تھے۔ لیکن عباسیوں نے تمام بنی امیہ کو مصالحت کی ایک دعوت میں عمداً اس لیے بلایا کہ ان کا قتل عام کیا جائے....’’

            یہی انگریز مصنف مزید لکھتا ہے کہ (عربوں کی) سلطنت میں دغا بازی اور فریب دہی کو ترقی کرتے دیکھنا بلاشبہ ایک باعث رنج و تکلیف امر ہے۔ ابتدائی دور کے مسلمان اپنی تمام ذمہ داریوں کو حرف بہ حرف اور من و عن پورا کرنے میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ اگر چہ ایسا کرنے میں ان کا اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں وہ یہودیوں ، عیسائیوں اور کافروں تک کے ساتھ اپنے تعلقات و معاملات میں وہی سخت، بے لوچ اور سادہ دیانتداری برتتے تھے جو وہ اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ بروئے کار لاتے تھے۔ بنو امیہ کا زمانہ آیا تو اس میں شاید معمولی سے مشکوک کردار کے چند واقعات رونما ہوئے لیکن بنی امیہ کے پورے عہد میں ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ملتا جس کا مقابلہ دمشق کی دعوت کے قتل عام سے کیا جاسکے۔اس خوفناک دعوت کے قتل عام کے بعد بھی عبداللہ بن علی کی آتش انتقام فرو نہیں ۔ تو اس نے بنو امیہ کے مُردوں سے انتقام لینا شروع کر دیا۔ اور وہ اس طرح کہ اس نے خلفائے بنو امیہ کی قبروں کو کھدوا ڈالا۔ ابن اثیر نے تاریخ الکالم میں بنو امیہ پر مظالم کے اور بھی دردناک واقعات لکھے ہیں۔ جن کو پڑھ کر انسانیت اور شرافت لرزہ براندام ہوجاتی ہیں۔ لیکن ظالم عبداللہ بن علی کابھی انجام اچھا نہیں ہوا۔ جب اس نے خلیفہ منصور کے خلاف بغاوت کی تو منصور نے اس کو اور اس کے دو بیٹوں کو ہاشمیہ کے ایک قلعہ میں قید کر دیا۔ چند سال کے بعد اس قیدکو بھی خطرے کا پیش خیمہ محسوس کیا تو نمک کی بنیادوں پر ایک مکان بنوا کر تینوں قیدیوں کو بڑے لطف و کرم کے ساتھ اس میں اتارا۔ مگر پہلی ہی بارش نے مکان کو زمین بوس کر کے قیدیوں کو راہ گیر ملک عدم کر دیا۔