ہاتھی دانت

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مئی 2007

            بہن کے ہاتھوں میں فراز نے موبائل فون دیکھا تواس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔ اس کی طرف لپکا اور کہا یہ کس کا ہے ؟ بہن نے کہا میرا ہے ۔ کس نے لے کر دیا ہے ۔ امی جان نے ، بہن نے کہا۔ بس پھر کیا تھا ۔ فراز نے تو ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔ اس کا خیال تھا کہ یہ گھر کی عزت و عصمت کے خلاف ہے کہ بہنوں کو موبائل لے کر دیا جائے اور پھر اس پر اپنے کزن سے بات کرنے کی اجازت بھی دی جائے ۔ یہ ہنگامہ کافی دن چلتا رہا حتی کہ ماں کو بیٹے کی خوشی کی خاطر بیٹی سے موبائل واپس لینا پڑا۔

             فراز میرا بچپن کا دوست تھا ۔ وہ واقعی ایک اچھا لڑکا تھا ۔ ہم بچپن ہی سے ایک دوسرے سے واقف تھے ۔ سکول میں ہم، ہم جماعت بھی رہے۔ میٹرک میں بدقسمتی سے وہ زیادہ اچھے نمبر نہ لے سکا حالانکہ وہ مجھ سے زیادہ ذہین تھا جس کی وجہ سے کالج میں ہم دونوں کو الگ الگ ہونا پڑا ۔ اگرچہ ہماری منزلیں اب جدا جدا تھیں مگر ہمارے درمیان اب بھی جدائیاں نہ تھیں۔ ہم دونوں ایک ہی کالج میں تھے ، یوں روزانہ ہی ہماری ملاقات ہو جاتی اور کبھی کبھار تو یہ ملاقات گھنٹوں طویل ہو تی ۔ کہیں بھی کوئی بھی مشکل درپیش ہوتی وہ ہمیشہ میرا ساتھ دینے کے لیے وہاں موجود ہوتا ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ پہلے والا سلسلہ نہ رہا ۔ وہ اپنی پڑھائی میں مشغول ہو گیا تو میں اپنی پڑھائی میں مصروف۔ مگر پھر بھی دو چار روز بعد تو ملاقات ہو ہی جاتی ۔ کبھی وہ میرے گھر اور کبھی میں اس کے گھر ۔ کسی روز اگر موسم اچھا ہوتا اور میں بھی فارغ ہوتا تو میں شام کے وقت سیر کرنے پارک میں چلا جاتا ۔ اُس روز بھی موسم اچھا تھا اور اگلے دن ویسے بھی چھٹی تھی لہذامیں سیر کے لیے پارک میں چل دیا ۔ کچھ دیر پارک میں گزارنے کے بعد میں حسب معمول واپس آگیا۔ اگلی صبح فراز مجھ سے ملنے گھر آیااور اس نے شکوہ کیا کہ رات کو وہ بھی پارک میں موجود تھا اور میں نے اسے نظر انداز کیا ، میں نے واقعی اس کو نہیں دیکھا تھا پھر بھی میں نے اس سے معذرت کی۔ ان دنوں فراز کے پیپر ہونے والے تھے ، میرے اس استفسار پر کہ وہ پارک میں کیا کر رہا تھا ، اس نے ایسی بات کی کہ میں نے اسے غصے میں بے نقط سنا دیں۔ وہ میری طرف غیر یقینی نظروں سے دیکھنے لگا ۔فراز نے بتایا تھاکہ اس نے محلے کی کسی لڑکی سے ‘‘محبت’’ کا ڈھونگ رچایا ہے اور وہ بے چاری معصوم لڑکی اس کے جھانسے میں آ کر اسے پارک ملنے آئی تھی اور اب اس کے لیے ساری حدیں توڑنے کو تیار تھی ۔ یہ سن کر میرا خون کھول اٹھا اور کیسے نہ کھولتا ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد تھا کہ یہ وہی فراز ہے ،جس نے صرف اس بات پر گھر میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا کہ اس کی بہن کو موبائل کیوں لیکر دیا گیا ہے ، لڑکیوں کے پاس موبائل نہیں ہونا چاہیے ، آج کل زمانہ اچھا نہیں ۔

            بہن کے لیے موبائل رکھنا بھی جرم اور اگر رکھے تو عزت کا مسئلہ…… لیکن جو کچھ وہ کسی دوسرے کی عزت کا ساتھ کر رہا تھا ، وہ اس کی نظر میں سب صحیح تھا کیونکہ وہ تو صرف وقت گزاری کے لیے شغل کر رہا تھا …… میں بغیر کچھ کہے اور سنے وہاں سے چل دیا۔ اسے بھی میری ناراضی کا اندازہ ہو گیا تھا ۔ شام کو فراز دوبارہ آن دھمکا اور بڑے ہی دوستانہ انداز میں بولا ، ارے یار اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے مجھ سے ناراض کیوں ہوتے ہو ، تم تو اسے جانتے بھی نہیں ۔ یہ تو صرف وقت گزاری کے لیے شغل ہے اور کچھ نہیں ۔ یہ بات کہہ کے فراز نے جلتی پر تیل ڈال دیا ۔ میں شدت غم اور غصے سے کانپنے لگا اور دروازہ کھول کر ہمیشہ کے لیے فراز کو نظروں سے اوجھل کر دیا ۔

 ٭٭٭

            وہ اپنے جواں سال بیٹے کا بیاہ رچانے کی فکر میں تھی جیسے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے ۔ لیکن اس کا معاملہ تھوڑا مختلف تھا ۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے کوئی لڑکی نہیں بلکہ کوئی حور لانا چاہتی تھی اور خاندان میں ایسا ہونا ممکن نہ تھا ۔ اس کا بیٹا بالکل تندرست و توانا نوجوان تھا مگر نجانے ایکدم کس کی نظر لگ گئی کہ وہ بستر سے لگ گیا ۔ ہزار جتن کے بعد وہ بستر سے تو اٹھ بیٹھا لیکن ایک ایسی مہلک بیماری کا شکار ہو گیا تھا جو کہ زندگی بھر ساتھ چھوڑنے والی نہیں ۔ اس کے بعد ابھی شاید اس کی اور آزمائش باقی تھی کہ اس کی ایک ٹانگ بھی اسی بیماری کی بدولت متاثر ہوئی اور وہ لنگڑا کے چلنے پر مجبور ہو گیا لہذا ان حالات میں اسے کون رشتہ دیتا…… ؟ آج اس کی ماں کسی قریبی گاؤں میں بیٹے کے لیے رشتہ دیکھنے گئی تھی ۔ واپس آئی تو انتہائی بجھی ہوئی تھی۔ ناپسندیدگی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ناپسندیدگی کی وجہ اس لڑکی کا ایک آنکھ سے محروم ہونا تھا۔ اس کی ایک آنکھ بچپن میں کسی وجہ سے ضائع ہو گئی تھی ۔ لڑکے کی ماں صرف اسی وجہ سے اس لڑکی کے متعلق یوں بات کر رہی تھی جیسے وہ کوئی پرلے درجے کی فضول شے ہے ۔ اس ماں کو اس وقت اپنا وہ بیٹا نظر نہ آیا جو کہ بیماری سے بہت حد تک معذور ہو گیا تھا اور وہ اس معذور بیٹے کے لیے ایک آنکھ سے محروم لڑکی کو قبول کرنے کو تیار نہ تھی کیونکہ وہ اس کی اپنی بیٹی نہیں تھی ……

 ٭٭٭

            دہرے رویے (اپنے لیے اور باٹ اوردوسرے کے لیے اور )کی یہ دو مثالیں صرف بطور نمونہ تھیں ورنہ ایسی مثالیں ہمارے ہر گھر اور ہر خاندان میں بکھر ی پڑ ی ہیں۔ محسو س یہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ہاتھی دانت بن چکا ہے قیمت کے اعتبارسے نہیں بلکہ دکھانے کے اعتبار سے کہ ہاتھی کے دانت دکھا نے کے اور،کھانے کے اور ۔ دوسروں کے لیے ہمارے پاس اور دانت ہوتے ہیں اور اپنے لیے اور۔ کیا یہ مسلمان ہیں؟ جب کہ قرآن یہ کہہ رہا ہے ( ویل للمطففین الذین اذا اکتالوا علی الناس یستوفون واذاکالوھم او وزنوھم یخسرون)